
اسرائیل کے زیر حراست جہاز ’حنظلہ‘ کے کارکنوں کی عالمی بھوک ہڑتال کی اپیل
بچوں کی بھوک، درد اور مزاحمت کی علامت ’حنظلہ‘، ظالموں کے قبضے میں
بحر روم (دعوت انٹرنیشنل نیوز ڈیسک)
فریڈم فلوٹیلا کولیشن کے زیر اہتمام امدادی جہاز ’حنظلہ‘ پر سوار 21 رضاکاروں نے اس وقت عالمی سطح پر بھوک ہڑتال کی اپیل کی جب اسرائیلی قابض افواج نے بین الاقوامی پانیوں میں جہاز پر دھاوا بول کر تمام عملے کو حراست میں لے لیا۔ بیان کے مطابق ’’حنظلہ کو غزہ کے ساحل سے تقریباً چالیس سمندری میل کے فاصلے پر بین الاقوامی سمندر میں اسرائیلی فوج نے غیر قانونی طور پر زبردستی روک لیا۔ اس سے قبل جہاز کے عملے نے اعلان کیا تھا کہ اگر حملہ ہوا تو وہ غزہ کے حق میں عالمی بھوک ہڑتال میں شریک ہو جائیں گے‘‘
کولیشن نے دنیا بھر کے عوام، خصوصاً ان ممالک کے شہریوں سے جہاں سے رضاکاروں کا تعلق ہے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اسرائیل کی نسل کشی میں اپنی شراکت ختم کریں اور ’حنظلہ‘ کے قیدیوں کی فوری رہائی کو یقینی بنائیں۔ ’’اب وقت ہے کہ اپنی حکومتوں کو جواب دہ بنائیں ان سے مطالبہ کریں کہ اسرائیلی جرائمِ جنگ میں ان کی اعانت ختم ہو اور حنظلہ کے تمام کارکنوں کو فی الفور رہا کیا جائے‘‘
فرانس کی رکنِ یورپی پارلیمنٹ ایما فورونے، جبکہ اسرائیلی فوجی کشتی پر قبضہ کر رہے تھے، آخری پیغام میں کہا:
’’اسرائیلی فوج آ چکی ہے۔ ہم اپنے فون سمندر میں پھینک رہے ہیں۔ جلد ملیں گے۔ نسل کشی بند کی جائے۔‘‘
حنظلہ پر سوار رضاکار امریکہ، فرانس، اٹلی، برطانیہ، اسپین، آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسرائیلی افواج نے 27 جولائی کی صبح، جب جہاز بین الاقوامی پانیوں میں غزہ سے چالیس میل دور تھا، اس پر قبضہ کر لیا۔یہ قافلہ ایک ماہ قبل میڈیلین امدادی جہاز کے اسرائیلی تحویل میں لیے جانے کے بعد روانہ ہوا۔ حنظلہ، میڈیلین کے آخری پڑاؤ سے سو کلومیٹر آگے تک پہنچ چکا تھا۔
واضح رہے کہ جہاز کا نام حنظلہ، ایک فلسطینی علامتی کردار سے لیا گیا ہے—ایک برہنہ پاؤں پناہ گزیں بچہ جو نا انصافی سے منہ موڑے کھڑا ہے اور عہد کر چکا ہے کہ جب تک فلسطین آزاد نہیں ہو گا، وہ پیچھے نہیں دیکھے گا۔ یہ کردار 1969ء میں معروف فلسطینی کارٹونسٹ ناجی العلی نے تخلیق کیا اور 1973 سے اس کی موجودہ صورت مستحکم ہوئی۔ آج حنظلہ فلسطینی شناخت، مزاحمت اور حقِ واپسی کا ایک ناقابلِ فراموش نشان بن چکا ہے۔
بچوں کے نام وقف مشن
کولیشن کے بیان کے مطابق ’’یہ جہاز حنظلہ کی روح کا حامل ہے اور ان تمام بچوں کی نمائندگی کرتا ہے جنہیں غزہ میں تحفظ، وقار اور خوشیوں سے محروم کر دیا گیا ہے۔‘‘
2023 اور 2024 میں حنظلہ نے یورپ اور برطانیہ کی بندرگاہوں کا سفر کیا، میڈیا کی خاموشی کو توڑا اور ہر مقام پر فن، مکالمہ اور عوامی شعور کے ذریعے یکجہتی کی شمع روشن کی۔
’’غزہ کے بچے—جو وہاں کی نصف آبادی پر مشتمل ہیں—تمام عمر محاصرہ، بمباری اور محرومی میں جی رہے ہیں۔ صرف اکتوبر 2023 کے بعد سے اب تک پچاس ہزار سے زائد بچے شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، ہزاروں یتیم اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ وہ اب قحط، وبا اور ایسی مصیبتوں سے دوچار ہیں جن کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ مشن انہی کے لیے ہے۔‘‘
اقوامِ متحدہ اور عالمی ادارے خبردار کر چکے ہیں کہ غزہ میں اسرائیلی پالیسیوں کے نتیجے میں انسانی ہاتھوں سے پیدا کردہ قحط نے امدادی مراکز کو موت کے پھندوں میں بدل دیا ہے۔ الجزیرہ کے مطابق اب تک ایک ہزار سے زائد فلسطینی خوراک کے انتظار میں اسرائیلی فوج یا امریکی کرایے کے قاتلوں کے ہاتھوں جاں بحق ہو چکے ہیں۔
27؍ جولائی 2025 کو اسرائیلی بربریت نے ایک بار پھر غزہ کو خون میں نہلا دیا جب صبح سویرے کیے گئے حملوں میں کم از کم 15 فلسطینی شہید ہوئے، جب کہ اس سے ایک روز قبل 71 جانیں لے لی گئیں، جن میں 41 وہ افراد تھے جو محض ایک لقمۂ نان کے متلاشی تھے۔ اسی روز پانچ مزید فلسطینی بھوک کی شدت اور انسانی بے حسی کا شکار ہو کر دم توڑ گئے۔ اسی اتوار کو اکتوبر 2023 سے جاری نسل کشی کے بعد غزہ میں بچوں کا سب سے بڑا احتجاج دیکھنے میں آیا—سیکڑوں معصوم چہروں نے خالی پیٹ، ننگے پاؤں، شکستہ دل مگر سر بلند ہو کر سڑکوں پر قدم رکھا۔ ان کے لبوں پر ایک ہی صدا تھی "نہ بھوک چاہیے، نہ موت!”
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 جولائی تا 09 اگست 2025