اسراء و معراج :معجزہ اور مقاصد

سفرِ معراج رسول اللہ ﷺ کے لیے انعام اور عظیم کامیابیوں کی بشارت

ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد

معجزات، سائنسی اصول و ضوابط اور زمان و مکان کے حدود و قیود سے پرے ہونا ممکن
رسول خدا حضرت محمد ﷺ کے تین معجزات ہیں جو قرآن میں مذکور ہیں۔سب سے بڑا معجزہ خود قرآن ہے جو قیامت تک انسانوں کو عاجز کرتا رہے گا کہ کوئی بھی اس کی چھوٹی سی سورت جیسا کلام بنانے پر کبھی قادر نہیں ہو سکتا۔ رسول اللہ ﷺ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن یکایک ۴۰ سال کی عمر میں قرآن جیسے عظیم الشان کلام کو عربوں کے سامنے پیش کیا جن کو اپنی زبان پر بڑا فخر تھا۔ اس کو قرآن کے من جانب اللہ ہونے کے ثبوت کے طور پر اس طرح پیش کیا گیا: وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ ۔(اے نبیؐ) تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑ سکتے تھے۔ (سورۃ العنکبوت ۴۸)
قرآن خود اپنے اعلیٰ مضامین، زورِ بیان اور اسلوب میں بیّن ثبوت ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ دوسرا معجزہ شق القمر ہے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ احادیث میں اس کی تفصیل اس طرح آئی ہے کہ جب چاند شق ہو کر دو ٹکڑے ہوکر دو مخالف سمتوں میں چلا گیا تو اس وقت رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو متوجہ کیا کہ دیکھو! اللہ کے حکم سے چاند کے دو ٹکڑے ہوئے۔ اس کو قیامت کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے چاند کے ٹکڑے کیے اسی طرح وہ اس کائنات کا نظام بھی درہم برہم کر کے ایک دوسرا عالم بر پا کر سکتا ہے۔ تیسرا معجزہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اپنی نشانیاں دکھانے کے لیے راتوں رات مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک لے گیا اور پھر آپ کو آسمانی سفر کروایا گیا یہاں تک کہ سدرۃ المنتہیٰ تک آپ کی رسائی ہوئی اور پھر اللہ تعالیٰ سے آپ ہم کلام ہوئے۔ مسجدِ حرام سے مسجد ِ اقصیٰ تک کے سفر کو اسریٰ کہا جاتا ہے اور پھر وہاں سے عالمِ بالا کے سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔
اسلام کے معترضین نے اسریٰ و معراج کو اپنے اعتراضات کا اہم موضوع بنایا ہے۔ ان کا اعتراض یہ تھا کہ ایک ہی رات میں یہ سفر کیسے ممکن ہے۔ مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کی مسافت ۱۵۰۰ کلو میٹر کے آس پاس ہے۔ اس کے بعد جو آسمانی سفر ہوا وہ طبعی قوانین کے تحت نا ممکن ہے۔ روشنی کی رفتار ایک لاکھ ۸۶ ہزار میل فی سیکنڈ ہے۔اس رفتار سے ایک کہکشاں سے دوسری کہکشاں تک سفر کرنے کے لیے ہی کئی ملین سال لگ جاتے ہیں۔ سائنس داں کہتے ہیں کہ مادی جسم کا روشنی کی رفتار سے سفر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کچھ لوگوں نے اس سارے سفر کو خواب سے تعبیر کیا اور وہ قرآن سے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ سورۃ بنی اسرائیل آیت ۶۰ میں اسراء و معراج کے واقعہ کو الرُّؤيَا کہا گیا جس کے معروف معنی خواب کے ہیں۔کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ سفر روحانی ہو سکتا ہے اس لیے کہ روح آناً فاناً زمین سے آسمان اور آسمان سے زمین تک نقل وحرکت کرتی ہے۔ مفسرین کی اکثریت یہ رائے رکھتی ہے کہ یہ ایک معجزہ تھا اور اس معجزہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو بیداری کی حالت میں جسم و روح کے ساتھ سفر کروایا تھا۔ سورۃ بنی اسرائیل کا آغاز جس انداز سے ہوا وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے معجزاتی طور پر یہ سفر کروایا ہے۔ اس آیت میں یہ فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ پاک ہے یعنی وہ ان تمام حدود سے پاک ہے جو اس کی قدرت کو محدود کر سکتے ہوں۔ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ ۔ (ہر عیب سے) پاک ہے وہ ذات جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔ (سورۃ بنی اسرائیل ۱) جب ہم اس واقعہ کو معجزہ تسلیم کرلیں تو وہ تمام بحثیں ختم ہو جاتی ہیں جو اس سفر سے متعلق پیدا ہوتی ہیں۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی اطلاقی شان کو مانتے ہیں وہ معجزات کو بھی مانیں گے۔ معجزات کی سائنسی توجیہ کرنا معجزہ اور سائنس دونوں کے ساتھ نا انصافی ہے۔ معجزہ کہتے ہی اس کو ہیں جو عقل کو عاجز کر دے اور جس کی سائنسی توجیہ نہ کی جا سکے۔ اس لیے جو معجزات ہیں ان کو معجزات ہی رہنے دینا چاہیے ان کی سائنسی توجیہ نہیں کرنا چاہیے جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی سانپ بن گئی تھی۔ اس واقعہ کی سائنسی توجیہ کسی حال میں نہیں کی جا سکتی۔ سوال یہ ہے کہ معجزات کا کیا مقصد ہے؟ معجزات کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ رسولوں کی رسالت کو ثابت کیا جائے۔ اللہ کی قدرت کو ثابت کرنے کے لیے معجزوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود کو ثابت کرنے کے لیے معجزات کی طرف نہیں بلکہ آفاق و انفس کی نشانیوں کی طرف متوجہ کیا ہے جیسے فرمایا: وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ۔اگر تم ان لوگوں سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند اور سورج کو کس نے مسخر کر رکھا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، پھر یہ کدھر سے دھوکا کھا رہے ہیں؟ (سورۃ العنکبوت ۶۱)
لیکن جب رسول لوگوں کے سامنے آتا ہے تو وہ ایک غیر معمولی دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ کا نمائندہ بن کر آیا ہے اور اپنے ساتھ اس کا پیغام لایا ہے۔اس غیر معمولی دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ایک غیر معمولی چیز لوگوں کے سامنے پیش کی جاتی ہے تاکہ رسول اپنے مقامِ رسالت کو منوا سکے۔جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے سامنے بھیجا گیا تو ان کو نشانیاں دے کر بھیجا گیا۔چنانچہ جب وہ فرعون کے دربار میں پہنچے تو کہا کہ وہ رب العالمین کی طرف سے رسول کی حیثیت سے بھیجے گئے ہیں ۔ اس کے بعد فرمایا: وَأَنْ لَّا تَعْلُوا عَلَى اللہِ إِنِّي آتِيكُم بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ۔اللہ کے مقابلے میں سرکشی نہ کرو۔ میں تمہارے سامنے (اپنی ماموریت کی) صریح سند پیش کرتا ہوں۔ (سورۃ الدخان ۱۹) معجزہ کو اللہ کی نشانی (آیت) کہا گیا جو ایسی چیز ہوتی تھی کہ جب لوگوں کے سامنے پیش کر دی جاتی تو وہ رسولوں کی رسالت کو ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ معجزے کو دیکھ کر بھی رسول کی رسالت کا انکار کرنا انبیائی تاریخ میں ایسا جرم قرار دیا گیا جس کی پاداش میں لوگوں پر اللہ کا عذاب نازل ہوا۔موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کو دیکھ کر ایمان نہ لانے پر فرعون اور اس کی قوم کو غرق کر دیا گیا۔ پہاڑ میں سے اونٹنی کے نمو دار ہونے کو معجزہ بنایا گیا جس کے انکار پر قومِ ثمود پر عذاب نازل ہوا۔
جو لوگ اللہ تعالیٰ کے وجود کو مانتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی لامتناہی قدرت کو بھی مانتے ہیں۔ ان کے لیے معجزات کو تسلیم کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ جو لوگ خدا اور مذہب کو نہیں مانتے وہ معجزات کا اس لیے انکار کرتے ہیں کہ خدا کے وجود کی اور معجزات کی سائنسی توجیہ نہیں کی جا سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کئی ایسی چیزیں موجود ہیں جن کو سائنسی مشاہدات و تجربات سے ثابت نہیں کیا جا سکتا جیسے جادو کے فن سے نظروں پر جادو کر دینا۔ کوانٹم میکانکس جدید سائنس کا ایسا شعبہ دریافت ہوا ہے جو روایتی سائنس سے بالکل مختلف ہے۔ جب حرکیات کے قوانین کو ایٹم یا اس سے بھی چھوٹے ذرات پر لاگو کرنے کی کوشش کی گئی تو نتائج حیرت انگیز طور پر غیر متوقع اور مختلف حالتوں میں مختلف پائے گئے۔ پہلی مرتبہ سائنس دانوں نے سائنسی علوم کی محدودیت کو تسلیم کیا۔ جو لوگ دیدۂ بینا اور عقل سلیم رکھتے ہیں وہ سب سے پہلے خالقِ کائنات کو تسلیم کرتے ہیں جو نظر تو نہیں آتا لیکن اپنی تخلیق کے کمالات کے ذریعے ہر آن اپنے وجود کو ثابت کرتا رہتا ہے۔ حواسِ خمسہ سے ماوراء ایک عالمِ غیب ہے جس کا عقل سلیم انکار نہیں کر سکتی۔ ان غیبی امور کی تفصیل وحی کے ذریعے سے معلوم ہوتی ہے۔عقل یہ مانتی ہے کہ اس کائنات کا خالق ضرور ہونا چاہیے لیکن عقل یہ جان نہیں سکتی کہ اس خالق کی صفات کیا ہیں اور مقصدِ تخلیق کیا ہے؟ وحی کا علم قطعی طور پر غیبی علوم پر پڑے ہوئے پردہ کو فاش کرکے بتا دیتا ہے کہ اس کائنات کی حقیقت کیا ہے؟ وحی کا علم ذاتی اکتساب یا مراقبہ سے نہیں بلکہ رسولوں کے ذریعے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ علم وحی سے یہ معلوم ہوا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے دو طریقے اختیار فرمائے ہیں۔ ایک طریقہ ہے اسباب کا اور دوسرا ہے اذن سے۔ سانپ کا انڈے سے پیدا ہونا اسباب کے تحت ہے لیکن اگر وہ لکڑی (عصائے موسیٰ) سے وجود میں آجائے تو یہ اللہ کے اذن سے ہوتا ہے۔ دونوں حالتوں میں فاعل اللہ ہی ہے۔ ایک چیز جو اسباب کے تحت پیش آتی ہو تو وہ معمول بن جاتی ہے۔ ایک بے جان بیج کو جب زمین میں دفن کر دیا جاتا ہے تو زمین کی رطوبت کے سبب اس کا جان دار بن کر زمین پھاڑ کر نکلنا غیر معمولی واقعہ ہونے کے باوجود معمولی واقعہ بن جاتا ہے محض اس لیے کہ وہ ہر روز مشاہدے میں آتا ہے۔ لیکن اگر یہ خبر دی جائے کہ ایک دن مردے زمین پھاڑ کر اپنی قبروں سے نکل آئیں گے تو یہ خبر ناقابل ِیقین محسوس ہوتی ہے محض اس لیے کہ اس کا اب تک مشاہدہ نہیں کیا گیا۔اسباب کے تحت ایک نطفہ سے انسان کی تخلیق کا عمل شروع ہوتا ہے اور نو ماہ کے بعد ایک نو زائیدہ بچے کی صورت میں ماں کے پیٹ سے اس کا جنم ہوتا ہے۔ لیکن روح ماں کے پیٹ میں استقرارِ حمل کے چار ماہ بعد اللہ کے اذن سے فرشتے کے ذریعے انسانی جسم میں ودیعت کی جاتی ہے۔روح کے بارے میں فرمایا گیا: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً یہ لوگ تم سے رُوح کے متعلق پُوچھتے ہیں۔ کہو ”یہ رُوح میرے رب کے حکم (امر) سے آتی ہے مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایا ہے۔“ (سورۃ بنی اسرائیل ۸۵) یعنی انسانی جسم و جان اسباب کے تحت بتدریج وجود میں آتا ہے لیکن روح، اللہ کے حکم (اذن) سے ایک لمحہ میں ودیعت کی جاتی ہے جس سے انسان کا شعوری سفر شروع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کائنات کو اسباب وعلل کے تحت چلا رہا ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اسباب کے بغیر اپنے اذن سے بعض امور کو انجام دے۔ معجزات، اسباب وعلل کے بر خلاف حکم خداوندی (اذن) سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ یہ کائنات اسباب وعلل کے اصول پر طبعی قوانین کے تحت کیوں چل رہی ہے؟ یہ کائنات اسباب و علل اور طبعی قوانین کے تحت اس طرح چل رہی ہے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اس کا کوئی چلانے والا نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کا منشا یہ تھا کہ خود کو پردہ غیب میں رکھ کر انسان کی عقل کا امتحان لے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اللہ کی قدرت کی نشانیوں کو دیکھ کر اپنے خالق کو پہچانے۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ انسان ان طبعی قوانین کو دریافت کرکے نئی نئی ایجادات کر کے متمدن زندگی گزارے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان قوانین کا پابند نہیں ہے وہ چاہے تو اپنے اذن سے کچھ بھی کر سکتا ہے جیسے اس نے اپنے اذن سے حضرت ابراھیم علیہ السلام کے لیے آگ کو ٹھنڈی کر کے سلامتی والی بنا دیا۔اپنے اذن سے حضرت عیسی علیہ السلام ٰکو بچپن میں گویائی عطا فرمائی اور پختہ عمر میں مُردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ عطا کیا۔ معراج کا واقعہ بھی ایک معجزہ ہے جس کی سائنسی توجیہ نہیں کی جاسکتی۔ جس خدا نے محض ایک حکم سے اتنی وسیع و عریض کائنات بنائی ہے کیا وہ اپنے بندے کو اپنے اذن سے ایک لمحے میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک نہیں لے جا کر واپس نہیں لا سکتا؟ معراج کے واقعہ کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو کائنات کامشاہدہ کروایا جائے۔ رسول عین الیقین کی زمین پر کھڑے ہوکر اپنی قوم سے کلام کرتا ہے۔ رسول مشاہدہ کی روشنی میں کائنات کی حقیقتوں کو انسانوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اس لیے رسولوں کو کائنات کے امورِ غیبی کے مشاہدات کروائے جاتے ہیں۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مکہ میں رسول اللہ ﷺ کے لیے زمین تنگ کی جا رہی تھی۔ کچھ عرصہ کے بعد مدینہ کی طرف ہجرت ہونے والی تھی۔ فکری ونظریاتی میدان میں دعوتی جدوجہد کے بعد ہجرت و جہاد اور سیاسی قیادت کے مراحل پیش آنے والے تھے۔
سفرِ معراج کے اہم واقعات واسباق :
۱۔ معراج کا سفر اللہ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کے لیے انعام کا درجہ رکھتا تھا۔ آپ کی زندگی میں نبوت کا دسواں سال بہت اہم رہا۔اسی سال شعب ابی طالب میں محصوری کا تین سالہ دور ختم ہوا۔اسی سال آپ کے شفیق چچا ابو طالب اور غم گسار بیوی حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوا جس کی بنا پر اس کو عام الحزن (غموں کا سال) قرار دیا گیا۔ ابو طالب کی وفات کے بعد مکہ میں رسول اللہ ﷺ کی پشت پناہی ختم ہو چکی تھی۔آپ نے سوچا کہ مکہ سے باہر اسلام کے لیے حامی تلاش کیے جائیں۔اس امید پر آپ نے طائف کا رخ کیا لیکن طائف کا دعوتی سفر بہت تلخ ثابت ہوا۔ وہاں کے سرداروں نے آپ کا مذاق اڑایا، آپ کی دعوت کو جھٹلایا اور اوباش لونڈوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا جنہوں نے آپ کو پتھر مار مار کر لہولہان کر دیا۔ پھر آپ مطعم بن عدی کی امان میں مکہ واپس لوٹے۔ مکے میں آپ حج کے قافلوں میں جا جا کر دعوت الی اللہ کا فرض انجام دیتے رہے۔ اگلے سال ۱۱ نبوی کے اوائل میں مدینے کے چھ لوگ اسلام قبول کرتے ہیں۔ یہاں سے ہجرت کے امکانات پیدا ہونے لگے۔ اسی سال ۲۷ رجب کو اللہ تعالیٰ نے معراج کے سفر پر بلا کر آپ کو گویا یہ مژدہ سنایا کہ اب آپ کی زندگی میں غموں کے سال رخصت ہونے والے ہیں اور فتوحات اور کامیابیوں کے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔
۲۔ معراج کے واقعے کو جب اہل مکہ کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے اس واقعہ کو جھٹلایا اور آپ کا مذاق اڑایا۔آپ نے جھٹلانے والوں کے سامنے بیت المقدس کی منظر کشی کی اور روحاء کے علاقے میں مقیم تجارتی قافلے کی سرگرمیوں کی اطلاع دی۔ ایک اور قافلے کی آمد کی بھی خبر دی جو مکہ میں داخل ہونے والا تھا۔ ابو جہل بہت زور و شور سے بیت المقدس اور آسمانی سفر کو لوگوں کے سامنے پیش کر کے آپ کی نبوت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ حضرت ابوبکر کے سامنے اس واقعے کو پیش کر کے ان کے ایمان کو متزلزل کیا جائے۔ چنانچہ جب وہ تمسخرانہ انداز میں حضرت ابوبکرؓ کے سامنے یہ واقعہ بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ اگر اس کو محمد (ﷺ) نے اسی طرح پیش کیا جس طرح تم پیش کر رہے ہو تو میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ اس کے بعد ابوبکرؓ جو پہلے ابوبکر بن قحافہ کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے تھے ابوبکر الصدیقؓ کہلائے جانے لگے۔
۳۔ اس آسمانی سفر کے دوران آپؐ کی خدمت میں شراب اور دودھ کے دو پیالے پیش کیے گئے۔ آپ نے ان دونوں میں سے دودھ کے پیالے کا انتخاب کیا۔اس پر حضرت جبریل علیہ السلام نے بشارت دی کہ آپ فطرتِ سلیمہ پر قائم ہیں۔اسی فطرتِ سلیمہ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس طرح پیش کیا: یک سُو ہو کر اپنا رخ
اس دین کی سمت میں جما دو، قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی۔ (سورۃ الروم ۳۰)
۴۔ مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا سفر جب مکمل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس میں تمام انبیاء کو جمع فرمایا اور رسول اللہ ﷺ نے ان کی امامت کرتے ہوئے نماز پڑھائی۔اس سے ثابت ہوا کہ آپ سید المرسلین ہیں اور آپ کی شریعت کو حتمی اور کامل درجہ دیا گیا ہے اور پچھلی تمام شریعتیں منسوخ ہو چکی ہیں۔ روایات کے مطابق قربِ قیامت میں جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائیں گے تو شریعت محمدی پر عمل کریں گے۔
۵۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جب فلسطین فتح ہوا تو بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر ہوئی۔ پانچ صدیوں تک مسلمانوں کی وہاں حکومت رہی۔اس کے بعد مسلمانوں کی غفلت کے سبب صلیبیوں نے اس پر قبضہ کرلیا۔ ایک صدی کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے صلیبیوں سے آزاد کرایا۔بیت المقدس کو قبلۂ اول کا مقام حاصل ہے۔ سفرِ معراج کی ابتدا بھی بیت المقدس سے ہوئی تھی اور اس کا اختتام بھی وہیں ہوا۔ ۱۴۰۰ سال سے مسلمان اس مسجد کو آباد کیے ہوئے ہیں۔ ۷۰ عیسوی سے یہودیوں کے لیے بیت المقدس میں داخلہ بھی ممنوع تھا یہاں تک کہ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں یہودیوں کو بیت المقدس میں آنے جانے کی اجازت ملی۔ مسلمانوں کی فراخ دلی کا نا جائز فائدہ اٹھا کر سازش کے ذریعے ۱۹۴۸ء میں ایک نا جائز ریاست قائم کر کے فلسطینیوں پر آج تک ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔اہلِ فلسطین نے یہ عہد کیا کہ مسجد کی حفاظت میں وہ استقامت سے ڈٹے رہیں گے۔ چنانچہ اہلِ غزہ ۱۵ مہینوں سے قیامت خیز تباہی کا سامنا کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔وحشیانہ بمباری کے سبب بچے بڑے اپنی جانوں کے علاوہ اپنے اعضاء و جوارح سے بھی محروم ہو رہے ہیں لیکن استقامت سے ڈٹے ہوئے ہیں کہ آخری قطرۂ خون تک مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت کرتے رہیں گے۔
۶۔ معراج کے واقعہ سے نماز کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر کو وحی کے ذریعے نہیں بلکہ آسمانوں میں بلا کر نماز جیسی عبادت کو فرض کیا۔ تدریجاً ۵۰ نمازوں سے تخفیف کرتے ہوئے یومیہ ۵ نمازوں کو اس طرح فرض کیا گیا کہ ۵ نمازوں کا اجر ۵۰ نمازوں کے برابر کر دیا گیا۔
۷۔ معراج کی شب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو چند معاشرتی برائیوں کی عقوبتوں کا مشاہدہ کروایا۔ اس سفر میں آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ لوگ ان ناخنوں سے اپنے چہرے اور سینے کا گوشت نوچ رہے تھے۔ آپ نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ غیبت کرنے والے اور دوسروں کی عزتوں سے کھیلنے والے لوگ ہیں (ابو داؤد)۔ کچھ لوگ تھے جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو دوسروں کو تو نیکی کا حکم دیتے تھے لیکن خود عمل نہیں کرتے تھے۔ ایک شخص نہر میں تیر رہا تھا اور اس کے منہ میں پتھروں کا لقمہ دیا جا رہا تھا۔ اس کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ سود خور تھا۔
۸۔ معراج کی رات اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو تین تحفے عطا فرمائے۔ ایک ہے پانچ فرض نمازیں۔ دوسراتحفہ سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات ہیں۔ آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ اس کے بعد ایک دعا سکھائی گئی کہ جس میں بندہ دعا کرتا ہے کہ اے رب! ہم پر ہماری مقدرت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈال۔یہ اللہ کی بے پایاں رحمت ہے اپنے بندوں پر کہ وہ ہر ایک کی استطاعت کی رعایت رکھتے ہوئے اس سے باز پرس کرے گا۔ تیسرا تحفہ یہ ہے کہ جس بندہ کا ایمان شرک کی آلودگی سے پاک ہو گا اس کے بڑے بڑے گناہوں کو بھی معاف کر دیا جائے گا۔
۹۔حضرت عائشہؓ نے وضاحت کی کہ معراج میں آپ اللہ سے ہم کلام ہوئے لیکن اللہ کا دیدار نہیں کیا۔ سورۃ النجم اور سورۃ التکویر میں جس ہستی کو دیکھنے کی بات کہی گئی وہ حضرت جبرئیل ہیں جن کو اصلی حالت میں دیکھا گیا۔
۱۰۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ مختلف آسمانوں پر انبیاء و رسل سے ملاقاتیں کیں۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ دوسرے آسمان پر حضرت عیسی و حضرت یحیی علیہم السلام سے ملاقات ہوئی۔ تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام سے۔ چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے۔ پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔
۱۱۔ آپ نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو ان میں اکثریت غریب لوگوں کی تھی۔جب جہنم میں جھانک کر دیکھا تو وہاں عورتوں کی اکثریت تھی۔
بعض لوگ سوال کرسکتے ہیں کہ بیت المقدس تک کا زمینی سفر اور اس کے بعد آسمانی سفر جس میں کئی مشاہدات و ملاقاتیں ہوئیں اور پھر واپسی کا سفر کیسے ایک ہی رات میں ممکن ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ چاہے تو وقت کو سارے عالم کے لیے منجمد کر دے اور اپنے رسول کو تشفی بخش مشاہدات کروائے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت زماں و مکاں کی تمام حدود و قیود سے پاک ہے۔

 

***

 بعض لوگ سوال کرسکتے ہیں کہ بیت المقدس تک کا زمینی سفر اور اس کے بعد آسمانی سفر جس میں کئی مشاہدات و ملاقاتیں ہوئیں اور پھر واپسی کا سفر کیسے ایک ہی رات میں ممکن ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ چاہے تو وقت کو سارے عالم کے لیے منجمد کر دے اور اپنے رسول کو تشفی بخش مشاہدات کروائے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت زماں و مکاں کی تمام حدود و قیود سے پاک ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 جنوری تا 01 فروری 2025