اسمارٹ فون نسل نو کے لیے زہر ہلاہل سے کم نہیں

مناسب اور محدود استعمال درست لیکن بے ضابطگی، صحت اور مستقبل کی دشمن

ڈاکٹر شکیل احمد خان، جالنہ۔8308219804

یونانی شاعر ہومر کی رزمیہ نظمیں ’’ایلیڈ‘‘ اور ’’اوڈیسی‘‘ عالمی ادب کی ان قدیم ترین شاہکاروں میں شامل ہیں جو آج بھی دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں۔ ساتویں صدی قبل مسیح کے آس پاس تخلیق ہونے والی ان یونانی دیو مالائی داستانوں کا ایک اہم حصہ یا واقعہ ’’ٹروجن وار‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہزاروں صفحات پر مشتمل ان رزمیہ نظموں کی تفصیل کا اجمال یہ ہے کہ یونانی بادشاہ مینالوس کی بیوی ’ہیلن‘ کو ٹرائے نامی علاقے کا پیریس نامی شہزادہ اغوا کر کے لے جاتا ہے جس کی بازیابی کے لیے یونانی علاقوں کے سردار مینالوس کے بھائی ایگی مینن کی سربراہی میں ٹرائے والوں سے ایک نہایت طویل جنگ لڑتے ہیں۔ (ہیلن آف ٹرائے کو دنیا کی خوبصورت ترین عورت کا خطاب حاصل رہا ہے۔ اس کا نام اور کردار آج بھی مغربی کلچر میں اُسی طرح جانا پہچانا ہے جس طرح اردو معاشرے میں لیلی اور شیریں کا ہے) بے شمار جھڑپوں اور واقعات کے بعد یونانی سردار ٹرائے شہر کا محاصرہ کر لیتے ہیں۔ لیکن دس سالہ محاصرے کے باوجود وہ ٹرائے میں داخل ہونے اور دشمنوں کو برباد کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ آخر مشہور سردار اوڈیسی کو ایک ترکیب سوجھتی ہے۔ یونانی پہیوں پر چلنے والا ایک نہایت بڑا اور کھوکھلا گھوڑا تیار کر کے اس پر یہ الفاظ کنندہ کرتے ہیں: ’’یونانیوں کی محفوظ وطن واپسی کے لیے دیوی کی خدمت میں‘‘ گھوڑے کو ٹرائے شہر کے گیٹ پر چھوڑ کر اور اپنے کیمپ جلا کر یونانی واپس لوٹ جاتے ہیں۔ یہی گھوڑا انگریزی ادب، تاریخ اور کلچر میں ’’ٹروجن ہارس‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اہلِ ٹرائے بزرگوں اور دانشوروں کے منع کرنے کے باوجود گھوڑے کو کھینچ کر شہر میں لے آتے ہیں اور موج مستی وجشن میں مشغول ہو جاتے ہیں۔لیکن آدھی رات کو اچانک گھوڑے کے خفیہ دروازوں سے یونانی سردار اور سپاہی باہر نکل پڑتے ہیں اور شہر کے دروازے کھول کر قتل عام شروع کر دیتے ہیں۔ تھوڑی ہی دوری پر کھڑی یونانی فوج شہر میں گھس آتی ہے اور ٹراے کو زبردست ہزیمت و شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ دراصل اوڈیسی کی ایک جنگی چال تھی۔ لہذا آج بھی ہر اس چیز کو ’’ٹروجن ہارس‘‘ کہا جاتا ہے جو بظاہر تو بڑی کارآمد اور غیر ضرر رساں نظر آتی ہے لیکن ایک بار قبول کر لی جائے تو استعمال کرنے والوں کو تباہ کر کے چھوڑتی ہے۔
اس وقت ٹروجن وار اور ٹروجن ہارس کی یاد اس لیے آگئی کہ آج ملت اسلامیہ بھی ایک ٹروجن ہارس کی دلفریب چال میں الجھ چکی ہے جس کا نہ تو اسے کوئی ادراک ہے اور نہ ہی کوئی فکر۔ بڑے بڑے سرمایہ داروں، صنعتکاروں اور مخالف پالیسی سازوں نے ایک خوبصورت ٹروجن ہارس کو ملت کی معاشرتی و انفرادی زندگی کے دروازوں پر لا کھڑا کیا اور ملت بڑے جوش و خروش اور مسرت سے اسے اپنی معاشرتی و نجی زندگیوں میں کھینچ لائی ہے۔ زندگی میں داخل ہوتے ہی اس میں چھپے بڑے بڑے دشمن سردار باہر آکر ملت کا نقصان کرنے میں لگے ہیں۔ اس ٹروجن ہارس کا نام ہے ’’اسمارٹ فون‘‘ اور ملت پر شب خون مارنے والے اس میں پوشیدہ دشمن سرداروں کے نام فیس بک، واٹس ایپ، یو ٹیوب، انسٹا گرام، ٹک ٹاک اور رِیل وغیرہ ہیں۔ ابتداء میں نہایت ہی کارآمد اور مفید محسوس ہونے والے اس ٹروجن ہارس نے آج ملت کی تعلیمی، معاشرتی اور ازدواجی زندگیوں کو بھی سبوتاژ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ بقول سید سجاد سکندر ’’موجودہ اسلامی نسل طاغوت کے شکنجے میں مکمل طور پر جکڑ چکی ہے اور بالخصوص نسل نو تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ فیس بک کی عفریت سے جان چھڑانے کی جستجو میں قوم کے دانشور تو ابھی مبتلا ہی تھے کہ ایک اور طاعونی بم ٹک ٹاک دنیا پر گرا دیا گیا۔ یہ دونوں مہلک ترین میزائل موبائل کے لانچر سے داغے گئے ہیں اور ان کی رینج بھی بہت زیادہ ہے۔ پہلے موبائل فون شوق تھا پھر ضرورت بنادیا گیا اور اب جی کا جنجال بن چکا ہے‘‘۔ اس بات کو تسلیم کرنے میں کسی کو تامل ہو ہی نہیں سکتا کہ جو مسائل دیگر اقوام میں پائے جاتے ہیں وہ کئی گنا زیادہ شدت سے بر صغیر میں خیر امت میں پنپتے نظر آتے ہیں۔ لہذا بین الاقوامی سطح پر اس مسئلہ کا گہرائی سے جائزہ لیجیے اور اس تناسب سے ملت میں اس کے اثرات کا اندازہ لگائیے۔ 23 جنوری 2023ء کو Slick text نے انٹر نیٹ پر اپڈیٹ کیے ’اسمارٹ فون اڈیکشن اسٹاٹسٹک‘ کے مطابق اٹھارہ سے انتیس سال عمر کے بائیس فیصد صارفین نے تسلیم کیا ہے کہ وہ ہر چند منٹ کے بعد اپنے فون کو چیک کرتے ہیں۔ سینتالیس فیصد سرپرستوں نے قبول کیا ہے کہ ان کے بچے اسمارٹ فون کے عادی ہو چکے ہیں۔ اسمارٹ فون استعمال کرنے والا ایک عام صارف دن میں 2617 مرتبہ فون پر کلک، ٹیاپ یا سوایپ کرتا ہے۔کاروں کے ہونے والے حادثات چھبیس فیصد فون استعمال کرنے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔اسمارٹ فون استعمال کرنے والے انہتر فیصد صارف نیند سے جاگنے کے صرف پانچ منٹ کے اندر اپنا فون چیک کرتے ہیں اور اوسطاً اسمارٹ فون صارف دن میں ایک سو پچاس مرتبہ اپنے فون ’ان لاک‘ کرتے ہیں۔ اکہتر فیصد صارف فون قریب رکھ کے سوتے ہیں۔ چالیس فیصد صارف باتھ روم میں بھی فون استعمال کرتے ہیں۔ چھیاسی فیصد صارف دوستوں یا افراد خاندان سے گفتگو کے دوران بھی فون چیک کرتے رہتے ہیں۔عموماً لوگ اپنی زندگی کے پانچ سال چار مہینے سوشل میڈیا پر گزار رہے ہیں۔ ’ بزنس ٹوڈے‘ کے مطابق اسمارٹ فون استعمال کرنے والے ہندوستانی دنیا میں سب سے زیادہ ڈاٹا استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح فون کے بے جا اور حد سے زیادہ استعمال نے ملت کے بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کو ایک طرح سے مدہوش و غافل کر رکھا ہے۔ لوگ حقیقی زندگی اور حقیقی مسائل سے بے خبر بے حسی کے اندھے کنوئیں میں گرنے کے لیے کشاں کشاں رواں دواں ہیں۔ بقول شکیل بدایونی :
اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے
بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے
جو وقت باوقار اور کامیاب زندگی کے حصول کی سرگرمیوں میں صَرف ہونا چاہیے تھا وہ لہو ولعب میں برباد ہو رہا ہے۔ جس طرح شراب پی کر شرابی ہر بات بھول جاتا ہے اسی طرح دن رات فون میں مشغول ہو کر ملت کے بیشتر افراد یہ بات بھلائے بیٹھتے ہیں کہ ان کی بیٹیوں کی عصمت دری اور قتل کرنے والوں کو پھول پہنائے جا رہے ہیں، ان کے گھروں پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں، ان کی بہنیں ارتداد کا شکار ہو رہی ہیں، ان کی بھائیوں کی ماب لنچنگ ہو رہی ہے۔ ان کے لڑکے بے روزگار گھوم رہے ہیں، ان کی لڑکیاں شادیوں کے انتظار میں بوڑھی ہو رہی ہیں، ان کی حالت پسماندہ طبقات سے بھی بدتر ہو چکی ہے اور آخر کار ان کا وجود بھی ایک سوالیہ نشان بنایا جاچکا ہے۔ یہ صورت حال تو ایسی ہے کہ ملت کے ہر فرد کے دل میں علم و ہنر کے ذریعے ترقی و کامیابی حاصل کر کے حالات کو مثبت رخ دینے کی شدید خواہش پیدا ہونی چاہیے تھی لیکن بیشتر لوگ تو ’ٹروجن ہارس‘ اور اس میں موجود دشمن سرداروں کو ہی گلے لگائے بیٹھے ہیں۔ اس سے بڑھ کے حیرت کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ جس قوم کو ان مصیبتوں کا سامنا ہے وہ کئی گھنٹے اسمارٹ فون پر اپنا وقت اور صلاحیتوں کا زیاں کر رہی ہے۔ جس طرح جاذب پیپر سیاہی کو چوس لیتا ہے اسی طرح سمارٹ فون اور سوشل میڈیا ہمارے نوجوانوں اور خصوصاً طلبہ کی صلاحیتوں، وقت اور طاقت کو چوس کر مختلف النوع جسمانی، نفسیاتی اور معاشرتی بیماریوں کو جنم دے رہا ہے۔ اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ کیا ہم جدید تکنا لوجی سے محروم رہیں؟ کیا ہم زمانے کے ساتھ نہ چلیں؟ کیا تھوڑی بہت تفریح ضروری نہیں ہے؟ جواباً عرض ہے کہ محدود ومناسب حد میں شائستگی کو ملحوظ رکھ کر، فواحش سے اجتناب کرتے ہوئے ہلکی پھلکی تفریح، میل ملاپ اور کارآمد سرگرمیوں کے لیے اس کے استعمال کو نامناسب نہیں کہا جاسکتا لیکن اس طرح استعمال کے لیے خود پر قابو رکھنے کی صلاحیت ہونا ضروری ہے۔ تیرنا بہت اچھی ورزش اور تفریح ہے لیکن کنوئیں میں وہی کودے جو تیرنا جانتا ہو ورنہ فون کا استعمال کس طرح ہو رہا ہے جاننا ہو تو سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ویب سائٹس اور ایپس کی فہرست دیکھ لیجیے۔ اور پھر یہ بھی تو سوچیے کہ گھر میں کوئی بستر مرگ پر ہو یا طوفان میں کشتی ڈوبنے والی ہو تو ساری توجہ اور طاقت بچاؤ پر ہوتی ہے۔ سارے مناسب، جائز کام یہاں تک کہ کھانا پینا بھی بھول جاتے ہیں۔ خیر چھوڑیے! کسی کو اپنے اور آنے والی نسلوں کے مستقبل، اور قوم کی بھلائی سے کوئی مطلب نہیں تو وہ کم از کم اپنی صحت کے بارے میں تو سنجیدگی سے سوچے۔ کیونکہ Oladoc پر دستیاب معلومات کے مطابق ’’موبائل کے کثرتِ استعمال سے کانوں کے قریب کینسر کے پھوڑے بننے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ اسی طرح رائل سوسائٹی آف لندن نے ایک پیپر شائع کیا ہے، جس کے مطابق وہ بچے جو بیس سال کی عمر سے پہلے فون کا استعمال شروع کر دیتے ہیں ان میں انتیس سال کی عمر میں دماغ کے کینسر کے امکانات پانچ گنا بڑھ جاتے ہیں۔ جلد میں موجود کولاجن اور ایلاسٹن کی پیدائش اور افزائش بری طرح متاثر ہوتی ہے اور پگ مینٹیشن کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ کیونکہ فون ریڈیو فریکوینسی پیدا کرتا ہے جو انسانی جسم کے اندر موجود ٹشوز کو جذب کرسکتے ہیں اس سے نکلنے والی ایچ ای وی روشنی آنکھوں کے ریٹینا کے لیے بہت نقصان دہ ہے‘‘ لہذا اس بات کو ذہن نشین رکھنا اور دوسروں کو بھی آگاہ کرنا ہوگا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں، ہمیں آنکھوں اور عقل کے اندھے بنانے کے لیے شاطر سرمایہ داروں اور استعماری طاقتوں نے ’ٹروجن ہارس‘ کو ہماری صفوں میں داخل کردیا ہے اور خود اپنے بچوں اور جوانوں کو بچائے رکھنے کے لیے باضابطہ قوانین بنا رکھے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ملت کے جن باعمل اور باحوصلہ نوجوانوں کو اس کا احساس ہے وہ اہم امتحانا ت پاس کر کے نمایاں ترقی کر رہے ہیں، لیکن اکثریت ابھی تک اس گھوڑے کو قابو میں کرنے سے قاصر ہے اور چبوتروں پر، چائے خانوں میں اور دیگر مقامات پر بیٹھی لغویات میں عمر عزیز کا زیاں کر رہی ہے۔ بقول جلیل مانک پوری:
رواں ہے عمر اور انسان غافل
مسافر ہے کہ سوتا جا رہا ہے
***

 

***

 یونانی شاعر ہومر کی رزمیہ نظمیں ’’ایلیڈ‘‘ اور ’’اوڈیسی‘‘ عالمی ادب کی ان قدیم ترین شاہکاروں میں شامل ہیں جو آج بھی دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں۔ ساتویں صدی قبل مسیح کے آس پاس تخلیق ہونے والی ان یونانی دیو مالائی داستانوں کا ایک اہم حصہ یا واقعہ ’’ٹروجن وار‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہزاروں صفحات پر مشتمل ان رزمیہ نظموں کی تفصیل کا اجمال یہ ہے کہ یونانی بادشاہ مینالوس کی بیوی ’ہیلن‘ کو ٹرائے نامی علاقے کا پیریس نامی شہزادہ اغوا کر کے لے جاتا ہے جس کی بازیابی کے لیے یونانی علاقوں کے سردار مینالوس کے بھائی ایگی مینن کی سربراہی میں ٹرائے والوں سے ایک نہایت طویل جنگ لڑتے ہیں۔ (ہیلن آف ٹرائے کو دنیا کی خوبصورت ترین عورت کا خطاب حاصل رہا ہے۔ اس کا نام اور کردار آج بھی مغربی کلچر میں اُسی طرح جانا پہچانا ہے جس طرح اردو معاشرے میں لیلی اور شیریں کا ہے) بے شمار جھڑپوں اور واقعات کے بعد یونانی سردار ٹرائے شہر کا محاصرہ کر لیتے ہیں۔ لیکن دس سالہ محاصرے کے باوجود وہ ٹرائے میں داخل ہونے اور دشمنوں کو برباد کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ آخر مشہور سردار اوڈیسی کو ایک ترکیب سوجھتی ہے۔ یونانی پہیوں پر چلنے والا ایک نہایت بڑا اور کھوکھلا گھوڑا تیار کر کے اس پر یہ الفاظ کنندہ کرتے ہیں: ’’یونانیوں کی محفوظ وطن واپسی کے لیے دیوی کی خدمت میں‘‘ گھوڑے کو ٹرائے شہر کے گیٹ پر چھوڑ کر اور اپنے کیمپ جلا کر یونانی واپس لوٹ جاتے ہیں۔ یہی گھوڑا انگریزی ادب، تاریخ اور کلچر میں ’’ٹروجن ہارس‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اہلِ ٹرائے بزرگوں اور دانشوروں کے منع کرنے کے باوجود گھوڑے کو کھینچ کر شہر میں لے آتے ہیں اور موج مستی وجشن میں مشغول ہو جاتے ہیں۔لیکن آدھی رات کو اچانک گھوڑے کے خفیہ دروازوں سے یونانی سردار اور سپاہی باہر نکل پڑتے ہیں اور شہر کے دروازے کھول کر قتل عام شروع کر دیتے ہیں۔ تھوڑی ہی دوری پر کھڑی یونانی فوج شہر میں گھس آتی ہے اور ٹراے کو زبردست ہزیمت و شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ دراصل اوڈیسی کی ایک جنگی چال تھی۔ لہذا آج بھی ہر اس چیز کو ’’ٹروجن ہارس‘‘ کہا جاتا ہے جو بظاہر تو بڑی کارآمد اور غیر ضرر رساں نظر آتی ہے لیکن ایک بار قبول کر لی جائے تو استعمال کرنے والوں کو تباہ کر کے چھوڑتی ہے۔
اس وقت ٹروجن وار اور ٹروجن ہارس کی یاد اس لیے آگئی کہ آج ملت اسلامیہ بھی ایک ٹروجن ہارس کی دلفریب چال میں الجھ چکی ہے جس کا نہ تو اسے کوئی ادراک ہے اور نہ ہی کوئی فکر۔ بڑے بڑے سرمایہ داروں، صنعتکاروں اور مخالف پالیسی سازوں نے ایک خوبصورت ٹروجن ہارس کو ملت کی معاشرتی و انفرادی زندگی کے دروازوں پر لا کھڑا کیا اور ملت بڑے جوش و خروش اور مسرت سے اسے اپنی معاشرتی و نجی زندگیوں میں کھینچ لائی ہے۔ زندگی میں داخل ہوتے ہی اس میں چھپے بڑے بڑے دشمن سردار باہر آکر ملت کا نقصان کرنے میں لگے ہیں۔ اس ٹروجن ہارس کا نام ہے ’’اسمارٹ فون‘‘ اور ملت پر شب خون مارنے والے اس میں پوشیدہ دشمن سرداروں کے نام فیس بک، واٹس ایپ، یو ٹیوب، انسٹا گرام، ٹک ٹاک اور رِیل وغیرہ ہیں۔ ابتداء میں نہایت ہی کارآمد اور مفید محسوس ہونے والے اس ٹروجن ہارس نے آج ملت کی تعلیمی، معاشرتی اور ازدواجی زندگیوں کو بھی سبوتاژ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ بقول سید سجاد سکندر ’’موجودہ اسلامی نسل طاغوت کے شکنجے میں مکمل طور پر جکڑ چکی ہے اور بالخصوص نسل نو تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ فیس بک کی عفریت سے جان چھڑانے کی جستجو میں قوم کے دانشور تو ابھی مبتلا ہی تھے کہ ایک اور طاعونی بم ٹک ٹاک دنیا پر گرا دیا گیا۔ یہ دونوں مہلک ترین میزائل موبائل کے لانچر سے داغے گئے ہیں اور ان کی رینج بھی بہت زیادہ ہے۔ پہلے موبائل فون شوق تھا پھر ضرورت بنادیا گیا اور اب جی کا جنجال بن چکا ہے‘‘۔ اس بات کو تسلیم کرنے میں کسی کو تامل ہو ہی نہیں سکتا کہ جو مسائل دیگر اقوام میں پائے جاتے ہیں وہ کئی گنا زیادہ شدت سے بر صغیر میں خیر امت میں پنپتے نظر آتے ہیں۔ لہذا بین الاقوامی سطح پر اس مسئلہ کا گہرائی سے جائزہ لیجیے اور اس تناسب سے ملت میں اس کے اثرات کا اندازہ لگائیے۔ 23 جنوری 2023ء کو Slick text نے انٹر نیٹ پر اپڈیٹ کیے ’اسمارٹ فون اڈیکشن اسٹاٹسٹک‘ کے مطابق اٹھارہ سے انتیس سال عمر کے بائیس فیصد صارفین نے تسلیم کیا ہے کہ وہ ہر چند منٹ کے بعد اپنے فون کو چیک کرتے ہیں۔ سینتالیس فیصد سرپرستوں نے قبول کیا ہے کہ ان کے بچے اسمارٹ فون کے عادی ہو چکے ہیں۔ اسمارٹ فون استعمال کرنے والا ایک عام صارف دن میں 2617 مرتبہ فون پر کلک، ٹیاپ یا سوایپ کرتا ہے۔کاروں کے ہونے والے حادثات چھبیس فیصد فون استعمال کرنے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔اسمارٹ فون استعمال کرنے والے انہتر فیصد صارف نیند سے جاگنے کے صرف پانچ منٹ کے اندر اپنا فون چیک کرتے ہیں اور اوسطاً اسمارٹ فون صارف دن میں ایک سو پچاس مرتبہ اپنے فون ’ان لاک‘ کرتے ہیں۔ اکہتر فیصد صارف فون قریب رکھ کے سوتے ہیں۔ چالیس فیصد صارف باتھ روم میں بھی فون استعمال کرتے ہیں۔ چھیاسی فیصد صارف دوستوں یا افراد خاندان سے گفتگو کے دوران بھی فون چیک کرتے رہتے ہیں۔عموماً لوگ اپنی زندگی کے پانچ سال چار مہینے سوشل میڈیا پر گزار رہے ہیں۔ ’ بزنس ٹوڈے‘ کے مطابق اسمارٹ فون استعمال کرنے والے ہندوستانی دنیا میں سب سے زیادہ ڈاٹا استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح فون کے بے جا اور حد سے زیادہ استعمال نے ملت کے بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کو ایک طرح سے مدہوش و غافل کر رکھا ہے۔ لوگ حقیقی زندگی اور حقیقی مسائل سے بے خبر بے حسی کے اندھے کنوئیں میں گرنے کے لیے کشاں کشاں رواں دواں ہیں۔ بقول شکیل بدایونی :
اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے
بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے
جو وقت باوقار اور کامیاب زندگی کے حصول کی سرگرمیوں میں صَرف ہونا چاہیے تھا وہ لہو ولعب میں برباد ہو رہا ہے۔ جس طرح شراب پی کر شرابی ہر بات بھول جاتا ہے اسی طرح دن رات فون میں مشغول ہو کر ملت کے بیشتر افراد یہ بات بھلائے بیٹھتے ہیں کہ ان کی بیٹیوں کی عصمت دری اور قتل کرنے والوں کو پھول پہنائے جا رہے ہیں، ان کے گھروں پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں، ان کی بہنیں ارتداد کا شکار ہو رہی ہیں، ان کی بھائیوں کی ماب لنچنگ ہو رہی ہے۔ ان کے لڑکے بے روزگار گھوم رہے ہیں، ان کی لڑکیاں شادیوں کے انتظار میں بوڑھی ہو رہی ہیں، ان کی حالت پسماندہ طبقات سے بھی بدتر ہو چکی ہے اور آخر کار ان کا وجود بھی ایک سوالیہ نشان بنایا جاچکا ہے۔ یہ صورت حال تو ایسی ہے کہ ملت کے ہر فرد کے دل میں علم و ہنر کے ذریعے ترقی و کامیابی حاصل کر کے حالات کو مثبت رخ دینے کی شدید خواہش پیدا ہونی چاہیے تھی لیکن بیشتر لوگ تو ’ٹروجن ہارس‘ اور اس میں موجود دشمن سرداروں کو ہی گلے لگائے بیٹھے ہیں۔ اس سے بڑھ کے حیرت کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ جس قوم کو ان مصیبتوں کا سامنا ہے وہ کئی گھنٹے اسمارٹ فون پر اپنا وقت اور صلاحیتوں کا زیاں کر رہی ہے۔ جس طرح جاذب پیپر سیاہی کو چوس لیتا ہے اسی طرح سمارٹ فون اور سوشل میڈیا ہمارے نوجوانوں اور خصوصاً طلبہ کی صلاحیتوں، وقت اور طاقت کو چوس کر مختلف النوع جسمانی، نفسیاتی اور معاشرتی بیماریوں کو جنم دے رہا ہے۔ اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ کیا ہم جدید تکنا لوجی سے محروم رہیں؟ کیا ہم زمانے کے ساتھ نہ چلیں؟ کیا تھوڑی بہت تفریح ضروری نہیں ہے؟ جواباً عرض ہے کہ محدود ومناسب حد میں شائستگی کو ملحوظ رکھ کر، فواحش سے اجتناب کرتے ہوئے ہلکی پھلکی تفریح، میل ملاپ اور کارآمد سرگرمیوں کے لیے اس کے استعمال کو نامناسب نہیں کہا جاسکتا لیکن اس طرح استعمال کے لیے خود پر قابو رکھنے کی صلاحیت ہونا ضروری ہے۔ تیرنا بہت اچھی ورزش اور تفریح ہے لیکن کنوئیں میں وہی کودے جو تیرنا جانتا ہو ورنہ فون کا استعمال کس طرح ہو رہا ہے جاننا ہو تو سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ویب سائٹس اور ایپس کی فہرست دیکھ لیجیے۔ اور پھر یہ بھی تو سوچیے کہ گھر میں کوئی بستر مرگ پر ہو یا طوفان میں کشتی ڈوبنے والی ہو تو ساری توجہ اور طاقت بچاؤ پر ہوتی ہے۔ سارے مناسب، جائز کام یہاں تک کہ کھانا پینا بھی بھول جاتے ہیں۔ خیر چھوڑیے! کسی کو اپنے اور آنے والی نسلوں کے مستقبل، اور قوم کی بھلائی سے کوئی مطلب نہیں تو وہ کم از کم اپنی صحت کے بارے میں تو سنجیدگی سے سوچے۔ کیونکہ Oladoc پر دستیاب معلومات کے مطابق ’’موبائل کے کثرتِ استعمال سے کانوں کے قریب کینسر کے پھوڑے بننے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ اسی طرح رائل سوسائٹی آف لندن نے ایک پیپر شائع کیا ہے، جس کے مطابق وہ بچے جو بیس سال کی عمر سے پہلے فون کا استعمال شروع کر دیتے ہیں ان میں انتیس سال کی عمر میں دماغ کے کینسر کے امکانات پانچ گنا بڑھ جاتے ہیں۔ جلد میں موجود کولاجن اور ایلاسٹن کی پیدائش اور افزائش بری طرح متاثر ہوتی ہے اور پگ مینٹیشن کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ کیونکہ فون ریڈیو فریکوینسی پیدا کرتا ہے جو انسانی جسم کے اندر موجود ٹشوز کو جذب کرسکتے ہیں اس سے نکلنے والی ایچ ای وی روشنی آنکھوں کے ریٹینا کے لیے بہت نقصان دہ ہے‘‘ لہذا اس بات کو ذہن نشین رکھنا اور دوسروں کو بھی آگاہ کرنا ہوگا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں، ہمیں آنکھوں اور عقل کے اندھے بنانے کے لیے شاطر سرمایہ داروں اور استعماری طاقتوں نے ’ٹروجن ہارس‘ کو ہماری صفوں میں داخل کردیا ہے اور خود اپنے بچوں اور جوانوں کو بچائے رکھنے کے لیے باضابطہ قوانین بنا رکھے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ملت کے جن باعمل اور باحوصلہ نوجوانوں کو اس کا احساس ہے وہ اہم امتحانا ت پاس کر کے نمایاں ترقی کر رہے ہیں، لیکن اکثریت ابھی تک اس گھوڑے کو قابو میں کرنے سے قاصر ہے اور چبوتروں پر، چائے خانوں میں اور دیگر مقامات پر بیٹھی لغویات میں عمر عزیز کا زیاں کر رہی ہے۔ بقول جلیل مانک پوری:
رواں ہے عمر اور انسان غافل
مسافر ہے کہ سوتا جا رہا ہے
***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 فروری تا 04 مارچ 2023