
اسرائیل کے خلاف جکڑتا عالمی شکنجہ ؟
یوروپی ممالک کی اسرائیل کے خلاف ناراضگی، تجارتی بندشیں سخت اور سیاسی دباؤ تیز تر!
ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی
9 یوروپی ممالک کے وزرائے خارجہ کی اسرائیلی بستیوں کے ساتھ تجارت ختم کرنے کے مسودہ پر دستخط ۔ایک بڑا اقدام
فرانس ،فلسطین کو بغیر کسی شرط کے مکمل ریاست تسلیم کرے گا : فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون
امریکی صدر نےایک طرف ایران پر حملے کے لیے امریکی فوج کو مبارکباد دیتے ہوئے اسے بہت ہی کامیاب فوجی آپریشن قرار دیامگر اس کے بعد ایران کی زبردست جوابی کارروائی نے اسرائیل کے تل ابیب سمیت دیگر شہروں کےزیر زمین بنکر اور میٹرو اسٹیشن میں چھپنے والوں کی تعداد میں اضافہ کردیا۔ یہ سب اس وقت ہورہا تھا جب تہران سے لے کر لبنان ، بغداد اور یمن تک لاکھوں لوگ سڑک پر اتر کر صہیونی مخالف مظاہرے کررہے تھے ۔ ایمان و شجاعت کا مظاہرہ توحسبِ توقع تھا مگر امریکی ایوانِ پارلیمان کے سامنے ایران اور فلسطین کے حق میں مظاہرے کی ویڈیو نے ساری دنیا کوحیرت زدہ کر دیا ۔ کون سوچ سکتا تھا کہ ایران سے چھیڑی گئی اسرائیل کی بلا اشتعال جنگ کے خلاف قصرِ ابیض کے باہر ہزاروں امریکی احتجاج کریں گے؟ تصورِ خیال سے پرے اس واردات کو نیتن یاہو کی مسلط شدہ جارحیت نے حقیقت بنادیا ۔ شدید بارش کے باوجود وہاں موجود مظاہرین نےغزہ میں جاری نسل کشی اور ایران پر اسرائیلی فوجی حملوں کے خلاف نعرے لگا ئے ۔
وہائٹ ہاؤس کے سامنے اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے والے امریکی باشندے اپنی حکومت سے اسرائیل کو روکنے اور اس جنگ میں حملہ آور کی معاونت نہ کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔ ان مظاہرین کے ہاتھوں میں فلسطینی اور ایرانی پرچم لہرا رہےتھے۔ ان میں سے متعدد نے مجاہدین غزہ سے اپنی یکجہتی کا اظہار کرنے کی خاطر کیفیہ بھی پہن رکھی تھی۔ احتجاج کرنے والوں کے پلے کارڈز پر مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی مظالم کی مذمت کے واضح پیغامات تھے ۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی مذمت کرنےوالے یہ انصاف پسند نفوس امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر غزہ میں قتل عام کو فوری طور پر روکنے کے لیے دباو ڈال رہے تھے۔ امریکہ کی تاریخ میں ’’۱۱؍ستمبر‘‘ کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاورس کا زمین بوس ہونا ایسا غیر معمولی واقعہ تھا کہ جس کے بعد پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و عناد ایک طوفان برپا کردیاگیا ۔ افغانستان پر ناٹو حملہ کے لیے بلا کسی ثبوت اسی حملے کو بہانہ بنایا گیا ۔ وہ تو بس ایک ابتداء تھی ا ٓگے چل کر اسلاموفوبیا کا وہ طوفان برپا کیا گیا کہ جس نے دیکھتے دیکھتے امریکہ اور یوروپ کے اندر اسلام و مسلمانوں کے وجود پر سوالیہ نشان لگا دیا گیا ۔
’’۱۱؍ستمبر‘‘حملے کے بعد تشکیل دی جانے والی’’آنسر‘‘ نامی تنظیم کے ذریعہ مذکورہ بالا مظاہرے کااہتمام کسی معجزے سے کم نہیں تھا ۔ اس احتجاج کو’’ اسرائیل کے خلاف ہتھیار بن کر کھڑے لوگ‘‘ کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اپنے آپ کو جمہوریت کا سرخیل کہنے والے امریکہ اور ’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعہ اور عوام کے لیے‘ کا خوشنما نعرہ لگانے والی امریکی حکومت نے اگلے ہی دن ایران پر حملہ کرکے اپنی منافقت کو بے نقاب کردیا ۔ اس کے باوجود وائٹ ہاوس کے باہر صدائے احتجاج بلند کرنے و الے حریت پسندوں نے یہ پیغام تو ساری دنیا تک پہنچا ہی دیا کہ خود امریکہ میں بھی لاکھوں افراد ان مظالم کی حمایت نہیں کرتےبلکہ اس کے مخالفت کرتے ہیں مگر افسوس کے ان پر جمہوری نظام نے ایسے حکمرانوں کو مسلط کردیا ہے جنھیں اپنے ہی لوگوں کے احساسات و جذبات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ وہ حکمراں اپنے سیاسی اور سرمایہ داروں کے معاشی مفادات کی خاطر اس دنیا کو جہنم زار بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
مذکورہ بالا مظاہرے میں شامل فلسطینی یوتھ موومنٹ کی ایک اہلکارایمان نے قصر ابیض کے باہر نہایت دوٹوک انداز میں کہا کہ ’’آج ہم یہاں ایران پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔‘‘ انہوں نے اسرائیل پر ہتھیاروں کی مکمل پابندی پر زور دیتے ہوئے مارسک جیسی کمپنیوں سے ہتھیاروں کی ترسیل کوپوری طرح روکنے کا مطالبہ کیا۔ یہ مظاہرہ محض عربوں یا مسلمانوں پر مشتمل نہیں تھا بلکہ اس میں مختلف ممالک اور مذاہب کے ماننے والے لوگ شریک تھے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ ٹرمپ انتظامیہ آہنی ہاتھوں سے باہری لوگوں کو ڈرا دھمکا رہا ہے اس احتجاج کا اہتمام کرنے والوں نے بہت بڑا خطرہ مول لے کر کمال جرأتمندی کا مظاہرہ کیا تھا۔ مونٹگمری کاؤنٹی سے مظاہرے میں آنے والی سارہ گریمشا نے اخبار نوایسوں کوبتایا کہ وہ امریکی پیسے اور اثر و رسوخ کے ذریعہ بے گناہ شہریوں کو مزید نقصان سے بچانا چاہتی ہے۔
امریکی مظاہرے میں شریک ایمان کا یہ عزم حوصلہ افزا ہے کہ ’’ہم اس وقت تک سڑکوں پر رہیں گے جب تک کہ فلسطین کا ایک ایک انچ آزاد نہیں ہو جاتا، جب تک امریکہ مشرق وسطیٰ سے مکمل طور پر باہر نہیں ہو جاتا، اور جب تک اسرائیل ایران، فلسطین، لبنان، یمن اور ہر دوسرے عرب ملک پر اپنی جارحیت بند نہیں کرتا۔‘‘ ٹرمپ جیسے ظالم و جابر کے دور ِ اقتدار میں اس جری و بے خوف موقف کا اعلان ایمان و یقین میں اضافہ کرتا ہے۔ وہاں پرایرانیوں شرکت فطری امر تھی کیونکہ وہ لوگ اپنے ملک میں ا عزہ و اقارب کی خاطر فکر مند ہیں ۔ ان میں سے ایک آریہ مہان نامی ایرانی نژاد فرد نے جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے پر تشویش کا اظہار کرکے اسے بہت بڑا خطرہ بتایا ۔ اس کو اندیشہ ہے اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں اپنی جنگ جاری رکھنے سے کوئی نہیں روکے گا لیکن ایران کی مزاحمت اور اقدام نے اسے پسپائی کے لیے مجبور کردیا ہے ۔ امریکہ کو اسی لیے میدان میں کودنا پڑا کیونکہ اسرائیلی وزیر اعظم اپنے آقا کے آگے ہاتھ جوڑ کر گڑگڑا رہا تھا ۔
اسرائیل کے ایران پر حملے کی مخالفت صرف عوامی نہیں بلکہ سرکاری سطح پر بھی ہورہی ہے۔حال میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے 57 اسلامی رکن ممالک نے استنبول میں منعقد ہونے والے وزرائے خارجہ اجلاس میں مشترکہ اعلامیے جاری کرکے ایران پر اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کی شدید مذمت کی ۔ عالمِ اسلام کی موقر تنظیم نے اسرائیلی حملوں کو روک کر اس خطرناک کشیدگی کے خاتمہ پر زوردیا ۔او آئی سی نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے ذریعہ ایران کے جوہری اداروں پر حملوں کی روک تھام کے لیے وہ ایک وزارتی رابطہ گروپ ئم کرکے بین الاقوامی اور علاقائی فریقوں کے ساتھ باقاعدہ رابطہ رکھے گی تاکہ کشیدگی کم کرنے کی کوششیں کی جا سکیں۔مشترکہ اعلامیے میں تنظیم نے عالمی برادری سے ایران کے خلاف حملوں کی روک تھام کے اقدامات کرنے کی اپیل کی نیز ’اسرائیل کو ان جرائم کا ذمہ دار ٹھہرایا ‘۔
استنبول میں جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ کے علاوہ او آئی سی نے 13 نکات پر مشتمل ایک علیحدہ قرارداد منظور کرکے اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے ایرانی جوہری اداروں پر حملوں کی بھی مذمت کی ۔ اس قرارداد میں تنظیم نے تہران کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے عالمی ادارہ برائے جوہری توانائی سے ان حملوں کی واضح مذمت کرنے کا مطالبہ کرکے اسے اقوامِ متحدہ کے سیکورٹی کونسل کو رپورٹ دینے کی تلقین کی ۔ قرارداد میں ان حملوں کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ۔ او آئی سی نے اسرائیل سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ جلد از جلد جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) میں شامل ہو کر اپنی تمام جوہری سہولیات اور سرگرمیوں کو عالمی ادارہ برائے جوہری توانائی کی مکمل نگرانی میں لائے۔تنظیم کے ارکان نے ایران کی اپنی خودمختاری ، عوام کے تحفظ اور اپنی سرزمین پر ایسے جرائم کو روکنے کے حق دفاع کا بھی اعادہ کیا۔
یہ دراصل حال میں کینیڈا کے اندر منعقد ہونے والے جی ۷ ؍ اجلاس کا منہ توڑ جواب تھا ۔ اس سے قبل پاکستان سمیت 21 مسلم ممالک کے وزرائےخارجہ نے ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرکے اسے یو این چارٹر اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ایک مشترکہ اعلامیے میں علاقائی خودمختاری، سالمیت اور ہمسائیگی کے اصولوں کے احترام پر زور دے کر مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے خاتمے اور جنگ بندی کی خاطر فوری اقدامات کا مطالبہ کیا تھا۔ اعلامیے میں ایرانی جوہری پروگرام پر پائیدار معاہدے کے لیے مذاکرات کی بحالی کو واحد راستہ قرا ر دیا تھا مگر امریکہ نے حملہ کرکے وہ راستہ بند کردیا ۔ اس اعلامیہ پر دستخط کرنے والوں میں شام کے مسئلہ پر ایران سے اختلاف کرنے والے ترکی اور یمن کی بابت مختلف رائے رکنے والے متحدہ عرب امارات و سعودی عرب بھی شامل تھے ۔ حزب اللہ کے معاملے ایران سے برسرِ پیکار ، اردن اور ابراہیم اکارڈ کے حامی بحرین نے بھی ایران کے تئیں اپنی یکجہتی کا اظہار کرکے یہ ثابت کیا تھا کہ اس نازک موقع پر اپنے آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر سارے مسلمان ممالک متحد ہوگئے ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان ، برونائی، چاڈ، گیمبیا، الجزائر، کوموروس، جبوتی ، سوڈان، صومالیہ، عراق، عمان، قطر، کویت، لیبیا، مصر اور موریطانیہ بھی اس اعلامیہ میں شریک تھے۔
مسلم دنیا سے باہر روس اور چین نے کھل کر اسرائیلی حملوں کی مذمت کی ۔ روس نے ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل پر باقاعدہ الزام لگایا کہ اس نے دنیا کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ روس نے ایران پر اسرائیلی حملوں کو غیرقانونی اور عالمی سلامتی کیلئے خطرہ قرارد یا۔ اس کاموقف ہے کہ صہیونی ریاست دنیا کو جوہری تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ روسی وزارت خارجہ کے مطابق ایران نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی پاسداری کی ہے اس لئے تہران کے جوہری پروگرام تنازع کا حل صرف سفارتکاری سے ممکن ہے۔ روسی وزارتِ خارجہ نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات پر اپنے غیر قانونی حملوں کو فوری طور پر بند کرے ۔ روس نےیہ الزام بھی لگایا کہ مغربی ممالک صورتحال کو ایران سے انتقام لینے کیلئے استعمال کر رہے ہیں اورٹرمپ جلتی پر تیل چھڑک رہے ہیں ۔
ایران اور اس کے سپریم لیڈر خامنہ ای کے خلاف ڈونالڈ ٹرمپ کے بیانات پر چین نے بھی سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئےکہا کہ ’ڈونالڈ ٹرمپ جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کر رہے ہیں ‘‘ چینی وزارتِ خارجہ کے مطابق ’ آگ کو ہوا دینا، اس پر تیل ڈالنا، دھمکیاں دینا اور دباؤ بڑھانا، یہ تمام اقدامات صورتِ حال کو پرامن بنانے میں مددگار نہیں ہوں گے بلکہ اس تنازع کی شدت میں مزید اضافہ اور اسکے دائرے کو وسیع کریں گے۔‘ چینی ترجمان لن جیان نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ایران۔ اسرائیل کشیدگی پر بیجنگ کڑی نظر رکھے ہوئے ہے اور ایران کی خودمختاری، سلامتی اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کرنے والے اقدامات کی مخالفت کرتا ہے۔وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ’ چین تمام متعلقہ فریقین، بالخصوص ان ممالک سے جن کا اسرائیل پر اثرورسوخ ہے، اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کریں اور فوری اقدامات کریں تاکہ کشیدگی کو کم کیا جا سکے، اور اس تنازع کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔‘ لیکن ا مریکی حملے کے بعد یہ سارے امکانات معدوم ہوچکے ہیں ۔
روس اور چین کا بیان تو توقع کے مطابق ہے مگر فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے یہ کہہ کر چونکا دیا کہ وہ ایران میں اقتدار کی تبدیلی کے ڈونالڈ ٹرمپ والے موقف سے اتفاق نہیں کرتےنیز وہ تہران کے خلاف سخت فوجی کارروائی کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا خطے کو انتشار کا شکار کرسکتا ہے۔ میکرون نے حکومت کو تبدیل کرنے کیلئے فوجی حملوں کی مخالفت کی جسے امریکہ نے ٹھکرا دیا۔ اس دوران فرانس نے پیرس ایئرشو میں خطرناک اسلحے کی نمائش نہ روکنے پر اسرائیلی کمپنیوں کے چار سٹینڈز بند کر دیئے ۔ اسرائیل نے اس کی مذمت کی اور آئی اے آئی کے صدر اور سی ای او بوز لیوی کو کہنا پڑا کہ اسرائیلی پویلین کو ڈھانپنے والی تقسیم کی یہ سیاہ دیواریں ’ان سیاہ دنوں کی یاد دلا رہی ہیں جب یہودیوں کو یورپی معاشرے سے الگ کیا گیا تھا۔‘ اس سے دونوں روایتی اتحادیوں کے درمیان تناؤ پیدا ہوگیا ۔
بنیامین نیتن یاہو کی حکومت پر غزہ میں اس کی کارروائیوں اور بیرون ملک فوجی مداخلتوں پر فرانس اپنا موقف بتدریج سخت کر رہا ہے۔ پچھلے دنوں فرانس کے صدر ایمانویل میکخواں نے نیویارک میں سعودی عرب کے ساتھ منعقد کی جانے والی ایک تقریب میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ان کا ملک فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرے گا۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کی کوئی شرائط ہیں تو انہوں نے کہا کہ ’کوئی شرائط نہیں۔ ریاست کو ایک طریقہ کار کے تحت تسلیم کیا جائے گا جس میں غزہ کی جنگ کو بند کرنا، انسانی امداد کو بحال کرنا، اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کروانا اور حماس کو غیر مسلح کرنا شامل ہے۔ یہ ایک پیکج ہے۔‘ مسئلہ فلسطین کے پرامن حل کی خاطر بین الاقوامی کانفرنس میں ’دو ریاستی حل‘کا خاکہ پیش کیا گیا ۔ اسرائیلی حملے سے ایک ماہ قبل برطانیہ نے غزہ جنگ میں اسرائیل کے طرزعمل پر اعتراض کرتے ہوئے اس کے ساتھ آزاد تجارت کے مذاکرات معطل کر دیئے تھے اور وزارت خارجہ میں اس کے سفیر کو طلب کیا تھا۔
اسرائیل کی مجرمانہ کا رروائیوں کا اعتراف اب اس کے یوروپی حلیف بھی کرنے لگے ہیں۔ اس ایک ثبوت برطانیہ اور اس کے چار اتحادیوں(آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور ناروے) نے دو اسرائیلی وزرا یعنی وزیر خزانہ بیزالل سموٹرچ اور نیشنل سکیورٹی کے وزیر اتامر بین گوئر پر پابندی عائد کرناہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ لوگ ’بار بار فلسطینیوں کے خلاف تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔‘ ان ممالک نے الزام لگایا کہ مذکورہ بالا دونوں افراد ملک میں داخل نہیں ہو سکیں گے اور وہاں موجود ان کے اثاثے بھی منجمد ہو جائیں گے۔یہ اقدام پانچ اہم ممالک کا اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی امریکہ سے دور ہونے کا مظہرہے۔ان پانچوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی جانب سے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ’گوئر اور سموٹریچ نے فلسطینیوں کے خلاف تشدد اور ان کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے رویوں کو ابھارا ہے۔‘
یوروپی ممالک کا کہنا ہے کہ ’ایسے اقدامات ناقابل قبول ہیں، اسی وجہ سے یہ قدم اٹھایا جا رہا ہے تاکہ ان کا احتساب ہو سکے۔‘ غزہ پر اسرائیل کے بہیمانہ درندگی نے مغرب نواز ممالک کو بھی بیدار کیا ہے۔ برطانوی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ان اقدامات کو غزہ میں ہونے والے واقعات سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا اور اسرائیل کو بین الاقوامی انسانی قوانین کی پابندی کرنی چاہیے۔‘ایران کے ساتھ اسرائیلی جنگ کے درمیان اب 9 یوروپی ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایک تجویزپردستخط کرکے اسرائیلی بستیوں کے ساتھ تجارت ختم کرنے کا مسودہ پر دستخط کیے ۔ان ممالک میں بیلجیم، فن لینڈ، آئرلینڈ، لکزمبرگ، پولینڈ، پرتگال، سلووینیا، اسپین اورسویڈن شامل ہیں۔ یوروپی یونین اسرائیل کا وہ سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، جو اس کے لئے کل سامان کا تقریباً ایک تہائی حصہ پر محیط ہے۔ یوروپی یونین کے ان ممالک نے فلسطینی علاقوں اور وہاں کی بستیوں پر اسرائیل کا قبضہ کو غیرقانونی بتایا۔ انہوں نے تجارت یا سرمایہ کاری سے متعلق تعلقات کو روکنے کے لئے اقدامات کرکے صورتحال کو بنانے کی سعی کی ۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ اب فلسطین پر قبضہ اسرائیل کو بھاری پڑنے والا ہے۔ عالمی سطح پر اسرائیل کے گلے میں شکنجہ جکڑتا جارہا ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
***
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے 57اسلامی رکن ممالک نے استنبول میں منعقد ہونے والے وزرائے خارجہ اجلاس میں مشترکہ اعلامیے جاری کرکے ایران پر اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کی شدید مذمت کی ۔ عالمِ اسلام کی موقر تنظیم نے اسرائیلی حملوں کو روک کراس خطرناک کشیدگی کے خاتمہ پر زوردیا ۔او آئی سی نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے ذریعہ ایران کے جوہری اداروں پر حملوں کی روک تھام کے لیے وہ ایک وزارتی رابطہ گروپ ئم کرکے بین الاقوامی اور علاقائی فریقوں کے ساتھ باقاعدہ رابطہ رکھے گی تاکہ کشیدگی کم کرنے کی کوششیں کی جا سکیں۔مشترکہ اعلامیے میں تنظیم نے عالمی برادری سے ایران کے خلاف حملوں کی روک تھام کے اقدامات کرنے کی اپیل کی نیز ’اسرائیل کو ان جرائم کا ذمہ دار ٹھہرایا ‘۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جون تا 05 جولائی 2025