اسرائیل کی ناکامی سب پر عیاں!
مسجد اقصیٰ اور سرزمین فلسطین ان شاءاللہ ضرور آزاد ہوگی :اسماعیل ہانیہ
مترجم :محمد اکمل علیگ
امت کے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ مجاہدین غزہ کا بقدر استطاعت تعاون کرے
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں "انٹرنیشنل یونین فار مسلم اسکالرز” کا چھ روزہ پروگرام سال رواں کے آغاز میں منعقد ہوا تھا، جس میں ایک سیشن مسئلۂ فلسطین پر تھا، جس کا عنوان تھا ” طوفان الاقصیٰ اور امت مسلمہ کی ذمہ داریاں”۔ اس پروگرام میں پوری دنیا سے آئے ہوئے مختلف علماء کرام کے خطابات کے ساتھ ساتھ حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کا ولولہ انگیز اور ایمان افروز خطاب بھی ہوا تھا۔ اس خطاب کی اہمیت آج بھی ویسی ہی ہے ، جیسی اس وقت تھی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ آج ہی کا خطاب ہو ، اسی لیے ذیل میں ان کے خطاب کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:
سب سے پہلے انہوں نے عزالدین القسام ( جن کے نام پر حماس کی عسکری ونگ کا نام کتائب الشہید عز الدین القسام ہے) کے بارے میں بتایا کہ وہ شام کے رہنے والے، عالم دین اور مجاہد تھے، جنہوں نے فلسطین میں برطانیہ اور صیہونیوں کے خلاف جہاد کیا۔ ہمیں فخر ہے کہ فلسطین میں سب سے پہلے جن لوگوں نے عَلمِ جہاد بلند کیا وہ نیک و صالح علماء کرام تھے، جن میں سے بعض فلسطین میں ہی جہاد کرتے ہوئے شہیدبھی ہو گئے۔
پھر انہوں نے علماء کرام اور امت مسلمہ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں اور یہ امت شہداء کی امت ہے، امت مسلمہ کی بہت ساری خصوصیات ہیں اور ان میں سب سے بڑی خصوصیت شہادت ہے۔ حضرت محمد ﷺ اور آپ کے صحابہؓ اور پوری اسلامی تاریخ اس کی بہترین مثال ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام کی بہت بڑی تعداد مکہ، مدینہ اور جزیرۂ عرب سے باہر مدفون ہے، کیونکہ وہ جہاد کرتے ہوئے اور مختلف علاقوں کو فتح کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ اسی طرح علماء کرام نے بھی ہر زمانے میں اپنے خون کے نذرانے پیش کیے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں اور یہی لوگ امت مسلمہ کو جہاد پر ابھارتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَقَاتِلۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَـفۡسَكَ وَحَرِّضِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ۚ عَسَے اللّٰهُ اَنۡ يَّكُفَّ بَاۡسَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ؕ وَاللّٰهُ اَشَدُّ بَاۡسًا وَّاَشَدُّ تَـنۡكِيۡلًا (سورہ النساء: 84)
ترجمہ: پس اللہ کی راہ میں جنگ کرو۔ تم پر اپنی جان کے سوا کسی کی ذمہ داری نہیں ہے اور مومنوں کو اس کے لیے ابھارو۔ توقع ہے کہ اللہ کافروں کے دباؤ کو روک دے اور اللہ بڑے زور والا اور عبرت انگیز سزا دینے والا ہے۔
اس تاریخی جہاد و شہادت اور شجاعت و بہادری کے موقع پر جو کہ غزہ کے مجاہدین پیش کر رہے ہیں، میں آپ کے سامنے چند نکات پیش کرنا چاہتا ہوں:
(1) معرکہ طوفان اقصیٰ کیوں پیش آیا؟
الف: عالمی سطح پر مسئلہ فلسطین کو حاشیے پر ڈال دیا گیا تھا، نہ اس پر کوئی بات چیت ہو رہی تھی اور نہ اس موضوع پر کوئی کانفرنس یا پروگرام ہو رہے تھے، بلکہ اسے اسرائیل کا داخلی مسئلہ قرار دے کر خاموشی اختیار کر لی گئی تھی، یہاں تک کہ دو ریاستی حل پر بھی کوئی بات چیت نہیں ہو رہی تھی۔
ب: اسرائیل میں ایک ایسی حکومت تھی جو قومی اور مذہبی اعتبار سے انتہائی شدت پسند تھی اور اس حکومت کی طرف سے مسلسل مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی جا رہی تھی، ویسٹ بینک (مغربی کنارہ) میں نئی نئی یہودی بستیاں بسائی جا رہی تھیں، نوجوانوں کو گرفتار کیا جا رہا تھا، اس کی پلاننگ تھی کہ ویسٹ بینک کے لوگوں کو اردن اور غزہ کے لوگوں کو مصر بھیج دیا جائے اور یہاں تک کہ مسجد اقصیٰ کو ڈھانے کی پلاننگ چل رہی تھی یا کم سے کم مسجد اقصیٰ کی مکمل سیادت اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی تھی، اسی لیے یہ معرکہ پیش آنا ضروری تھا۔
ج: جو کہ سب سے خطرناک ہے، سیاسی اعتبار سے اسرائیل اس علاقے میں مضبوط ہو رہا تھا، مختلف عربی ممالک سے اس کے تعلقات استوار ہو رہے تھے، کچھ سے بات چیت چل رہی تھی، عسکری اور امن کے معاہدے ہو رہے تھے، جو کہ مسئلہ فلسطین کے لیے ایک خطرناک صورت حال تھی، لہٰذا فلسطینی مجاہدین کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ نہ صرف دفاع کریں، بلکہ آگے بڑھ کر اسرائیل پر حملہ کر دیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ادۡخُلُوۡا عَلَيۡهِمُ الۡبَابَۚ فَاِذَا دَخَلۡتُمُوۡهُ فَاِنَّكُمۡ غٰلِبُوۡنَ
( سورہ المائدة: 23 ) ترجمہ: تم ان پر چڑھائی کر کے شہر کے دروازے میں گھس جاؤ۔ جب تم اس میں گھس جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے۔
(2) اس جنگ میں اسرائیل تین مقاصد کے ساتھ کودا۔ الف: حماس اور دوسری تمام مسلح تنظیموں کا غزہ سے مکمل خاتمہ کرنا۔ ب: حماس اور دوسری مسلح تنظیموں کے پاس موجود اسرائیلی قیدیوں کو آزاد کروانا۔ ج: غزہ کے لوگوں کو مصر کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کرنا۔
یہ تینوں مقاصد بالکل واضح اور عیاں ہیں، ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ امریکہ اور تمام مغربی ممالک موجود ہیں۔ یہ جنگ صرف اسرائیلی نہیں بلکہ امریکی اسرائیلی جنگ ہے، کیونکہ اس جنگ میں امریکہ ہر اعتبار سے مکمل شامل ہے۔
میرے بھائیو: غزہ پر جتنے بم گرائے گئے ہیں، وہ ہیروشیما اور ناگاساکی سے بھی زیادہ ہیں، جبکہ غزہ صرف 360 مربع کیلومیٹر پر مشتمل ہے۔ اس جنگ میں اسرائیل نے چار مرحلے اختیار کیے ہیں :
(1) پورے غزہ پر فضائی بمباری۔
(2) غزہ میں اسرائیلی فوج کا داخلہ اور زمینی کارروائی۔
(3) خصوصاً حماس اور دوسری مسلح تنظیموں کے قائدین اور اس کے ارکان کے خلاف کارروائی۔
(4) سیاسی کارروائی، جس کا مقصد ہے کہ غزہ میں حماس اور دوسرا کوئی مزاحمتی گروپ نہ ہو۔
لیکن اسرائیل ہر طرح کے مظالم اور کارروائی کے باوجود اپنے ایک بھی ہدف کو حاصل نہیں کر سکا ہے اور نہ وہ کر سکتا ہے۔ حماس کو ختم کرنا ناممکن ہے کیونکہ غزہ کا ہر شہری حماس ہے، حماس صرف غزہ میں ہی نہیں، بلکہ ویسٹ بینک، سارے فلسطین، پوری امتِ مسلمہ، بلکہ پوری دنیا کے حریت پسندوں کے دلوں میں بستا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَكَرُوۡا وَمَكَرَاللّٰهُ ؕ وَاللّٰهُ خَيۡرُ الۡمَاكِرِيۡنَ” (آل عمران: 54) ترجمہ: اور انہوں نے خفیہ چالیں چلیں تو اللہ نے بھی ان کا خفیہ توڑ کیا اور اللہ بہترین توڑ کرنے والا ہے۔ وَنُرِيۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَى الَّذِيۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَنَجۡعَلَهُمۡ اَئِمَّةً وَّنَجۡعَلَهُمُ الۡوٰرِثِيۡنَۙ ( القصص: 5 ) ترجمہ: اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ ان لوگوں پر احسان کریں جو ملک میں دبا کر رکھے گئے تھے اور ان کو پیشوا بنائیں اور ان کو وارث بنائیں۔
پوری دنیا میں کوئی ایسا گھر نہیں، جس میں حماس کے بارے میں بات نہ ہو رہی ہو، تمام اخباروں، نیوز چینلوں اور سوشل میڈیا پر صرف حماس، غزہ اور فلسطین کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يُرِيۡدُوۡنَ لِيُطْفِئُوا نُوۡرَ اللّٰهِ بِاَ فۡوَاهِهِمْ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوۡرِهٖ وَلَوۡ كَرِهَ الۡكٰفِرُوۡنَ
( الصف: 8) ترجمہ: وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں کی پھونک سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو کامل کر کے رہے گا، اگرچہ کافروں کو ناپسند ہو۔
تمام طرح کی کارروائی، مغربی تعاون اور مسلسل جاسوسی ڈرون کے غزہ پر پرواز کرنے کے باوجود وہ ایک بھی قیدی کو تلاش نہیں کر پائے اور وہ تلاش کر بھی نہیں سکتے، ان شاء اللہ (یہ اس وقت کی بات ہے، کیونکہ اب اسرائیل اپنے چار قیدیوں کو رہا کروانے میں کامیاب ہوچکا ہے) اگر وہ اپنے قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں تو انہیں اسرائیلی جیلوں میں قید تمام فلسطینیوں کو رہا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح غزہ کے لوگوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کرنے کا منصوبہ بھی ناکام ہو گیا ہے۔ ہر طرح کی ظلم وزیادتی کے باوجود غزہ کے لوگ اپنی زمین سے چمٹے ہوئے ہیں، غزہ کے لوگ اپنی زمین کو ہر گز نہیں چھوڑ سکتے۔ بلکہ غزہ کے جو لوگ باہر پھنسے ہوئے ہیں وہ غزہ واپس آنا چاہتے ہیں، چہ جائیکہ غزہ کے لوگ باہر جانے کا سوچیں۔ غزہ کے 450 سے زائد ایسے خاندان ہیں جو مکمل طور پر شہید ہو چکے ہیں، صرف ایک خاندان کے 192 لوگ شہید ہوئے ہیں، پھر بھی جب کوئی نوجوان ملبے سے باہر آتا ہے تو کہتا ہے کہ فلسطین، مسجد اقصیٰ، مجاہدین اور عزت و شرافت پر میری جان قربان ہو۔
یہ دشمن مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اور اس کا قبیح چہرہ ظاہر ہو چکا ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ ایک جمہوری ملک ہے، اس کی فوج بااخلاق ہے، لیکن معرکہ طوفان اقصیٰ نے اس کے قبیح چہرے کو پوری دنیا کے سامنے واضح کر دیا ہے۔غزہ کی طرح ویسٹ بینک کے لوگ بھی قربانیاں دے رہے ہیں، وہاں بھی روزانہ نوجوان شہید ہو رہے ہیں، گرفتاریاں ہو رہی ہیں، گھروں پر حملے ہو رہے ہیں، چار بھائی ایک ساتھ شہید ہو گئے، لیکن اس کے باوجود حضرت خنساؓء کی طرح ان کی ماں صبر و شکر کا مجسم پیکر ہیں۔
غزہ دو محاذ پر جنگ کر رہا ہے:
الف : عسکری محاذ پر : قسام، سرایا اور دوسری تمام مسلح تنظیمیں پوری ثابت قدمی کے ساتھ کامیابی کی طرف گامزن ہیں، روزانہ بلکہ ہر لمحہ اسرائیلی فوجیوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ جس نقصان کا اعتراف اسرائیل کر رہا ہے، وہ حقیقت نہیں ہے، وہ ویڈیو جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ بہت تھوڑی ہیں، ممکن نہیں کہ ساری کارروائیوں کی ویڈیو نشر کی جائے، اس بات کو قابض اسرائیل اچھی طرح جانتا ہے۔ ہمارے مجاہدین ہر محاذ پر پوری ثابت قدمی سے جنگ کر رہے ہیں، انہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کر دکھایا ہے اور یہ پوری امت مسلمہ اور تمام حریت پسندوں کے لیے فخر کی بات ہے۔
ب : انسانی اور شہری محاذ پر: غزہ کے شہری بھی ہر طرح مصائب وآلام اور ظلم وزیادتی کے باوجود مکمل ثابت قدم ہیں اور فلسطینی مجاہدین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ پوری امت مسلمہ اور علماء کرام فتاویٰ اور بیانات کے ساتھ ساتھ مسلح جہاد کا آغاز کریں اور فلسطینی مجاہدین کی مدد کریں، کیونکہ یہ قدس اور مسجد اقصیٰ کی جنگ ہے اور یہ صرف فلسطینیوں اور غزہ کے لوگوں کی جنگ نہیں ہے۔ غزہ کے لوگ تو اس جنگ کے پہلے سپاہی ہیں جو مسجد اقصیٰ اور فلسطین کا دفاع کر رہے ہیں، نہ صرف دفاع بلکہ اقدام کر رہے ہیں۔ فلسطینی مجاہدین اور عوام کی ثابت قدمی کی وجہ سے دنیا کی زبان بدل گئی ہے۔ جنگ کے شروع میں امریکہ نے تمام ممالک پر دباؤ بنا رکھا تھا کہ وہ فلسطینیوں کی مدد نہ کریں، لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ ہم ان تمام لوگوں کا احترام کرتے ہیں جو مختلف محاذوں پر ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔
(3) اب آخری سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے؟
الف: اعلان دوحہ جس کو قطر نے پیش کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قطر اور تمام اسلامی ممالک کو محفوظ و مامون رکھے، اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے۔
ب: علماء کرام کا ایک وفد تشکیل دیا جائے، جو اپنے اپنے ملکوں میں حکومتی ذمہ داروں، مختلف تنظیموں اور جماعتوں کے ذمہ داروں اور عوام سے جا کر ملاقات کریں۔
ج: ایک خاص وفد تشکیل دیا جائے، جو مختلف عربی، اسلامی اور مغربی ممالک کا دورہ کرے اور وہاں کے حکومتی ذمہ داروں سے ملاقات کرے۔
د: مالی امداد کے لیے لوگوں کو ابھارا جائے، کیونکہ یہ بھی جہاد کی ایک قسم ہے۔
ر: آپ غزہ کے لوگوں کے لیے ایک صفحہ کا پیغام بھیجیں، جس میں ان کے زخموں پر مرہم رکھا جائے، ان کو تسلی دی جائے، ان کو دشمن سے جنگ کرنے اور ثابت قدمی کے لیے ابھارا جائے اور صبر و استقامت کی تلقین کی جائے۔
اخیر میں میں آپ کے اور امت مسلمہ کی طرف سے غزہ کے زخمیوں، مظلوموں، قیدیوں کے گھر والوں کو مبارکباد کا پیغام بھیجتا ہوں، جو کہ اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں، جن کی تعداد دس ہزار سے زیادہ ہے، ان مجاہدین کو جو امت مسلمہ کی عزت و کرامت کا دفاع کر رہے ہیں، ان تمام لوگوں کو جو مختلف محاذوں پر غزہ کی مدد کر رہے ہیں اور پوری امت مسلمہ اور پوری دنیا کے حریت پسندوں کو مبارکباد کا پیغام بھیجتا ہوں جو ہماری عوام کی ثابت قدمی اور دفاع کے موقف کے ساتھ کھڑے ہیں۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جولائی تا 03 اگست 2024