اسلام میں حقیقی آزادی کا تصور

سیاسی انقلابات سے سیاسی غلامی کا خاتمہ ممکن لیکن ذہنی غلامی سے چھٹکارا پانا آسان نہیں

ڈاکٹر ساجد عباسی،حیدرآباد

حقیقی آزادی یہ ہے کہ انسان ساری غلامیوں کے طوقوں کو اپنی گردن سے اتار پھینکے۔ صرف اپنے خالق کی غلامی کے طوق کو اپنی گردن میں ڈال کر ہر ایک کی غلامی سے آزاد ہوجائے۔
۱۵ اگست ۱۹۴۷ کو ہمارا ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا۔ہر سال اس دن آزادی کا جشن منایا جاتا ہے ۔سیاسی رہنما اور سرکاری عہدہ داروں کی طرف سے تقریریں کی جاتی ہیں۔ وہیں کچھ ناقدین جائزہ لے کر دیکھتے ہیں کہ ہمارا ملک کتنا آزاد ہوا ہے اور کتنا غلام ہے۔انگریزوں سے ہم نے سیاسی آزادی حاصل کی ہے لیکن آزادی کے ۷۷ سال بعد بھی آج بھارت کے عوام استحصالی طبقہ کے تسلط سے آزاد نہیں ہوئے ہیں۔ ملک کی آبادی کی اکثریت سیاسی ،معاشی اور مذہبی استحصال کا شکار ہے جس سے چھٹکارا نہ ملنے سے آج بھارت بے پناہ مادی و انسانی وسائل کے باوجود دنیا میں ترقی یافتہ کہلانے کے بجائے بھکمری اور غربت میں نام پیدا کر رہا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ٹیکس کی صورت میں جو رقم شہریوں سے وصول کی جاتی ہے وہ عوام کے لیے سہولتوں کی صورت میں واپس پلٹ کر آتی ہےجس سے عوام کی خوشحالی اور ملک کی ترقی میں اضافہ ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں بھاری ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جس کا بیشتر حصہ سیاستدانوں کی ہوس کی نذرہوجاتا ہے۔
غلامی کی کئی قسمیں ہیں : فکری، مذہبی، قومی، ملکی، معاشی اور سیاسی غلامی ۔
فکری و ذہنی غلامی : غلامی کی تمام اقسام میں سب سے بدترین فکری و ذہنی غلامی ہے۔اس غلامی میں عوام کو طبقات اور ذاتوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ پیدائش کی بنیاد پر کسی کو اعلیٰ اور کسی کو نیچ قرار دیا جاتا ہے۔ اس تقسیم کے ساتھ ایسا عقیدہ گھڑ دیا جاتا ہے کہ انسان کے پچھلے جنم کے اعمال کے نتیجے میں اس کا نیا جنم اعلیٰ یا ادنیٰ خاندان میں ہوتا ہے۔ یعنی ہر انسان اپنی پیدائش سے انعام یا سزا کا پروانہ لےکر پیدا ہوتا ہے۔ جو بدقسمت لوگ نچلی ذات کے خاندانوں میں پیدا ہوئے ہیں ان کے ذہنوں میں یہ عقیدہ یا آستھا پیدا کر دیا جاتا ہے کہ اس جنم میں اعلیٰ ذاتوں کی خدمت کے نتیجے میں اگلے جنم میں اس بات کا امکان پیدا ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ ذات کے خاندانوں میں اس کا جنم ہو۔یہ ایسی غلامی ہے جو فکر وذہن کا زاویہ ہی تبدیل کردیتی ہے اور بدترین ذہنی غلامی میں مبتلا کر دیتی ہے جو صدیوں تک چلتی رہتی ہے اور کوئی بھی اس غلامی سے نکل نہیں سکتا یہاں تک کہ اس کا عقیدہ ہی تبدیل ہوجائے۔ ایسی غلامی پھر ہر طرح کی غلامی کا دروازہ کھول دیتی ہے۔اس سے مذہبی ،معاشی اور سیاسی غلامی کے طوق بھی گردن میں ڈالے جاتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ ہر نوزائیدہ بچہ معصوم اور بے گناہ پیدا ہوتا ہے۔یہ زندگی دراصل پہلی اور آخری مہلت ہے جو انسان کو امتحان کے لیے دی گئی ہے۔موت کے بعد کئی زندگیاں نہیں بلکہ ایک ہی زندگی ہے اور وہ ابدی زندگی ہے۔ اس زندگی میں سارے انسانوں کو ایک ساتھ دوبارہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا جہاں سب کا حساب ہوگا۔دنیا کی عدالتوں میں حقیقی انصاف کا حصول ناممکن ہے لیکن خالقِ کائنات کی عدالت میں حقیقی انصاف ہوگا۔ جس کے نتیجے میں کسی کو ابدی جنت ملے گی اور کسی کو ابدی جہنم ۔یہ ہے کائنات کے خالق کا اصل تخلیقی منصوبہ۔ جب تک اس منصوبہ کو نہیں سمجھیں گے حقیقی آزادی پانے کا جذبہ پیدا نہیں ہوسکتا۔
مذہبی غلامی : مذہبی غلامی یہ ہے کہ مذہب پر کچھ افراد کی اجارہ داری قائم ہوجائے جس سے وہ مذہب کے نام پر لوگوں کا استحصال کرتے ہیں ۔اپنے آستانے سجاکر لوگوں کی سادہ لوحی کا فائدہ اٹھاکر ان کا استحصال کرتے ہیں ۔لوگوں کو یہ حق حاصل نہ ہوکہ وہ منطق کی بنیادپر کسی مذہبی عقیدہ، کسی مذہبی عمل اور مذہبی استحصال پر سوال کریں ۔سوال کرنے کو گناہ یا پاپ قرار دیا جائے گا۔ امتِ مسلمہ میں مسلکوں کی بنیاد پر امت میں تفرقہ و انتشار بھی مذہبی غلامی کا نتیجہ ہے ۔اس کا اہم سبب یہ ہے کہ لوگ اندھی عقیدت کا شکار ہوجاتے ہیں جبکہ قرآن جس بنیاد پر امت مسلمہ کو امتِ وسط اور خیرِ امت بنا کر انسانیت کی بھلائی کے لیے برپا کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہےکہ لوگ تفکر و تدبر کریں اور عقل کو استعمال کرکے شعوری طورپر ایمان لائیں ۔نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ جس امت کو ساری دنیا کی ہدایت کے لیے نکالا گیا ہے وہ خودغیر اسلامی عقائد کو اختیارکرکے غیر اللہ کے آستانوں کی اسیر بن چکی ہے۔
قومی غلامی : قومی غلامی یہ ہے کہ ایک قوم کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر اس کو غلام بنایا جائے ۔اس قوم کے افراد کی جان، مال، عزت و آبرو کو غیر محفوظ بنادیا جائے کہ جب چاہے ایک بھیڑ اکٹھا ہوکر ایک فرد پر جھوٹے الزام لگا کر اس پر ٹوٹ پڑے اور مار مارکر اس کو لہولہان کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے، جب چاہا ان کی بستیوں کو بلڈوز کردیا جائے، ان کی مسجدوں کی حرمت کو پامال کیا جائے یا ان کو منہدم کیا جائے۔
ان کے پرسنل لا کے مطابق عمل کرنے کی آزادی سے ان کو محروم کر دیا جائے۔ مسلم قوم کی دشمنی کو ساری سیاست کی بنیاد بنا دیا جائے اور اس سے سیاسی فوائد حاصل کیے جائیں۔ اور جب وسیع پیمانے پر سیاسی فوائد حاصل ہوجائیں تو چند لوگ یا خاندان فرعون بن کر سارے ملک کے اقوام کو غلام بنالیں۔
ملکی غلامی : ملکی غلامی یہ ہے کہ سارے ملک کو ہی غلام بنادیا جائے جس طرح امریکہ نے چند مسلم ممالک میں اپنے فوجی اڈے قائم کرکے ان کے پورے ملک کو ہی غلام بنا لیا ہے ۔وہاں کے حکم راں اپنی ملک کی سالمیت کے پیشِ نظر کوئی ایسا فیصلہ نہیں لے سکتے جو ان کی عوام کے حق میں ہو۔آج اسرائیل کے اطراف و اکناف کے مسلم ممالک آزاد نہیں ہیں کہ وہ امریکہ کے فوجی اڈوں کو اسرائیل کے حق میں استعمال ہونے سے روک سکیں۔
معاشی غلامی : معاشی غلامی کی مثال یہ ہے کہ ملک میں ایک فیصد ارب پنی ملک کی کل معیشت کے ۴۰ فیصد کا مالک بن جائے اور اپنی دولت سے ملکی سیاست پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے۔ ملکی بجٹ کو عوام کے لیے فائدہ مند بنانے کے بجائےان ایک فیصد مال دار لوگوں کے فائدوں کے لیے مرتب کیا جائے۔ملک کی اکثریت کو سودی نظامِ معیشت کے جال میں ایسا پھنسا دیا جائے کہ عام لوگ ساری زندگی سودی قرضے چکاتے رہیں ۔
سیاسی غلامی :سیاسی غلامی یہ ہے کہ الیکشن جیتنے کے ناجائز طریقے اختیار کیے جائیں ۔جھوٹ اور نفرت کے ذریعے اکثریتی طبقہ میں اقلیتوں کا خوف پیداکرکے ووٹ بٹورے جائیں۔ ووٹنگ مشینوں سے چھیڑ چھاڑ کی جائے۔دولت کے ذریعے عوام سے ووٹ خریدنے اور منتخب شدہ اسمبلی اور پارلیمنٹ کے ممبروں کو خریدنے کی کوششیں کی جائیں۔یہ ملک کو سیاسی طورپر غلام بنانے کی مذموم کوششیں ہیں جو علانیہ طور ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔یہ سب حربے عوام کی سیاسی آزادی کو چھین لینے کے مترادف ہے۔
سب سے بڑی آزادی ذہن و فکر کی آزادی ہے۔سیاسی انقلابات سے سیاسی غلامی ختم ہوسکتی ہے لیکن ذہنی غلامی سے چھٹکارا پانا بہت دشوار ہوتا ہے۔ذہنی غلامی دوسری غلامیوں کا بھی دروازہ کھولتی ہے۔اسلام ایسی نعمت ہے جو سب سے پہلے انسان کو ذہنی و فکری آزادی عطاکرتا ہے۔اسلام کا تصورِ آزادی یہ ہےکہ انسان اسی وقت حقیقی آزادی حاصل کرسکتا ہے جب وہ ایک اللہ کی غلامی و بندگی کو اختیارکرے ۔علامہ اقبال نے اس تصورِ آزادی کو ایک شعر میں سمودیا:
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
یہ تصور مغربی اقوام میں پائی جانے والی آزادی سے مختلف ہے۔اہلِ مغرب ایسی آزادی کے قائل ہیں جہاں انہیں نفسانی خواہشات کو پورا کرنے میں کوئی قانون رکاوٹ نہ بنے ۔وہ مطلق آزادی کے قائل ہیں۔اصل میں جس مطلق آزادی ان کو مطلوب ہے وہ حقیقی آزادی نہیں بلکہ وہ اپنے نفس کی غلامی ہے۔نفسانی خواہشات کی غلامی دراصل شیطان کی غلامی ہے جس کا انہیں شعور نہیں ہے ۔انسان جب اپنے خالق سے کٹ جاتا ہے تو پھر شیطان سے جڑجاتا ہےاور شیطان کی سب سے کاری ضرب یہ ہوتی ہے کہ وہ انسان کو شہوات اور نفسانی خواہشات کا غلام بنا کر چھوڑتی ہے۔اہلِ مغرب جس آزادی پر فخر کرتے ہیں وہ دراصل بدترین غلامی ہے جس کے اسیر ہوکر انہوں نے اپنے خاندانی نظام کو برباد کرلیا۔ آزادی یہ نہیں ہےکہ انسان مغرب کی سوچ اختیار کرکے اپنے ہی نفس اور شہوانی خواہشات کا غلام بن کر اپنے آپ کو آزاد سمجھے ۔ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ مغربی تہذیب نے مطلق آزادی کے نام پر ہم جنس پرستی کاجواز پیداکرلیا اور اس سے شدید تر جو چیزہے وہ ہے استبدالِ جنس ۔بچوں کو یہ تعلیم دی جارہی ہےکہ وہ اپنے جنس کے میلان کے مطابق اپنے جنس کو تبدیل کرنے میں والدین کے دباؤ کو بھی قبول نہ کریں۔اگر والدین دباؤ ڈالیں تو ان پر قانونی کارروائی ہوسکتی ہے۔اس بے لگام تصورِ آزادی نے ان اقوام کو نفس پرستی کا بدترین غلام بنادیا ہے۔ وہ نشہ،عریانیت اورفحاشی کے متنوع طورطریقے اختیار کرکے انسانیت کو رسوا کر رہے ہیں۔ان کے اندر انسان ہونے کا احساس بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لعنت ہے ایسی آزادی پر جو آزادی کے نام پر نفس کی بدتر غلامی ہے!
حقیقی آزادی یہ ہے کہ انسان ساری غلامیوں کے طوقوں کو اپنی گردن سے اتار پھینکے۔ صرف اپنے خالق کی غلامی کا طوق اپنی گردن میں ڈال لے۔ خالقِ کائنات ایسی ہستی ہے جس نے ہم کو نہ صرف پیدافرمایا بلکہ اسی کی طرف ہم سب کو بالآخر طوعاًیا کرھاً لوٹ کرجاناہے۔جو ہستی ہماری ابتداء کا منبیٰ ہے وہی ہماری انتہاکا ماویٰ بھی ہے۔اس حقیقت کو قرآن میں جامع طریقے سے اس طرح پیش کیا گیاہے: وَمَا لِي لاَ أَعْبُدُ الَّذِي فَطَرَنِي وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ۔آخر کیوں نہ میں اس ہستی کی بندگی کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے؟ سورۃ یٰس ۲۲۔
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي شَكٍّ مِّن دِينِي فَلاَ أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللهِ وَلَـكِنْ أَعْبُدُ اللهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ
اے نبیؐ! کہہ دو کہ لوگو، ”اگر تم ابھی تک میرے دین کے متعلق کسی شک میں ہو تو سن لو کہ تم اللہ کے سوا جن کی بندگی کرتے ہو میں ان کی بندگی نہیں کرتا بلکہ صرف اسی خدا کر بندگی کرتا ہوں جس کے قبضے میں تمہاری موت ہے۔ (سورۃ یونس ۱۰۴)
ان دونوں آیات میں داعی کی طرف سے مدعو سے یہ فرمایا جارہاہے میں اس ہستی کی بندگی کرتا ہوں جس کو طرف تم کو لوٹ کر جانا ہے۔
ابن تیمیہ نے فرمایا کہ:بدترین قیدکی حالت میں بھی میرا ضمیر آزاد ہوتا ہے اور جلاوطنی میرے لیے سیاحت ہے۔اصل میں قیدی اور اسیر وہ بادشاہ ہیں جو اپنی خواہشات ِ نفس کے غلام ہیں۔
حقیقی آزادی کا اسلام جو تصور دیتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک فرد جسمانی قید کے ساتھ ذہنی غلامی اور مذہبی غلامی سے آزاد ہو، وہیں ایک اسلامی مملکت سیاسی و فوجی طور پر آزاد ہو اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں حکومت چلاسکے ۔اسی تصورکو پیش کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا تھا:
ملا کو جو ہے ہند میں ہے سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اول روز سے ایک مسلمان یہ مطالبہ کرے کہ اس کو آئیڈیل حالات دستیاب ہوں کہ سجدے کی اجازت کے ساتھ ملک میں مکمل اسلامی نظام قائم ہو ۔کسی رسول اور نبی کو کبھی بھی آئیڈیل حالات نصیب نہیں ہوئے ۔ان کے ذمے تو یہ کام تھا کہ فساد سے بھری ہوئی زمین میں اصلاح کا کام کریں ۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک وائرس سے بھرے ہوئے موبائل فون یا کمپیوٹر کو ایسا Reset کیا جائے کہ وہ اس حالت میں آجائے جیسے وہ نئی حالت میں تھا۔ ہر رسول نے انسانیت کو فساد کی حالت میں پایا اور اس کی اصلاح اس طرح سے ہوئی کہ اتمامِ حجت کے بعد قوم کو مفسدوں کے فساد سے اللہ کے عذاب کے ذریعے صاف کردیا گہا یہاں تک کہ معاشرہ میں صرف مصلحین باقی رہے ۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ رسولوں کے ذریعے ہر بار زمین میں اصلاح ہونے کے بعداس میں دوبارہ فساد برپا نہ کرو: وَلاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ اللّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ ۔زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے۔(سورۃ الاعراف ۵۶)
اس لیے ایک داعی کا کام یہ ہے کہ جتنی بھی آزادی میسر ہو اس کو استعمال کرکے وہ انسانیت کو ساری غلامیوں سے آزاد ی کا سبق پڑھائیں ۔
بنگلہ دیش میں جو سیاسی تبدیلی رونما ہوئی، وہ دراصل طلباء کی سیاسی آزادی حاصل کرنے کی دیرینہ آرزو تھی جو پندرہ سال سے اندر ہی اندر سلگ رہی تھی جو آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑی ۔یہ کسی کی سازش کا نتیجہ نہیں ہے۔ جن قوموں میں ذہنی غلامی پائی جاتی ہے وہ کبھی آزادی حاصل کرنے کی جرأت اپنے اندر نہیں پاتیں ۔جنوبی افریقہ کی جیل میں نیلسن منڈیلانے ۲۷ سال قیدِ تنہائی میں گزارے لیکن ان کا ذہن کبھی فرنگیوں کے تسلط کو دل سے قبول نہیں کیا ۔فلسطین کے ہر بچے کے دل میں صیہونیوں سے فلسطین کو آزاد کروانے کاجذبہ موجود ہے جس کی بدولت وہ آزادی کے لیے سب کچھ لٹا رہے ہیں ۔وہ انسانی تاریخ کا بدترین ظلم سہ کر بھی بیت المقدس کی آزادی چاہتے ہیں، چاہے اس کے لیے غزہ کے تمام بچے بڑے شہید ہوجائیں ۔
فرد کے لیے فکر وعمل کی آزادی اور قوم کےلیے سیاسی آزادی کی تمنا اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔جن افراد و اقوام میں یہ تمنا زندہ رہتی ہے وہ قومیں زندہ ہوتی ہیں جو کسی نہ کسی نہ کسی موقع پر آزادی حاصل کرلیتی ہیں۔ بھارت کی قومیں صدیوں سے ذہنی غلامی کا شکار ہیں، نتیجے میں وہ حقیقی آزادی سے آج تک محروم ہیں۔ مختلف ذاتوں میں منقسم ہوکر اس تقسیم کو انہوں نے ذہنی طور پر قبول کرلیا ہے۔اس تقسیم کو آج تک انہوں نے چیلنچ نہیں کیا ۔بھارت حقیقت میں اس وقت آزاد ہوگا جب یہاں کی قومیں اس خودساختہ انسانوں کی ذات پات کی تقسیم کو چیلنچ کریں۔اسلام ان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ ایک اللہ کی بندگی و غلامی اختیار کریں تاکہ ہر طرح کی غلامی سے نجات پائیں۔
فکر و عمل کی آزادی کی اصل روح یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی غلامی اختیارکرکے ہرایک کی غلامی سے آزاد ہوجائے۔ حضرت یوسفؑ نے فرمایا تھا : يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ۔اے جیل کے ساتھیو، تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب غالب ہے؟ (سورۃ یوسف ۳۹)
اس ایک آیت میں آزادی کا جامع سبق پڑھایا گیا ہے کہ کیا ان گنت بناوٹی خدا بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟اللہ کے سوا سارے فرضی خداؤوں کی نفی ہی میں حقیقی آزادی کا راز مخفی ہے۔ان فرضی خداؤوں میں انسان کے اندروں کا خدا خود اس کا نفس ہے۔ بیرون میں وہ تمام طاغوتی طاقتیں ہیں جو ایک اللہ کی بندگی کی راہ میں حائل ہوتی ہیں۔تمام فرضی خداؤوں کے فرضی خوف اور ان سے وابستہ جھوٹی امیدوں سے نجات ہی میں حقیقی آزدی،سکون اور آخرت کی کامیابی ممکن ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 اگست تا 24 اگست 2024