اسرائیلی انتخابات میں انتہاپسندوں کی کامیابی

نتن یاہوکی زیر قیادت اتحاد 32نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر۔فلسطینیوں کے لیے نئی آزمائش

مسعود ابدالی

تین سال کے دوران اسرائیل کے پانچویں پارلیمانی انتخابات یکم نومبر کو ہوئے۔ بار بار انتخابات کے موجودہ سلسلے کا آغاز جنوری 2019 میں ہوا۔ وجہ نزاع لازمی فوجی بھرتی کا قانون بنا اور اس معاملے میں وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو المعروف بی بی کے شریکِ اقتدار اتحادیوں کے درمیان کشیدگی اتنی بڑھی کہ حکومت تحلیل ہو گئی۔ یہ تنازعہ کیا ہے؟ اس کی تفصیل ہم اس سے پہلے ایک نشست میں تفصیل سے بیان کرچکے ہیں۔ مختصراً یوں سمجھیے کہ اسرائیل میں لازمی فوجی بھرتی کا قانون نافذ ہے جس کے تحت ہر اسرائیلی لڑکے کو 2 سال 8 ماہ اور لڑکی کو دو سال فوجی خدمات سر انجام دینی ہوتی ہیں۔ لازمی فوجی خدمت کے قانون سے قدامت پسند حریدی (Heridi) فرقہ یا Ultra-Orthodox Jews مستثنیٰ ہیں۔ حریدی خود کو توریت اور احکامات ربانی یا تلمود (Talmud) کا وارث سمجھتے ہیں اور ان کے یہاں ہر مرد کے لیے توریت و تلمود (فقہ) کی تعلیم فرض سمجھی جاتی ہے۔ درس و تدریس کے لیے مخصوص مدارس ہیں جہاں طلبہ ٹاٹ پر بیٹھ کر توریت حفظ کرتے ہیں۔ ان مدارس کو Yeshiva کہا جاتا ہے۔ Yeshiva کے معنی ہی ہیں زمین پر بیٹھنا۔ حریدیوں کا کہنا ہے کہ لازمی فوجی تربیت کے لیے مدراس سے 32 مہینے کی غیرحاضری تعلیم میں حرج کا سبب بنے گی جسے حریدی اپنے مذہبی معاملات میں مداخلت تصور کرتے ہیں۔
بی بی کی اتحادی اسرائیل مادر وطن وطن پارٹی (Yisrael Beitinu) کے سربراہ لائیبرمین کو حریدیوں کے لیے فوجی خدمت سے استثنےٰ پر شدید اعتراض تھا۔ ان کے خیال میں ایک فرقے سے خصوصی برتاو، دوسروں سے ناانصافی ہے۔ چنانچہ انہوں نے 2019 کے آغاز پر فوجی خدمت سے حریدیوں کا استثنیٰ ختم کرنے کے لیے ایک قانون متعارف کروادیا۔ اس ’جسارت‘ پر حریدی ربائی (علما) سخت مشتعل ہو گئے اور ان کی دونوں جماعتوں یعنی شاس اور توریت پارٹی نے دھمکی دی کہ اگر بی بی نے بل کی حمایت کی تو وہ حکومت سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ بی بی کو اس وقت پارلیمان کے 73 ارکان کی حمایت حاصل تھی جن میں شاس اور توریت جماعت کے 13 ارکان بھی شامل تھے۔ ان دو جماعتوں کے بغیر 120 رکنی کنیسہ (پارلیمنٹ) میں واضح اکثریت برقرار رکھنا ممکن نہ تھا۔ بی بی نے اپنے متحارب حلیفوں کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن دونوں ہی اپنی بات پر اڑے رہے چنانچہ وزیر اعظم نے صدر سے کنیسہ تحلیل کرنے کی درخواست کردی اور 9 اپریل 2019 کو نئے انتخابات ہوئے۔
انتخابات کا اعلان ہوتے ہی جناب لائیبر مین نے صاف صاف کہا کہ حکومت سازی کے لیے وہ صرف اسی جماعت کی حمایت کریں گے جو ان کے بل کی حمایت کا پیشگی وعدہ کرے۔ اس ضمن میں حریدیوں کا موقف بھی بالکل بے لچک تھا اور توریت جماعت کے سربراہ موسٰی گیفنی نے اپنا یہ عزم دہرایا کہ بل کس قیمت پر منظور نہیں ہونے دیا جائے گا۔
نئے انتخابات کے نتائج نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے۔ مقررہ آئینی مدت میں کوئی بھی جماعت حکومت نہ بنا سکی، چنانچہ صدر نے نو زائیدہ اسمبلی تحلیل کر دی اور 17 ستمبر کو نئے انتخابات ہوئے۔
نئے انتخابات کے نتائج بھی ویسے کے ویسے ہی تھے۔ وہ ایوان بھی کھلنے سے پہلے مرجھا گیا اور 2 مارچ 2020 کو تیسرے انتخابات منعقد ہوئے۔ اس بار بھی معلق کنیسہ وجود میں آیا لیکن بی بی نے اپنے مخالف نیلے اور سفید یا B&W اتحاد کو شراکت اقتدار کا جھانسہ دے کر مخلوط حکومت بنالی۔ اس دوران نتن یاہو اور ان کی اہلیہ کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات میں تیزی آگئی۔ بربنائے عہدہ بی بی کو پیشی اور پوچھ گچھ سے استثنیٰ حاصل رہا۔
شراکت اقتدار معاہدے کے تحت نومبر 2020 میں B&W کے سربراہ کو وزیر اعظم بننا تھا۔ بی بی کی کوششوں سے ان کے سیکیولر و قوم پرست اتحادیوں نے فوجی تربیت سے حریدیوں کا استثنیٰ ختم کرنے میں دلچسپی نہیں لی لیکن وزیر اعظم کا استثنی مزید موثر بنانے کے لیے قانون سازی سے بھی انکار کر دیا۔ ساتھ ہی استغاثہ نے سپریم کورٹ کے روبرو موقف اختیار کیا کہ موجودہ قانون کے تحت وزیر اعظم کو اصالتاً (in person) حاضری سے استثنیٰ تو حاصل ہے لیکن سنگین الزامات پر مقدمہ چل سکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے قانونی سقم کے حوالے سے وکلائے صفائی کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم کے خلاف مقدمے کی کارروائی شروع کر دی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اصالتاً حاضری سے استثنیٰ وزیر اعظم کا حق نہیں بلکہ رخصت، عدالت کی توثیق سے مشروط ہے۔ پہلی حاضری کے بعد سے کرونا کا بہانہ بنا کر بی بی ایک بار بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔وزیر اعظم کے وکلا نے بی بی کو متنبہ کیا کہ اگر B&W سے شرکت اقتدار کے معاہدے کے تحت نومبر میں انہوں نے وزرات عظمیٰ چھوڑی تو عدالت سے ان کی گرفتاری کا حکم جاری ہو سکتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے B&W کو دھمکی دی کہ اگر استثنا کے قانون میں ترمیم کر کے وزیر اعظم کے ساتھ سابق وزیر اعظم کو بھی تحفظ دے کر اسے ناقابل دست اندازی عدالت نہ بنایا گیا تو وہ حکومت تحلیل کر دیں گے۔ آخر کار سانجھے کی یہ ہنڈیا پھوٹ ہی گئی۔
چوتھے انتخابات گزشتہ برس 23 مارچ کو منعقد ہوئے۔ اس بار بھی کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کر سکی اور صورتحال کچھ یہ ہوئی کہ بی بی کے لیکوڈ اتحاد اور ان کے مذہبی حلیفوں کی مجموعی نشستیں 52 اور ان کے مخالفین کا پارلیمانی حجم 51 تھا۔ یمینیہ (دایاں بازو) پارٹی کو سات نشستیں ملیں۔ مول تول اور سودے بازی کے بعد یمینیہ نے بی بی مخالف اتحاد سے معاہدہ کر لیا جس کے سربراہ Yesh Atid یا مستقبل پارٹی کے یار لیپڈ Yair Lepid تھے۔ یمینیہ کے ساتھ آ جانے کے بعد بھی حکومت سازی کے لیے 61 کا عدد پورا نہ ہوا اور ایوان وزیر اعظم کی کنجی 10 نشستوں والےعرب اتحاد کے پاس آگئی۔ یہ اتحاد دو دھڑوں پر مشتمل تھا۔ جوائنٹ لسٹ جس کے پاس 6 نشستیں تھیں اور 4 نشستوں والی اخوانی فکر کی حامل رعم۔عربوں کو اپنے ساتھ ملانے والا غدار کہلاتا اس لیے بی بی اور ان کے مخالف مسٹر لیپڈ عربوں کے سائے سے بھی دور رہے۔ لیکن لیلےٰ اقتدار کا عشق قومی پرستی پر غالب آگیا اور یارلیپڈ نے رعم سے اتحاد کر کے حکومت بنالی۔ طئے یہ پایا کہ آدھی مدت یمینیہ کے نفتالی بینیٹ وزیر اعظم ہوں گے اور اگست 2023 میں شمعِ اقتدار یار لیپڈ کے سامنے رکھ دی جائے گی۔ جوڑ توڑ کے بعد رعم کو ملا کر بھان متی کے اس کنبے کو 120 کے ایوان میں 61 ارکان کی حمایت حاصل ہو گئی تھی۔ بھان متی اس لیے کہ اتحاد میں ربائی (ملا) مخالف اسرائیل مادرِ وطن پارٹی، بائیں بازو کی لیبر اور دائیں بازو کی یمنیہ کے ساتھ عربوں کی رعم بھی شامل تھی۔
اتحاد میں دراڑ کا آغاز اس سال اپریل میں Passover کے تہوار سے شروع ہوا۔ یہ اس عظیم واقعے کی یادگار ہے جب سمندر کو پھاڑ کر اللہ نے حضرت موسیٰ کی قیادت میں بنی اسرائیل کو بحر قلزم سے بحفاظت گزار کر ان کے سامنے فرعون اور اس کے پورے لشکر کو انتہائی ذلت کے ساتھ غرق کر دیا تھا۔ یہ واقعہ عبورِ عظیم Passover کہلاتا ہے۔
تہوار پر خصوصی عبادت کے ساتھ لذتِ کام و دہن کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ ہسپتال کے مریضوں اور مسافروں میں کھانے تقسیم ہوتے ہیں۔ یہودیوں کے یہاں کھانے پینے کے ضابطے اور پابندیاں خاصی سخت ہیں۔ اس تہوار پر حمص (Chametz) بہت مقبول ہے جو چنے کے آٹے سے بنایا جاتا ہے۔ فلسطینی حمص تو آٹے کو پانی میں گوندھ کر براہ راست بنایا جاتا ہے لیکن اسرائیلی، ذائقے کو خمیری بنانے کے لیے آٹے کو گوندھ کر ایک دن چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسرے دن اس آٹے کی روٹیاں بنالی جاتی ہیں۔ یہودی علما کے نزدیک خمیر ایک نشہ آور چیز ہے جو ان کی شریعت میں حرام ہے۔ روایت کے مطابق مصر میں حمص روٹی بنانے کا یہی طریقہ تھا لیکن جب Passover کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حکم پر یہودیوں نے ہجرت کی تو جلدی کی وجہ سے وہ آٹے کو خمیر نہ کر سکے اور تازہ آٹے کی روٹیاں بنالیں۔ علما نے اس کی یہ تعبیر پیش کی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اطاعت کے علاوہ نشے سے پرہیز بھی اللہ کی رضا کا سبب بنا جس کی وجہ سے ان پر وہ رحمت نازل ہوئی۔ اسی بنا پر Passover کی تقریبات میں یہودی حمص استعمال نہیں کرتے۔ اس بار حکومت کی جانب سے تہوار کے موقع پر جو کھانا تقسیم کیا گیا اس میں حمص بھی شامل تھا۔
قدامت پسندوں کو یہ شکایت بھی ہے کہ عبادت گاہوں میں خواتین اور مردوں کا علیحدہ انتظام مناسب نہیں ہے جس کی وجہ سے دیوارِ گریہ سمیت یہودی معبدوں میں اختلاطِ مردوزن قابل اعتراض حد پر آگیا ہے۔
یمینیہ کی ایک رہنما محترمہ ایدت سلیمان کو حمص کی تقسیم اور عبادت گاہوں میں اختلاطِ مردوزن پر حلقہ انتخاب کی جانب سے سخت دباو کا سامنا تھا اور معاملہ طنرو تنقید سے راہ چلتے فحش گالیوں اور ہلکے پھلکے دھول دھپے تک پہنچ گیا۔ اسکول جاتے ہوئے ان کے بچوں کو بھی ڈرایا دھمکایا جا رہا تھا۔ گھر کے آگے اشتعال انگیز مظاہرے کے ساتھ ان کے شوہر سے دفتر میں بدتمیزی کی گئی۔
اسی کے ساتھ ایک اور تنازعہ بھی اٹھ کھڑا ہو۔ امریکی وزیر خارجہ کے حالیہ دورے میں تقریر کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم نے فلسطینیوں کے علاقے کو دریائے اردن کا مغربی کنارہ کہہ دیا۔ یہودیوں کے یہاں یہ علاقہ یہودا والسامرہ (Ezor Yehuda VeShomron) کہلاتا ہے۔ قدامت پسندوں کا خیال ہے کہ مغربی کنارہ کہہ کر نیفتالی صاحب نے اسے مقبوضہ عرب علاقہ تسلیم کر لیا ہے جبکہ یہ اسرائیل کا اٹوٹ انگ ہے۔
محترمہ ایدت پر دباو اتنا بڑھا کہ انہوں نے وزیر اعظم کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔چنانچہ 120 کے ایوان میں وزیر اعظم کے ووٹ 60 ہو گئے جبکہ اکثریت کے لیے 61 ووٹ درکار ہیں۔ تاہم تیکنیکل نکتے نے جناب نیفتالی بینیٹ کو بچا لیا۔ ضابطے کے مطابق اعتماد کے ووٹ کا حکم جاری کرنا اسپیکر کا صوابدیدی اختیار ہے اور اسپیکر ان کی پارٹی کا ہے۔ حزب اختلاف صرف عدم اعتماد کے ذریعے وزیر اعظم سے جان چھڑا سکتی ہے جس کے لیے 61 ووٹ درکار ہیں۔ محترمہ عیدت نے اعلان کیا تھا کہ اگر اعتماد کا مرحلہ آیا تو وہ حکومت کی حمایت نہیں کریں گی لیکن عدم اعتماد کی تحریک میں وہ غیر جانب دار رہیں گی۔
کچھ دنوں بعد مقبوضہ عرب علاقوں میں نئی اسرائیلی بستیوں کے قیام پر ایک نیا تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا۔ بائیں بازو کی لیبر پارٹی کا خیال ہے کہ نئی بستیوں کے قیام سے امن کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ لہذا یہ سلسلہ معطل کر دیا جائے۔ اس بات پر یمینیہ کے ایک اور قدامت پسند رکن پارلیمنٹ نیر اوبیک Nir Orbach سخت مشتعل ہو گئے اور کہا کہ اگر نئی آبادیوں کا فیصلہ معطل نہ ہوا تو حکومت کو خدا حافظ۔ نیر صاحب کی اس بات پر لیبر پارٹی کی سربرہ موراو میکائیلی Merav Michaeli برہم ہو گئیں اور کہا کہ نیفتالی جی فیصلہ کر لیں، اگر وہ نیر کے ناز اٹھانا چاہتے ہیں تو حکومت کو سرخ سلام۔ صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بی بی نے دھمکی دے دی کہ کینسہ کے اگلے اجلاس میں وہ عدم اعتماد کی تحریک لے آئیں گے۔ ہزیمت سے بچنے کے لیے نیفتالی بینیٹ اور یار لیپڈ نے تحلیلِ پارلیمنٹ کی قرارداد پیش کر دی۔
جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے عرض کیا تھا کہ اسرائیلی رائے عامہ کی مذہبی و نظریاتی بنیادوں پر تقسیم بہت واضح ہے۔ اسرائیلی کنیسہ (پارلیمنٹ) 120 نشستوں پر مشتمل ہے اور گزشتہ پانچ انتخابات میں کوئی بھی جماعت 36 سے زیادہ نشستیں نہ لے سکی۔
اسرائیلی سیاست پانچ واضح گروہوں بلکہ رجواڑوں پر مشتمل ہے:
بی بی کی قیادت میں دائیں بازو کا لیکوڈ اتحاد
یہودی ربائی
عرب مسلم اتحاد
قوم پرست
بایاں بازو اور لبرل قوتیں
عرب اتحاد کی حیثیت ہندوستان کے دلتوں کی سی ہے کہ کوئی جماعت انہیں منہ نہیں لگاتی۔ اسرائیل میں 1967 کے بعد ہتھیائے گئے علاقے کے لوگ قانونی طور پر ‘پناہ گزین’ سمجھے جاتے ہیں جو اسرائیلی شہریت کے حق دار نہیں لیکن قیام اسرائیل یعنی 1947 کے وقت جو عرب، یروشلم اور اسکے مضافات میں آباد تھے انہیں اسرائیلی شہری تسلیم کر لیا گیا۔ اسرائیل کی کل آبادی میں ایسے عربوں کا تناسب 25 فیصد کے قریب ہے جن میں 21 فیصد مسلمان اور باقی ماندہ 4 فیصد مسیحی اور دروز ہیں۔
حسبِ سابق اس بار بھی 39 جماعتوں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ مسلمان اور عربوں کا حداش اتحاد، سیکیولر عرب تنظیم بلد اور اخوانی فکر سے وابستہ رعم پارٹی نے بھی قسمت آزمائی کی۔ گزشتہ انتخابات میں حداش نے 5 رعم نے 4 اور بلد نے ایک نشست حاصل کی تھی۔
حالیہ انتخابات کی انتہائی اہم بات مسلمان اور عرب ووٹروں کی مایوسی تھی۔ اسرائیلی کی تاریخ میں پہلی بار عرب شریکِ اقتدار ہوئے تھے لیکن معاملہ یہ تھا کہ
ذکرِ حسین پر وہی پابندیاں رہیں
ذاکر حسین راشٹر پتی بن گئے تو کیا
فلسطینیوں کے خلاف امتیازی سلوک میں مزید شدت آ گئی۔ غزہ پر بمباری معمول کے مطابق رہی۔ اسرائیلی بستیوں کے قیام کا سلسلہ جاری رہا۔ عربوں کی بے دلی کا عملی مظاہرہ انتخاب کے دن ہوا جب ان کی آبادیوں میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 30 فیصد سے بھی کم رہا۔ اس کے مقابلے میں انتہا پسند عناصر کا جوش و خروش مثالی تھا جس کے نتیجے میں 70.61 فیصد ووٹ ڈالے گئے جو ایک ریکارڈ ہے۔ اسرائیل میں انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ لوگ صرف پارٹیوں کے انتخابی نشان پر ٹھپہ لگاتے ہیں اور مجموعی ووٹوں میں ہر جماعت کے حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے اسے نشستیں عطا کر دی جاتی ہیں۔ جو جماعت مجموعی ووٹوں کے 3.5 فیصد سے کم ووٹ حاصل کرے اسے دوڑ سے باہر کر دیا جاتا ہے۔
نتائج کے مطابق بی بی کا لیکوڈ اتحاد 32 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہا اور یار لیپڈ کی آزاد خیال مستقبل پارٹی نے 24 نشستیں حاصل کیں۔ دینِ صیہون یا Religious Zionist 14 کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔ ان میں سے 6 نشستیں اس کی اتحادی عزمِ یہود (Otzma Yehudit) کی ہیں۔ حریدیوں کی شاس پارٹی نے 11 اور جماعت تویت نے 7 نشستیں حاصل کیں۔ شاس ‘پاسبانِ تویت’ کا عبرانی مخفف ہے۔ سابق وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ کی یمینیہ اور عربوں کی بلد کم سے کم ووٹ حاصل کرنے کی شرط پوری نہ کر سکی۔ عرب اتحاد حداش اور اسلامی خیال کی رعم نے پانچ پانچ نشستیں حاصل کیں۔
انتہا پسند مذہبی جماعتیں سب سے بڑا پارلیمانی گروپ بن کر ابھری ہیں جن کا مجموعی حجم 32 ہے اور اتنی ہی نشستیں انتہا پسند بی بی نے حاصل کی ہیں۔ گویا پارلیمنٹ میں بی بی اور اس کے مذہبی اتحادیوں کی تعداد 62 ہے جبکہ حکومت سازی کے لیے 61 کی ضروت ہے۔
نئی حکومت میں مذہبی جماعتیں بی بی کی برابر کی شراکت دار ہوں گی۔ عزم یہود کے سربراہ اتامار بن گوو (Itmar Ben Givr) پر دہشت گردی اور مذہبی منافرت پھیلانے کے کئی مقدمات قائم ہو چکے ہیں۔ انہوں نے سابق اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن کو قتل کی دھمکی دی تھی جس کے ایک ہفتے بعد جناب رابن قتل کردیے گئے تھے۔ اتامار علی الاعلان امریکی دہشت گرد باروش گولڈاسٹائین (Baruch Goldstein) کو ہیرو اور اسرائیل کا نجات دہندہ قرار دیتے ہیں۔ امریکی اور اسرائیلی شہریت کے حامل گولڈاسٹائین نے فلسطینی شہر ہیبرون کی ایک مسجد میں 29 نماز ادا کرتے ہوئے مسلمانوں کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔ اتامار کھلے عام کہتے ہیں کہ سلطنتِ اسرائیل کی سرحد دجلہ و فرات تک ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ بنی قریظہ کے قتل کو نسل کشی قرار دیا جائے اور سعودی حکومت اس پر معافی مانگے۔شاس، جماعتِ توریت، عزمِ یہود اور دینِ صیہون چاروں مقبوضہ عرب علاقوں کے اسرائیل سے الحاق اور یہاں آباد فلسطینیوں کو مصر اور اردن دھکیل دینے کے حامی ہیں۔
انتہا پسندوں کی کامیابی سے جہاں فلسطینی حقارت آمیز سلوک اور قتل عام میں شدت آنے کا خدشہ محسوس کر رہے وہیں عام اسرائیلی بھی خوف زدہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف انتقامی کارروائی کا ردعمل عام اسرائیلیوں کو بھگتنا ہو گا۔ لبرل و آزاد خیال عناصر خاص طور سے خواتین کو ڈر ہے کہ قدامت پسند حکومت ان کی شہری آزادیوں پر قدغنیں لگائے گی۔ اسرائیلی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ بی بی کے لیے اتنی بڑی تعداد میں ملاوں (ربائیوں) کو ساتھ لے کر چلنا آسان نہ ہو گا۔ سیانے کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومت بھی بہت دن چلنے والی نہیں۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)

 

***

 انتہا پسندوں کی کامیابی سے جہاں فلسطینی حقارت آمیز سلوک اور قتل عام میں شدت آنے کا خدشہ محسوس کر رہے وہیں عام اسرائیلی بھی خوف زدہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف انتقامی کارروائی کا ردعمل عام اسرائیلیوں کو بھگتنا ہو گا۔ لبرل و آزاد خیال عناصر خاص طور سے خواتین کو ڈر ہے کہ قدامت پسند حکومت ان کی شہری آزادیوں پر قدغنیں لگائے گی۔ اسرائیلی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ بی بی کے لیے اتنی بڑی تعداد میں ملاوں (ربائیوں) کو ساتھ لے کر چلنا آسان نہ ہو گا۔ سیانے کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومت بھی بہت دن چلنے والی نہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 نومبر تا 19 نومبر 2022