!اسماعیل ہنیہ کا تہران میں قتل۔ایک معمہ

اسرائیل کے لمبے ہاتھ یا نفسیاتی مہم ؟ بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیبِ داستاں کے لیے

مسعود ابدالی

ایسا عقوبت کدہ،جہاں اسرائیلی ظالم معصوم بچیوں کو بےآبرو اور بچوں کو ہلاک کر کے سنگین جرم کے مرتکب
غزہ مزاحمت کاروں کے قائد اور پولیٹیکل بیورو کے سربراہ اسماعیل عبدالسلام ہنیہ تہران میں قتل کردیے گئے۔اسی دن شام کو جنوبی لبنان پر اسرائیل کے ایک حملے میں لبنانی مزاحمت کاروں کے کمانڈرفواد شُکر المعروف حاجی محسن جاں بحق ہوگئے۔ لبنانی حکام کا کہنا ہے کہ رہائشی عمارت پر بمباری سے ایک بچے سمیت تین افراد ہلاک اور 74 زخمی ہوگئے۔ دوسرے دن اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ غزہ مزاحمت کاروں کے فوجی سربراہ محمد دیاب ابراہیم المصری المعروف محمد الضیف کو صفحہ ہستی سے مٹادیا گیا۔ محمد ضیف 13 جولائی کو خان یونس کے المواصی پناہ گزین کیمپ میں نشانہ بنائے گئے تھے۔ بمباری سے بچوں سمیت 70 افراد جاں بحق ہوئے۔ جیسا کہ ہم پہلے ایک نشست میں عرض کرچکے ہیں کہ مزاحمت کاروں نے اسرائیلی دعوے کو جھوٹا قراردیا لیکن اسرائیلی مُصر ہیں کہ وہ محمد ضیف کو راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
حماس کے سربراہان ، ہمیشہ سے اسرائیل کا ہدف رہے ہیں۔ تحریک کے بانی، شیخ یاسین مارچ 2004میں امریکی ساختہ اپاچی ہیلی کاپٹر سے داغےجانے والے ہیل فائر میزائیل کا اس وقت نشانہ بنے جب وہ فجر کی نماز کے بعد اپنی وہیل چئیر پرگھر واپس جارہے تھے۔ 67 برس کے شیخ یاسین کا نچلا دھڑ فالج زدہ تھا۔ نظر بے حد کمزور اور سماعت نہ ہونے کے برابر تھی۔ شیخ صاحب کے بعد 56 سالہ عبدالعزیز الرنتیسی نے حماس کی قیادت سنبھالی لیکن صرف ایک ماہ بعد 17 اپریل کو انھیں بھی ہیل فائر میزائیل سے شہید کردیا گیا۔ اس واقعے میں ان کا 27 سالہ لڑکا بھی جاں بحق ہوا۔
جناب اسماعیل ہنیہ حماس کےتیسرے قائدہیں جو اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ شیخ یاسین اور الرنتیسی براہ راست میزائیلوں کا نشانہ بنے لیکن اسماعیل ہنیہ کا قتل کا معمہ اب تک نہیں سلجھا۔ جناب ہنیہ ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران آئے تھے۔ایرانی خبررساں ایجنسی فارس کے مطابق ہنیہ صاحب اپنے محافظ کے ساتھ پاسداران انقلاب اسلامی (IRGC)کے مہمان خانے نشاط کمپاونڈ میں ٹھیرے ہوئے تھے کہ انہیں 31 جولائی کو رات دوبجے میزائیل سے نشانہ بنایا گیا۔ ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ میزائیل ایران سرحد کے باہر سے داغا گیا تھا۔ مزید تحقیقات کے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ میزائیل ایرانی سرحد کے اندر سے فائر ہوا تھا۔اس عمارت کی اوپر والی منزل میں اہل غزہ کے ایک اور رہنما زید النخلا ٹھیرے ہوئے تھے جن کے کمرے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔میزائیل گرنے کی صورت میں پوری عمارت متاثر ہوتی ہےلیکن ایسا نہیں ہوا۔
امریکہ کی آن لائن خبر رساں ایجنسی Axios کے مطابق دھماکہ خیز مواد دوماہ پہلے اسرائیل سے ایران اسمگل کیا گیا جسے موساد کے ایجنٹوں نے بہت باریکی کے ساتھ اسماعیل ہنیہ کے کمرے میں نصب کردیا اور یہ یقین کرلینے کے بعد کہ موصوف اپنے کمرے میں ہیں موساد کے ایرانی ایجنٹوں نے ریموٹ کنٹرول سے دھماکہ کردیا۔
اگر Axiosکی رپورٹ درست ہے تو اس سے ایران کے حفاظتی انتظامات پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ ان کا کسٹم جانچ پڑتال اور اندرونی سلامتی کا نظام اتنا ناقص ہے کہ اسرائیل سے دھماکہ خیز مواد نہ صرف ایران پہنچ گیا بلکہ اس کی IRGCکے VIPمہمان خانے کے ایک کمرے میں تنصیب کی بھی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
برطانوی رسالے ٹیلی گراف نے 2 اگست کو شائع ہونے والے رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اس کام کے لیے موساد نے حساس عمارات ، شخصیات اور تنصیبات کو تحفظ فراہم کرنے والے IRGCکے ذیلی دارے انصار المہدی سیکیورٹی ایجنسی کے چند سینئر اہلکاروں کو خریدا۔ ان ایجنٹوں نے نشاط کمپلیکس کے تین کمروں میں دھماکہ خیز مواد نصب کیااور اسماعیل ہنیہ کے کمرے میں رکھے گئے بم کو ایران کے باہر سے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اڑادیاگیا۔موساد ذرائع کے حوالے سے بتایاگیا ہے کہ جناب ہنیہ کو سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی تدفین کے موقع پر مئی میں نشانہ بنایا جانا تھا جس کے لیے دھماکہ خیز مواد درآمد کیا گیا لیکن سخت حفاظتی اقدامات کی بناپرمنصوبہ عین وقت پر معطل کردیا گیا۔
یہ بات تو ایرانی حکام خود بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے ملک میں موساد کا انتہائی موثر نیٹ ورک موجود ہے۔ کئی ماہر ایرانی جوہری سائنسدان موساد کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ ماہرینِ سراغ رسانی کا خیال ہے کہ امریکی سی آئی اے کے نقشِ پا بھی ایران میں گہرے ہیں۔ شاہ ایران کے دورمیں سی آئی آے نے یہاں ایک بہت بڑا تربیتی ڈھانچہ ترتیب دیا تھا اور اب بھی سی آئی اے کے ایرانی ایجنٹ موجود ہیں۔ اسرائیل نے ایران میں کئی کامیاب آپریشن کیے ہیں۔سب سے مشہور نومبر 2020میں ایرانی جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کا قتل ہے۔ جناب فخری زادہ کے قتل کے لیے خودکار مشین گن اسرائیل سے درآمد کی گئی، جس نے تصویرسے ہدف کی نشان دہی کی، صرف ایک منٹ میں فخری زادہ صاحب لقمہ اجل بن گئے اور نشانہ اتنادرست کے ساتھ کھڑی ان کی اہلیہ کو خراش تک نہ آئی۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کی یہ چشم کشا تفصیلات اسرائیلی ذرائع سے جاری ہورہی ہیں اور اس بات کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ انکشافات کی صورت ان خبروں کا اجرا ان کی تزویراتی حکمتِ عملی کا حصہ ہو۔اسرائیل کے لیے جناب ہنیہ کوقطر میں نشانہ بنانا کچھ مشکل نہ تھا لیکن انہیں تہران میں قتل کرکے اسرائیل نے کئی مقاصد حاصل کرلیے۔ ایک طرف پاسداران کی عمارت میں ایک انتہائی اہم مہمان کو نشانہ بناکر ایرانی قیادت کو باور کردایا گیا کہ IRGCہیڈکوارٹر سمیت ایران کا کوئی علاقہ موساد کی پہنچ سے دور نہیں۔ پاسدران کے سینئر افسران کے ملوث ہونے کے انکشاف سے IRGCکی صفوں میں ہیجان اور عدم اعتماد پیدا ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف ان ’انکشافات‘ نے فلسطینیوں اوردنیا بھر کے مسلمانوں میں ایران کے لیے شک و شبہات پیداکردیے ہیں۔ مسلم دنیا میں سوشل میڈیا پر ایران کے خلاف مہم کا آغاز ہوچکا ہے۔اس واقعہ کو بنیاد بناکرفرقہ پرست عناصر شیعہ سنی کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔ ’گھر بلاکر مروادیا‘، ’ایران کے کوفی‘ جیسے عنوانات سے شبہات اور عدم اعتماد کے شجرِ زقوم کی آبیاری کی جارہی ہے۔ اسی کےساتھ اسرائیلی ٹیکنالوجی کی عظمت و رفعت اور اس میدان میں مسلمانوں کی کم مائیگی بلکہ بے مائیگی کا بار بار ذکر کرکے احساسِ کمتری کو مہمیز لگانے کی تحریک بھی عروج پر ہے۔
پاسداران نے تحقیقات کے بعد 3 اگست کو بتایا کہ اسماعیل ہنیہ کو قریبی فاصلے تک مار کرنے والے یعنی short rangeمیزائیل سے نشانہ بنایا گیا۔ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میزائیل پر نصب بم میں 7 کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔ فلسطینی مزاحمت کاروں نے بھی Axios اور نیویارک ٹائمز کی رپورٹوں کو فتنہ خیز و دروغ آمیز کہانی قراردیا۔ مزاحمت کاروں کے ترجمان خالد قدومی نے تہران میں پاکستانی نجی چینل جیو نیوز کو بتایا کہ دھماکے سے ساری عمارت لرز گئی اور اس کی چھت میں شگاف سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک میزائیل حملہ تھا۔ قدومی صاحب کا خیال ہے کہ مغربی میڈیا، بم کا افسانہ تراش کر اسرائیل کی برتری ثابت کرنے کے ساتھ ایران کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا چاہتا ہے۔
یہ اعصابی و نفسیاتی جنگ کا دور ہے جہاں حقیقت سے زیادہ ادراک واحساسِ حقیقت یا perception اہم اور فیصلہ کن ہے۔ دنیا بھر کے سیاسی و عسکری تجزیہ کاروں کے خیال میں اسرائیل یہ جنگ ہار رہا ہے کہ 300 دنوں میں 6000 فضائی حملوں اور سارے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنادینے کے باوجود اسرائیلی اپنا کوئی بڑا عسکری ہدف حاصل کرنے میں اب تک ناکام رہا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا کہ 7 اکتوبر کو غزہ کا دفاع کرنے والے مسلح مزاحمت کاروں کی کل تعداد 22000 تھی جن کے مقابلے کے لیے جدید ٹینکوں اور بکتروں پر سوار دولاکھ سے زیادہ فوجی میدان میں اتارے گئے۔ اگست کے آخر تک اسرائیل نے 15000 مزاحمت کاروں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو دوتہائی افرادی قوت فنا ہوجانے پر مزاحمت ختم ہوجانی چاہیے تھی لیکن اسرائیلی عسکری محکمہ سراغ رسانی نے چند دن پہلے کہا ہے کہ ان کی فوج کو اب بھی سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ محکمے کے سابق سربراہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ مزاحمت کاروں کی نظریاتی بنیاد اتنی مضبوط ہے کہ انھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ممکن ہی نہیں۔
اب تک اسرائیل نہ اپنے قیدی چھڑا سکا نہ کسی اہم فوجی کمانڈر کو مٹاسکا ہے۔ اس ہفتے جنرل الضیف کے خاتمے کا تسلسل سے دعویٰ کیا جارہا ہے لیکن مزاحمت کاروں نے اسے اسرائیلی فوج کے تیزی سے کم ہوتے حوصلے کو سہارا دینے کی کوشش قراردیا ہے۔ محاذ جنگ پر مسلسل ناکامی کی وجہ سے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اس وقت غیر مقبولیت کی انتہا پر ہیں، تقریبا 75 فیصد اسرائیلی نئے انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں۔
اسماعیل ہنیہ کا قتل نیتن یاہو کا ذاتی فیصلہ تھا تاکہ وہ خود کو قد آور اور دبنگ ثابت کرسکیں۔ فواد شکر کا قتل اور محمد ضیف کے خاتمے کا ڈھنڈورہ نیتن یاہو کی سیاسی بقا کے لیے مقوی انجکشن ثابت ہوا اور اسرائیل میں ایک بار پھر ’دہشت گردوں‘ کو کچل دو کا نعرہ گونج رہا ہے۔ گزشتہ سات ماہ میں پہلی بارسبت (ہفتہ) پر قیدیوں کی رہائی اور وزیر اعظم کے استعفیٰ کے لیے بڑی ریلی نہیں ہوئی۔ انتہا پسند بہت فخر سے کہہ رہے ہیں کہ صف اول کے تین رہنما یعنی اسماعیل ہنیہ،ابو موسی مرزوق اور خالد مشعل میں سے ایک کو ٹھکانے لگادیا تو دوسری جانب عسکری قائدین یحیٰی سنوار اور محمد ضیف میں سے بھی ایک کو مٹاکر مزاحمت کاروں کی کمر توڑدی گئی ہے۔ لن ترانی اور شیخی اپنی جگہ لیکن اسرائیل کی عسکری قیادت اور سنجیدہ عناصر جانتے ہیں کہ غزہ مزاحمت کی بنیاد نظریاتی وابستگی پر ہے جسے قتل و غارتگری سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
ارادہ تو تھا کہ آج ہم اپنی گفتگو اسماعیل ہنیہ کے المناک قتل تک محدود رکھیں گے لیکن ٹائمز آف اسرائیل نے غزہ کے قریب تشدد کے ایک مرکز کی جو تفصیل شائع کی ہے اس کا ذکر ہمیں ضروری محسوس ہورہا ہے۔
سات اکتوبر کو حملے کے آغاز پر صحرائے نقب (Negev Desert)میں غزہ سے 18 میل دور سدیہ تیمان حراستی مرکز (Sde Teiman detention center) قائم کیا گیا۔ یہیں زخمی قیدیوں کے علاج کے لیے ایک خیمے میں ہسپتال بھی ہے۔ جی ہاں سخت گرمی کے دوران صحرا میں خیموں پر مشتمل ہسپتال۔یہ حراستی مرکز دراصل عقوبت کدہ ہے جہاں غزہ سے پکڑے جانے والے بچوں اور لڑکیوں کو لب کشائی کے لیے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔بدترین بمباری اور مہلک ترین ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال کے باوجود اب تک مزاحمت کاروں کا ایک بھی رہنما ہاتھ نہ لگ سکا۔کارروائی ڈالنے کے لیے غزہ سے نہتے بچے پکڑ پکڑ کر اس حراستی مرکز پر لائے جاتے ہیں جن سے مزاحمت کاروں کے بارے میں معلومات کے لیے تفتیش کی جاتی ہے۔ تشدد سے لڑکیوں سمیت درجنوں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔
گزشتہ دنوں آن لائن عرب جریدے Arab 48نے دستاویزی شواہد کے ساتھ یہاں توڑے جانے والے مظالم کی روداد شائع کی۔جس میں بتایا گیا کہ یہ حراستی مرکز اسرائیل کے اوباش سپاہیوں کا مرکز ہے جہاں غزہ سے اسلحے کی نوک پر اغوا کی جانے والی معصوم لڑکیوں کو یہ درندے بے آبرو کرتے ہیں۔خبر کے مطابق غیر انسانی سلوک سے کئی بچیاں ہلاک ہوچکی ہیں اور بہت سی قریب واقع بئر سبع کے فوجی ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔
اس خبر پر نو سپاہیوں کے خلاف پرچے کٹے۔ملٹری پولیس جب انہیں گرفتار کرنے پہنچی تو اڈے پر بغاوت ہوگئی۔ فوجیوں نے پتھراو اور پولیس پر مرچ والے پانی کا چھڑکاو کیا۔ ملٹری پولیس کی مزید نفری بھیج کر مطلوبہ سپاہیوں کو حراست میں لے لیا گیا۔یہ خبر سن کر انتہاپسندوں نے سدیہ تیمان مرکز کا گھیراو کرلیا اور عمارت پر پتھر پھینکے۔ حکم راں جماعت کے ارکانِ کنیسہ مظاہرین کی قیادت کررہے تھے۔ دوسرے دن مظاہرین غرب اردن کے فوجی اڈے بیت لِد پر چڑھ دوڑے۔ان مظاہروں سے خود اسرائیلی فوج بھی پریشان ہے۔دودن پہلے عسکری سربراہ جنرل حرزی حلوی بیت لِد آئے اور نقصانات کا جائزہ لیا۔ ان کا کہناتھا کہ دائیں بازو کے انتہاپسند ملک کو خانہ جنگی کی راہ پر ڈال رہے ہیں۔
اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ گرفتار ہونے والے نو وحشیوں میں سے تین کو شواہدوثبوت نہ ملنے کی بنا پر رہا کردیا گیا اور عسکری تحقیقاتی کمیٹی نے تین مزید افراد کی بریت کی درخواست کی ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]

 

***

 اسماعیل ہنیہ کی اہلیہ، امل ہانیہ کے صبر نے لوگوں کو رلا دیا۔ امل نے کہا ’میرے محبوب! آنسو پر قابو نہیں لیکن تمہاری جدائی پر اپنے رب سے کوئی شکوہ بھی نہیں۔ ملاقات ہو تو آقا (ص) کو میراسلام عرض کرنا۔ ہماری ننھی پوتیاں تمہاری سینے پر سونے کی عادی تھیں، اسی لیے ان معصوموں کے مہربان رب نے دادا میاں کو بھی وہیں بلالیا۔ یہ دنیا عارضی اورجدائی بھی عارضی۔ اب ان شاءاللہ اپنے رب کی جنت میں تم سے ملوں گی کہ تم نے اپنی ساری زندگی اسی کے حصول کے لیے کھپادی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 اگست تا 17 اگست 2024