اسرائیل ظلم، استحصال اور انسانی حقوق کی پامالی کا استعارہ

حالیہ جنگ بندی حقیقی معنوں میں قیام امن کی بنیاد ہو نہ کہ وہی پرانی روش

0

نزہت سہیل پاشا

اسرائیل اور حماس کے درمیان پچھلے دنوں جو جنگ بندی کا معاہدہ ہوا ہے وہ واقعی خوش آئند اقدام ہے مگر عموماً دیکھا یہ جاتا ہے کہ کبھی کبھار ہونے والے سمجھوتے یا وقتی جنگ بندی کے پیچھے کئی سیاسی، سفارتی، اور عملی وجوہات ہوتے ہیں۔ یہ سمجھوتے وقتی طور پر دونوں فریقوں کی ضرورت یا دباؤ کی وجہ سے کیے جاتے ہیں، مگر یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں ہوتے۔ جس کے پیچھے چند اہم اسباب کارفرما ہیں جو درج ذیل ہیں:
1. بین الاقوامی دباؤ
اسرائیل پر اکثر اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین، اور دیگر ممالک کا دباؤ ہوتا ہے کہ وہ جنگ بندی کرے کیونکہ جنگ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عالمی برادری کی طرف سے شدید تنقید کا باعث بنتی ہیں۔ اسی طرح حماس پر بھی عرب ممالک اور دیگر اتحادیوں کی طرف سے دباؤ ہوتا ہے کہ وہ کشیدگی کم کرے۔
2. انسانی بحران
غزہ میں جاری مظالم کے باعث انسانی بحران شدت اختیار کر لیتا ہے، جہاں بے گناہ شہری، خصوصاً بچے، خواتین، اور بزرگ متاثر ہوتے ہیں۔ حالیہ سمجھوتے کہاں تک فائدے مند ثابت ہوتا ہے آنے والا وقت طے کریگا۔
3. سیاسی مفادات
سیاسی طور پر اسرائیل کو اپنی طاقت اور حیثیت برقرار رکھنے کے لیے کبھی کبھار جنگ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسرائیل اپنے عوامی اور بین الاقوامی امیج کو بہتر بنانے کے لیے امن کا ڈھونگ رچاتا ہے، جبکہ حماس کو اپنی عوامی حمایت حاصل ہونے اور زمینی حقیقت کی مزاحمت کے لیے عسکری سہولیات حاصل نہ ہونے کے باوجود اسرائیل کی فوج کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسرائیل حالیہ سمجھوتے کو اپنی "کامیابی” گرداننے کی وجہ چند سیاسی، عسکری، اور نفسیاتی عوامل ہیں جو اس کے بیانیے کو تقویت دیتے ہیں۔ حالانکہ غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور مظالم واضح ہیں، لیکن عزرائیل اپنے مفادات کے لیے ہر جنگ بندی یا سمجھوتے کو ایک فتح کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس کی وجوہات یہ ہیں:
1. سیاسی بیانیہ مضبوط کرنا
اسرائیل ہمیشہ اپنے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ اس نے حماس کو نقصان پہنچایا ہے اور اپنی سلامتی کو یقینی بنایا ہے۔ وہ جنگ بندی کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ اس نے اپنے دفاعی اور سیاسی مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔
2. عسکری طاقت کا مظاہرہ
اسرائیل ہر جنگ میں اپنی عسکری طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے اور سمجھوتے کو اس بیانیے کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ اس نے حماس کی طاقت کو کمزور کر دیا ہے، حالانکہ حقیقت میں حماس بار بار مزاحمت کے قابل رہتی ہے بلکہ دیوانہ وار حماس نے ظالم اسرائیل کا سامنا کیا ہے
3. بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا
اسرائیل اپنی جنگی کارروائیوں کو "دہشت گردی کے خلاف جنگ” قرار دیتا ہے اور سمجھوتے کے بعد دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کرتا ہے کہ اس نے امن قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بیانیہ بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
4. عوامی اعتماد بحال کرنا
اسرائیلی حکومت اپنے عوام کو یقین دلانا چاہتی ہے کہ اس نے قومی سلامتی کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں اور فلسطینی مزاحمت کو کمزور کر دیا ہے۔ یہ بیانیہ داخلی سیاسی مقاصد کے لیے اہم ہے، خاص طور پر اس وقت جب حکومت کو عوامی دباؤ کا سامنا ہو۔
5. نفسیاتی جنگ جیتنے کا دعویٰ
اسرائیل سمجھوتے کو نفسیاتی برتری کے طور پر پیش کرتا ہے۔ وہ یہ تاثر دیتا ہے کہ اس نے حماس کو جنگ بندی پر مجبور کیا، حالانکہ یہ اکثر دونوں فریقوں کی ضروریات اور دباؤ کا نتیجہ ہوتا ہے۔
6. حقیقت سے چشم پوشی
اسرائیل اکثر غزہ میں ہونے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، معصوم شہریوں کی ہلاکتوں، اور فلسطینی عوام کے مصائب کو نظر انداز کرتا ہے۔ وہ اپنی "کامیابی” کے بیانیے کے ذریعے ان مظالم سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔
7. وقتی فائدہ
اسرائیل سمجھوتے کو اپنی کامیابی قرار دیتا ہے تاکہ وقتی طور پر داخلی اور خارجی دباؤ کو کم کر سکے۔ جنگ بندی کے بعد وہ اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے نئے منصوبے بناتا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے کیا جانے والا "کامیابی” کا دعویٰ اکثر حقائق کے برعکس ہوتا ہے۔ غزہ کے عوام پر مسلسل مظالم اور فلسطینیوں کی مزاحمت اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ مسئلہ صرف عسکری طاقت سے حل نہیں ہو سکتا۔ حقیقی کامیابی تب ہوگی جب انصاف پر مبنی امن قائم ہوگا اور فلسطینی عوام کو ان کے بنیادی حقوق دیے جائیں گے۔
اسرائیل کی حکومت کو کئی حلقے عیاری، ظلم اور استحصالی پالیسیوں کی علامت قرار دیتے ہیں، خاص طور پر فلسطینی علاقوں میں اس کے اقدامات کے حوالے سے یہ بات سچ نظر آتی ہے۔ یہ حکومت طاقت، ظلم اور چالبازی کے ذریعے نہ صرف فلسطینی عوام کے حقوق کو پامال کرتی آرہی ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتی ہے۔ چند اہم نکات درج ذیل ہیں جو اس کے عیاری اور ظلم کو واضح کرتے ہیں:
1. فلسطینی سرزمین پر غیر قانونی قبضہ
اسرائیل نے 1948 سے فلسطینی زمین پر قابض ہونے کا عمل شروع کیا اور 1967 کی جنگ کے بعد مغربی کنارے، مشرقی یروشلم، اور غزہ کی پٹی پر مکمل قبضہ کر لیا۔ یہ قبضہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برخلاف ہے، لیکن اسرائیل اپنی طاقت کے ذریعے اس قبضے کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتا ہے۔
2. معصوم شہریوں کا قتل عام
غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے دوران معصوم شہریوں، خاص طور پر بچوں اور خواتین، کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ جنگوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنانا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
3. نسلی امتیاز اور استحصال
اسرائیل کی پالیسیوں کو اکثر نسلی امتیاز سے تعبیر کیا جاتا ہے، جہاں فلسطینیوں کو زمین، تعلیم، صحت، اور آزادی سے محروم رکھا جاتا ہے۔ یہ پالیسیاں ایک منظم نسل پرستی اور ظلم کی عکاسی کرتی ہیں۔
غزہ کی پٹی پر اسرائیل نے اب تک جو اقتصادی ناکہ بندی مسلط کر رکھی تھی ، اس کی وجہ سے وہاں کے عوام بنیادی ضروریاتِ زندگی، خوراک، پانی، اور طبی سہولیات تک رسائی سے محروم رہے۔ یہ اجتماعی سزا کی ایک واضح مثال ہے۔
اسرائیل مسلسل اقوام متحدہ کی قراردادوں، جنیوا کنونشنز، اور دیگر بین الاقوامی قوانین کو نظرانداز کرتا ہے۔ غیر قانونی بستیوں کی تعمیر، فلسطینیوں کی زمینوں پر زبردستی قبضہ، اور جنگی جرائم کے ارتکاب پر دنیا بھر میں اسرائیل پر تنقید کی جاتی ہے۔
اسرائیل اپنی سفارتی چالاکیوں کے ذریعے عالمی حمایت حاصل کرتا ہے، خاص طور پر امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کی حمایت کی بات ہو۔ وہ دنیا کے سامنے خود کو مظلوم اور فلسطینیوں کو "دہشت گرد” کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اپنی جارحانہ پالیسیوں کو جائز ثابت کر سکے۔
اسرائیل نے ہمیشہ فلسطینیوں کی آزادی کی جدوجہد کو کچلنے کی کوشش کی ہے۔ چاہے وہ حماس ہو، فتح ہو، یا دیگر تنظیمیں ہوں، ان کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، انہیں قید کیا جاتا ہے، اور ان کے حقوق کو غصب کیا جاتا ہے۔
اسرائیلی حکومت کی پالیسیاں ظلم، چالاکی، اور استحصال کی واضح مثال ہیں۔ لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ظلم زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ فلسطینی عوام کی مزاحمت اور عالمی برادری کی بڑھتی ہوئی آگاہی بالآخر انصاف کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ ظالم حکومتیں تاریخ میں ہمیشہ ناکام رہی ہیں، اور یہی سبق اسرائیل کے لیے بھی ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 جنوری تا 01 فروری 2025