اسرائیل کا ایران پر حملہ ؛ تیسری عالمی جنگ کا محرک نہ بنے

ایران کا مضبوط دفاعی نظام اور عرب ممالک کی فضائی حدود پر پابندی اسرائیل کے لیے بڑی رکاوٹ

0

اسد مرزا
سینئر سیاسی تجزیہ نگار

یکم اکتوبر کو ایران کے میزائل حملے کے بعد اسرائیل نے جوابی حملے کا وعدہ کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے ’مہلک، تکلیف دہ اور حیران کن‘ ہوگا۔ تاہم، بیان بازی کے باوجود اسرائیل نے ابھی تک اپنے وعدے کے مطابق جوابی کارروائی نہیں کی ہے، جس سے یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا اسرائیل، ایران کے خلاف جنگ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار رکھنے کا شبہ ہے؟
ہو سکتا ہے کہ اسرائیل ابھی بھی ایران پر حملے کے کامل طریقہ کار پر غور کر رہا ہو تاکہ یہ حملہ انتہائی تباہ کن ثابت ہو تاکہ پوری دنیا کو پیغام دیا جا سکے، یا ہو سکتا ہے کہ اس کے سب سے بڑے اتحادی اور سرپرست امریکہ کی طرف سے اسے یہ حملہ نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا ہو۔ مزید یہ کہ اس طرح کے کسی بھی اقدام کے لیے اسرائیل کو جس چیلنج کا سامنا ہے وہ ایک ایرانی غیر مرئی دیوار ہے جو کہ ایران کا مضبوط فضائی دفاعی نظام ہے۔
ایسے کسی ممکنہ حملے کے خلاف اسرائیل کے کٹر اتحادی امریکہ نے تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ عرب ممالک، جن میں سے اکثر کے یہودیوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران کے خلاف حملے کے لیے اپنی فضائی حدود یا زمین استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ صدر جو بائیڈن نے 9 اکتوبر کو صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کی حمایت نہیں کرے گا۔ مزید یہ کہ اس وقت اسرائیل مشرق وسطیٰ میں کئی محاذوں پر خونریز جنگ لڑ رہا ہے جن میں غزہ، یمن، سیریا اور لبنان شامل ہیں، اس نے اپنے اتحادیوں کو اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹتے دیکھا ہے، ایسے میں ایران کے خلاف کوئی نیا محاذِ جنگ شروع کرکے اپنی مشکلات میں اضافہ نہیں کرنا چاہے گا۔ کیونکہ اسرائیل-ایران تنازع کا نتیجہ پورے خطے میں ایک مکمل جنگ کی صورت میں نکلے گا اور ممکنہ طور پر تیسری عالمی جنگ کا محرک بھی بن سکتا ہے۔
ایرانی حملے کا بدلہ لینے کے لیے اسرائیل کے پاس دو راستے ہیں، یا تو وہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرے یا پھر ایرانی تیل کی تنصیبات پر حملہ کرے۔ ساتھ ہی وہ ایران کے فوجی اڈے اور اس کے فضائی دفاعی نظام اور میزائل لانچ کرنے کی صلاحیتوں کو بھی اپنا بنیادی ہدف بناسکتا ہے۔ تاہم، اگر اسرائیل کے لڑاکا طیارے ایرانی فضائی حدود میں داخل ہونے اور اس کی میزائل صلاحیتوں کو تھوڑی دیر کے لیے ناکارہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں، تب بھی اس کا سب سے بڑا اثاثہ یعنی کہ ایران کی جوہری صلاحیتیں محفوظ رہیں گی۔
درحقیقت ایران نے اپنے اہم فوجی اور جوہری مقامات کی حفاظت کے لیے ایک مضبوط فضائی دفاعی نظام تیار کررکھا ہے۔ اس میں روسی ساختہ S-300 SA-22 اور ایران کے اپنے خرداد- 15 اور-373 Bavar جیسے جدید نظام اور اسلحہ شامل ہیں۔ اپنے فضائی دفاعی نظام کی مدد سے ایران کی فضائی حدود کو انتہائی محفوظ تصور کیا جاتا ہے اور اس پر کوئی بھی حملہ اسرائیلی فضائیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔
ایران کے فضائی دفاعی نظام میں سب سے اہم نظام روس سے ملنے والا S-300 ہے۔ یہ نظام سو میل دور سے لڑاکا طیاروں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ درجنوں میزائل بیک وقت متعدد اہداف پر فائر کر سکتا ہے جن کی رفتار آواز سے پانچ گنا زیادہ تیز ہے۔
اس صلاحیت کی وجہ سے اسرائیلی لڑاکا طیاروں کے لیے اسے چکما دینا مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم، اگر اسرائیل کو ان سسٹمز کی صحیح جگہ کا علم ہو جائے تو اس کے لڑاکا طیارے S-300 کی حد سے باہر رہتے ہوئے حملہ کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ SA-22 سسٹم کی بآسانی نقل و حرکت اسے مزید خطرناک بناتی ہے۔ یہ نظام ٹرکوں پر نصب ہے جس سے اسے کہیں بھی آسانی سے تعینات کیا جا سکتا ہے۔ یہ 40 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرنے والے طیاروں کو مار گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مزید برآں، ایران کے پاس خرداد- 15 اور باوار- 373 جیسے جدید نظام بھی ہیں جو پرانے سوویت SA-6 سسٹم پر مبنی ہیں۔ یہ تمام نظام مل کر ایران کی فضائی حدود کو مزید محفوظ بناتے ہیں۔
اسرائیل کے پاس F-35 جیسے جدید ترین اسٹیلتھ لڑاکا طیارے ہیں جو ایران کے راڈار سسٹم سے بچنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ اور اگر یہ طیارے بڑے بم ساتھ کے جاتے ہیں تو ان کی ساخت بدل جاتی ہے اور ان کے وزنی ہونے کی وجہ سے ان کا راڈار پر پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس سے اسرائیلی پائلٹوں کے لیے چیلنج بھی بڑھ جاتا ہے۔
مزید یہ کہ اسرائیل، امریکہ کے کہنے کے باوجود ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، ان میں سے 90 فیصد سے زیادہ تنصیبات زیر زمین واقع ہیں، جس کی وجہ سے اسرائیلی فضائی حملے کے ذریعہ ان کو تباہ کرنا ناممکن ہے، حتیٰ کہ ان بنکر بسٹر بموں سے بھی جو کہ اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو قتل کرنے کے لیے استعمال کیے تھے۔
اسرائیل کے لیے ایک اور چیلنج فاصلے کی دوری ہے۔ اسرائیل، ایران کی بنیادی جوہری تنصیبات سے ایک ہزار میل دور ہے۔ ان مقامات تک پہنچنے کے لیے اسرائیلی طیاروں کو سعودی عرب، اردن، عراق، شام اور ممکنہ طور پر ترکی سمیت کئی ممالک کی فضائی حدود سے گزرنا ہوگا۔ ان میں سے بیشتر ممالک پہلے ہی اس معاملے پر اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے تعاون سے انکار کر چکے ہیں۔
ایک اور چیلنج ان طیاروں کا ایندھن بھی ہے۔ یو ایس کانگریشنل ریسرچ سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی طیارے اپنا تمام فضائی ایندھن استعمال کرتے ہوئے ایرانی اہداف تک جاکر واپس اسرائیل آنے تک ہی کامیاب ہوسکتے ہیں اور کسی بھی دوسرے طریقے کی فضائی لڑائی میں حصہ نہیں لے سکتے اور ساتھ ہی ایسے کسی حملے میں کسی بھی غلطی کی گنجائش نہیں رہ پائے گی۔ اور مزید، اس کے لیے تقریباً سو طیاروں کے ایک اسٹرائیک گروپ کی ضرورت ہوگی، جو اسرائیل کے 340 جنگی تیار طیاروں کا تقریباً ایک تہائی ہے۔ نیز، اسرائیل کو ایران کے دو بنیادی جوہری افزودگی کے مقامات کو ختم کرنے یا تباہ کرنے میں ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ نتنز میں ایران کی ایندھن کی افزودگی کی بڑی تنصیبات گہرائی میں زیر زمین ہیں، جب کہ فورڈو میں دوسری سب سے بڑی جگہ ایک پہاڑ میں بنائی گئی ہے۔ انہیں تباہ کرنے کے لیے ایسے ہتھیاروں کی ضرورت ہوگی جو پھٹنے سے پہلے کئی میٹر چٹان اور مضبوط کنکریٹ کو ریزہ ریزہ کرکے اپنے اہداف تک پہنچ سکیں۔
اسرائیل نے ایسے بنکر بسٹر بموں کا حال ہی میں استعمال کیا تھا جن میں دو ہزار پاؤنڈ وزنی GBU-31 بم بھی شامل تھے، جنہیں اس کی فضائیہ نے 27 ستمبر کو بیروت میں چار عمارتوں پر گرایا، جس میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ ہلاک ہوئے تھے۔ اسرائیلی رپورٹس نے اشارہ دیا ہے کہ اس حملے میں 80 بم استعمال کیے گئے تھے اور یہ شبہ ہے کہ ایسا ہی حملہ ایران کے زیادہ مضبوط جوہری مقامات کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہوسکتا ہے جبکہ اس کے امکانات بہت کم ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ممکنہ طور پر کام کرنے کے قابل واحد روایتی ہتھیار GBU-57A/B Massive Ordnance Penetrator (MOP) بم ہے، جیسا کہ اخبار فائنانشل ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے، لیکن یہ بم B-2 بمبار طیارے سے ہی گرائے جاسکتے ہیں جس کے لیے اسرائیل کو امریکہ کے ساتھ مشترکہ حملے کرنے ہوں گے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ ایران پر حملہ کرنے میں براہ راست ملوث ہونے کے لیے تیار ہوگا؟ کیونکہ اس اقدام کے علاقائی اور عالمی جغرافیائی سیاست پر سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
اسرائیلی مقاصد کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے پیش نظر، اسرائیل کے پاس جوابی کارروائی اور اپنے غرور کو بچانے کا واحد آپشن یہ ہو سکتا ہے کہ وہ قاسم سلیمانی اور حسن نصر اللہ کی طرح اعلیٰ ایرانی قیادت کے خلاف خفیہ کارروائیوں کا سلسلہ شروع کرے۔

 

یہ بھی پڑھیں

***

 ’’اسرائیل پر حماس کے حملے کی پہلی برسی سے صرف ایک ہفتہ قبل ایران کی طرف سے داغے گئے میزائلوں سے اسرائیل میں کھلبلی مچ گئی۔ یہ ایرانی حملہ لبنانی مسلح گروپ حزب اللہ کے سربراہ اور تہران کے اہم اتحادی حسن نصر اللہ کے قتل کے بدلے میں ہوا تھا۔ جواب میں اسرائیل نے ایران پر حملہ کرنے کا عزم کیا تھا لیکن ایرانی حملے کے تقریباً پندرہ دن بعد بھی ابھی تک اسرائیل کی جانب سے کارروائی کے کوئی آثار نظر نہیں آئے ہیں اور اس دوران عالمی سطح پر سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ آیا اسرائیل ایران پر حملہ کرنے کی جرأت کرے گا یا نہیں۔‘‘


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اکتوبر تا 2 نومبر 2024