اسلامی نظام حیات، معاشی مساوات کا بہترین ذریعہ

دولت کا بہاؤ اوپر سے نیچے کی جانب ہونا مبنی بر فطرت عمل

0

ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد

دینِ اسلام مکمل نظام حیات ہے جس کا ایک اہم شعبہ معاشی نظام ہے۔ چونکہ اسلام کی اساس عدل وقسط اور احسان پر ہے اس لیے اسلام کے سارے شعبوں میں عدل وقسط اور احسان کی شان نظر آتی ہے۔ اللہ کا دیا ہوا نظام ہی عدل وقسط اور احسان پر مبنی ہوسکتا ہے جبکہ انسانوں نے تاریخ میں جتنے نظام وضع کیے ہیں ان میں افراط و تفریط اور ظلم و استحصال کا عنصر لازمی پایا جاتا ہے۔اسلامی معاشی نظام افراط و تفریط سے ہٹ کر درمیانہ اعتدال پسند نظام ہے جس میں نہ فرد کا استحصال ہے اور نہ ہی معاشرہ کا۔اس نظام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دولت کا ارتکاز نہیں ہوتا۔ جبکہ سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ لین دین کے تمام معاملات سود پر مبنی ہوتے ہیں جس سے امیر، امیر ترین اور غریب، غریب ترین بنتے چلے جاتے ہیں۔ سود کے علاوہ کمائی کے دیگر تمام ناجائز ذرائع بھی عام انسانوں کا استحصال کر کے چند افراد کو غیر فطری طریقے سے امیر بناتے ہیں جیسے جوا، لاٹری، منشیات کا کاروبار، فحش فلم انڈسٹری، رشوت، زمینوں و کانوں پر ناجائز قبضے، بے ایمانی، دھوکہ دہی اور سیاسی اقتدار کے ذریعے بے انتہا دولت کا حصول وغیرہ۔یہ سب آمدنی کے ناجائز ذرائع ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کی اکثریت کو غریب بنا کر ظالم و فاسق اقلیت کو مال دار بناتے ہیں۔ سودی کاروبار اور ناجائز ذرائع سے مال کمانے کے جب راستے کھل جاتے ہیں تو پیسہ کا بہاؤ نیچے سے اوپر کی طرف ہونے لگتا ہے یعنی پیسہ عوام کی جیبوں سے نکل کر چند مٹھی بھر افراد کی تجوریوں میں جمع ہونے لگتا ہے۔اس طرح سے ایک غیر فطری نظام قائم ہوتا ہے جہاں چند لوگوں کے پاس ان کی ضروریات سے لاکھوں گنا زیادہ دولت جمع ہو جاتی ہے۔ وہیں کچھ لوگ ہوتے ہیں جو دن بھر ایمانداری سے محنت کرنے کے بعد بھی اتنا کچھ کما نہیں سکتے جس سے وہ اپنی بنیادی ضروریاتِ زندگی پوری کر سکیں۔ آمدنی میں عدم مساوات کا یہ حال ہے کہ World Inequality Report 2022 کے مطابق، بھارت دنیا کے سب سے زیادہ معاشی عدم مساوات والے ممالک میں شمار ہوتا ہے، جہاں آبادی کے بالائی دس فیصد اور ایک فیصد افراد بالترتیب ۵۷ فیصد اور ۲۲ فیصد قومی آمدنی کے مالک ہیں۔ جبکہ نچلے ۵۰ فیصد کا قومی آمدنی کا حصہ گھٹ کر صرف ۱۳ فیصد رہ گیا ہے۔ یعنی سو میں سے ایک آدمی کے پاس ۲۲ روپے ہیں اور ۵۰ لوگوں کے پاس ۱۳ روپے ہیں۔یہ قومی آمدنی کی انتہائی غیر فطری تقسیم ہے جو جائز ذرائع سے ممکن نہیں ہے۔ ۲۰۲۴ء کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے تقریبا ۱۳ کروڑ افراد انتہائی غربت کا شکار ہیں جن کی روزانہ کی آمدنی صرف ۱۸۰ روپے ہے۔ جب چند لوگوں کے پاس پیسہ کی بہتات ہو جائے اور عوام کا بڑا طبقہ غریب ہونے لگے تو مارکٹ میں صارفین کی تعداد گھٹنے لگے گی جس سے کارخانوں میں بننے والی مصنوعات کی مانگ کم ہو جائے گی جس سے بیروزگاری بڑھے گی اور غربت میں اضافہ ہوگا۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ عام عوام کی بنکوں میں ڈپازٹ رقوم سے ہزاروں کروڑوں کے قرض لے کر بعض مجرم ملک سے فرار ہو جاتے ہیں۔
جبکہ اسلامی معیشت میں پیسہ کا بہاؤ اوپر سے نیچے کی طرف ہوتا ہے۔ مال دار لوگوں پر زکوٰۃ فرض کر دی گئی ہے جس سے ہر سال ان کی بچت کا ڈھائی فیصد معاشرے کے کمزور طبقے کے لیے نکالا جاتا ہے۔ زکوٰۃ تو کم سے کم انفاق ہے۔ زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے۔جن لوگوں میں زیادہ سے زیادہ نیکیوں کو حاصل کرنے کا جذبہ ہوگا وہ اسی قدر بھاری صدقات کی صورت میں اپنا مال خرچ کریں گے۔ اسلام کا معاشی نظام اسلام کے اعتقادی نظام سے مربوط ہے۔اللہ پر ایمان انسان کے اندر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ وہ مال کا اصلی مالک نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اس مال کا حقیقی مالک ہے جس نے اس عارضی زندگی میں اس کو امین بنایا ہے۔ ایک سچا مومن یہ سمجھتا ہے کہ جتنا مال ضرورت سے زیادہ دیا گیا ہے اس میں ان رشتہ داروں کا حق ہے جن کو اپنی ضرورت سے کم دیاگیا ہے۔ اللہ کا شکر ادا کرنے کا طریقہ یہ بتلایا گیا کہ فقراء و مساکین کے لیے لوجہ اللہ مال خرچ کیاجائے۔ اگر اللہ کی نا فرمانی ہوئی ہو تو اس کی تلافی کا طریقہ یہ مقرر کیا گیا کہ اس کا کفارہ ادا کیا جائے۔اللہ کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کا یہ طریقہ بتلایا گیا کہ صدقہ کیا جائے۔ دوسرے مذاہب میں گناہوں کا کفارہ اس طرح ادا کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے معبودوں کی مورتیوں پر نذرانے پیش کرتے ہیں جس سے معاشرے کے پسماندہ لوگوں اور غریبوں کا کچھ بھلا نہیں ہوتا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: مَا أُرِيدُ مِنْهُم مِّن رِّزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَن يُطْعِمُونِ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ (سورۃ الذاریات ۵۷، ۵۸) ’’میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔اللہ تو خود ہی رزّاق ہے بڑی قوت والا اور زبردست‘‘ قرآن میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یتیموں، مسکینوں اور محتاجوں پر خرچ کرکے ان سے شکریہ کی امید مت رکھو (سورۃ الدہر:۹) اور ان پر احسان جتا کر اپنا اجر ضائع نہ کرو۔ (سورۃ البقرۃ :۲۶۴)
اسلام میں ناجائز ذرائع آمدنی کو حرام قرار دے کر معاشی ارتکاز کے اسباب کو ختم کیا گیا اور اس کی جگہ وراثت کا نظام قائم کیا گیا کہ وصیت کے بعد جو کچھ بھی ایک فرد اپنی میراث چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے اس کو وارثوں میں تقسیم کیا جائے۔ اولاد (بیٹے اور بیٹیوں) کے علاوہ بیوی، والدین، بہن بھائی بھی وراثت میں حصے دار بنائے گئے ہیں جس سے ایک فرد کا مال کئی افراد میں تقسیم ہوتا ہے۔ ان تمام تدابیر سے مال کا بہاؤ اوپر سے نیچے کی طرف ہوتا ہے۔ مال دار اقلیت سے غریب اکثریت کی طرف دولت منتقل ہوتی ہے۔ اس کے برعکس سرمایہ دارنہ نظام میں دولت غریب اکثریت سے امیر اقلیت کی طرف منتقل ہوتی ہے۔
اسلام میں زکوٰۃ و صدقات کے علاوہ ضرورتمندوں کو قرض دینے پر بھی ابھارا گیا ہے۔ قرض دینے والے کو نرمی برتنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اگر مقروض فی الواقع قرض لوٹانے کی پوزیشن میں نہ ہو تو قرض کو معاف کرنے پر اللہ کی طرف سے اجر کی امید دلائی گئی ہے۔وہیں اس شخص کو بہت برا سمجھا گیا ہے جو قرض ادا کرنے کی طاقت رکھ کر بھی بد نیتی سے قرض ادا نہ کرے۔ رسول اللہ ﷺ اس شخص کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھتے تھے جس کے ذمہ قرض ہو۔ جبکہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد سود پر ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا کہ سود کھانے والوں سے اللہ اور رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے۔
غور کرنے ک بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سود کی اتنی شدت سے ممانعت کیوں فرمائی ہے؟ سود دراصل ایک ایسا منافع ہے جس میں کسی مجبور آدمی کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اس کو معاشی طورپر مزید کمزور کر دیا جاتا ہے۔ سودی کاروبار میں نقصان کا کوئی امکان نہیں ہوتا اور پیسے سے مزید پیسہ کمایا جاتا ہے۔ جبکہ تجارت میں نقصان کا خطرہ لگا رہتا ہے۔ اسی طرح جو چیز اجارہ (کرایہ) پر دی جاتی ہے اس میں بھی اس بات کا خطرہ لگا رہتا ہے کہ وہ چیز کرایہ پر نہ جائے اور ایک عرصہ تک بے کار پڑی رہ جائے۔ پراپرٹی کو نقصان پہنچنے اس کے علاوہ کرایہ دار کے دھوکہ دینے کے بھی اندیشے ہوتے ہیں۔ تجارت اور سود میں بنیادی فرق یہ ہے کہ تجارت میں جہاں فائدہ کا امکان ہے وہیں نقصان کا اندیشہ بھی ہے جبکہ سود میں نقصان کا امکان نہیں رہتا۔ تجارت میں آدمی کی محنت لگتی ہے جبکہ سود خوری میں کوئی محنت نہیں لگتی۔ سود کی حرمت کی اہم وجہ یہ ہے کہ سود خور ایک محتاج آدمی کی مدد کرنے کے بجائے اس کی محتاجی کا نا جائز فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔اگر سود خوری کو جائز بنا دیا جائے تو ہر مال دار شخص اپنی صلاحیت و قابلیت، فن و ہنر اور تجربہ کو خیر باد کہہ کر سود کو کمائی کا ذریعہ بنائے گا اور بغیر محنت کے بے فکری سے بغیر کسی اندیشۂ فردا کے پیسے سے پیسہ کماتا چلا جائے گا۔ اگر معاشرہ کے سارے مال دار اسی طریق آمدنی کو اختیار کر لیں تو بیش بہا انسانی سرمایہ ضائع ہو جائے گا۔ ڈاکٹر علاج چھوڑ کر، انجینئر اپنی انجینئرنگ چھوڑ کر، استاد تعلم وتدریس چھوڑ کر، کسان کھیتی باڑی چھوڑ کر، کارخانہ دار صناعی چھوڑ کر اور تاجر تجارت چھوڑ کر سود خوری کرنے لگے تو کیا ایسی صورت میں معاشرہ ترقی کر سکتا ہے؟ سود پر مبنی معاشی نظام خود غرض لوگ ہی بنا سکتے ہیں جس میں مال داروں کا فائدہ تو ہو اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ جو انسانوں کا رب ہے وہ ایسا معاشی قانون بنائے گا جس میں سارے انسانوں کی بھلائی ہو اور جس پر عمل کرنے کے نتیجے میں ایک خوشحال اور باہمی ہمدردی پر مبنی معاشرہ وجود میں آسکے۔ سود سراسر ایک خود غرضانہ اور استحصالی معاشی معاہدہ ہے جس میں ایک طرف ایک فریق ظالم ہے تو دوسرا مظلوم۔ سود سے منافع کمانے والے کو نہ ہی محنت کرنی پڑتی ہے نہ کسی قسم کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ سود کے ما سوا جتنے مال کمانے کے طریقے معاشرہ میں رائج ہیں ان میں محنت ہے جس سے معاشرہ میں کسی نہ کسی طرح کا contribution ہوتا ہے اور اس میں نقصان کا بھی خطرہ موجود رہتا ہے۔ آجر (employer) کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کا کاروبار ماند پڑ جائے اور ملازم (Employee) کو اس بات کا خطرہ ہے کہ اس کی ملازمت چلی جائے یا اسے دورانِ ملازمت کوئی حادثہ پیش آ جائے یا ایسی ملازمت ہو جو اس کی صحت کو متاثر کرے۔ آجر اور ملازم دونوں مل کر معاشرہ کو کوئی مفید چیز فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے اور اس کے مقابلے میں ایسا معاشی نظام دیا ہے جس میں سرمایے کو کسی تجارت یا صنعت میں لگایا جا سکتا ہے لیکن اس میں فائدہ اور نقصان دونوں کا امکان رہتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشی نظام demand and supply کے اصول پر چلتا ہے بغیر اس بات کی پروا کیے کہ اس میں محنت کش لوگوں کی کتنی حق تلفی ہوتی ہے۔اگر مزدوروں کی فراوانی ہو تو مجبوری میں محنت کش مزدور اقل ترین مزدوری پر کام کرنے کے لیے راضی تو ہو جائیں گے لیکن محنت کے باوجود ان کا پیٹ نہیں بھر پائے گا۔ ایسی صورت میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بے روزگاری کا مسئلہ حل کرے لیکن مزدور کو اتنی اجرت تو ضرور ملے جو اس کا پیٹ بھر سکے۔ اسلامی معاشی نظام میں حکومت اجرتوں اور قیمتوں کو regulate کرتی ہے تاکہ معاشی استحصال نہ ہو۔ اسلام ذخیرہ اندوزی کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ اسلام ایسی خرید و فروخت سے بھی منع کرتا ہے جس میں لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر قیمت کو گھٹایا یا بڑھایا جاتا ہے اور دھوکہ سے اشیاء کی فروخت پر بھی اسلام پابندی لگاتا ہے۔
اسلامی نظامِ معیشت میں عدل اور احسان دونوں پہلوؤں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ عدل یہ ہے کہ معاشی لین دین میں ظلم و نا انصافی سے مکمل اجتناب کیا جائے۔ اگر دنیا میں ایک آدمی دوسرے کا حق مار کر کھا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بروزِ قیامت اس کا حساب اس طرح لے گا کہ جس نے حق مارا ہے اس کی نیکیاں دوسرے کو دی جائیں گی۔ اگر نیکیاں ختم ہو جائیں تو حقدار کی برائیاں ظالم کے اعمال نامہ میں ڈال دی جائیں گی۔اسلام عدل پر زور دیتا ہے اور احسان کی روش کی تلقین کرتا ہے۔ زکوٰۃ ادا کرنا عدل کے درجے میں ہے جبکہ زکوٰۃ سے زائد صدقات کی شکل میں انفاق کرنا احسان ہے۔ قرض دینا، اس میں رعایت برتنا اور قرض کو معاف کردینا بھی احسان کے درجے میں ہے۔
اسلامی بینکاری کے بنیادی اصول قرآن سے لیے گئے ہیں۔ اسلامی بینکاری کا مقصد ایک ایسا مالیاتی نظام قائم کرنا ہے جو انصاف، شفافیت اور سماجی بھلائی پر مبنی ہو۔
یہاں اسلامی بینکاری کے چند اہم بنیادی اصول پیش کیے جاتے ہیں:
۱۔ سود کی ممانعت: اسلامی بینکاری میں تمام مالیاتی لین دین سود سے پاک ہوتے ہیں۔ اس کے بجائے منافع اور نقصان میں شراکت (Profit Loss Sharing &) کے اصول پر اسلامی بینک چلائے جاتے ہیں۔
۲۔ غرر (speculative trading) اور جوے (gambling) کی ممانعت: اسلامی مالیات میں کسی بھی ایسے معاہدے کی اجازت نہیں ہے جو غیر یقینی، دھوکہ دہی یا جوے پر مبنی ہو۔ تمام معاہدے شفاف اور واضح ہونے چاہئیں تاکہ فریقین مکمل طور پر با خبر ہوں۔ فرض کریں کہ آپ نے ایک ایسی اسکیم میں پیسے دیے ہیں جس میں یہ واضح نہیں کہ آپ کو منافع کب اور کتنا ملے گا تو اس کو غرر کہتے ہیں جس میں غیر یقینی کیفیت ہوتی ہے۔ اسی طرح کسی لاٹری میں پیسہ لگانا جوا کہلاتا ہے جس کی ممانعت کی گئی ہے جس میں قیمتی سرمایہ حرص کے چکر میں لٹا دیا جاتا ہے جس سے آپس میں عداوت بڑھتی ہے۔
۳۔ حلال سرمایہ کاری: اسلامی بینک صرف ان کاروباروں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں جو شریعت کے مطابق ہوں۔ اس کے بر خلاف شراب، سور کا گوشت، جوئے یا غیر اخلاقی تفریح سے وابستہ کاروباروں میں سرمایہ کاری ممنوع ہے۔
۴۔ مضاربہ اور مشارکہ: اسلامی بینکاری میں سرمایہ دار اور کاروباری شراکت دار ایک معاہدہ کرتے ہیں جس میں منافع متفقہ تناسب سے تقسیم ہوتا ہے اور نقصان سرمایہ کے تناسب سے برداشت کیا جاتا ہے۔
مضاربہ: بینک پیسہ فراہم کرتا ہے اور آپ کاروبار کرتے ہیں۔ منافع کا تناسب آپسی رضا مندی سے طے کیا جاتا ہے۔ نقصان کی صورت میں نقصان بینک اٹھائے گا اور کاروباری فریق کی محنت اور وقت ضائع ہوگا (بشرطیکہ کاروبار میں ایمانداری ہو نہ کہ دھوکہ دہی؟)
مشارکہ: بینک اور آپ دونوں پیسہ لگاتے ہیں اور دونوں منافع و نقصان میں شریک ہوتے ہیں۔
۵۔ اثاثہ پر مبنی سرمایہ کاری (Asset-based Financing): اسلامی بینکاری میں مالیاتی معاہدے حقیقی اثاثوں یا خدمات پر مبنی ہوتے ہیں نہ کہ پیسے سے پیسہ بنایا جائے؟ اس کی چار شکلیں ہیں:
• مرابحہ: اشیاء کی خرید و فروخت پر منافع کمانا۔ سود اور مرابحہ میں فرق کو اس مثال سے سمجھیے کہ روایتی بینک آپ کو ایک لاکھ روپے قرض دے کر اس پر دس ہزار روپے سود وصول کرتا ہے جو اسلام میں حرام ہے۔ جبکہ اسلامی بینک آپ کو ایک لاکھ کی گاڑی خرید کر دے گا اس معاہدہ کے ساتھ کہ آپ ایک لاکھ دس ہزار کی رقم ۱۲ قسطوں میں ادا کریں۔ دوسری مثال: بینک آپ کے لیے موبائل خرید کر دیتا ہے جس کی قیمت پچاس ہزار روپے ہے اور آپ سے کہتا ہے کہ آپ ۱۲ قسطوں میں ساٹھ ہزار روپے ادا کریں۔ اس کو مرابحہ کہتے ہیں جو اشیاء کی خرید و فروخت پر مبنی ہے یعنی بینک ایک چیز خرید کر اس کو فروخت کر رہا ہے جبکہ سود میں کسی شئے کی خرید و فروخت نہیں ہوتی۔
اجارہ: کسی عمارت یا سواری کا کرایہ وصول کرنا۔
سلم: مثلاً کسان کو پیشگی پیسے دیے جاتے ہیں تاکہ وہ چھ ماہ بعد گندم طے شدہ قیمت پر دے گا۔
استصناع: مثلاً ایک فیکٹری سے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک خاص ڈیزائن کے مطابق مشین بنائے۔ بینک اس کی قیمت قسطوں میں ادا کرے گا۔
۶۔ فلاح عامہ: اسلامی مالیاتی نظام کا ایک اہم مقصد ضرورت مندوں کی مدد ہے، مثلاً ایک اسلامی بینک قرضِ حسنہ اسکیم کے تحت بغیر منافع کے قرض دیتا ہے تاکہ کوئی چھوٹا کاروباری یا طالب علم فائدہ اٹھا سکے۔ اسی طرح بینک زکوٰۃ اور صدقات کی رقم میں سے غرباء کی مدد کرتا ہے۔ اہلِ خیر حضرات اسلامی بینک میں زکوٰۃ اور صدقات کی شکل میں اپنی رقم جمع کرتے ہیں۔
اسلامی مالیاتی نظام میں سکوک financial bonds کی گنجائش ہے جس کی حسبِ ذیل اقسام ہیں:
۱۔ اجارہ سکوک (lease based bonds): اس میں کوئی چیز (جیسے عمارت) کرائے پر دی جاتی ہے۔ سرمایہ کار اس کے مالک ہوتے ہیں اور کرائے کی آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ دوسری مثال یہ ہے کہ حکومت سڑک بنانے کے لیے سکوک جاری کرتی ہے اور سرمایہ کاروں کو ٹول ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم کرایہ کی صورت میں ملتی رہتی ہے۔
۲۔ مضاربہ سکوک (profit sharing bonds): سرمایہ کار پیسہ فراہم کرتے ہیں اور منافع ایک طے شدہ شرح کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک کمپنی توانائی کا منصوبہ شروع کرتی ہے، سرمایہ کاروں کو اس سے حاصل ہونے والا منافع دیا جاتا ہے۔
۳۔ مشارکہ سکوک (joint venture bonds): اس میں کمپنی اور سرمایہ کار دونوں پیسہ لگاتے ہیں اور منافع و نقصان میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک ہاؤسنگ اسکیم کے لیے سکوک جاری ہوتے ہیں اور سرمایہ کار کرایے یا مکانوں کی فروخت سے آمدنی حاصل کرتے ہیں۔
۴۔ پروجکٹ سرمایہ کاری سکوک (project financing bonds): یہ سکوک خاص طور پر کسی چیز کی تیاری یا تعمیر کے لیے ہوتے ہیں، جیسے کوئی صنعتی یا تعمیراتی پراجکٹ مثلاً ایک فیکٹری بنانے کے لیے سکوک جاری کیے جاتے ہیں اور جب اس سے آمدنی آنا شروع ہوتی ہے تو سرمایہ کاروں کو ادائیگی ہوتی ہے۔
۵۔زراعتی سکوک (commodity bonds): اس میں سرمایہ کار کسی چیز (جیسے فصل) کی قیمت پہلے ادا کرتے ہیں اور وہ چیز بعد میں مہیا کی جاتی ہے مثلاً حکومت یا بنک کسانوں کو سرمایہ فراہم کرتا ہے اس وعدہ پر کہ مستقبل میں وہ طے شدہ قیمت پر فصل بینک کو دے ۔
اسلامی معاشی نظام خود غرضی سے پاک فلاحی ریاست کو بنانے میں مدد کرتا ہے جس میں معاشی فرق گھٹتا چلا جاتا ہے یہاں تک معاشی ہمواری پیدا ہو جاتی ہے۔ اسلامی معاشی نظام میں انسانی ہمدردی اور غمخواری کے جذبات پائے جاتے ہیں جس میں امیر لوگ غریبوں کے ہمدرد ہوتے ہیں اور غریب لوگ امیروں کے ممنون ہوتے ہیں۔ ملک کے سارے لوگ تقویٰ و پرہیزگاری کے ذریعے عدل و احسان کی روش پر گامزن ہوتے ہیں۔ ہر شہری کے پیش نظر آخرت کی کامیابی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں دنیا میں بھی عدل واحسان کی بنیاد پر ایک فلاحی ریاست وجود میں آتی ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اپریل تا 03 مئی 2025