اسرائیل آخری سانسیں لے رہا ہے۔۔!
غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے قابض ریاست کی بے چینی کا راز آشکار
تل ابیب : ( دعوت انٹرنیشنل نیوز ڈیسک)
عبرانی اخبار میں معروف یہودی مصنف اری شاویت کے تاریخی حقائق پر مبنی مضمون نے صیہونیوں کی نیند اڑادی
امریکی محکمہ خارجہ نے غزہ میں امداد لانے کے بہانے فلسطینی مزاحمت پر فوری جنگ بندی قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی غرض سے بعض عرب ممالک بالخصوص مصر اور قطر کے ساتھ رابطے تیز کردیے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ سے فوری جنگ بندی کی یہ اپیل اسرائیل نے کی ہے تاکہ وہ اپنے پھنسے ہوئے سپاہیوں کی گاڑیوں کو غزہ کی گلیوں سے نکال سکے جو ان کے لیے دلدل ثابت ہوا ہے اور جہاں اسرائیل کو اپنی فوجی گاڑیوں اور املاک کا بھاری نقصان ہوا ہے۔ غزہ کی گلیوں میں سیکڑوں صیہونی سپاہی اور درجنوں فوجی گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں۔ عبرانی زبان کے چینلوں نے اب یہ خبریں دینی شروع کی ہیں کہ آج مزاحمتی فورسیس کی جانب سے بڑی تعداد میں گھات لگائے گئے ہیں۔ یہ دراصل جہاد کی یا شہادتوں کی فتح ہے۔ ’اسرائیل اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے‘۔ اس عنوان سے عبرانی اخبار ہارٹز نے نامور صیہونی مصنف اری شاویت کا ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں ’’ ایسا لگتا ہے ہم اپنی معلوم تاریخ کے مشکل ترین لوگوں کا سامنا کر رہے ہیں، اور ان کے لیے اپنے حقوق کو پہچاننے اور قبضے کو ختم کرنے کے سوا کوئی حل نہیں ہے۔‘‘ اری شاویت نے اپنے مضمون کے آغاز میں لکھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایسے مقام سے آگے نکل گئے جہاں سے واپسی ممکن ہو اور ہوسکتا ہے کہ یہ اسرائیل کے لیے ممکن نہ رہے کہ وہ قبضہ ختم کرے ، آبادکاری بند کرے ، اورامن حاصل کرے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صیہونیت میں اصلاح اور جمہوریت کا تحفظ اور اس ملک میں لوگوں کو تقسیم سے روکنا مزید ممکن نہیں رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو اس ملک میں رہنے کا کوئی لطف نہیں ہے اور ہارٹز کے لیے لکھنے میں کوئی مزہ نہیں ہے اور ہارٹز کو پڑھنے کا کوئی ذوق نہیں ہے، اور ہمیں لازماً روجل الفر کی اس تجویز پر عمل کرنا چاہیے جو انہوں نے دو سال قبل دی تھی کہ ہم ملک چھوڑ دیں۔ اگر اسرائیلیت اور یہودیت تشخص کے اہم عنصر نہ ہوتے، اگر ہر اسرائیلی شہری کے پاس فارن پاسپورٹ ہوتا، نہ صرف تکنیکی پہلو سے بلکہ نفسیاتی پہلو سے بھی، تب یہ معاملہ ختم ہوگیا ہوتا۔ آپ کو اپنے دوستوں کو الوداع کہہ کر سان فرانسسکو ، برلن یا پیرس کا رخ کرنا ہوگا۔ وہاں سے، نئی جرمن انتہا پسند قوم پرستی کی سرزمین، یا جدید امریکی انتہاپسندانہ قوم پرستی کے مسکن سے کسی کو سکون سے دیکھنا چاہیے اور اسرائیلی ریاست کو اس کی آخری سانسیں لیتا ہوا دیکھنا چاہیے۔ یہودی جمہوری ریاست کو ڈوبتا ہوا دیکھنے کے لیے ہمیں تین قدم پیچھے ہٹنا ہوگا۔ اگر یہ مسئلہ فوری حل نہیں کیاگیا تو امکان ہے کہ ہم ایسے مقام پر پہنچ جائیں گے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔ اس بات کا ہنوز امکان ہے کہ قبضہ ختم ہو ۔ نئی بستیاں بسانے کا کام رک جائے۔ صیہونیت میں اصلاح لائی جائے، جمہوریت کو بچایا جائے اور ملک کو تقسیم کیا جائے۔ مضمون نگار آگے مزید لکھتے ہیں کہ میں نے نتن یاہو، لبرمین اور نئے نازیوں کی آنکھ میں انگلی ڈالی ہے تاکہ انہیں صیہونیت کے سراب سے بیدار کیا جاسکے۔ ٹرمپ ، کشنر ، بائیڈن ، بارک اوباما اور ہیلری کلنٹن وہ نہیں ہیں جو قبضے کو ختم کریں گے، نہ ہی اقوام متحدہ اور یوروپی یونین ہی نو آبادکاری کو روکیں گے، بلکہ اسرائیل کو بچانے کی قدرت رکھنے والی دنیا کی واحد طاقت خود اسرائیلی ہیں۔ یہ کام وہ ایک نئی سیاسی زبان کی تخلیق سے کرسکتے ہیں جو حقیقت کو تسلیم کرے اور اس بات کا اعتراف کرے کہ اس سرزمین میں فلسطینیوں کی جڑیں گہری ہیں۔
میں آپ سے یہاں اپنی بقا اور نہ مرنے کے لیے ایک تیسرے راستہ کی طرف دیکھنے کی خواہش کرتا ہوں۔ اخبار ہارٹز کے قلم کار نے تصدیق کی : اس وقت سے جب سے وہ فلسطین میں آئے ہیں، اسرائیلیوں نے تسلیم کیا کہ وہ صیہونی تحریک کے گھڑے ہوئے جھوٹ کا نتیجہ ہیں جس کے دوران انہوں نے پوری تاریخ کے میں یہودی کردار میں ہر طرح کے دھوکے کو برتا ہے۔ ہٹلر نے جِسے ’ہولوکاسٹ‘ کا نام دیا تھا، اس کا استحصال کرتے ہوئے اور مبالغہ آرائی کے ساتھ یہ تحریک دنیا کو اس بات پر قائل کرتی رہی کہ فلسطین ’’ارض موعود‘‘ (promised land)ہے اور مبینہ ہیکل مسجد اقصیٰ میں ہے۔ اس طرح، بھیڑیا، ایک بھیڑ کے بچے میں تبدیل ہو گیا جسے امریکی اور یورپی ٹیکس دہندگان کے پیسے سے دودھ پلایا گیا، یہاں تک کہ وہ ایٹمی عفریت بن گیا۔
مصنف نے مغربی اور یہودی ماہرین آثار قدیمہ سے مدد طلب کی، جن میں سب سے مشہور تل ابیب یونیورسٹی کے ’اسرائیل فلنسٹائن‘ ہیں، جنہوں نے تصدیق کی کہ ’ہیکل‘ بھی جھوٹ ہے اور پریوں کی کہانی ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور تمام کھدائیوں سے ثابت ہوا ہے کہ یہ ہزاروں سال پہلے مکمل طور پر غائب ہو گیا تھا، اور یہ بات بڑی تعداد میں یہودی حوالوں میں واضح طور پر بیان کی گئی ہے، اور بہت سے مغربی ماہرین آثار قدیمہ نے اس کی تصدیق کی ہے۔ ان میں سب سے آخری 1968 عیسوی میں، برطانوی ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر کیٹلن کابینوس تھیں، جو یروشلم میں برٹش اسکول آف آرکیالوجی میں کھدائی کی ڈائریکٹر تھیں۔ انہوں نے یروشلم میں کھدائی کی جنہیں مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی کے آثار کی موجودگی کے بارے میں ’’اسرائیلی خرافات‘‘ کے سامنے آنے کی وجہ سے فلسطین سے نکال باہر کیا گیا۔ جہاں میں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہیکل سلیمانی کا کوئی نشان نہیں ہے، وہیں میں نے یہ دریافت کیا کہ جسے اسرائیلی ’’سلیمان کے اصطبل کی عمارت‘‘ کہتے ہیں اس کا سلیمان یا اصطبل سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ ایک محل کا آرکیٹکچرل ماڈل ہے۔ فلسطین کے کئی خطوں میں اس طرح کی تعمیر عام ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ’کیتھلین کینیون‘ فلسطین ایکسپلوریشن فنڈ ایسوسی ایشن کی طرف سے یہ واضح کرنے کے لیے آئی تھیں کہ بائبل کے بیانیوں میں کیا بیان کیا گیا ہے، کیونکہ انہوں نے انیسویں صدی کے وسط میں ’’مشرق قریب‘‘ کی تاریخ کے حوالے سے برطانیہ میں زبردست سرگرمی دکھائی تھی۔
یہودی مصنف نے اس بات پر زور دیا کہ جھوٹ کی یہی وہ لعنت ہے جو اسرائیلیوں کا پیچھا کرتی ہے، اور یہ دن بہ دن ایک یروشلمی، خلیلی اور نابلسی کے ہاتھ میں ایک چاقو کی شکل میں ان کے منہ پرطمانچہ رسید کرتی ہے، یا جافا، حیفا، اور ایکر سے کمیونٹی پتھر یا بس ڈرائیور کے ذریعہ۔ اسرائیلیوں کو احساس ہے کہ فلسطین میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے، یہ بغیر لوگوں کی سرزمین نہیں ہے جیسا کہ انہوں نے جھوٹ بولا ہے۔ یہاں ایک اور مصنف ہے جو فلسطینی عوام کے وجود کو نہیں بلکہ اسرائیلیوں پر ان کی برتری کو تسلیم کرتا ہے، وہ (Gideon Levy) بائیں بازو کے صیہونی ہیں، جب وہ کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ فلسطینیوں کی فطرت باقی انسانیت سے مختلف ہے۔ ہم نے ان کی زمین پر قبضہ کیا اور ہم نے ان کے نوجوانوں کو طوائف اور نشہ باز کہا اور ہم نے کہا کہ چند سال گزر جائیں گے تو وہ اپنے وطن اور اپنی سرزمین کو بھول جائیں گے اور پھر ان کی نوجوان نسل نے 1987 کے انتفاضہ کا دھماکا کردیا۔ ہم نے انہیں جیلوں میں ڈال دیا اور کہا کہ ہم انہیں جیلوں میں بڑا کریں گے… برسوں بعد، جب ہم نے سوچا کہ انہوں نے سبق سیکھ لیا اور 2000 کی مسلح شورش کے نتیجے میں وہ ہمارے پاس واپس آجائیں گے۔ ہم ان کا سبزہ چٹ کرگئے اور زمین بھی نہ چھوڑی۔ اور ہم نے کہا کہ ہم ان کے گھروں کو گرا دیں گے اور کئی سالوں تک ان کا محاصرہ کریں گے۔ لیکن دیکھ لو کہ نتیجہ کیا نکلا؟ انہوں نے ہم پر حملہ کرنے کے لیے ناممکن کو ممکن بناتے ہوئے میزائیل بنالیے، محاصرے اور تباہی کے باوجود انہوں نے ایسا کر دکھایا۔
پھر ہم نے ان کے لیے ’علیحدگی کی دیوار‘ اور ’خاردار تاروں‘ کے ذریعے منصوبہ بندی شروع کی۔۔ اور دیکھو، وہ زمین کے اندر سے سرنگوں کے ذریعے ہمارے پاس آئے، یہاں تک کہ انہوں نے ہمارا بے تحاشا قتل کیا۔ ہم نے ان سے آخری جنگ اپنے ذہنوں سے لڑی پھر انہوں نے ہمارے سیٹلائٹ "آموس” پر قبضہ کر لیا اور ہمارے ہر گھر میں دھمکیاں اور خطرات نشر کر کے دہشت پھیلا دی، جیسا کہ اس وقت ہوا جب ان کے نوجوان اسرائیلی چینل-2 پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
غرض لب لباب یہ ہے جیسا کہ مصنف نے کہا ہے ’’ایسا لگتا ہے ہم تاریخ کے مشکل ترین لوگوں کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کے لیے اپنے حقوق کو پہچاننے اور قبضے کو ختم کرنے کے سوا کوئی حل نہیں ہے۔ مضمون کا عنوان بھی حقیقت پسندانہ ہے یعنی ’’اسرائیل اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔۔‘‘
مصنف: ایری شاویت ، ماخذ: عبرانی اخبار ہارٹز۔
(ترجمہ : محمد مجیب الاعلیٰ)
***
’’ایسا لگتا ہے کہ فلسطینیوں کی فطرت باقی انسانیت سے مختلف ہے۔ ہم نے ان کی زمین پر قبضہ کیا اور ہم نے ان کے نوجوانوں کو طوائف اور نشہ باز کہا اور ہم نے کہا کہ چند سال گزر جائیں گے تو وہ اپنے وطن اور اپنی سرزمین کو بھول جائیں گے اور پھر ان کی نوجوان نسل نے 1987 کے انتفاضہ کا دھماکا کردیا۔ ہم نے انہیں جیلوں میں ڈال دیا اور کہا کہ ہم انہیں جیلوں میں بڑا کریں گے… برسوں بعد، جب ہم نے سوچا کہ انہوں نے سبق سیکھ لیا اور 2000 کی مسلح شورش کے نتیجے میں وہ ہمارے پاس واپس آجائیں گے۔ ہم ان کا سبزہ چٹ کرگئے اور زمین بھی نہ چھوڑی۔ اور ہم نے کہا کہ ہم ان کے گھروں کو گرا دیں گے اور کئی سالوں تک ان کا محاصرہ کریں گے۔ لیکن دیکھ لو کہ نتیجہ کیا نکلا؟ انہوں نے ہم پر حملہ کرنے کے لیے ناممکن کو ممکن بناتے ہوئے میزائیل بنالیے، محاصرے اور تباہی کے باوجود انہوں نے ایسا کر دکھایا‘‘۔ (Gideon Levy)
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مئی تا 1 جون 2024