محمد جرجیس کریمی
سنیئر رکن ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ
بھارت ایک مذہبی ملک ہے، یہاں دسیوں طرح کے مذاہب پائے جاتے ہیں بلکہ بعض مذاہب کا جنم استھان بھارت ہی ہے،جیسے ہندو مت،بدھ مت،جین مت،سکھ مت وغیرہ۔ان مذاہب کے نقوش و آثار ملک کے چپہ چپہ پر نمایاں ہیں اور بھارت کی تہذیب و ثقافت میں ان کے گہرے اثرات موجود ہیں، مذہب خواہ کوئی بھی ہو اور عقیدہ و دھرم میں کتنا ہی اختلاف ہو،بہرحال وہ کچھ بنیادی تعلیمات دیتا ہے، جن میں شرافت، اخلاق،انسانیت، ایک دوسرے کا احترام، عدل و انصاف، انسانی حقوق کی تعلیمات وغیرہ۔ چنانچہ بھارت میں شروع سے مذہبی رواداری، مروت اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی فضا موجود رہی ہے۔ اگر اس ملک کی تاریخ میں اور یہاں کی فطرت میں یہ عنصر نہ ہوتا تو اس ملک میں مختلف مذاہب،تہذیبیں،قومیں اور ثقافتیں موجود ہوتیں نہ وہ ترقی کر پاتیں۔ لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت مختلف تہذیبوں،مذاہب اور قوموں کے ایک گلدستہ کی طرح نظر آتا ہے۔ موجودہ دور میں وہ انسانی قدریں جو کبھی اس ملک کی امتیازی شان تھیں، ان کی کمی محسوس ہوتی ہے۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں چند قدروں کی نشاندہی کی جاتی ہے جن کو موجودہ زمانے میں یہاں کے مختلف اقوام اور لوگوں کو اختیار کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
آدمی کے نفس پر جب چوٹ پڑتی ہے تو اس کو غصہ آتا ہے، لیکن یہی وہ موقع ہوتا ہے، جب انسان کی اخلاقی معیار کو پرکھا جا سکتا ہے،چنانچہ جو لوگ اپنے اخلاقیات کو منظم و مرتب نہیں کر پاتے ہیں وہ جا اور بے جا طریقے سے غصے کا اظہار کرنے لگتے ہیں،ان جذبات کے علی الرغم نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ بہادر وہ نہیں ہے جو کُشتی میں کسی کو پچھاڑ دے بلکہ حقیقی بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔ (بخاری)
ایک بار ایک شخص نے آپ سے نصیحت کی درخواست کی،حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ غصہ مت کرو ،اس شخص نے آپ سے پھر درخواست کی کہ نصیحت فرما دیجیے تو آپ نے پھر وہی بات ارشاد فرمائی کہ غصہ نہ کرو ،تیسری بار بھی اس شخص نے آپ سے یہی درخواست کی تو آپ نے پھر ارشاد فرمایا کہ غصہ نہ کرو۔ (بخاری)
حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے عصر کے بعد صحابہ سے خطاب فرمایا کہ مزاج کے اعتبار سے انسان مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں ان میں سب سے بہتر وہ ہے جس کو غصہ دیر سے آئے اور جلد چلا جائے اور سب سے خراب شخص وہ ہے جس کو غصہ جلد آئے اور دیر سے جائے۔ (ترمذی)
ان احادیث کی روشنی میں انفرادی معاملات میں بھی اور اجتماعی معاملات میں بھی، بلکہ قومی معاملات میں بھی جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان آپس میں اختلاط ہوتا ہے، غیض و غضب پر قابو پانے کی تعلیم ملتی ہے اور نفرت اور حسد کے جذبے کو ختم کرنے کی تحریک پیدا ہوتی ہے کیونکہ نرم مزاجی اور نرم گفتگو سے وہ سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے جو سخت مزاجی یا ترش گوئی سے حاصل نہیں ہوتا، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نرم خو ہے، نرم خوئی کو پسند فرماتا ہے اور نرم خوئی پر وہ کچھ عنایت کرتا ہے ،جو تند خوئی پر نہیں دیتا۔ (مسلم)
حضور اکرم ﷺ نے مزید ارشاد فرمایا کہ جس چیز میں نرمی ہو، اسے آراستہ اور خوبصورت بنا دیتی ہے اور جو چیز نرمی سے محروم ہو جائے وہ بدنما بن جاتی ہے۔
نبی کریم ﷺ کے مخالفین اور کفار و مشرکین آپ کو ایسے نام اور القاب سے پکارتے تھے جو آپ کی شان میں گستاخی پر مبنی ہوتے تھے، یہ جتنے بیہودہ اور ناشائستہ حرکت تھی وہ ظاہر ہے لیکن حضور اکرم سراپا رحمت تھے اس لیے کبھی اس پر مشتعل نہیں ہوئے اور نہ اپنے مخالفین کو کبھی غصہ میں آکر اسی طرح برے ناموں سے یاد کیا بلکہ صحابہ کرام کو کفار کی اس حرکت پر غصہ آتا تو تسلی دیتے تھے۔ احادیث مبارکہ میں کہیں یہ بات نہیں ملتی ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے بدترین مخالفین کے لیے بھی ناشائستہ الفاظ استعمال کیے ہوں یا ان کی ذاتی زندگی کی گندگیوں اور مفاسد کوطشت ازبام کیا ہو۔ آپ غیر مہذب طرز گفتگو کا جواب بھی مہذب طریقے پر دیا کرتے تھےم یہود آپ کی شان میں گستاخی کرتے رہتے تھے اور ایسے الفاظ کی تلاش میں رہتے تھے جس کے برے معنی نکلتے ہوں اور لفظی اور صوتی اعتبار سے کسی اچھے لفظ کے قریب ہوں، تاکہ دھوکہ دیا جا سکے۔ چنانچہ سلام سے قریبی لفظ عربی میں سام ہے جس کے معنی موت کے ہیں جب آپ کو سلام کرتے تو السلام علیکم کے بجائے السام علیکم کہہ دیتے، جس کے معنی سمجھ سکتے ہیں لیکن آپ اس کے جواب میں صرف وعلیکم کہنے پر اکتفا فرماتے تھے۔
ایک بار کچھ یہود ملاقات کے لیے آئے اور انہوں نے اسی طرح کے الفاظ کہے حضرت عائشہؓ موجود تھیں ان سے رہا نہیں گیا اور جواب دیا۔بل علیکم السام واللعنہ یعنی تمہارے اوپر بھی موت اور لعنت ہو، حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عائشہ بدزبان نہ بنو کہ اللہ تعالی کو ہر معاملہ میں نرمی پسند ہے (بخاری)
حضور اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کی ایسی تربیت فرمائی تھی کہ کفار و مشرکین سے سخت ترین جنگیں برپا ہوئیں، دونوں طرف سے تلواریں چلیں، تیریں چلیں، مگر اسلامی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ہے کہ صحابہ کرام نے کفار و مشرکین کو سب و شتم، گالیوں، دشنام طرازیوں اور برے القاب سے نواز کر ان کو ہرانے اور شکست دینے کی کوشش کی ہو۔صحابہ کرام نے ہمیشہ کفار و مشرکین کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی، اللہ کے کلام کو سنایا اور اس کے رسول کے ارشادات کو سنایا،مگرکبھی بھی انہوں نے بد خلقی اختیار کر کے کفار و مشرکین اور مخالفین کو زیر کرنے کی کوشش نہیں کی۔
مکی زندگی میں مسلمانوں کو طرح طرح سے ستایا جاتا تھا بعض صحابہ کو تپتے ریگستان میں گھسیٹا جاتا، ان کے سینے پر چٹان رکھ دی جاتی،بعض کو چٹائی میں لپیٹ کر دھواں دیا جاتا،بعض کو کوڑے لگائے جاتے،غرض کہ طرح طرح سے ان کو اذیتیں دی گئیں مگر صحابہ کرام نے کبھی بھی ان اذیتوں کے جواب میں بد زبانی، دشنام طرازی،گالی گلوج کا رویہ اختیار نہیں کیاقرآن مجید کے اندر مختلف انبیاء کے قصے بیان ہوئے ہیں ان میں حضرت موسی علیہ السلام کی دعوتی زندگی کا بہت تفصیلی ذکر ہوا ہے۔اللہ تعالی نے حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہم السلام کو فرعون کی طرف اسلام کی دعوت دینے کے لیے مامور فرمایا تھا۔فرعون کی سنگدلی اس کا ظلم و جور، کفر پر اصرار بلکہ اپنی خدائی کا دعویٰ،محتاج بیان نہیں ہے، اس کے باوجود حکم ہوا کہ اس کو نرمی کے ساتھ دعوت دی جائے، شاید اس سے عبرت حاصل ہو اور اس میں خدا کا خوف پیدا ہو جائے۔ (طہ:44)
غور کرنے کا مقام ہے کہ فرعون جیسے ظالم اور جابرو متکبر حکم راں کے ساتھ بھی نرم و گفتاری اور اچھی بات کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ خدا کے نیک بندوں کا طریقہ یہ ہے کہ ان کی چال ڈھال بھی تواضع اور فروتنی کا مظہر ہوتی ہے اور جب اوچھے قسموں کے لوگ ان سے ناشائستہ باتیں کرتے ہیں تو ان سے بھی کلمہ خیر کہہ کر ہٹ جاتے ہیں۔ (فرقان:63)
رسول اکرم ﷺ کے یہاں عزت نفس کا اس درجہ خیال تھا کہ غیر مسلموں میں بھی جو اصحاب وجاہت ہوتے آپ ان کا لحاظ فرماتے، آپ نے بادشاہ روم کو خط لکھا تو عظیم الروم کی لفظ سے خطاب فرمایا،یعنی روم کا عظیم شخص۔ بعض صحابہ کو اس تعبیر پر تامل تھا،لیکن حضور نے فرمایا کہ ان کو اسی طرح کہتے ہیں۔ بعض سرداران قبائل کو ازراہ احترام آپ نے اپنا تکیہ پیش فرمایا۔ ابو سفیان اہل مکہ کے سردار تھے، فتح مکہ کے موقع سے آپ نے ان کا اعزاز کرتے ہوئے، فرمایا جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے، اسے امان ہے۔ یہ آپ کا سلوک اور برتاؤ غیر مسلموں کے ساتھ تھا۔ آپ نے صحابہ کرام کو تلقین کی کہ جب کسی قوم کا سردار آئے تو اس کی عزت کرو۔
مسلمانوں نے دنیا کے مختلف ملکوں کو فتح کیا لیکن کئی ایسے ممالک ہیں جو فوجی مہمات کے ذریعے فتح نہیں کیے گئے بلکہ وہ مسلمانوں کے سلوک اور رویے سے وہاں کی آبادیوں نے اسلام قبول کیا اور آج وہ ممالک مسلمان ملک کہلاتے ہیں۔جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، جیسے انڈونیشیا ملائشیا وغیرہ اس طرح کے بعض ممالک افریقہ میں بھی واقع ہیں، جہاں مسلمانوں کی کبھی فوجی مہم نہیں چلی۔ ظاہر ہے کہ ان ممالک میں اسلام کی اشاعت کی واحد وجہ مسلمانوں کی خوش اخلاقی اور اعلی کردار ہے۔موجودہ دور میں یورپ اور امریکہ کے ممالک میں بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں اور ان کے دین اور ایمان کو دیکھتے ہوئے وہاں کی آبادیاں بڑی تعداد میں خاص طور سے خواتین اسلام کو گلے لگا رہی ہیں جو کہ ایک خوش آئند پہلو ہے۔ مومن کی تو شان یہ ہے کہ:
نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز
(علامہ اقبال)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 4 فروری تا 10 فروری 2024