اسلامی اخلاقیات کی بنیادیں اور فیوض و برکات

اللہ سے تعلق انسان کو اخلاق کی بلندیوں پر پہنچاتا ہے

ڈاکٹر ساجد عباسی،حیدرآباد

اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک اخلاقی وجود بنایا جس کو حیوانات کے مقابلے میں امتیازی شان کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔انسان تین چیزوں سے مرکب ہے۔ ایک ہے اس کا جسم، دوسری چیز ہے اس کی عقل اور تیسری شے ہے اس کی روح۔جبکہ حیوانات میں دو چیزیں رکھی گئیں ہیں: ایک ہے حیوانی جسم اور دوسری چیز ہے حیوانی جبلت۔ہر حیوان کی جبلت مختلف رکھی گئی ہے۔اسی جبلت کے تحت ہر حیوان متعین غذاحاصل کرنا،اپنی نسل بڑھانا اور اپنی حفاظت کرنا جانتا ہے۔اس کو نہ عقل و شعورکی نعمت دی گئی ہے اور نہ وہ روح دی گئی ہے جس کے اندر اخلاقی حس ودیعت کی گئی ہے۔قرآن میں اس حقیقت کو انتہائی جامع اندازمیں سورۃ الشمس میں پیش کیا گیا ہے : وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا اور نفسِ انسانی کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کر دی، یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔ (سورۃ الشمس ۷ تا ۱۰)
ان آیات سے قبل اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند دن اور رات، آسمان و زمین کی قسم کھائی ہے۔یہ چھ مظاہرِ فطرت ہیں جن کا انسان شب و روز مشاہدہ کرتا ہے۔ جس خالق نے ان حیرت انگیز اجرام فلکی کو پیدا فرمایا ہے اور کرۂ ارض کو مزین کرکے رات اور دن کا نظام بنایا ہے اسی خدا نے اس بے شعوری کائنات میں ایک باشعور مخلوق کو پیداکرنے کا ارادہ کیا ہے جس سے وہ کچھ مطلوب ہے جو دوسری مخلوقات سے مطلوب نہیں ہے۔زمین وآسمان اور پہاڑ جسامت میں بہت بڑے ہیں لیکن زبان حال سے انہوں نے اس بارِ امانت کو اٹھانے سے انکار کر دیا جس کو انسان نے اٹھایا (سورۃ الاحزاب ۷۲)۔ انسان کو دو غیر معمولی چیزوں کے ساتھ پیداکیا گیا ہے: ایک ہے عقل و شعور اور دوسری چیز ہے اس کی فطرت میں ودیعت کی گئی اخلاقی حس ۔ان دونوں نعمتوں کے ساتھ انسان کی تخلیق کرکے اس پر یہ اخلاقی ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ وہ آزادی فکر وعمل کو استعمال کرتے ہوئے اپنے روحانی وجود کو اخلاقی گندگیوں سے دور رکھے، پھر اپنی شخصیت کو مزکّی بناکر اپنے خالق کے پاس لوٹے۔ عقل و شعور اور اخلاقی حس کے بغیر یہ اخلاقی ذمہ داری پہاڑ پر ڈالی جاتی تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتا (سورۃ الحشر۲۱)۔
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا: نفس کو ہموار کرنے سے مراد ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو خود اپنی روح میں سے ایسی روح عطا فرمائی جو اعلیٰ صفات سے متصف ہے(سورۃ السجدۃ۹) یہ صفات اس لیے انتہائی قیمتی ہیں، یہ اللہ کی صفات کا پرتو ہیں۔ اللہ کی صفات اعلیٰ ترین ہیں اور اپنے اندر اطلاقی شان رکھتی ہیں جبکہ انسانی فطرت میں جو صفات رکھی ہیں وہ محدود معنوں میں اللہ کی صفات کا عکس ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ خالق ہے ، سمیع و بصیر ہے،مدبر اور حکیم ہے ۔انسان کے اندر بھی محدود معنوں میں تخلیقی صلاحیت رکھی گئی ہے۔ انسان حیوانات کے مقابلے میں شعور کی سطح پر سنتا اور دیکھتا ہے اور نتائج اخذ کرتا ہے۔ انسان بھی مدبّر ہے اور وہ جانتا ہے کہ محدود معنوں میں منصوبہ بندی کے ذریعے کاموں کو کیسے انجام دے ۔انسان بھی حکمت و دانائی رکھتا ہےجس کو استعمال کرکے انسان مسلسل ترقی کر رہا ہے۔ ان اعلیٰ صفات کے ساتھ عقل و شعور کے مطابق انسان کو متناسب جسم عطا کیا گیا ہے۔انسانی جسم کو اسباب کے تحت تقریباً نو ماہ میں تیار کیا جاتا ہے جب کہ مادر رحم میں روح کو حکم ِ رب کے ذریعے ودیعت کردیا جاتا ہے(سورۃ الاسرأ۸۵)۔
فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا: اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کر دی کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اعلی صفات کی حامل انسانی روح کے اندر اخلاقی حس کو رکھ دیا ۔اس اخلاقی حس کی بنا پر انسان نیکی کو نیکی اور برائی کو برائی جانتا ہے ۔وہ معروف کو بھی جانتا ہے اور منکرات کو بھی ۔معروف سے مراد ایسی نیکیاں ہیں جس سے انسانی فطرت واقف ہے۔منکرات سے مراد وہ برائیاں ہیں جس سے انسانی فطرت بُعد رکھتی ہے۔ساری مخلوقات میں انسان ہی ایسی مخلوق ہے جس کے اندر اخلاقی حس رکھی گئی ہے۔
ڈارون کا نظریہ اسی ایک نکتہ سے غلط ثابت کیا جاسکتا ہے کہ انسان دوسرے حیوانات کی طرح محض حیوانی وجود نہیں ہے۔ ڈارون کا نظریہ جب انسان کو ترقی یافتہ حیوان قرار دیتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ لاکھوں سالوں پر محیط اس ارتقائی عمل کے دوران وہ کون سا مرحلہ تھا کہ اس کے اندر اخلاقی حس اچانک عود کر آئی جس سے وہ ایک اخلاقی وجود بن گیا اور اپنے قابلِ شرم حصوں کو چھپانے لگا۔ انسان چاہے کتنا ہی اپنی فطرت کو مسخ کرلے وہ حیوانات کی طرح ننگا رہنے اور کھلے عام جنسی ملاپ کرنے کو انتہائی غیر اخلاقی حرکت سمجھتا ہے۔ برے سے برا انسان بھی فحش کو برا ہی سمجھتا ہے ۔وہ جھوٹ،بے ایمانی اور وعدہ خلافی کو اور دوسروں کو ایذا پہنچانے کو ہر حال میں برا سمجھتا ہے۔ وہ اپنے قتل کو تاویلات سے justify کرسکتا ہے لیکن اپنے ماں باپ،بھائی بہن یا بیٹے یا بیٹی کے قاتل کو کبھی معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔وہ دوسرے کو ظلم کا نشانہ بناسکتا ہے اور اس کی کوئی توجیہ پیش کرسکتا ہےلیکن جب کوئی اس پر ظلم کرے تو چیخ چیخ کر عدل و انصاف کی دہائی دینے لگتا ہے۔انسانی فطرت عدل و انصاف کا تقاضا کرتی ہے اور اسی بنا پرمہذب دنیا کے اندر عدلیہ کا نظام بنایا گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انسانی خود غرضی اور بدنیتی کی بنا پر انصاف کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔
قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا: فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو ایسے امتحان میں ڈالا گیا ہے کہ وہ اپنی روح یعنی شخصیت کو اخلاقی برائیوں اور نفسانی آلودگیوں سے پاک رکھے اور پاک کرے تاکہ اس کی مزکّی شخصیت اس دارِ فلاح کی مستحق بن سکے جو صرف مزکّی شخصیات کا مسکن ہوگا جس کو جنت کہا جاتا ہے۔اس امتحان کے لیے انسان کو ایسی دنیا میں رکھا گیا ہے جہاں اس کی شخصیت کے لیے اخلاقی گندگیوں سے ہروقت آلودہ ہونے کا امکان رہتا ہے۔ایسا شخص جو اس امتحان کے شعور سے ہی ناآشنا اور غافل ہو اس کے لیے اس اخلاقی آلائشوں سے بچنا ناممکن ہے۔اس امتحان کو مزید مشکل بنانے کے لیے شیطان کو انسان کا اخلاقی دشمن بناکر دنیا میں چھوڑ دیا گیا ہے جس کو وسوسوں کے ذریعے بہکانے کا اختیار دیا گیا ہے۔مزید اس امتحان کو اس طرح مشکل بنایا گیا ہے کہ اس کے اندر ایسا نفسانی داعیہ رکھا گیا ہے جو جائز اور ناجائز ہر طرح کی خواہشات پوری کرنے پر اکساتا ہے۔یہ اللہ کی رحمت ہے کہ ہر فرد کی استطاعت کے مطابق امتحان کو مشکل یا آسان بنادیا گیا ہے۔فرمایا گیا کہ ہر نفس پر اس کی استطاعت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا(سورۃ البقرۃ ۲۸۶) اس امتحان میں وہی نفوس کامیاب ہوسکتے ہیں جو پہلے امتحان میں کامیاب ہوں ۔ پہلاامتحان عقل کا ہے۔امتحان اس بات کا کہ انسان اپنی عقل و شعور کو استعمال کرکے آفاق وانفس کی نشانیوں کو دیکھ کر اور اپنے خالق کے احسانات کو محسوس کرکے اپنے اسے بغیر دیکھے پہچانے۔خالق نے اپنے آپ کو پردۂ غیب میں تورکھا لیکن لامحدود نشانیوں کے ساتھ اس نے اپنے وجود کوقابلِ محسوس بنادیا ہے۔ یہ پہلا امتحان معرفت کا امتحان ہے۔اس امتحان کوجہاں مشکل بنایا گیا ہے وہیں اس کو آسان بنا نے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے تخلیقی منصوبے اور عالَم غیب کی حقیقتوں کو اپنے منتخب بندوں یعنی انبیاءو رسل کے ذریعے انسانوں کے سامنے پیش کردیا ہے تاکہ نتیجہ کے دن کوئی یہ عذر پیش نہ کرسکے کہ ان کو اس امتحان کی حقیقت کا علم ہی نہیں تھا(سورۃ النسأ ۱۶۵) دوسرا امتحان یہ ہے کہ جب انسان اللہ کی معرفت حاصل کرلے اور اس کے رسولوں کے ذریعے جو ہدایت ملی ہے اس کو تسلیم کرلے تو اپنے رب اور خالق کی اختیاری طورپر اطاعت کرے جبکہ کائنات کی دوسری مخلوقات غیر اختیاری اطاعت پر گامزن ہیں (سورۃ آل عمران ۸۳) اسی دوسرے امتحان کو تزکیہ نفس سے تعبیر کیا گیا ہے کہ جس نے نفس کا تزکیہ کرلیا وہ کامیاب ہوا ۔اللہ کی ہدایات کی روشنی میں انسان اپنے نفس کا تزکیہ کرے یعنی اپنی شخصیت کو مزکّی اور پاکیزہ بنائے اور اخلاقی برائیوں سے اپنی روح یا نفس کو آلودہ نہ کرے ۔ ایک آلائش زدہ اور آلودہ روح مقام فلاح یعنی جنت کی مستحق نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کا تزکیہ نہ ہو۔نفس کا تزکیہ یہ ہے کہ انسان عقیدہ میں کفر و شرک سے پاک ہو،اس کی نیت میں اخلاص ہو،اس کی عبادات خود ساختہ بدعات سے پاک ہوں ، اس کے اعمال میں خرافات اور اسراف نہ ہواور اس کے اخلاق پاکیزہ ہوں ۔اس کی زندگی ایک شجر طیب کی طرح ہو جو انسانیت کے لیے نافع ہواور کسی بھی معنوں میں باعث ضرر نہ ہو۔جس طرح انسان میلے کپڑوں کو دھو دھوکر پہنتا ہے اسی طرح تزکیہ کا عمل ایک مسلم کی زندگی میں مسلسل چلتا رہتا ہے۔وہ اپنے عقائد و اعمال کا باربار احتساب کرتا رہتا ہے اور باربار اپنے رب کی طرف پلٹتا ہے تاکہ اس کی بداعمالیوں کی گندگی اسی طرح مٹ جائے جیسے سفید پوشاک کو میل سے پاک کیاجاتا ہے۔تزکیۂ نفس کا ایک اور پہلو ہے جو بہت اہم ہے اور وہ یہ ہےکہ تزکیہ کا عمل اللہ کی طرف سے بندے پر کیا جاتا ہے۔مصائب اور آلام کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیا جاتا ہے۔ موت کی تکلیف، عذاب قبر اور میدانِ حشر میں انتظار کے ذریعے بھی تزکیہ کیا جاتا ہے۔یہاں تک کہ ایک گناہ گار بندے کو جس کے اعمال نامے میں نیکیاں کم پڑجائیں اور گناہ زیادہ ہوجائیں لیکن اس کے دل میں ایمان ہوتو ایسے بندے کی جہنم کی آگ کچھ عرصہ تک اس کا تزکیہ کرے گی یہاں تک کہ جب وہ پوری طرح گناہوں سے مزکّی ہوجائے گا تو اس کو جنت میں داخل کردیا جائے گا(سورۃ البقرۃ ۱۷۴)
قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی ہدایت کے بغیر انسان نہ اس کی معرفت حاصل کرسکتا ہے اور نہ وہ مزکّی شخصیت بن سکتا ہے۔ انسان مجرد اخلاقی حس کی بنا پر بنیادی اخلاقیات پر عامل تو ہوسکتا ہے لیکن یہ اخلاقیات ایسی پائیدار نہیں ہوسکتیں کہ وہ نفس کے برے میلانات سے روکنے میں کامیاب ہوسکیں۔ محض بنیادی انسانی اخلاقیات سے انسان مزکّی شخصیت کا حامل نہیں بن سکتا۔اخلاقی حس کے ساتھ جب ہدایت ربانی سے انسان فیض یاب ہوتا ہے تو اس کے اندر اسلامی اخلاقیات پیدا ہوتے ہیں جو پائیدار اور ٹھوس ہوتے ہیں۔
اہلِ مغرب بظاہر سچے، امانت دار اور ایفائے عہد کرنے والے لوگ معلوم ہوتے ہیں جو کہ اصل میں یہ بنیادی انسانی اخلاقیات ہیں جو وہ بطور پالیسی اختیار کرتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ بنیادی اخلاقیات انسان کو اچھے شہری بناتے ہیں اور اچھے شہری بننے میں باہمی امن و سلامتی حاصل ہوتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جھوٹ سے ان کی شخصیت بے اعتبار ہوجاتی ہے جس سے ان کی معاشی ومعاشرتی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ اسی طرح بے ایمانی سے تجارتی ساکھ برباد ہوتی ہے جس سے ان کی تجارت متاثر ہوتی ہے۔ یعنی ان کی ساری اخلاقیات دنیاوی فائدوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔ان کی اخلاقیات محض ایک پالیسی اور لائحہ عمل کا حصہ ہیں۔ ان کے اندر ایسے اخلاقی اقدار پائے ہی نہیں جاتے جو ملک و قوم اور نسل کے مفادات سے بالاتر ہوں۔اسی لیے وہ اپنے ملکی مفاد کی خاطر دوسرے ممالک کے ساتھ ہر طرح کے جھوٹ،فریب اور ظلم کو جائز بنا لیتےہیں۔ان کی اخلاقیات مطلق، ٹھوس اور پائیدار نہیں ہوتیں ۔
بنیادی انسانی اخلاقیات پر مبنی جس کردار کی عمارت تعمیر ہوتی ہے وہ ہلکی سی آزمائش کی متحمل بھی نہیں ہو سکتی، جس طرح ایک بے بنیاد عمارت زمین کی ہلکی سی جنبش کی تاب نہیں لاسکتی ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ غیر مسلم اخلاقیات کے دعوے دار بدترین منافقت اور تناقض کا شکار ہوتے ہیں ۔جس چیز کو خود کے لیے اچھی قرار دیتے ہیں وہ دوسروں کے لیے گوارا نہیں کرتے۔ خود کے لیے جمہوریت کو پسند کرتے ہیں لیکن مسلم ملکوں میں انہوں نے بدترین جابر و ظالم حکم رانوں کو بٹھا رکھا ہے جو خود اپنی مسلم عوام پر روح فرسا ظلم ڈھاتے ہیں۔اپنے ملک کے فائدوں کی خاطر دوسرے ملکوں کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے ان پر خونی جنگوں کو مسلط کرتے ہیں۔اپنے لیے جس آزادی کے وہ شیدائی ہیں اس سے دوسروں کو محروم کرکے ان کو بدترین جبر واستبداد کے نظام میں مبتلا کر دیتے ہیں۔جو قوم اللہ سے کٹ جاتی ہے وہ شیطان سے جڑ جاتی ہے اور شیطان ان کا رہزن بن کر ان سے بدترین جرائم کا ارتکاب کرواتا ہے۔شیطان ان کے اعمال کو خوشنما بنا کر پیش کرتا ہے(سورۃ النحل ۶۳) شیطان ان کو اطمینان دلاتا ہے کہ وہ جو بھی کر رہےہیں بہت خوب کر رہےہیں (سورۃ الکہف۱۰۴)
ہدایت ربانی سے محروم ہوکر انسانوں کا ایک بڑا حصہ فطری اخلاقی حس کی بنا پر بنیادی انسانی اخلاقیات کو اختیار تو کرتا ہے لیکن اس کے اندر وہ محرک پیدا نہیں ہوتا کہ ان اخلاقیا ت کے خاطر وہ قربانی دے یا کوئی نقصان برداشت کرے۔نفسانی خواہشات کبھی بھی انسان کو ان اخلاقیات پر استقامت سے ٹکنے نہیں دیتیں اور جب نفسانی خواہشات حد سے بڑھ جاتی ہیں تو پھر انسان شیطان بننے لگتا ہے اور اپنی اخلاقی حس کو مسخ کر کے حیوان بلکہ حیوان سے بھی بدتر بن جاتا ہے(سورۃ الاعراف ۱۷۹)
اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ پر یہ فرض عائد کیا ہے کہ انسانوں کے سامنے اللہ کا تعارف پیش کریں، اللہ کا تخلیقی منصوبہ انسانیت کو سمجھائیں اور قرآن جیسی نعمت سے روشناس کروائیں جس پر عمل کرکے انسان دنیا میں سکونِ قلب وعزت اور آخرت میں جنت اور اللہ کی رضا حاصل کرسکتا ہے۔
اسلامی اخلاقیات کے فیوض وبرکات :
اسلامی اخلاقیات محض اخلاقی حس پر منحصر نہیں ہوتیں بلکہ اسلامی اخلاقیات کی عمارت اسلامی عقائد کی مضبوط بنیادوں پر تعمیر کی جاتی ہے۔
۱۔اسلامی ایمانیات انسان کو اللہ تعالیٰ سے جوڑتی ہیں۔تعلق باللہ ہی وہ شاہِ کلید ہے جس سے پیغمبروں نے بگڑے ہوئے معاشروں کو سدھارنے کی کوشش کی تھی۔اللہ سے تعلق انسان کو اخلاق کی بلندیوں پر پہنچاتا ہے۔اسلامی ایمانیات انسان کے اندر صبر اور شکر کی صفات پیدا کرتی ہیں۔ مسلم مصائب پر دل برداشتہ ہو کر مایوس نہیں ہوتا۔ بدترین حالات میں بھی وہ شکست خوردہ نہیں بنتا۔وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ کے ہر فیصلے میں اس کی رحمت اور حکمت مضمر ہے۔
کامیابیوں کے حصول پر یا نعمتوں کے ملنے پر وہ آپے سے باہر ہو کر تکبر میں مبتلا نہیں ہوتا بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ساری کامیابیاں اور ساری نعمتیں اللہ کی طرف سے ہیں اور یہ آزمائش ہیں جس طرح مصائب امتحان کا حصہ ہیں۔
۲۔ مسلمان ہر حال میں اللہ کو اپنا ماویٰ و ملجا سمجھتا ہے۔اسی پر اس کا سارا توکل ہوتا ہے۔وہ اپنی حد تک سعی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا لیکن نتائج کو اللہ پر چھوڑ دیتا ہے۔نا مساعد حالات میں مایوس ہونے کے بجائے وہ اللہ پر توکل کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے کوئی راستہ نکالے گا۔
۳۔ مسلمان کو ایک اللہ کے خوف کے سوا کسی اور کا خوف نہیں ہوتا۔ایک اللہ کا خوف اس کو ساری دنیا سے بے خوف و نڈر بنا دیتا ہے۔ وہ کسی طاقت سے مرعوب نہیں ہوتا۔
۴۔ مسلمان آخرت کا طالب ہوتا ہے اور دنیا کے لالچ میں مبتلا ہوکر اپنے اصولوں کے ساتھ سودا نہیں کرتا۔
۵۔وہ دنیا کی دولت،شہرت اور اقتدار کو عارضی سمجھ کر اس پر اتراتا نہیں بلکہ ہر حال میں اللہ کی خشیت اختیار کرتا ہے۔وہ تنہائی میں بھی اللہ کی نافرمانی سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔وہ بظاہر دنیا میں رہتا ہے لیکن وہ حقیقت میں آخرت کی جواب دہی کے احساس میں جیتا ہے۔
۶۔وہ سچائی،امانت داری اور ایفائے عہد کا خوگر ہوتا ہے۔
۷۔وہ حق کا داعی ہوتا ہے اور مدعو کا خیر خواہ ہوتا ہے۔مدعوکی کم ظرفیوں کو عالی ظرفی سے گوارا کرتا ہے۔
۸۔وہ ہر حال میں عدل و انصاف پر عامل ہوتا ہے، چاہے اس کی زد اس کی ذات یا اس کے عزیزو اقارب پر کیوں نہ پڑے ۔
۹۔ اللہ کا شکر اس صورت میں اد اکرتا ہےکہ اللہ کے بندوں میں سے جو محتاج ہوں اور مصیبت زدہ ہوں ان کا خیرخواہ بن کر ان کی حاجت پوری کرنے اور ان کی مصیبت کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ کی رضا جوئی کے جذبہ سے وہ انسانوں کی خدمت کرتا ہے۔
۱۰۔اسلامی اخلاقیات مسلمانوں کو کسی بھی ملک کا بہترین شہری بناتے ہیں جو اس ملک اور اس کی عوام کے لیے ان کو نافع بناتے ہیں۔ وہ کسی کے لیے باعثِ ضرر نہیں بنتے ۔

 

***

 انسان کو دو غیر معمولی چیزوں کے ساتھ پیداکیا گیا ہے: ایک ہے عقل و شعور اور دوسری چیز ہے اس کی فطرت میں ودیعت کی گئی اخلاقی حس۔ان دونوں نعمتوں کے ساتھ انسان کی تخلیق کرکے اس پر یہ اخلاقی ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ وہ آزادی فکر وعمل کو استعمال کرتے ہوئے اپنے روحانی وجود کو اخلاقی گندگیوں سے دور رکھے پھر اپنی شخصیت کو مزکّی بناکر اپنے خالق کے پاس لوٹے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 ستمبر تا 07 ستمبر 2024