اسلام محاسن اخلاق کا منبع

محمد عزیزالدین خالد، حیدرآباد

ہر چیز کا ایک منبع ہوتا ہے جس سے وہ نکلتی ہے۔ مثلاً پانی کا ایک منبع ہوتا ہے جس سے پاک و صاف پانی کا چشمہ ابلتا ہے۔ اسی طرح اخلاق کا بھی ایک منبع ہے جہاں سے وہ نکلتے ہیں، اس منبع کا نام ہے اسلام۔ جی ہاں! اسلام ہی محاسن اخلاق کا منبع ہے۔ اسلام ہی سے دنیا میں اخلاق پھیلے ہیں اور آئندہ بھی اسلام ہی سے لوگوں کو اخلاق ملیں گے۔ دنیا سمجھتی ہے کہ اسلام آج سے محض چودہ سو سال پہلے وجود میں آیا! نہیں، بلکہ اسلام اس وقت وجود میں آیا جب انسان کا ابھی زمین پر ظہور بھی نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ انسان کو عالم بالا ہی میں اسلام کا پہلا اصول بتا دیا گیا تھا کہ وہ اپنے رب کا بندہ ہے اور اسے اپنے رب کے احکام کو بلا چوں و چرا ماننا ہوگا اور شیطان، جو اس کا اصل دشمن ہے اس کے فریب میں آنے سے بچنا ہوگا۔ لیکن جب پہلے انسان نے شیطان کے بہکاوے میں آ کر ایک غلطی کی تو نتیجے میں ان کے جسم سے لباس اتر گیا۔ جس کے بعد انہوں نے توبہ کی جسے ان کے رب نے قبول کر لی۔ معلوم ہوا کہ شیطان سب سے پہلے انسان کو ایسے کام پر اکساتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی حیا کی چادر اتر جاتی ہے۔ یہ شیطان کا سب سے کارگر ہتھیار ہے اور اسی ہتھیار کے ذریعے سے وہ ازل سے لے کر آج تک انسانوں کا شکار کرتا چلا آ رہا ہے۔ چنانچہ اس نے اِس دور کے لیے اپنے ایک شاگردِ خاص چارلس ڈاروِن کو اپنا پیغمبر مقرر کیا۔ اُس نے ایک دن اچانک اٹھ کر اعلان کیا کہ تمام انسان جانور ہیں کیوں کہ وہ ایک جانور یعنی بندر کی اولاد ہیں۔ اس اعلان کے ساتھ ہی ان تمام لوگوں نے اس کی نبوت پر ایمان لانے کا اعلان کیا جو واقعی جانوروں کی سی فطرت کے حامل تھے، گویا وہ اسی کے منتظر تھے۔ انہوں نے اس عقیدے کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور دنیا بھر میں اس کی تبلیغ شروع کر دی۔ اسی تبلیغ کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا میں ہر طرف فحش و بے حیائی کے وہ مناظر نظر آ رہے ہیں جو جانوروں کی دنیا میں بھی نظر نہیں آتے۔ جب انسان خود کو جانور قرار دے لے تو اس کے اندر اخلاقیات کہاں باقی رہیں گی؟ وہ تو اسی طرح زندگی گزارے گا جس طرح جانور گزارتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جانور بے عقل ہوتے ہیں اس لیے بے سلیقہ و بے ڈھنگی زندگی گزارتے ہیں اور انسان چونکہ عقل رکھتا ہے اس لیے حیوانیت کو سلیقے سے برتتا ہے، جامعات کو اپنے نظریات کی تبلیغ کا ذریعہ بناتا ہے، جرائم کو منظم طریقے سے انجام دیتا ہے، ایوانوں سے اپنی خواہش نفس کے مطابق قوانین پاس کرواتا ہے اور طاقت کے ذریعے سے ان کو نافذ کرتا ہے۔ جسم فروشی ہو، لیو ان ریلیشن شپ ہو یا اپنے ہم جنسوں کے ساتھ بدکاری ہو، یہ تمام فواحش آج قوانین کے مضبوط حصار میں ہی تو پھل پھول رہے ہیں۔ یہ محاسن اخلاق نہیں ہیں جو اسلام کے چشمہ صافی سے پھوٹتے ہوں بلکہ یہ رذائل اخلاق ہیں جو گندی ذہنیت کے سوا کہیں سے نہیں نکلتے۔ دنیا کو اس گندگی سے بچانا ہو گا جسے گندگی کے متوالے عوام کو آزادی کی خوبصورت پیکنگ میں پیش کر رہے ہیں۔ انہیں بتانا ہو گا کہ انسان جانور کی اولاد نہیں ہے کہ جانوروں کی سی حرکتیں کرنے لگے بلکہ انسان، آدمؑ کی اولاد ہے اور آدم خدا کے پیغمبر تھے، وہ شرک نہیں کرتے تھے نہ انہوں نے خدا کی زمین پر کبھی خدا کی نافرمانی کی۔ اسی طرح دنیا کے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ نے عرب کے معاشرے کو شرک سے پاک کیا اور بہترین انسان تیار کر کے ان کو دنیا کے کونے کونے میں بھیجا تاکہ لوگوں کو ان کے رب کی طرف دعوت دیں اور اسلامی تعلیمات سے روشناس کروائیں۔ لوگوں نے ان کے قول و فعل کو جانچا پرکھا اور انہیں سچے انسان پا کر ان کی دعوت کو قبول کیا اور اسلام کے دامن رحمت میں پناہ لی۔ آج دنیا کے کونے کونے میں جو مسلمان نظر آ رہے ہیں وہ انہی پاک نفوس کی دی ہوئی اسلام کی دعوت کا نتیجہ ہے۔ مسلمانوں نے صدیوں سے اس کام کو چھوڑ رکھا ہے جس کے نتیجے میں ان پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں۔ یہ سلسلہ تھم سکتا ہے اگر مسلمان اپنے بزرگوں کے طریقے پر چلتے ہوئے لوگوں کو اللہ، ان کے رب کی طرف دعوت دینے لگیں۔ انہی کے پاس وہ نسخہ کیمیاء ہے جس پر عمل کے ذریعے سے وہ خود بھی دنیا و آخرت میں فلاح و کامیابی سے ہم کنار ہو سکتے ہیں اور دوسروں کو بھی راہ راست دکھا سکتے ہیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 ستمبر تا 07 ستمبر 2024