اسلاموفوبک امورمیں زیادتی-اہل فکرکےلئےسوچ وبچارضروری

آسام حکومت کی مسلم مخالف بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ کا ممانعتی فرمان

گوہاٹی (دعوت نیوز بیورو)

صدی قبل سے آباد مسلم باشندگان کے ساتھ آسام میں دوہرا برتاؤ-جمہوریت کے لئے زہر ہلاہل
17ستمبرکو ملک بھر میں بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ کی سخت سرزنش اور عبوری روک کے باوجود بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں امید تھی کہ بلڈوزر کارروائی پر روک لگ جائے گی مگر گجرات بالخصوص آسام میں یہ سلسلہ جاری رہا ۔گجرات میں غیر قانونی تعمیرات کے نام پر ایک صدی پرانی درگاہ کو منہدم کردیا گیا ہے ۔آسام میں ہمنتابسواسرما کی قیادت والی بی جے پی حکومت گزشتہ 4برسوں میں ہزاروں مسلمانوں کے مکانات کو غیر قانونی تعمیرات کے نام پر اجاڑ دئیے ہیں ۔سپریم کورٹ کی ہدایات کے بعدبھی مقامی مسلمانوں کو اجاڑے جانے کا خدشہ ختم نہیں ہوا۔کامروپ میٹروپولیٹن ضلع کا چوتالی گاؤں میں لگاتار مسلمانوں کے مکانات اجاڑے جارہے ہیں۔حکومت کی دلیل ہےکہ یہ علاقے قبائلیوں کیلئے مخصوص ہیں یہاں نہ زمین خریدی جاسکتی ہے اور نہ فروخت کی جاسکتی ہے اور نہ ہی غیر قبائلی یہاں آباد ہوسکتے ہیں مگر کامروپ ضلع کے کاچوتالی گاؤں کا دعویٰ ہے کہ وہ یہاں اس وقت سے آباد ہیں جب اس علاقے کو قبائلی قرار نہیں دیا گیا تھا تو اس پر یہ قانون کیسے نافذ ہوسکتا ہے؟ آسام کے 48 باشندوں نے پچھلے دنوں سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی ۔جس میں کامروپ میٹروپولیٹن ضلع کے کچوتالی گاؤں میں ان کے مکانات کی مجوزہ مسماری کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیاتھا ۔
سپریم کورٹ نے آج اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے آسام کے سونا پور میں غیر قانونی تعمیرات پر بلڈوزر کارروائی پر پابندی لگا تے ہوئےوہاں پر آباد لوگوں کو نکالنے پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔ جسٹس بی آر گاوائی اور جسٹس کے وی وشواناتھن کی بنچ نے پیر کو آسام حکومت کو نوٹس جاری کیا اور تین ہفتوں کے اندر جواب طلب کیا۔17 ستمبر کو دیے گئے اپنے حکم میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ عدالت کی اجازت کے بغیر بلڈوزر کی کارروائی نہیں کی جانی چاہیے۔ تاہم بنچ نے اس وقت یہ بھی کہا تھا کہ سڑکوں، ریلوے لائنوں اور دیگر عوامی مقامات پر غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کے لیے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ سونا پور گوہاٹی کے مضافات میں آتا ہے اور کامروپ ضلع میں ہے۔ ضلع انتظامیہ نے اس علاقے میں کئی مقامات پر غیر قانونی تعمیرات کی نشاندہی کی ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہاں کے قبائلی علاقے کی زمین پر تجاوزات کرکے مکانات بنائے گئے ہیں۔
آسام حکومت کی کارروائی کے خلاف عرضی گزاروں نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ ضلعی انتظامیہ کے گھروں کو مسمار کرنے کے منصوبے نے سپریم کورٹ کے 17 ستمبر کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے ۔جس حکم میں ملک بھر میں یکم اکتوبر تک مسماری پر روک لگا دی گئی تھی۔سپریم کورٹ نے مختلف ریاستی حکومتوں کی طرف سے ’’بلڈوزر ایکشن‘‘ کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر یہ ہدایات جاری کی تھی۔ جس کے تحت جرم ثابت ہوئےبغیر صرف الزامات کی بنیاد پر گھروں کی مسماری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عدالت نے یکم اکتوبرتک روک لگادی تھی۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کامروپ میٹروپولیشن کے سونا پور علاقے میں بے دخلی کی مہم کے نتیجے میں تقریباً 500 مکانات مسمار کیے گئے ہیں۔عرضی گزاروں نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ان کے گھروں پر 13 ستمبر کو سرخ اسٹیکرز لگائے گئے تھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں جلد ہی بے دخل کر دیا جائے گا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں بے دخلی کے نوٹس کے بارے میں کوئی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ضلع انتظامیہ کی طرف سے جاری کردہ بے دخلی کے نوٹسوں میں الزام لگایا گیا ہے کہ رہائشی زمین پر غیر قانونی قبضے میں تھے اور پلاٹ پر دعویٰ کرنے کے لیے غیر مجاز تھے کیونکہ یہ آسام اراضی کے مطابق شیڈولڈ ٹرائب کمیونٹی کے اراکین کیلئے مختص ہیں۔48 رہائشیوں کی طرف سے دائر توہین عدالت کی عرضی میں کہا گیا تھا کہ ’’رہائش/ پناہ گاہ کا حق ایک بنیادی حق ہے جیسا کہ اس معزز عدالت نے متعدد مواقع پراس سے متعلق تبصرے کئے ہیں ۔اور یہ آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت ضمانت شدہ حق کا ایک لازمی حصہ ہے۔آرٹیکل 21 زندگی اور ذاتی آزادی کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔عرضی میں کہا گیا تھا کہ ’’شہریوں کا یہ حق واضح طور پر نہیں چھینا جا سکتا اور نہ ہی اس کی خلاف ورزی قانون کے مناسب عمل کی پیروی کے بغیر کی جا سکتی ہے‘‘۔لہذا، مبینہ جرائم کے لیے آسام میں حکومت کے ذریعہ جائیدادوں کو مسمار کرنا بھی آئین کے تحت دیے گئے اس بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔درخواست میں کہا گیا تھا کہ اصل زمینداروں اور ان کے آباؤ اجداد کے درمیان ہونے والے پاور آف اٹارنی معاہدے کے تحت رہائشیوں کے خاندان 1920 کی دہائی سے اس علاقے میں مقیم ہیں۔ یہ 1950 میں زمین کو ’’قبائلی پٹی‘‘ کے طور پرشناخت کئے جانے سے قبل کی بات ہے۔اس نے دعویٰ کیا کہ زمین پر ان کے قبضے کو ان معاہدوں کے ذریعے تسلیم کیا گیا تھا اور انہیں وہاں اصل زمینداروں نے رہنے کی اجازت دی تھی، جن میں سے کچھ کا تعلق شیڈولڈ ٹرائب کمیونٹی سے تھا۔رہائشیوں کو ضروری خدمات بھی فراہم کی گئیں، بشمول بجلی، راشن کارڈ، آدھار کارڈ اور ووٹر شناختی کارڈ وغیرہ۔ درخواست میں کہا گیا کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ زمین پر قانونی طور پر قابض ہیں۔پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ ’’درخواست گزار گزشتہ سات، آٹھ دہائیوں سے مذکورہ طے شدہ زمینوں میں نسلوں سے مقیم ہیں، لیکن انھوں نے کبھی بھی ملحقہ علاقوں میں رہنے والے قبائلی یا محفوظ لوگوں کے ساتھ کسی تنازعہ یا تصادم میں ملوث نہیں ہوئے‘‘۔ "وہ تمام برادریوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ پرامن طریقے سے اور مناسب تعلقات کے ذریعے رہ رہے ہیں چاہے وہ سماجی معاملات ہوں یا تجارتی تعلقات ہوں۔درخواست میں کہا گیا تھا کہ اس طرح کی بے دخلی نہ صرف درخواست گزاروں کو ان کے گھروں اور روزی روٹی سے محروم کر دے گی بلکہ علاقے کے سماجی تانے بانے کو بھی متاثر کرے گی۔
آسام میں اس طرح کی کارروائیاں ایک معمول بن چکی ہیں۔ حکومتی اہلکار بنگالی نژاد مسلمانوں کو ان پلاٹوں سے بے دخل کرنے کے لیے اکثر حرکت کرتے ہیں جن پر کہا جاتا ہے کہ انہوں نے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ دوسری کمیونٹیز کو شاذ و نادر ہی ایسی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور جب بنگالی نژاد مسلمانوں کی بات آتی ہے، تو پولیس کیلئے خوشی کا باعث بن جاتا ہے۔مزاحمت کرنے والوں کے خلاف گولیاں چلانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ہے۔اب کہ آسام کی دوسری کمیونٹی کے لیے ناقابل تصور ہو گی۔
آسام میں زیادہ تر بنگالی نژاد مسلمان اپنی ابتداء اس وقت سے بتاتے ہیں جب برطانوی نوآبادیاتی منتظمین نے بنگال کے کسانوں کو اس خطے میں آباد کیا تھا۔ اس وقت سے یہ کمیونٹی آسام میں زینو فوبک جذبات کا شکار رہی ہے۔نسلی عصبیت کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر بھی نفرتوں کا سامنا کررہے ہیں۔ بنگالی نژاد مسلمان مردم شماری کی نظر میں آسامی بولنے والے ہیں۰ آسام کی صدیوں پر محیط سیاست میں ان کے ساتھ غیرمعمولی طور پر غیر ملکیوں کی طرح سلوک کیا جاتا رہا ہے ۔1983 میںمرکزی حکومت کے بنگالی نژاد مسلمانوں کو ووٹ کا حق دینے کے فیصلے کے خلاف نیلی میں ایک قتل عام کا واقعہ پیش آیا ۔جس میں ایک ہی دن میں تقریباً 2000افراد کی جانیں گئیں۔ یہ بھارت کا سب سے مہلک قتل عام ہے۔مسلمانوں کے خلاف نفرت اس قدر شدید تھی کہ قاتلوں کے لیے عام معافی 1985 میں ہونے والے آسام معاہدے کا ایک حصہ تھا، مرکزی حکومت اور آسامی قوم پرست گروپوں کے درمیان 1979 میں شروع ہونے والے غیر ملکی مخالف احتجاج جو ختم کرنے کیلئے معاہدہ کیا گیا تھا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اکتوبر تا 12 اکتوبر 2024