اسلام میں جہاد و قتال کے مقاصد و آداب

بنی اسرائیل کے جرائم اور قرآنی ہدایات

ڈاکٹر ساجد عباسی،حیدرآباد

امن عالم کے قیام کی خاطر مسلم ممالک کو اپنی فوجی طاقت بڑھانے کی ضرورت
مشرقِ وسطیٰ ایک غیر ذمہ دار اور درندہ صفت وزیر اعظم کی وجہ سے بہت بڑی انسانی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔کسی بھی وقت تیسری جنگِ عظیم چھڑ سکتی ہے۔ قرآن نے ۱۴۵۰ سال قبل یہ بیان کردیا تھا کہ کس طرح ایک قوم جو انبیاء کا قتل کرتی تھی وہ کتنی شقی القلب ہوسکتی ہے۔دوسری اقوام نے انبیاء ورسل کو جھٹلایا تھا لیکن قتل کرنے کی جسارت کسی نے نہیں کی تھی لیکن بنی اسرائیل کے جرائم گناتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کی قاتلانہ ذہنیت کوقیامت تک آنے والے انسانوں کے سامنے پیش کردیا کہ وہ کس طرح انبیا ء کا قتل کرتے تھے(سورۃ آل عمران ۱۱۲) ان کا دوسرا جرم جو اللہ نے بیان فرمایا وہ یہ تھا کہ وہ اللہ کی نازل کردہ کتابوں میں تحریف کیا کرتے تھے(سورۃ البقرۃ ۷۹) کتابوں میں تحریف کرکے انہوں نے یہ عقیدہ گھڑلیا کہ وہ اللہ کی چہیتی قوم ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے ان کے اس بھرم کو چیلنج کیا کہ اگر تم اللہ کے چہیتے ہوتو پھر موت کی تمنا کرو(سورۃ الجمعہ ۶) وہ اس زعم میں مبتلا ہوئے کہ وہ اللہ کی منتحب و خاص اور چہیتی قوم ہے اس لیے ان کو حق ہے کہ وہ ساری دنیا کے لوگوں کو دوسرے درجے کا انسان سمجھیں، ان پر ظلم کریں اور ان کو قتل کرنے کو اپنے لیے جائز بنالیں۔اسی عقیدہ کی بنا پر وہ ایک سال سے اہلِ غزہ کا قتلِ عام کررہے ہیں۔ صہیونیوں نے یہ اصول اپنے لیے مقرر کرلیا ہے کہ وہ مسلسل حالتِ جنگ میں رہیں گے جس سے ان کو مسلسل نئی زمین ملتی رہے گی ۔چنانچہ ۱۹۴۸ء سے وہ اسی اصول پر اپنی ناجائز ریاست کو وسعت دیتے چلے جارہے ہیں۔ان کی جنگی حکمتِ عملی یہ نہیں ہے کہ وہ صرف مسلح فوج کو نشانہ بنائیں گے بلکہ وہ شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں تاکہ وہ جان بچانے کے لیے زمینیں خالی کرتے چلے جائیں ۔اگر غزہ کی زمین پر ان کا قبضہ ہوجائے تو ان کا اگلا نشانہ لبنان اور سیریا ہوگا اور اس کے بعد عراق ہوگا۔اس کے بعد سعودی عرب بھی زد میں آئے گا۔اور پھر بات کسی حدپر جاکر نہیں رکے گی۔اسرائیل توسیع پسندی کی سوچ لے کر ایک جنگی تسلسل (perpetual war) میں رہنا چاہتا ہے، چاہے اس جنگ میں لاکھوں افراد مارے جائیں ۔ستم بالائے ستم یہ ہے کہ دنیا کی واحد سوپر پاور مجبور ہے کہ وہ اسرائیل کے مجرمانہ منصوبوں کا ساتھ دے اور اس کے لیے اپنی دولت کے خزانے بلا تردّد کے کھول دے ۔اس کی سیاسی قیادت کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ وہ ایک ناجائز ریاست کی تائید کے نتیجہ میں اپنی ہی قوم کو فاقہ کش رکھے اور اپنی غریب رعایا کو رہائش اور مفت حفظانِ صحت کے بنیادی حقوق سے محروم رکھے ۔ شر اور قوت جب ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں تو لازمی طور پر فساد فی الارض پیدا ہوتا ہے۔یہ ایک شیطانی ریاست ہے جو اس وقت کی سب سے بڑی طاغوتی طاقت ساری دنیا کو کنٹرول کرنے کے زعم میں مبتلا ہوکر اپنی نسل پرستی کے نشہ میں چور ہو کر فلسطینیوں کا قتل کر رہی ہے۔اس کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ عالمی جنگ کے چھڑ جانے سے دنیا کی معیشت پر کتنا برا اثر پڑے گااور لاکھوں انسان اس عالمی جنگ کا ایندھن بن سکتے ہیں۔
اس کے برخلاف اسلام میں جنگ کا تصور یہ ہے کہ دنیا میں عدل قائم ہو اور ظلم کا خاتمہ ہو ۔انسانی جان کا احترام ہو،چاہے ان کا کسی بھی مذہب سے تعلق ہو۔انسانی جان کے احترام کی اسلام میں بہت اہمیت ہے۔ایک انسانی جان کو بچانا گویا ساری انسانیت کو بچانا ہے (سورۃ المائدہ۳۲) اسلام میں جنگ شرکی طاقتوں کو قابو میں لاکر امن برپا کرنے کی خاطر کی جاتی ہے جب وہ ناگزیر ہوجائے۔ سیرت النبی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوگا کہ مکی زندگی میں پر امن طریقے سے دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیا گیا ۔ظلم و ستم کو سہا گیا لیکن انتقامی کارروائی سے پرہیز کیا گیا تاکہ معاشرہ میں خانہ جنگی (civil war)کی کیفیت پیدانہ ہو۔ اس لیے کہ خانہ جنگی کی صورت حال دعوت الی اللہ کے لیے غیر موزوں بن جاتی ہے۔ لوگوں کا اسلام قبول کرنے کے لیے پرامن ماحول درکار ہوتا ہے ۔عوام الناس جان لیں کہ کون مظلوم ہے اور کون ظالم ۔ خانہ جنگی کی صورت میں ظالم و مظلوم کا فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔عوام کی ہمدردی مظلوم جماعت سے ہونے لگتی ہے اور داعی جب مظلوم ہوگا تو دعوت میں بھی تاثیر پیدا ہوتی ہے ۔دیکھنے والا دیکھ لے کہ ان مظلومین کا قصور بس یہ ہے کہ وہ حق کے ماننے والے ہیں(سورۃ البروج ۸) ان سے دشمنی صرف اس لیے ہے کہ وہ اللہ کی بندگی کی طرف بلارہے ہیں۔ جب حالات اس قدر نامساعد ہوگئے کہ مکہ میں اہلِ ایمان کا رہنا ناممکن ہوگیا تو ہجرت کرنا پڑا ۔ہجرت کرنے کے بعد بھی مشرکین مکہ کو چین نہیں آیا اور انہوں نے مدینے کی نوزائیدہ اسلامی ریاست کو نیست ونابود کرنے کے لیے مدینہ پر تین مرتبہ چڑھائی کی ۔ان جنگوں میں دفاع کیا گیا۔ ان جنگوں میں کفارِ مکہ کو نہ صرف یہ کہ اپنے جنگی مقاصد حاصل نہیںہوئے بلکہ وہ کمزور ہوتے گئے جبکہ مسلمان مضبوط ہوتے گئے یہاں تک کہ قوت کا ایک ایسا توازن قائم ہواکہ صلح کے امکانات پیدا ہوئے اور صلح حدیبہ واقع ہوئی۔قرآن نے یہ اصول دیا کہ جب مسلمان کمزور ہوں تو صلح کی درخواست نہ کی جائے جس کے معنی اپنی کمزوری کو ظاہر کرنے کے ہوتے ہیں (سورۃ محمد۳۵) لیکن جب کفار صلح کی درخواست کریں تو اہل ایمان سے یہ فرمایا گیا کہ ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے چاہے وہ دھوکے کی نیت کے ساتھ ہی ایسی درخواست کریں (سورۃ الانفال ۶۱، ۶۲) ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ کس طرح اسلام جنگ پر صلح کو ترجیح دیتا ہے۔اس کے بعد اقدامی جنگوں کا آغاز ہوتا ہےاور اس سلسلے کی سب سے پہلی جنگ مکہ کی طرف پیش قدمی ہوتی ہے جو تاریخ میں فتح مکہ کے نام سے مشہور ہوئی ۔اس جنگ میں رسول اللہ ﷺنے ایسی جنگی حکمتِ عملی اختیار کی ہے کہ جس کے نتیجے میں بغیر کسی خون خرابے کے جنگ جیتی جائے ۔یعنی آپؐ نے چاہا کہ نہ مسلمانوں کا خون بہے اور نہ ہی ان دشمنوں کا جو ۲۰ سال سے مسلسل دشمنی کرتے چلے آرہے تھے اور وہ اہلِ مدینہ کے خون کے پیاسے بنے ہوئے تھے۔ چنانچہ اہلِ مکہ کی بے خبری کے عالم میں ان کے سر پر مسلمانوں کا دس ہزار کا لشکر مکہ پہنچا تو مشرکینِ مکہ نے سمجھا کہ وہ دن اہل مکہ کا آخری دن ہوگا اور سب کو قتل کردیا جائے گا۔لیکن تاریخ نے ایسامنظر کبھی نہ دیکھا اور نہ مستقبل میں اس کا امکان ہے کہ تمام جانی دشمنوں کو معافی کا پروانہ عطا کیا گیا۔ رحمت اللعلمین جس ہستی کا لقب ہے وہی ہستی ایسا عفو و درگزر کا معاملہ کرسکتی ہے۔ اس کے بعد جتنی بھی جنگیں ہوئیں ان میں کم سے کم جانی نقصان کے ساتھ فتوحات ہوتی گئیں ۔رسول اللہ ﷺکی زندگی میں جو غزوات اور سرایا ہوئے ان کی مجموعی تعداد ۸۲ہے اور ان میں دونوں طرف کے مقتولین کی تعداد ۱۰۱۸ ہے ۔اس لحاظ سے اوسطاً ہر غزوہ یاسرایا میں ۱۳ لوگ مارے گئے ۔اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ رسولِ اکرم ﷺکا انقلاب غیرخونی (bloodless)انقلاب تھا ۔دورِ نبوت اور خلفائے راشدین کے دور میں غیر مسلم فوجوں سے جو جنگیں لڑی گئیں ان کے مقاصد جو قرآن میں بتلائے گئے اور جو آداب سکھائے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں :
۱۔اسلام میں جنگ (قتال) اعلیٰ مقصد کے لیے لڑی جاتی ہے۔وہ مقصدیہ ہے کہ دنیا میں ظلم کو مٹاکر اس کی جگہ عدل قائم کیا جائے تاکہ دنیا انسانوں کے رہنے کے قابل بن سکے اور اسلام پر عمل کیا جا سکے ۔جب شیطان صفت لوگوں کے ہاتھوں میں قوت آجاتی ہے تو دنیا میں انسانیت کا وجود خطرہ میں پڑ جاتا ہے۔اس ضمن میں قرآن کی تین آیات اس مقصد کو واضح کرتی ہیں:
أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئےصرف اِس قصور پر کہ وہ کہتے تھے”ہمارا رب اللہ ہے۔“اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبداور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے سب مِسمار کر ڈالی جائیں۔اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔اللہ بڑا طاقتور اور زبر دست ہے ۔(سورۃ الحج ۳۹، ۴۰)
اس آیت میں جنگ کی اجازت دی گئی جب ایک اسلامی ریاست پر دشمن ملک کا حملہ ہو۔ یہ جنگ کی پہلی صورت ہے جس کو دفاعی جنگ کہا جاتا ہے۔اس آیت میں صرف مسلمانوں کی سلامتی پیشِ نظر نہیں ہے بلکہ فرمایا جا رہا ہے جب شرپسند لوگوں کے ہاتھ میں طاقت آجائے گی تو نہ صرف مساجد بلکہ خانقاہیں،گرجا گھر اور معبد(غیر مسلموں کی عبادت گاہیں) تباہ کردی جائیں گی ۔یعنی شرپسندوں کے خلا ف مزاحمت نہ کی جائے تو نہ صرف مسلمانوں کی جان بلکہ دوسرے انسانوں کی جان، مال، عزت اور ان کے معبد خطرہ میں پڑجائیں گے ۔
اہلِ غزہ کا اسرائیل کے خلاف اٹھنا اور اعلانِ جنگ کرنے کا جواز یہی آیت فراہم کرتی ہے۔ ۱۹۴۸ء سے ان پر ظلم کی ابتدا ہوئی، ان کی بستیوں پر بم برسا کر ان کو بے گھر کیا گیا ۔کچھ فلسطینیوں کو مغربی کنارے میں کمتر درجے کا شہری بناکر رکھا گیا اور باقی کو غزہ پٹی میں محصور کر دیا گیا۔ جو فلسطینی مغربی کنارے اور یروشلم کے قرب و جوار میں ہیں ان کو قید کرکےان کو بے انتہا اذیتیں دی گئیں۔ چنانچہ ستر۷۰سال پر محیط ظلم کے نتیجے میں ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو حماس نے اللہ پر بھروسا کرکے اسرائیل کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا آغاز کیا ۔
قرآن میں اقدامی جنگ کی اس وقت اجازت دی گئی جب ایک ملک میں مسلمانوں پربے انتہا ظلم ہورہا ہو: وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَـذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا ۔آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبالیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ خدا یا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔ (سورۃ النساء۷۵)
مکہ کو فتح کرنے کے لیے جو لشکر تیار کیا گیا تھا وہ اسی نوعیت کی اقدامی جنگ کے لیے تھا ۔ حالیہ جنگ میں لبنان اور یمن کی جانب سے اہلِ غزہ کی حمایت میں جو اقدامات کیے گئے اور ایران کا اسرائیل پر حملہ بھی اسی آیت کی روشنی میں تصور کیا جا سکتا میں ہے۔
قرآن کے مطابق جنگ کا اقدام اس وقت بھی کیا جاناچاہیے جب کسی ملک میں فتنہ کی کیفیت پیداہوجائے ۔فتنہ سے مراد ایسی حالت جس میں اسلام قبول کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کی آزادی نہ ہو : وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلّهِ فَإِنِ انتَهَواْ فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَى الظَّالِمِينَ۔ تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں۔ (سورۃ البقرۃ ۱۹۳) اسی آیت کو تھوڑے سے فرق کے ساتھ سورۃ الانفال(آیت ۳۹)میں پیش کیا گیا ہے۔
کبھی بھی اسلام قبول کروانے کے لیے جہاد وقتال نہیں کیا گیا ۔اسلام کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ دین میں زبردستی نہیں ہے (سورۃ البقرۃ ۲۵۶) اسلام میں ایسا ایمان معتبر ہی نہیں ہے جو جبر کے ذریعے منوایا جائے جس کے لیے دل سے قبولیت نہ ہو۔ جب اسلام میں دین کی اشاعت و تبلیغ میں جبر واکراہ کی اجازت نہیں ہے تو اسلام اس بات کو بھی گوارانہیں کرتا کہ قبول اسلام میں رکاوٹ ہو۔اگر ایسی رکاوٹ پائی جاتی ہے تو اس کو فتنہ سے تعبیر کیا گیا اور اس فتنہ کو دورکرنے کے لیے جہاد وقتال فرض ہوجاتا ہے اگر اس کی استطاعت ہو۔فتح مکہ سے قبل مکہ میں ایسی ہی صورتحال پائی جاتی تھی ۔
ان تین آیات میں ان اعلیٰ مقاصد کو پیش کیا گیا ہے جس سے دنیا میں امن و سلامتی قائم ہوسکتی ہے۔اسلام میں محض جہانگیری یعنی مملکت کی توسیع کے لیے جنگ کو کبھی مقصد نہیں بنایا گیا ہے۔
حالیہ جنگ میں ہم نے دیکھا کہ اسرائیل کا مقصد اس جنگ سے یہ ہے کہ وہ اپنی خودساختہ نسلی برتری کو ثابت کرے اور Greater Israel کے غیر معقول نظریہ کو روبہ عمل لائے چاہے اس مقصد کے حصول میں کتنے ہی معصوم لوگوں کو قتل کرنا پڑےاور کتنے ہی شہر اس کے نتیجہ میں نیست و نابود ہوں ۔
۲۔اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو امتحان کے لیے پیدافرمایا ہےاور اس غرض کے لیے یہاں پر شراور خیر دونوں کے علم برداروں کو آزادئ فکر و عمل دی گئی ہے۔جب خداترس اور عدل پسند لوگوں کے ہاتھ میں طاقت ہوتو دنیا میں امن وسکون قائم ہوگا ۔اور اگر شر پسندوں کے ہاتھ میں طاقت ہوگی تو دنیا میں فتنہ و فساد برپا ہوگا۔چونکہ اسلام کا صحیح عقیدہ ہی لوگوں میں خداترسی پیداکرتا ہے اس لیے قرآن میں مسلم حکم رانوں کو نہایت ہی قیمتی ہدایت دی گئی ہے کہ وہ طاقت کے توازن کو قائم رکھیں اور جنگی طاقت اور ٹکنالوجی کے حصول میں دشمنوں سے پیچھے نہ رہ جائیں : وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدْوَّ اللّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللّهُ يَعْلَمُهُمْ ۔ اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ (سورۃ لانفال ۶۰)
اندازہ لگائیں کہ اگر ایران اور اس کے حامی تنظیمیں فلسطین کی حمایت میں مزاحمت نہ کرتے تو اسرائیل اب تک غزہ،لبنان اورشام پر قابض ہوچکا ہوتا ۔اور اسرائیل وسعت پسندی کے جنون میں کسی حد پر نہ رکتا اور بے حس دنیا دیکھتی رہ جاتی۔ اہلِ غزہ پر قیامت ڈھانےکے مذموم اوروحشیانہ عمل میں امریکہ اور مغربی دنیا کی طاقتیں اسرائیل کی مدد کرتی رہیں۔یہ اللہ کی مدد ہے کہ ایران اور اس کی حاشیہ نشین قوتوں کی طرف سے کی گئی مزاحمت نے تو آج خود ظالم اسرائیل کے وجود ہی کو خطرہ میں ڈال دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی اس ایک آیت کی کتنی اہمیت ہے جس میں تاکید کی گئی کہ مسلم ملک فوجی طاقت میں دشمن سے آگے رہیں ۔ایران عرصۂ دراز سے اپنی فوجی طاقت کو بڑھانے کا کام کرتا رہا ہے۔کاش کہ دوسرے ممالک بھی اسلام کے دیے ہوئے اعلیٰ مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی فوجی طاقت کو بڑھانے کا کام کرتے ۔افسوس کہ بیشتر مسلم ممالک خارجی دشمنوں سے لڑنے کے بجائے اپنی ہی عوام کے دشمن بن کر ان پر جبر واستبداد کے ساتھ حکومت کرتے رہے ہیں اور فلسطین کو تباہ کرنے والی قوتوں کےزیرنگیں رہے ہیں ۔یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ قرآن کے اس حکم پر مسلم حکومتوں کے بجائے مسلم دشمن طاقتیں عمل کررہی ہیں اور فوجی طاقت کو بڑھانے میں ایک دوسرے سے مسابقت کررہی ہیں ۔
۳۔اسلامی جنگوں میں فوج (combatants) اور عام شہریوں (non-combatants)میں فرق رکھا گیا ہے۔چونکہ اسلامی جنگ کا مقصد ظلم کا خاتمہ ہے اس لیے اس کا ہدف دشمن ملک کی فوج ہوتی ہے نہ کہ عام شہری؟ روایت میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : کمزوروں، بوڑھوں، چھوٹے بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کیا جائے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ایک لشکر کو جو شام کی طرف روانہ کیا تھا انہیں ہدایات دی تھیں کہ وہ بچوں کو قتل نہ کریں ، کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھائیں، کسی بوڑھے کو نہ ماریں ، کوئی پھل دار درخت نہ کاٹیں اور نہ کسی باغ کو جلائیں۔
اسلام سے قبل ایامِ جاہلیت میں دشمن فوج جب شہر میں داخل ہوتی تو کوئی بھی محفوظ نہیں رہتا تھا ۔عام شہریوں کو بے دریغ قتل کیا جاتا ،خواتین کی عزتیں لوٹی جاتیں، گھروں کو آگ لگادی جاتی،کھیتوں اور مویشیوں کا نقصان پہنچایا جاتا اور ان کے اموال کو لوٹا جاتا ۔بچے کھچے لوگوں کو غلام اور لونڈی بنالیا جاتا اور ان کی خرید وفروخت ہوتی تھی ۔رسول اللہ ﷺ کو دنیا میں رحمت بنا کر بھیجا گیا چنانچہ آپ نے دنیا میں رائج وحشیانہ جنگ کو مہذب بناکراور جنگی آداب کو برت کر دنیا میں نئی مثال قائم کی۔ چنانچہ ملک فتح ہونے کے بعد مسلم حکم رانوں کے حسنِ سلوک سے متاثر ہوکر غیر مسلم آبادیاں حلقہ بگوشِ اسلام ہوتی چلی گئیں ۔
۴۔جزیہ کی حقیقت : جب کسی ملک کو فتح کیا جاتا تو اس ملک کی عوام کو کھلی آزادی دی جاتی ہے کہ وہ یا تو اسلام قبول کریں یااپنے ہی دین پر قائم رہیں۔ایسی صورت میں جو لوگ جو اپنے پرانے مذہب پر رہنا چاہتے ہیں ان سے جزیہ لیا جاتا ہے ۔جزیہ لینے کی حکمت یہ ہے کہ وہ اسلامی مملکت کے شہری بن کررہنے کو قبول کریں اور بغاوت کی نیت نہ رکھیں ۔اس کے بدلے ان کو شہری ہونے کے سارے حقوق ملیں گے اور ان کی جان ،مال اور عزت کی حفاظت اسلامی مملکت کے ذمے ہوگی ۔ جزیہ سے بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور معذوروں کو مثتثنی ٰرکھا جاتا۔ اسی طرح مال دار مسلمانوں سے زکوٰۃ وصول کی جاتی تاکہ حکومت کے مصارف میں جزیہ اور زکوٰۃ دونوں کا استعمال ہو۔ بھارت میں ٹیکس اداکرنے کے باوجود مسلمانوں کی نہ جان ومال محفوظ ہے اورنہ ان کی مساجد ومدارس ۔ مزید یہ کہ ان کو مسلسل خوف وہراس کے ماحول میں رکھا جاتا ہے۔
۵۔جنگی معاہدات کی پابندی :اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاء إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الخَائِنِينَ اور اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو عَلانیہ اس کے آگے پھینک دو، یقیناً اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔ (سورۃ الانفال ۵۸)
اس آیت سے پہلے یہ ہدایت کی گئی ہے کہ دشمن ملک سے جو معاہدہ بھی کیا جائے اس کی پابندی کی جائے ۔صلح حدیبیہ کے معاہدہ کی رُو سے کسی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ اگر وہ اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر بھاگ کر مسلمانوں کے پاس جائے گا تو مسلمان اسے واپس کردیں گے ۔اور مسلمانوں میں سے کوئی پناہ کی غرض سے قریش کے پاس آئے گا تو قریش اسے واپس نہ کریں گے۔یہ معاہد ہ ابھی لکھا ہی جارہا تھا کہ سہیل کے بیٹے ابوجندلؓ پیروں میں بیڑیاں لیے ہوئے آئے اور مسلمانوں سے فریاد کرنے لگے کہ وہ انہیں مدینہ لے چلیں ۔رسول اکرم ﷺنے فرمایا کہ چونکہ ابھی معاہدہ لکھا نہیں گیا ہے اس لیے انہیں ہمارے ساتھ جانے دیں ۔ابوجندلؓ کے باپ سہیل نے انکارکیا ۔رسول اللہ ﷺ نے ابوجندل سے فرمایا کہ صبر کرو اس لیے کہ معاہدہ کی روسے تم ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے۔
اگر دشمن کی طرف سے عہد شکنی کی گئی ہو تو مسلمانوں کے لیے یہ ضروری قراردیا گیا کہ وہ پہلے صاف اور صریح الفاظ میں معاہدہ کے خاتمہ کا اعلان کر دیں۔ اس کے بعد ہی وہ جنگی کارروائی کر سکتے ہیں۔صلح حدیبیہ کے معاہدہ کی جب قریش نے خلاف ورزی کی تو ان پر واضح کردیا گیا کہ اب ناجنگی معاہدہ باقی نہیں رہا ۔یعنی اس کے بعد ہر فریق کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف جنگی اقدام کرے۔ چنانچہ اسی خلاف ورزی کے بعد فتح مکہ کی راہ ہموار ہوئی ۔
۶۔ اسیرانِ جنگ کے ساتھ حسنِ سلوک:ایام جاہلیت میں اسیرانِ جنگ کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا جاتا تھا ۔اس ترقی یافتہ دورمیں بھی سوپر پاور امریکہ کی قائم کردہ جیل گوانتانا موبے اور عراق کی بدنام زمانہ ابو غریب جیل میں مسلم قیدیوں کو انسانیت سوز اور ناقابلِ تصور تعذیب سے گزارا گیا ۔اور آج بھی اسرائیلی جیلوں میں مرد و خواتین کے ساتھ معصوم بچوں کو بھی قید میں رکھا گیا اور ان پر تشدد کیا جارہا ہے۔ صرف اس جرم میں کہ وہ اپنے گھروں سے نکالے جانے پر احتجاج کررہے تھے ۔جنگِ بدر کے ۷۲ قیدیوں میں سے ۷۰ کو رسول اللہ ﷺ نے فدیہ لے کر چھوڑ دیا تھا۔ان قیدیوں کے ساتھ دورانِ حراست مہمانوں جیسا سلوک کیا گیا ۔جب ان قیدیوں کو رسی سے باندھا گیا تو سخت بندش کی وجہ سے کچھ قیدی کراہ رہے تھے تو رسول اللہ ﷺ کو نیند نہیں آئی اور آپؐ کے کہنے پر ان کی بندشوں کو ڈھیلا کیا گیا ۔غزوۂ بنی مصطلق کے بعد سو سے زیادہ مرد و زن قید ہوئے تھے لیکن ان کو غیر مشروط طور پر آزاد کر دیا گیا۔اسی طرح جنگِ حنین کے موقع پر چھ ہزار قیدیوں کو بھی بلا معاوضہ رہا کردیا گیا بلکہ کچھ قیدیوں کو انعام سے نوازکر رخصت کیا گیا ۔رسول اکرمﷺ جو رحمت للعٰلمین ہیں ان کے اسوہ کو سامنے رکھ کر خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی جب عراق ،شام ،مصر،ایران اور خراسان کے بڑے بڑے علاقے فتح کیے گئے تو ان مفتوح فوج کے اسیران کو بلا معاوضہ رہا کردیا گیا جن میں سے بیشتر نے اسلام قبول کیا ۔
یہ ہیں اسلام میں جنگ کے اعلیٰ مقاصد اور جنگ کے آداب ۔اسلام نے جنگ کو بھی مہذب بنایا اور اس کو مہذب دنیا کے لیے ایک بہترین نمونہ بناکر پیش کیا ۔کاش کہ لوگ اسلامی جنگ کے ان اعلیٰ مقاصداور جنگ کے اعلیٰ اقدار کو جانتے ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اسلام کی امن و سلامتی کی تصویر کو بگاڑکر اس کو دہشت گردوں کا مذہب قرار دیا گیا ۔داعیانِ اسلام کی ذمہ داری ہے کہ اسلام کی سچی تصویر لوگوں کے سامنے پیش کریں ۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اکتوبر تا 26 اکتوبر 2024