
اسرائیل ایران جنگ اور ذرائع ابلاغ: خبر رسانی سے پروپیگنڈوں تک کا سفر
سچائی کی تلاش میں بھٹکتا قاری۔ میڈیا کی ساکھ پر سوالیہ نشان!
مشتاق رفیقی
ورلڈ پریس انڈیکس میں اسرائیل 112 ویں اور ایران 176 ویں نمبر پر، اعتبار کن ذرائع پر ہو؟
ذرائع ابلاغ کے بغیر موجودہ دور کا تصور ہی محال ہے۔ یہ ذرائع ابلاغ ہی ہے جو موجودہ جمہوری دور میں طاقتوروں کو ذمہ دار ٹھیرا کر جواب دہی کے لیے مجبور کر سکتا ہے۔ عوام کو سچائیوں سے آگاہ کرنے سے لے کر انہیں تعلیم دینے اور تفریح فراہم کرنے میں بھی اس کا کوئی متبادل نہیں۔ لیکن جب سے برقی مواصلاتی آلات اور مصنوعی ذہانت کا ذرائع ابلاغ کے میدان میں داخلہ ہوا ہے اس کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے ہیں۔ اس کے اندر ترقی کی رفتار اتنی تیز ہوگئی ہے کہ وہ تمام اصول و ضوابط جو اس کی پہچان سمجھے جاتے تھےوہ سب دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں اور برقی و مصنوعی ذہانت کا یہ انقلاب اسے اس تیزی سے اپنے ساتھ بہا لے جا رہا ہے کہ اس کی بنیادی شکل ہی یعنی سچائی کو آشکار کرنے کی اور صحیح اطلاعات عوام تک پہنچانے کی بری طرح مسخ ہونے لگی ہے۔
دنیا آج ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ فرد کی پہنچ ذرائع ابلاغ کی وساطت سے اتنی وسیع ہو چکی ہے کہ کچھ سالوں پہلے اس کا تصور بھی محال تھا۔ ترقی کی اس تیز رفتاری سے جہاں دنیا میں روابط اور ایک دوسرے سے قریب ہونے میں آسانیاں پیدا ہوئیں وہیں زمینی وسائل پر قبضے کو لے کر آپسی عناد میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے اور اس بغض و عناد کے نتیجے میں آپسی جنگوں کا ایک ایسا دور شروع ہوچکا ہے جس کا کوئی اختتام نظر نہیں آرہا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے ”جنگ میں سب جائز ہے” موجودہ نام نہاد ترقی یافتہ دور بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ موجودہ دور میں حالت جنگ میں داخل ہونے والے ممالک سب سے زیادہ استحصال ذرائع ابلاغ کا ہی کرتے ہیں۔
موجودہ دور دنیا کے اکثر ممالک کے لیے حالت جنگ کا ہی دور ہے اور یہ جنگ اصولوں پر نہیں محض زمینی وسائل پر قبضہ اور اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے لیے لڑی جارہی ہے۔ اس حوالے سے آج کا میڈیا یعنی ذرائع ابلاغ حق اور صداقت کا علم بردار نہیں بلکہ حاملین اقتدار کا پروپگنڈا مشنری بن گیا ہے۔ حالیہ دو تین سالوں میں جو جنگیں شروع ہوئی ہیں ان پر میڈیا نے جو کردار ادا کیا ہے اگر اس پر ہی ایک نظر دوڑا لیں تو صاف نظر آجائے گا کہ موجودہ دور میں میڈیا ایک آلہ جنگ بن چکا ہے جس کا مقصد اپنے نقطہ نظر سے حالات اور صداقت کا استحصال، اپنے مفاد کی خاطر جھوٹ کو سچ، سچ کو جھوٹ اور ظلم و بربریت کو خوش نما الفاظ اور استعاروں میں چھپا کر پیش کرنا رہ گیا ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ شروع ہو کر ایک ہفتہ سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ اس بات سے انکار کیے بغیر کہ ایران اور اسرائیل کی دشمنی جگ ظاہر ہے لیکن اس اچانک جنگ کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟ اس کا کوئی واضح جواب ذرائع ابلاغ ابھی تک دینے میں ناکام ہی نظر آرہے ہیں۔ ویسے ہر کوئی اپنا راگ ضرور الاپ رہا ہے جیسے اسرائیل کے تئیں نرم رویہ رکھنے والا میڈیا جو اکثریت میں ہے یعنی وطن عزیز میں مرکزی دھارے کا (گودی) میڈیا، یورپی میڈیا، امریکی میڈیا وغیرہ جہاں اس جنگ کو اسرائیل کی بقا کے لیے ناگزیر اور ضروری قرار دے رہا ہے وہیں ایران کو اس کے جوہری تنصیبات کے حوالے سے انسانیت اور دنیا کے لیے خطرہ بتانے میں بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ میڈیا کی ایک قلیل تعداد جس کا جھکاؤ سیاست میں بائیں بازو کی طرف ہے اور کچھ وہ جو اپنے آپ کو لبرل کہتے ہیں ایران کے تئیں ہمدردی جتا رہے ہیں اور اسرائیل کو غاصب بتا رہے ہیں۔ وطن عزیز میں جنوب کی طرف نظر دوڑائیں تو جنوبی ریاستوں اور تمل ناڈو کا دراوڑ میڈیا اسرائیلی پروپگنڈے کا شکار ہوئے بغیر حق و صداقت تک پہنچنے کی کوشش کرتا نظر آرہا ہے مگر قومی میڈیا جو اپنی اقتدار پرستانہ سوچ کی وجہ سے گودی میڈیا کہلانے لگا ہے یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ ایران کے ساتھ ملک کے روابط کتنے دوستانہ ہیں اور اس جنگ سے براہ راست وطن عزیز کو کتنا معاشی نقصان پہنچ سکتا ہے اور پہنچ رہا ہے اسرائیل کی طرف داری کرتے نظر آرہا ہے۔
عالمی معیار میں ید طولیٰ رکھنے والے میڈیا ہاؤس جو اپنے آپ کو حق و صداقت کا علم بردار باور کراتے نہیں تھکتے، ان کا رجحان بھی غیر محسوس طریقے سے اسرائیل کی جانب ہی ہے۔ ان کے اخبارات، ان کے ٹی وی اور انٹرنیٹ کے مواد کھلے طور پر مخصوص نظریے اور سیاسی صف بندی کی حمایت کرتے نظر آرہے ہیں۔ بی بی سی اور الجزیرہ پر بہت سارے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ یہ بڑی حد تک سچائی پیش کرنے کی کوشش میں کامیاب ہیں۔ الجزیرہ جنگ کی شروعات سے ہی ایران پر اسرائیلی فضائی حملوں اور اسرائیل پر ایرانی میزائیل حملوں کی وجہ سے وہاں ہونے والی تباہیوں کی کامیاب رپورٹنگ پیش کرتا آرہا ہے، اس کے باوجود کہ اسرائیل میں اس پر پابندی ہے، مگر اس کی رپورٹنگ کو مغربی ذرائع ابلاغ اتنا قابل اعتماد نہیں سمجھتے۔ بی بی سی کی رپورٹنگ کو اکثر غیر متنازعہ سمجھا جاتا ہے لیکن ابھی حالیہ اسرائیل غزہ تنازعے میں بی بی سی کی رپورٹنگ پر سنٹر فار میڈیا مانیٹرنگ نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں اس کا مکمل جھکاؤ غیر محسوس طریقے سے اسرائیل کی جانب صاف نظر آرہا ہے۔ اس نتیجہ تک پہنچنے کے لیے سنٹر فار میڈیا مانیٹرنگ نے بی بی سی کی 3873 تحاریر اور 32092 ٹی وی اور ریڈیو پروگراموں کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ جب اتنے قدیم اور معتبر میڈیا ہاؤس کا یہ حال ہے تو برساتی ککر متے کی طرح اُگنے والے موجودہ دور کے میڈیا ہاوزس کا کیا حال ہوگا ہر کوئی بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ ویسے بھی اسرائیل اور ایران دونوں ملکوں میں میڈیا کی آزادی پر عرصے سے سوال اٹھتے رہے ہیں۔ جہاں ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق اسرائیل اس وقت آزادی صحافت کے حوالے سے 180 ممالک میں 112 ویں نمبر پر ہے وہیں ایران 176 ویں نمبر پر ہے۔ اس پس منظر میں دونوں ملکوں سے حاصل ہونے والی اطلاعات اور وہاں کے ذرائع ابلاغ پر مکمل یقین کرنا بے وقوفی ہوگی۔
ان سب کے علاوہ سوشل میڈیا پر مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا سہارا لے کے دونوں بازؤں کے میڈیا ہاؤس یا ان سے جڑے ان کے نظریات سے متاثر اندھ بھکت اپنے مد مقابل کو نیچا دکھانے کے لیے جھوٹ کو اس خوبصورتی سے تصاویر اور ویڈیوز کے سہارے مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنا کر پیش کر رہے ہیں کہ سچائی ان کے درمیان کہیں گم ہوکر رہ گئی ہے۔ حقیقت میں کیا ہو رہا ہے، کس کو کتنا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے، کتنے لوگ مارے جارہے ہیں اس کی صحیح تصویر کہیں سے نہیں مل رہی ہے۔
ایکس، ٹک ٹاک اور انسٹا گرام پر کئی ایسے ویڈیوز گردش میں ہیں جن کو دیکھنے کی تعداد کئی ملین تک پہنچ چکی ہے مگر وہ سب مصنوعی ذہانت سے بنائے گئے ویڈیوز ہیں جن میں مد مقابل کو کہیں بھاری نقصان اٹھاتا ہوا دکھایا گیا ہے یا حریف کے ذریعے کسی بڑے ہدف کو تہس نہس ہوتے دکھایا گیا ہے۔ ایسا نہیں کہ بعد میں ان پر تحقیق کر کے فیکٹ چیکر ان کی حقیقت سامنے لانے کی کوشش نہیں کرتے، مگر تب تک یہ جنگل کی آگ کی طرح عوام کے درمیان پھیل چکے ہوتے ہیں۔
ہمارے درمیان میڈیا وہی پیش کر رہا ہے جو وہ پیش کرنا چاہتا ہے۔ اسے اس سے مطلب نہیں کہ اس میں سچائی کتنی ہے یا اس کا پیش کردہ مواد صداقت پر مبنی ہے۔ اس پس منظر میں یہ بات مکمل آشکار ہو چکی ہے کہ تمام تر ترقی کے باوجود موجودہ ذرائع ابلاغ عوام کے آگے سچ کو پیش کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی یہ ناکامی در حقیقیت سچائی کی ناکامی کے ساتھ ساتھ انسانیت کی بھی ناکامی ہے۔ پتہ نہیں انسانوں کو کب اس کا احساس ہوگا یا پھر ہوگا بھی کہ نہیں؟ کیا وہ مستقبل قریب میں اس ناکامی پر قابو پالیں گے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا موجودہ حالات میں جواب ملنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جون تا 05 جولائی 2025