اسلامی مزاحمتی تحریک اور اس کی خارجہ پالیسیاں‎

حماس کا مقصد فلسطین کی آزادی اور اتحاد امت ہے

محمد اکمل علیگ

حرکۃ المقاومہ الاسلامیہ ( اسلامی مزاحمتی تحریک) حماس ایک دینی، سیاسی اور مزاحمتی تحریک ہے جس کا مقصد قابض یہودیوں سے فلسطین اور مسجد اقصیٰ کی مکمل آزادی ہے۔ اس کی بنیاد دسمبر 1987 میں شیخ احمد یاسین اور دوسرے قائدین کے ہاتھوں رکھی گئی۔ حماس کی بنیاد اچانک نہیں پڑی بلکہ اس سے پہلے اخوان المسلمون (جس کی بنیاد حسن البنا شہید نے مصر میں رکھی تھی) کے نام سے فلسطین میں سرگرم عمل رہی اور پھر اخوان کے ہی لوگوں نے حماس کی بنیاد رکھی جس کے پیش نظر بنیادی بات یہ تھی کہ فلسطین کی آزادی جہاد کے بغیر ممکن نہیں ہے، چنانچہ حماس نے 1991 میں اپنے عسکری ونگ کی بنیاد رکھی اور اسکا نام ایک شامی مجاہد "عزالدین القسام” (جو فلسطین کی آزادی کے لیے انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے 1935 میں شہید ہوئے تھے) کے نام پر ” کتائب الشہید عزالدین القسام” رکھا۔ اس طرح حماس اخوان المسلمون کی فلسطینی شاخ تھی لیکن 2017 میں حماس نے اخوان المسلمون سے اعلانیہ طور پر اپنا تنظیمی رشتہ ختم کر کے حماس کو ایک آزاد فلسطینی تنظیم قرار دیا۔
حماس نے مسلح جدو جہد کے ذریعے فلسطین کو یہودیوں سے آزاد کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے عرب ممالک، مسلم ممالک اور دوسرے مختلف ممالک سے اپنے تعلقات بنانے شروع کر دیے تاکہ فلسطین کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ بن کر نہ رہ جائے بلکہ وہ دنیا کے تمام مسلمانوں اور دنیا کے تمام حریت پسندوں کا مسئلہ بن جائے۔ چنانچہ یہ تنظیم آج اپنے اس مقصد میں مکمل طور پر کامیاب نظر آتی ہے، کیونکہ اسرائیل کے خلاف اس کی جدوجہد کو دنیا کے تمام مسلمانوں اور متعدد حریت پسندوں کی تائید حاصل ہے۔
حماس نے اس بات کی کوشش کی کہ عرب ممالک اور مسلم ممالک کی حکومتیں ان کا تعاون کریں، سرکاری طور پر حماس کو قبول کریں اور سیاسی، مالی اور عسکری طور پر اس کی حمایت کریں لیکن اس نے دوسرے ملکوں سے تعلقات بنانے سے پہلے کچھ بنیادیں مقرر کیں تاکہ ان ہی بنیادوں پر دوسرے ملکوں سے تعلقات بنائے جائیں۔ وہ بنیادیں مندرجہ ذیل ہیں :
(1) تمام فلسطینیوں اور حماس کا واحد دشمن قابض اسرائیل ہے، جس نے فلسطینیوں کی زندگی تباہ کر دی اور ان کو بے گھر کر کے دوسرے ملکوں میں رہنے پر مجبور کیا، لہٰذا حماس ہر اس تنظیم، جماعت، گروہ اور ملکوں سے تعاون لے گی جو یہودیوں کو غاصب اور ظالم سمجھ کر فلسطینیوں کو اس کا حق دلانے کے لیے کسی بھی طرح کی جدوجہد کریں اور فلسطینیوں کا ساتھ دیں، چاہے وہ کسی بھی فکر کے حامل ہوں، کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی بھی مسلک کے پیروکار ہوں۔ اس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ، جماعتیں اور ممالک فلسطین کی آزادی کی حمایت کریں، اسی بنیاد پر ہم دیکھتے ہیں کہ حماس کے تعلقات جہاں سنی ممالک ترکی، اردن، مصر اور قطر سے ہیں تو وہیں شیعہ ممالک ایران، عراق اور شام سے بھی ہیں۔ سنی اسلامی تحریکیں اخوان المسلمون، نہضۃ اور جماعت اسلامی سے ہیں تو وہیں شیعہ اسلامی تحریکیں حزب اللہ، حشد الشعبی اور انصار اللہ (حوثی) سے بھی ہیں اور اسی طرح اشتراکی ممالک چین اور روس سے بھی ان کے تعلقات ہیں۔
(2) حماس کسی بھی ملک یا جماعت کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی اور نہ کوئی ملک یا جماعت حماس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حماس نے کسی بھی ملک سے تعاون لینے کے لیے کبھی بھی اپنے بنیادی اسلامی افکار سے مداہنت نہیں کی ہے نہ مسلح جدو جہد کو ترک کیا اور نہ اس فکر کو ترک کیا کہ اس کا مقصد مکمل فلسطین کی آزادی ہے، جبکہ تقریباً سارے ممالک دو ریاستی حل کے تصور کو مانتے ہیں۔
اسی طرح حماس نے کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے اپنے آپ کو دور رکھا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جب لبنان کی خانہ جنگی میں "منظمۃ التحریر الفلسطینیہ (PLO) نے مداخلت کی تو اس کا بھاری نقصان ان فلسطینیوں کو برداشت کرنا پڑا جو لبنان میں مہاجرت کی زندگی گزار رہے تھے۔
اسی طرح حماس نے اس بات کی بھی کوشش کی کہ ہر ملک کی حکومتیں اور وہاں کی عوام کے ساتھ یکساں طور پر تعلقات رکھے جائیں، چاہے وہاں کی عوام اپنی حکومتوں کی حامی ہوں یا مخالف ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ شامی حکومت کے اخوان المسلمون کے ساتھ 1982 کی خونی جنگ اور بے انتہا مظالم کے باوجود حماس نے شامی حکومت سے اپنے تعلقات استوار کیے ، کیونکہ شام نے اسرائیل کے خلاف حماس کی کھل کر تائید کی اور 2000 سے 2011 تک حماس کا مرکزی دفتر دمشق رہا اور شامی حکومت کی طرف سے ملک شام میں حماس کو ہر طرح کی ایکٹیویٹی کرنے کی مکمل آزادی دی گئی، لیکن جب 2011 میں شامی عوام نے بشار الاسد کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا اور اس کے جواب میں بشار الاسد نے اپنے ہی عوام پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے تو حماس نے کسی کا بھی ساتھ دیے بغیر ملک شام کو الوداع کہہ دیا، اسی طرح مصر کے اندر مصری حکومت کے اخوان المسلمون کے ساتھ مظالم کے باوجود اس کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھا۔
(3) حماس کبھی کسی ایک لابی یا کسی ایک ملک کے خلاف کسی دوسری لابی یا دوسرے ملک کا ساتھ نہیں دے گی، بلکہ تمام ملکوں سے ان کے تعلقات کی بنیاد مسلئہ فلسطین کو سپورٹ کرنے پر ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم ممالک کے مختلف بنیادوں پر کئی خیموں میں بٹے رہنے کے باوجود حماس نے سب سے اپنے تعلقات کو استوار رکھنے کی کوشش کی اور کبھی بھی کسی ایک ملک کا ساتھ دے کر دوسرے ملکوں پر نہ تو تنقید کی اور نہ کسی کے خلاف کوئی محاذ کھولا، یہاں تک کہ جب حماس نے ایران سے مدد لی تو سعودی عرب نے حماس کے خلاف محاذ کھول دیا تب بھی حماس نے سعودی عرب کی مذمت کی اور نہ اس پر تنقید کی بلکہ ہمیشہ صبر و ضبط سے کام لے کر ناصحانہ انداز سے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا دفاع کیا اور اس بات کی کوشش کی کہ مسئلہ فلسطین کسی ایک لابی کا مسئلہ بن کر نہ رہ جائے بلکہ وہ تمام مسلم ممالک کا مسئلہ رہے تاکہ یہودی جو متفقہ طور پر تمام مسلمانوں کے دشمن ہیں ان سے فلسطین کو آزاد کرایا جا سکے۔
(4) حماس کبھی بھی قابض اسرائیل کے خلاف جنگ کے لیے کسی دوسرے ملک کی زمین کا استعمال نہیں کرے گی اور نہ کسی دوسرے ملک میں اسرائیلی اہداف پر حملہ کرے گی بلکہ یہودیوں کے خلاف یہ لڑائی صرف فلسطین کی سر زمین پر ہوگی۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے بارہا دوسرے ملکوں میں حماس کے قائدین کو قتل کیا لیکن اس کے باوجود حماس نے کبھی بھی فلسطین کے علاوہ کسی اور سر زمین پر اسرائیلی اہداف کو نشانہ نہیں بنایا، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حماس نہیں چاہتی ہے کہ اس کی وجہ سے کسی دوسرے ملک کے امن و امان میں خلل پڑے اور حماس اس کے لیے ایک مسئلہ بن جائے ۔
(5) حماس اس بات کی کوشش کرے گی کہ تمام مسلم ممالک میں اتحاد و اتفاق کی فضا قائم ہو تاکہ مسئلہ فلسطین کے ساتھ ساتھ امت کے سارے مسائل کو حل کیا جا سکے کیونکہ مسلم ممالک کے آپس میں اختلافات کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان مسئلہ فلسطین کو ہوتا ہے جو کہ پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔
حماس نے انہی تمام بنیادوں پر، خاص طور سے مصر، شام، اردن اور لبنان سے حکومتی اور عوامی سطح پر اپنے تعلقات کو ہمیشہ بہتر رکھنے کی کوشش کی ہے کیونکہ ان کی سرحدیں براہ راست فلسطین سے ملتی ہیں اور فلسطینی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد ان ہی ملکوں میں رہتی ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری سطح پر حماس کے تعلقات ایران، ترکی، قطر، ملیشیا، انڈونیشیا، یمن، افغانستان لیبیا اور روس سے اچھے ہیں اور عوامی سطح پر تمام مسلم ممالک سے تعلقات کافی گہرے ہیں، اس کے علاوہ دنیا کے تمام حریت پسندوں کا تعاون بھی حماس کو حاصل ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 جون تا 15 جون 2024