اسرائیل۔ لبنان براہ راست جنگ کا خطرہ؟
القدس شریف میں انتہا پسندوں کی دراندازی پر یہودی علماء مشتعل
مسعود ابدالی
اسرائیلی فوج میں مایوسی۔ محاذ پر جانے سے انکار۔غزہ بندر بانٹ کا منصوبہ
سیانے کہتے ہیں کہ ہر جنگ کی سب سے پہلی شہید سچائی ہوتی ہے۔ اس حقیقت کا دردناک مشاہدہ ہم گزشتہ دس ماہ سے کر رہے ہیں۔یکم ستمبر کو 21 کلومیٹر لمبی اور دس کلومیٹر چوڑی پٹی پر مسلسل بمباری کے 300 دن مکمل ہوگئے۔اس سے ایک ہفتہ پہلے امریکی کانگریس (پارلیمان) کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں اسرائیل کے وزیراعظم بن یامیں نیتھن یاہو نے بہت اعتماد سے کہا کہ غزہ آپریشن انسانی تاریخ کی محفوظ ترین عسکری کاروائی ہے کہ جس میں شہریوں کا نقصان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کے اس جملے پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور دنیا کی سب سے طاقتور جمہوریت کے قانون ساز دومنٹ تک ڈیسک بجاتے رہے۔اپنی تقریر میں نیتھن یاہو نے فخر سے کہا کہ ہم غزہ میں اب تک 14 ہزاردہشت گردوں کو ہلاک کرچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق غزہ میں پندرہ جولائی تک مارے جانیوالوں کی تعداد 38500 ہے۔ اگر اسرئیلی وزیراعظم کے دعوے کو درست مان لیا جائے تب بھی 24500 یعنی دوتہائی نہتے شہری مارے گئے ہیں۔لیکن اسکی شکایت کس سے کی جائے کہ مسلم معاشروں سمیت ساری دنیا نے اس پر آنکھیں بند کررکھی ہیں۔ اس حوالے سے 27 جولائی کو ایک ہی دن کے دو واقعات پیش خدمت ہیں۔
دوپہر کومقبوضہ گولان کے علاقے مجدل شمس پر لبنان سے ہونے والے میزائیل حملے میں 12افراد ہلاک ہوئے۔ لبنانی مزاحمت کاروں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے فٹبال میدان میں قائم اسرائیل کے ایک فوجی تربیتی مرکز کو نشانہ بنایا جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ میزائل اس وقت داغا گیا جب یہاں نوجوانوں کا فٹبال میچ ہورہا تھا۔ ہلاک ہونے والے تمام افراد کی عمریں 10 سے 20 سال کے درمیان ہیں۔امریکہ، یورپ اور ’مہذب‘ دنیا کو اس پر شدید تشوییش ہے۔ جنگ میں نہتے افراد کی ہلاکت یقیناً قابلِ افسوس اور ایسے واقعات کا کسی بھی تناظر میں دفاع غیر منصفانہ ہے۔لیکن تقریباً عین اسی وقت غزہ میں دیر البلاح کے ایک اسکول کو اسرائیلی بمباروں نے پیوندخاک کردیا جس میں پندرہ کم عمر بچوں اور انکی آٹھ استانیوں سمیت 30 افراد جان بحق ہوئے۔ اسرائیل نے حملے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسکول مزاحمت کاروں کا اڈہ تھا۔ تاہم عینی شاہدوں نے رائٹرز کے نمائندوں کو بتایا کہ ہلاک یا زخمی ہونے والوں میں ایک بھی مزاحمت کار شامل نہیں۔’مہذب’ دنیا نے اسرائیل کی وضاحت کو من و عن قبول کرلیا۔ یادش بخیر 11 جولائی کو غزہ میں فٹبال کھیلتے بچوں کو نشانہ بنایاگیا تھا جس میں CNNکے مطابق 50 بچے زندہ جل گئے۔
مجدل شمس میزائیل حملے کے بعد اسر ائیل لبنان براہ راست جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ اسرائیلی انتہاپسند لبنان کو کچل دو کے نعرے لگارہے ہیں۔ نیتھن یاہو نے اپنے جذباتی خطاب میں معصوم لہو کا انتقام لینے کا اعلان کیا تو دوسری جانب ایران کا رویہ بھی سخت نظر آرہا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نصر کنعانی نے کہا کہ اگر اسرائیل نے لبنان کو جارحیت کا نشانہ بنایا تو اس مہم جوئی کی تل ابیب کو بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔
پچھلے دنوں اسرائیلی وزیراعظم کا دورہ امریکہ ذرایع ابلاغ پر چھایا رہا۔ اس دوران جناب نیتھن یاہو نے امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ امریکی صدر و نائب صدر کے علاوہ انھوں نے ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔
نیتن یاہو کے خطاب کا نائب صدر کملا دیوی ہیرس اور 80 ارکان نے بائیکاٹ کیا۔ فلسطینی نژاد رکن محترمہ رشیدہ طلیب نے بائیکاٹ میں حصہ نہیں لیا لیکن وہ اجلاس کے دوران اسرائیلی وزیراعظم کو ‘جنگی مجرم’ کا کتبہ دکھاتی رہیں۔ نائب صدر بربنائے عہدہ سینیٹ (راجیہ سبھا) کی سربراہ ہیں اور انکی غیر حاضری سب نے محسوس کی۔ نائب صدارت کیلئے ریپبلکن پارٹی کے امیدوار سینیٹر جے ڈی وانس بھی اجلاس سے غیر حاضر تھے۔ اس موقع پر ہزاروں لوگوں نے کانگریس کی عمارت کے باہر اور جس ہوٹل میں نیتن یاہو ٹہرے ہوئے تھے اسکے سامنے زبردست مظاہرہ کیا۔اس دوران پولیس کا رویہ انتہائی معاندانہ تھااور پکڑ دھکڑ کے ساتھ مظاہرہ کرنے والوں پر جلد میں سوزش پیدا کرنے والے کیمیکل کا اسپرے کیا گیا جسکی وجہ سے کئی خواتین بیہوش ہوگئیں۔
دوسرے دن اسرائیلی وزیراعظم نے صدر بائیڈن سے ملاقات کی۔صحافتی ذرایع کاکہنا ہے کہ باضابطہ مذاکرات کے دوران امریکی صدر کا رویہ دوٹوک تھا اور انھوں نے واضح کردیا کہ قیدیوں کی رہائی اور علاقے میں دیرپا امن کے لیے ان کے مرحلہ وار امن منصوبے پر عمل ضروری ہے۔ ملاقات کے بعد مشترکہ کانفرنس منعقد نہیں ہوئی۔
صدربائیڈن سے بات چیت کے بعد نائب صدر کملا ہیرس نے اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کی جسکے بعد صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے امریکی نائب صدر نے کہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے اور اس حوالے سے انہیں ہماری مکمل حمایت حاصل ہے لیکن اہل غزہ کے مصائب سے آنکھیں چرانا بھی بنیادی انسانی اخلاقیات کے منافی ہوگا۔ یہود دشمن رویہ (Antisemitism) ہو یا اسلامو فوبیا اور نفرت کے دوسرے بیانئے ان سب کو مسترد کیا جانا چاہئے۔ ہیرس صاحبہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں فوجی جنگ بندی ضروری ہے اور اس سلسلے میں صدر بائیڈن نے مسئلے کے دیرپا حل کیلئے تین مرحلوں پر مشتمل حل پیش کیا ہے:
1۔مکمل جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کی غزہ کے آباد علاقوں سے واپسی2۔قیدیوں کی رہائی اور 3۔اسرائیلی فوج کی غزہ سے مکمل واپسی
امریکی نائب صدر نے زور دیکر کہا کہ فلسطینینوں کو اپنی خودمختار ریاست کا حق حاصل ہے۔ فلسطینیوں کی امنگوں کے مطابق آزاد و خود مختار ریاست سے علاقے میں استحکام کے ساتھ اسرائیل بھی محفوظ ہوجائے گا۔انھوں نے کہا کہ غزہ تنازعہ یکطرفہ نہیں، تمام فریق کے بیانیے اور نقطہ نظر کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سمجھ لینے کے بعد ہی مستقبل کی منصفانہ صورت گری ممکن ہے۔ صدر بائیڈن کی طرح کملا ہیرس صاحبہ نے بھی مشترکہ پریس کانفرنس سے گریز کیا ۔
امریکی نائب صدر کے اس بیان پر ریپبلکن پارٹی کی جانب سے شدید رد عمل کااظہار ہوا اور ریپبلکن یہود اتحاد (Republican Jewish Coalition) نے امریکی ذرائع ابلاغ پر اشتہار میں پیغام دیا کہ کملا ہیرس، مخصوص ووٹوں کے لیے اسرائیل کی پشت میں چھرا گھونپ رہی ہیں۔
عالمی سطح پر اس حوالے سے ایک بڑی تبدیلی برطانیہ کی جانب سے دکھائی دی جب لندن نے نیتھن یاہو، اسرائیلی وزیردفاع اور عسکری سربراہ کے خلاف عالمی فوجداری عدالت (ICC)کے پروانہ گرفتاری پر اعتراض واپس لے لیا۔ سابق وزیراعظم رشی سونک کی حکومت نے وارنٹ کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی تھی، جسکی سماعت 26 جولائی کو ہونی تھی۔برطانیہ کے اٹارنی جنرل لارڈ ہرمر (The Lord Hermer)نے ایک دن پہلے عدالت کو مطلع کیا کہ انکی حکومت یہ درخواست واپس لے رہی ہے۔ اسکی وضاحت کرتے ہوئے وزیراعظم کئیر اسٹرامر (Keir Stramer) نے کہا کہ برطانیہ قانون کی بالادستی پر یقین رکھتا ہے اور ہم عالمی عدالت کو غیر ضروری بحث میں نہیں الجھانا چاہتے۔
اس ہفتہ حکومت کی اتحادی، عزم یہود جماعت (Otzma Yehudit) کے سربراہ اور وزیر اندرونی سلامتی، اتامار بین گوئر(Itamar Ben Givr)نے القدس شریف میں گنبد صخرا کے سائے میں عبادت کی جو 1967 میں اقوام متحدہ کو فراہم کی جانیوالی ضمانت کی صریح خلاف ورزی تھی۔ جنگ 1967 میں مشرقی بیت المقدس پر قبضے کے بعد اسرائیلی حکومت نے اس کے احترام کی تحریری ضمانت القدس شریف اوقاف اور اقوام متحدہ کو تحریری شکل میں جمع کرائی ہے ، جسے Status Que Maintenance Documentکا نام دیا گیا۔دستاویز کے مطابق غیر مسلم زائرین کو القدس کمپاونڈ میں عبادت کی اجازت نہیں۔
یہودی انتہا پسندوں کے لیے القدس کمپاونڈ جبلِ بیتِ محترم (Har haBayit)یا ٹیمپل ماونٹ ہے۔حالیہ حکومت کے انتہا پسند، Status Quoدستاویز کو منسوخ کردینا چاہتے ہیں اور اسی کے اظہار کیلئے بن گوئر نے گنبدِ صخرا کے سائے میں عبادت کی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلمانوں سے زیادہ یہودی علماء بن گوئر کی مذمت کررہے ہیں۔ یہودیوں کا کہنا ہے کہ 70 عیسوی میں یروشلم کی تباہی اور رومن بادشاہ Titusکے ہاتھوں ہیکل سلیمانی کے انہدام کے بعد نئے ہیکل کی تعمیر تک ٹیمپل ماونٹ یہودیوں کیلئے حرام اور اسکی حدود میں داخلہ گناہِ کبیرہ ہے۔یہودی عقیدے کے مطابق ہیکل سلیمانی کی تعمیرِ نو کا مقدس فریضہ، نجات دہندہ المعروفHa-mashiach اپنے دست مبارک سے انجام دیں گے۔ یہودیوں کے یہاں نجات دہندہ حضرت عزیر ؑ یا حضرت داودؑ کے نامزز کردہ خلیفہ ہونگے جبکہ مسیحیوں اور مسلمانوں کے خیال میں Messiah حضرت مسیح ہیں۔ٹیمپل ماونٹ پر عبادت کے بارے میں بن گوئر کی شیخی سے قدامت پسند سخت مشتعل ہوگئے۔کنیسہ(پارلیمان )میں تقریر کرتے ہوئے نیتھن یاہو کی اتحادی جماعت Shasپارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیرداخلہ موشے اربل نے کہا ’’ٹیمپل ماونٹ پر عبادت کرکے حضرت سلیمانؑ کے خلاف جس مکروہ توہین رسالت (blasphemy) کا ارتکاب کیا گیا ہے اس پرخاموش نہیں رہا جاسکتا۔ اسی جماعت کے ایک اور رکن پارلیمان موشے گیفی نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ ٹمپل ماونٹ میں یہودیوں کے داخلے پر مکمل پابندی لگائی جائے۔
جیسا کہ ہم پہلی کئی نشستوں میں عرض کرچکے ہیں کہ طاقت کے بہیمانہ استعمال کے باوجود اسرائیل غزہ میں اب تک کوئی عسکری ہدف حاصل نہیں کرسکا اور اسرائیلی مظالم کی داستانیں اور ناکامی کے قصے اب خود انکے اپنے سپاہی بیان کررہے ہیں۔
مشہور امریکی جریدے گارجین کے ہفتہ وار رسالے Observerنے اپنی 27 جولائی کی اشاعت میں اسرائیلی سپاہیوں یووال گرین، طل وردی اور مائیکل اوفر زیو کی روداد شایع کی ہے جس میں ان تینوں نے اسرائیلی فوج کی غیر انسانی حرکتوں پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے دوبارہ غزہ جانے سے انکار کردیا ہے۔ یہ رپورٹ رسالے کی سینئر کالم نگار محترمہ روتھ مائیکلسن اور فوٹوگرافر کئیرزن بام (Quique Kierszenbaum) نے مرتب کی ہے۔کئیرزن بام صاحب ایک راسخ العقیدہ یہودی اور یروشلم کے رہائشی ہیں۔
یورال گرین نے جسکا تعلق طبی عملے سے ہے، خان یونس میں پچاس دن اسرائیلی فوج کیساتھ گزارے۔ گرین ایک رضاکار فوجی ہے جو سات اکتوبر کے حملے کی روح فرسا خبریں سن کر دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے غزہ آیا تھا۔ لیکن اسرائیلی فوج کے غیر انسانی روئے اور مجرمانہ سرگرمیوں نے اسے بد ظن کردیا۔ گرین نے بتایا کہ اسلحے کی تلاش کے لیے مارے جانیوالے چھاپوں ہیں گھر سے قیمتی چیزیں بطور ’نشانی‘ اٹھالی جاتی ہیں۔خواتین کے عرب نقاشی والے زیور اسرائیلی سپاہیوں کو بہت محبوب ہیں جو وہ نشانِ بہادری کے طور پر اپنی بیویوں اور سہیلیوں کو روانہ کرتے ہیں۔ کئی گھروں کومحض کچھ نہ ملنے پر جھنجھلا کر جلادیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق معاملہ ان تین سپاہیوں تک محدود نہیں۔گزشتہ ماہ رفح تعینات 41 رضاکار (Reserve)سپاہیوں نے فوج کے سربراہ کے نام کھلے خط میں کہا ہے کہ انکا ضمیر غزہ آپریشن کا حصہ بنے رہنے کی اجازت نہیں دیتا۔ خط میں انھوں نے لکھا کہ ‘ نصف سال سے ہم یہاں جنگ کررہے ہیں اور اب یہ بات ثابت ہوچکی ہےکہ فوجی کاروائی سے قیدیوں کو وطن واپس نہیں لایا جا سکتا۔ ہر گزرتا ہوا دن نہ صرف قیدیوں اور غزہ میں ہمارے فوجیوں کیلئے خطرات میں اضافہ کررہا ہے بلکہ شمالی سرحدوں پر رہنے والوں کی زندگی بھی مشکل میں پڑگئی ہے‘۔
اہل غزہ کو اسرائیلی حملوں کیساتھ عرب دنیا کی جانب سے بھی منفی اشاروں کا سامنا ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق غزہ سے اسرائیلی فوج کی واپسی کےبعد پٹی کی بندر بانٹ کے لیے بات چیت فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ گزشتہ ہفتے ابوظہبی میں اسرائیل، امریکہ، متحدہ عرب امارت اور مصر کے اعلیٰ سطحی عسکری اہکاروں کا اجلاس ہوا جس میں اسرائیلی فوج کی واپسی کے بعد پٹی کے عسکری و سیاسی بندوبست کو آخری شکل دی گئی۔
سیکیورٹی کابینہ نے وزیراعظم نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کو حزب اللہ کے خلاف جوابی کارروائی کی نوعیت اور وقت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ لبنان کا کہنا ہے کہ اسے تیسرے ممالک سے یقین دہانی ملی ہے کہ اسرائیل کا ردعمل محدود ہوگا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 اگست تا 10 اگست 2024