اسلام میں مکافاتِ عمل اورجزاو سزاکا تصور
اعمال کے نتائج اور ظالم کو مہلت، مشیّتِ ایزدی کا حصہ، مگر اللہ کا قانونِ مکافات اٹل ہے
ڈاکٹر ساجد عباسی،حیدرآباد
اللہ تعالیٰ نے کائنات کو اس اصول پر بنایا ہےکہ اس کائنات میں اللہ کی صفاتِ عالیہ کا ظہور (manifestation)ہو ۔ اللہ تعالیٰ رب ہے اس لیے اس کی ربوبیت ہر لمحہ چارسو نظرآتی ہےکہ اس نے تمام مخلوقات کوپیدابھی فرمایا اور ہر ایک کی الگ الگ جبلتیں بھی بنائیں اور ان کے مطابق ہرزندہ مخلوق کی ضروریات بھی پوری کیں۔مخلوقات کو ضروریات کے ساتھ پیدافرمانا اور ان کے عین مطابق ان ضروریات کی تکمیل کا انتظام کرنا رب العٰلمین کے وجود کی ناقابلِ تردید دلیل ہے۔اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے کا تقاضایہ تھا کہ وہ ان گنت حیرت انگیز مخلوقات کو پیدا کرکے اپنی تخلیق کے شاہکار نمونے ہمارے سامنے پیش کرے ۔ ان مخلوقات میں عالمِ بالا میں پائے جانے والے اجرامِ فلکی ہیں اورزمین کے بحر و بر میں پائے جانے والے جمادات ،نباتات ، حیوانات اور انسان بھی ہیں ۔ مخلوقات میں اب تک سترہ لاکھ انواع (جنس) کی تعداد معلوم ہوئی ہے۔ حیوانات میں ہر سال تیرہ ہزارنئی انواع کی دریافت ہورہی ہے۔خوردبینی حیوانات کا احاطہ کیا جائےتو اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس کائنات میں ایک ارب کے قریب حیوانات کی انواع پائی جاتی ہیں ۔ ہر نوع کی جبلت ،غذا ، اس کے حصول کاطریقہ اورتولید وتناسل میں بے انتہا تنوع پایا جاتا ہے۔مخلوقات میں اتنا حیرت انگیز تنوع اللہ تعالیٰ کی صفتِ خالق ہونے کا اظہار ہے۔ اس نے انسان جیسی مخلوق کو پیداکیا جس کے اندر حسن شناسی کی قابلیت پیدا کی گئی تاکہ وہ اللہ کی حمد بیان کرے۔ وہ رحمٰن ہے تو اس کی صفتِ رحمت کا مشاہدہ ہر مامتا میں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے جس کی بدولت ایک ماں اپنے نوزائیدہ بچے پر اپنی مامتا کو نچھاورکرتی ہےجس کے بغیر انسانی و حیوانی وجود کا تسلسل اور بقاکا تصورناممکن ہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کے عادل ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ایسی دنیا بنائے جس میں ایک مخلوق کو وسائل دیے جائیں ، محدود اختیارات دیے جائیں ،آزادی فکر و عمل دی جائے اور اس کا امتحان لیا جائے اور پھر عدل کیا جائے۔اس غرض کے لیے انسان جیسی مخلوق کی تخلیق کی گئی ۔چنانچہ دوسری مخلوقات کے اندر نہ ہی شعورہے اور نہ اخلاقی حس، اس لیے ان کے لیے نہ فکر وعمل کی آزادی رکھی گئی ہے اور نہ ان کے لیے امتحان ہے۔ اللہ کی صفتِ عدل کا اظہاراس دنیوی زندگی میں اس طرح ہوتا ہےکہ ظالموں کو ایک حد کے بعد پکڑا جاتا ہے اور مکافاتِ عمل کا اظہارہوتارہتا ہے۔چونکہ یہ دنیا دارالعمل ہے اس لیے کامل و حتمی انصاف کو آخرت کے لیے رکھ دیا گیا ہےجو دارالجزاہے۔اللہ تعالیٰ نےانسان کو جس فطرت پرپیداکیا ہے وہ اس بات کا پر زور تقاضا کرتی ہے کہ اس کے ساتھ عدل ہو انصاف ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطرت اللہ (اپنی فطرت) پر پیدافرمایا ہے: فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ۔پس یک سُو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جمادو،قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نےانسانوں کو پیدا کیا ہے،اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی،یہی بالکل راست اور درست دین ہے،مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے دوسرے اندازسے اس طرح فرمایا : ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ ۔پھر اس کو نِک سُک سے درست کیااور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی اور تم کو کان دیے آنکھیں دیں اور دل دیے۔ تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔
یعنی اللہ کی صفات کا پرتو، ادنیٰ سطح پر انسان کی روح میں ودیعت کردیا گیا ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اعلیٰ ٰ شعور، بہترین صفات اور اخلاقی حس کے ساتھ پیدافرمایا ہے ۔اسی بنا پر انسان کو اشرف المخلوقات اور مسجودملائکہ کا درجہ دیا گیا ہے۔ انسان کے وجود میں جو اعلیٰ صفات فطری طورپر پائی جاتی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا عکس نظر آتا ہے جیسے تخلیقی صلاحیت ،تدبیر،حکمت ودانائی ،رحم دلی ،عدل و انصاف اوراولاد کی پرورش وغیرہ۔
اسی بنا پر انسان کی فطرت میں عدل کے مطالبات اور تقاضے بھی رکھ دیے گئے ہیں ۔انسان کی فطرت پکارپکار کر کہتی ہے کہ انصاف ہونا چاہیے بالخصوص جو مظلوم ہے اس کا دل پر زورطریقے سے انصاف کی دہائی دیتا ہے ۔ اسی انسانی فطرت کی پکار کے جواب میں دنیا میں عدلیہ کا نظام قائم کیا جاتا ہے۔دنیا میں امتحان کی غرض سےانسانوں چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ اپنے ارادے سے عدل کریں یا ظلم کا ارتکاب کریں ۔ ہر ظالم اپنے آپ کو عدل و انصاف سے بالاتر سمجھنے کی حماقت کرتا ہےاور اسی بناپر وہ دنیا میں ظلم کا ارتکاب کرتا ہے۔چونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اس دنیا میں فوراً سزانہیں ملتی وہ اللہ کے قانونِ استدراج (ڈھیل اورمہلت ) کی وجہ سے اس غلط فہمی کا شکار ہونے لگتا ہےکہ اس کائنات میں کوئی پکڑنے والا نہیں ہے ۔ وہ سمجھتا ہےکہ یہ کائنات شاید خودبخود بن گئی ہےاور اس کا کوئی خالق نہیں ہے۔اگر کائنات کا خالق ہو بھی تو شاید وہ اس کائنات کو بناکر کہیں مصروف ہوگیا ہےاور اس میں اندھیر نگری ہے کہ انسان یہاں جوچاہے کرتا پھرے ۔یا پھر ظالم لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اگر خدا ہے بھی تو وہ ان پر بہت مہربان ہے اور انہیں چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ جو چاہے کرتے رہیں ۔دنیا کے ظالم لوگ ان تصورات کے ساتھ ہی ظلم کرنے لگتے ہیں۔
بھارت میں جو حالات اس وقت پیش آرہے ہیں وہ سراسر ظلم پر مبنی ہیں ۔مسلمانوں کے لیے گویا قانون کی بالادستی کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔بلڈوزر سے ہر طرح کے گھروں کو (قیمتی ہوں یا معمولی )مسمارکرکے مکینوں کو بے گھر کرنا ظالموں کے لیے معمول بن گیا ہے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ سپریم کورٹ نے اس پر روک لگائی ہے۔اسی طرح بدنیتی کے ساتھ مسلمانوں کی وقف کی جائیدادوں پر ہاتھ ڈالنے کی مذموم کوشش کو بھی پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت نہ ملنے سے اس کو جوائنٹ پالمنٹری کمیٹی کے حوالے کردیا گیا ہے ۔گئو رکھشا کے نام پر مسلمانوں کو بے دردی سے ہلاک کیا جاتا ہے لیکن شبہ میں ایک برہمن لڑکے کو مارنے کے واقعے نے ملک کو سوچنے پر مجبورکیا کہ گاؤرکھشاکے نام پرکیسے غنڈوں کو چھوٹ دے دی گئی ہے کہ وہ جس مسلمان کا چاہے قتل کریں۔ جہاں تک مسلمانوں کی جان ،مال ،عزت ، مساجد ،مدارس ،پرسنل لااور اوقاف کا معاملہ ہے، لاقانونیت کا راج ہے۔پچھلے دس سالوں سے تو ظلم کی انتہا ہورہی ہےاور سوائے چند باضمیر لوگوں کے سارا میڈیا خاموش ہےاور الٹا مسلمانوں کو ہی موردِ الزام ٹھیرایا جاتا ہے۔
اس میں مسلمانوں کے لیے لمحۂ فکر ہے کہ کیوں ان کو دشمنوں کے حوالے کردیا گیا ہے جو بے رحمی سے ان پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔یہ حملے دراصل وہ تازیانے ہیں جو امتِ مسلمہ کو جگانے کے لیے ہیں ۔اللہ تعالیٰ چاہتا ہےکہ مسلمان اٹھیں اور دعوت الی اللہ کا دینی فریضہ انجام دیں ۔ وہ محض اقوام میں سے ایک قوم نہیں ہیں بلکہ ایک مشن بردارامّت ہیں جس کو لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھانے کی ذمہ داری کے ساتھ برپا کیا گیا ہے۔
اسلام کے تصورِ عدل کو حسب ذیل بنیادی نکات کے طورپر پیش کیا جارہا ہے :
۱۔اللہ تعالیٰ عادل ہے ۔صفتِ عدل کا تقاضا ہے کہ ظالم و مظلوم کے درمیان فرق ہو۔ظالم کو سزاملے اور مظلوم کو انصاف ۔ ظلم اسی وقت ہوگا جب ظلم کرنے کی آزادی ہو چاہے وہ محدودہی سہی ۔اسی سے امتحان کا تصور پیداہوتا ہےکہ یہ دنیا امتحان کی غرض سے بنائی گئی ہے اور اس میں انسان جیسی بااختیارمخلوق کو پیداکیا گیا ہے۔جو لوگ اس اختیار وآزادی کا صحیح استعمال کرتے ہیں وہ کامیاب قرار پائیں گے اور جو اس کا غلط استعمال کریں گے وہ ناکام قرار پائیں گے۔
۲۔ اس دنیا میں انسان قوم کو ظلم کرنے کی بھی آزادی ہے اور عدل کرنے کی بھی ۔اس لیے دنیا میں کسی نہ کسی درجے میں ظلم ہوگا۔چونکہ انسانوں کی فطرت میں عدل و انصاف کا مطالبہ ودیعت کردیا گیا ہے اس لیے یہاں پر عدالتیں قائم کی گئیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس دنیا میں مطلق عدل کا امکان بہت کم ہوتا ہے ۔طاقت ورلوگ اپنی طاقت کے زور سے عدل وانصاف کے حق میں فیصلوں کے صادر ہونے میں مانع ہوتے ہیں ۔
۳۔ اس دنیا میں ظلم کو امتحان کے لیے گواراکیا جاتا ہےلیکن لامحدود حد تک ظلم کو بڑھنے نہیں دیا جاتا ۔اگر ایسا ہوتا تو انسانیت کا وجود ہی خطرے میں پڑجاتا ۔ اس لیے ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو اللہ کا قانونِ مکافات عمل میں آتا ہےاور ظالم کو پکڑا جاتا ہے اور اس کو ظلم سے روک دیا جاتا ہے۔جیسے فرعون کو کافی مہلت دی گئی لیکن جب ظلم حد سے آگے بڑھ گیا تو اس کو غرق کردیا گیا ۔
۴۔ دنیا میں مکمل عدل و انصاف کا ملنا ناممکن ہے ۔عالمِ غیب ہستی صرف اللہ کی ذات ہے ۔وہی جانتا ہے کہ حقیقت میں کون مظلوم ہے اور کون ظالم۔دنیا میں تو ظالم دندناتے پھرتے ہیں اور جھوٹے الزامات کی پاداش میں معصوم لوگوں کو سزائیں دی جاتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہی نیتوں اور ارادوں کو جانتا ہےکہ کس نے کس نیت کے ساتھ گناہ یا ظلم کیا ہے۔کسی انسان کے بس میں نہیں ہےکہ مکمل انصاف کرے ۔اس لیے حتمی عدل و انصاف کےلیے عالمِ آخرت کا برپا ہونا نہایت ضروری ہے۔مظلوم انسان کا دل پکارپکار کرکہتا ہے کہ اس کو انصاف ملے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا : أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ ۔کیا ہم فرماں برداروں کا حال مجرموں کا سا کر دیں؟سورۃ القلم ۳۵۔
وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ وَإِذَا الْمَوْؤُودَةُ سُئِلَتْ بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ اور جب جانیں (جسموں سے) جوڑ دی جائیں گی اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گاکہ وہ کس قصور میں مار ی گئی؟(سورۃ التکویر۷ تا ۹)
۵۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اندر لامحدود خواہشات کو رکھا ہےلیکن دنیا کو اس اصول پر بنایا ہے کہ انسانوں کی لامحدود خواہشات کی تکمیل محدود زندگی میں پوری نہیں ہو سکتیں ۔انسان چاہتا ہےکہ وہ ہمیشہ زندہ رہے ،کبھی بوڑھا نہ ہو اور نہ کبھی بیمار ہو ۔اس کو کبھی کوئی غم لاحق نہ اور نہ کوئی خوف ۔اس کو لامحدود نعمتیں ملتی رہیں اور کبھی کوئی نعمت چھن نہ جائے ۔اس دنیا میں انسانی فطرت کے یہ مطالبات پورے نہیں ہوسکتے ۔لیکن اللہ کا وعدہ ہے کہ یہ مطالبات پورے ہوسکتے ہیں لیکن اس دارالعمل میں نہیں بلکہ دارالجزا میں ۔جس جگہ یہ لامحدود خواہشات پورے ہوں گے اس جگہ کا نام جنت ہے ۔اس جنت کو پانے کے لیے انسان کو دارالعمل میں ایمان و عملِ صالح کے ساتھ صبر واستقامت کی زندگی گزارنی ہوگی ۔
۶۔ دنیا میں جو لوگ ظلم کرتے ہیں ان کے ظلم کے نتائج لامحدود مدت تک چلتے چلے جاتےہیں ۔ایک قاتل کسی فرد کا قتل کرتا ہے تو محض یہ ایک فرد کا قتل نہیں ہوتا بلکہ اس کے خاندان کی تباہی کا موجب بھی ہوتا ہے ۔اس کی بیوہ بیوی ،اس کے یتیم بچے اور اس کے بے سہارا والدین ورشتہ داروں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔اس قتل کے اثرات لامحدود ہوتے ہیں اور اس دنیا کی محدود سزا مقتول کو حقیقی انصاف نہیں دلا سکتی ۔اس لیے آخرت کی زندگی کا وجوب لازم ہے جہاں عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں ۔
۷۔ اسلام میں عقیدۂ آخرت کی بہت بڑی اہمیت ہے ۔آخرت کا عقیدہ یہ ہے کہ ہر انسان کو اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے عقائدو اعمال کے لیے جواب دہ ہونا ہے۔یہ عقیدہ دلوں میں اگر راسخ ہوجائے تو انسان بشری تقاضوں کے باوجود گناہوں سے بچنے کی کوشش کرے گا۔وہ تنہائی میں بھی گناہ اور ظلم کا ارتکاب نہیں کرے گا۔آخرت کی جواب دہی کا احساس انسان کو خواہشاتِ نفس کی اندھی پیروی سے باز رکھے گا: وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى ۔اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا۔(سورۃ النازعات ۴۰)
۸۔ آخرت میں جواب دہی کا احساس اسلامی اخلاقیات کی انتہائی مضبوط بنیاد ہے۔آخرت کی ابدی سزا آدمی کو گناہوں سے بازرہنے کا بہت بڑا محرک بن جاتی ہے اور جنت کی ابدی نعمتوں کی خواہش آدمی کو نیکی کے راستے کو اختیارکرنے پر ابھارتی ہے چاہے اس نیکی کےراستے میں کتنی ہی دشواریاں اور مصیبتیں پیش آئیں ۔اگر آخرت کا عقیدہ دل میں راسخ نہ ہوتو انسان جو بھی اخلاق اختیارکرے اس اخلاق کاکوئی اعتبارنہ ہوگا ۔ایسااخلاق ہلکی سی آزمائش کی بھی تاب نہ لاسکے گا۔
۹۔اللہ تعالیٰ نے قانونِ استدراج کے تحت ظالموں کو دنیا میں ڈھیل اور مہلت دیتا رہتا ہے۔اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ظالم اس مہلت سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے ظلم سے بازآجائیں ۔دوسرا مقصدیہ ہے کہ سزاکے طورپر ان کو مزید ظلم کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ وہ اپنے ظلم کا بھر پور بدلہ آخرت میں پائیں : وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْمًا وَلَهْمُ عَذَابٌ مُّهِينٌ ۔یہ ڈھیل جو ہم انہیں دیے جاتے ہیں اس کو یہ کافر اپنے حق میں بہتری نہ سمجھیں، ہم تو انہیں اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بار گناہ سمیٹ لیں، پھر ان کے لیے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے ۔(سورۃ آل عمران ۱۷۸)
۱۰۔ دنیا میں عام طورپر لوگ چھوٹی سی مصیبت پر بھی دل شکستہ ہوجاتے ہیں اور ان کے اندر خودکشی کے رحجانات پیداہونے لگتےہیں لیکن جن لوگوں کے دلوں کے اندر عقیدۂ آخرت جڑ پکڑ چکا ہوتا ہے وہ بڑی سے بڑی مصیبت پر بھی دل شکستہ نہیں ہوتے بلکہ وہ اس پر صبر کرتے ہیں ۔وہ اس یقین کے ساتھ ہر مصیبت کو صبرو استقامت کے ساتھ انگیز کرلیتے ہیں کہ مصیبت اللہ کے اذن ہی سے آتی ہے اوراللہ کے ہر فیصلے میں خیر مضمر ہوتا ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی راحت بھی عارضی ہے اور تکلیف و مصیبت بھی عارضی ہے۔وہ جنت کی آرزو میں صبر استقامت کا دامن نہیں چھوڑتے۔ان کو یقین ہوتا ہےکہ ان کے صبر کا بھرپور بدلہ جنت کی نعمتوں کی صورت میں ملے گا۔انبیا ء ورسل اوران کے اصحاب نے آخرت کو پیشِ نظر رکھ کراور اللہ کی خوش نودی کو مقصود بنا کر دنیا کی صعوبتوں کو برداشت کیا ۔بہت سوں نے جامِ شہادت نوش کیا ۔آج بھی غزہ و فلسطین کے شہداء اپنے خون کا نذرانہ اسی جنت کی آرزو میں پیش کررہے ہیں اور صبر و استقامت کی ناقابلِ یقین داستاں رقم کررہے ہیں ۔انصاف پسند لوگ ان کے ایمان کو دیکھ کر اور اسلامی تعلیمات سے پیداہونے والے اوصاف پر حیرت زدہ ہیں اور کچھ لوگ تو ان کے ایمان و یقین کو دیکھ کر آغوشِ اسلام میں پناہ بھی لے رہے ہیں ۔
***
دنیا میں عام طورپر لوگ چھوٹی سی مصیبت پر بھی دل شکستہ ہوجاتے ہیں اور ان کے اندر خودکشی کے رحجانات پیداہونے لگتےہیں ۔لیکن جن لوگوں کے دلوں کے اندر عقیدۂ آخرت جڑ پکڑ چکا ہوتا ہے وہ بڑی سے بڑی مصیبت پر بھی دل شکستہ نہیں ہوتے بلکہ وہ اس پر صبر کرتے ہیں ۔وہ اس یقین کے ساتھ ہر مصیبت کو صبرو استقامت کے ساتھ انگیز کرلیتے ہیں کہ مصیبت اللہ کے اذن ہی سے آتی ہے اوراللہ کے ہر فیصلے میں خیر مضمر ہوتا ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی راحت بھی عارضی ہے اور تکلیف و مصیبت بھی عارضی ہے۔وہ جنت کی آرزو میں صبر استقامت کا دامن نہیں چھوڑتے۔ان کو یقین ہوتا ہےکہ ان کے صبر کا بھرپور بدلہ جنت کی نعمتوں کی صورت میں ملے گا۔انبیا ء ورسل اوران کے اصحاب نے آخرت کو پیشِ نظر رکھ کراور اللہ کی خوش نودی کو مقصود بناکر دنیا کی صعوبتوں کو برداشت کیا ۔بہت سوں نے جامِ شہادت نوش کیا ۔آج بھی غزہ و فلسطین کے شہداء اپنے خون کا نذرانہ اسی جنت کی آرزو میں پیش کررہے ہیں اور صبر و استقامت کی ناقابلِ یقین داستاں رقم کررہے ہیں ۔انصاف پسند لوگ ان کے ایمان کو دیکھ کر اور اسلامی تعلیمات سے پیداہونے والے اوصاف پر حیرت زدہ ہیں اور کچھ لوگ تو ان کے ایمان و یقین کو دیکھ کر آغوشِ اسلام میں پناہ بھی لے رہے ہیں ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 ستمبر تا 05 اکتوبر 2024