ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد
انسان چاہے وہ کسی بھی مذہب کا حامل ہو ، اسلام میں بحیثیتِ انسان اس کی تکریم و فضیلت ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاً ۔یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیااور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔(سورۃ بنی اسرائیل ۷۰)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو مسجودِ ملائکہ بنایا ہے اور اس کو فکرو عمل کی آزادی عطافرمائی ہے اور دین میں جبرواکراہ نہیں رکھا (سورۃ البقرۃ ۲۵۶)۔رسول اللہ ﷺ سے خطاب کرکے فرمایا: وَلَوْ شَاء رَبُّكَ لآمَنَ مَن فِي الأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُواْ مُؤْمِنِينَ (سورۃ یونس ۹۹) اگر تیرے رب کی مشیّت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرماں بردار ہی ہوں)تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تُو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟
اسلامی مملکت میں غیر مسلم اقلیت میں ہوں تو ان کی جان ،مال ،عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری اسلامی حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔ اسی حفاظت کی قیمت جزیہ کے طورپر غیر مسلموں سے لی جاتی ہے۔جزیہ اس بات کی علامت ہے کہ ایک غیر مسلم شہری خوش دلی کے ساتھ اسلامی مملکت کا وفادار شہری بن کر رہنے پر راضی ہے اور بغاوت کا ارادہ نہ رکھے ۔ حضرت علیؓ نے ارشاد فرمایا کہ ”غیر مسلم شہری ٹیکس اس لیے ادا کرتے ہیں کہ ان کے خون ہمارے خون کی طرح اور ان کے مال ہمارے اموال کے برابر محفوظ ہو جائیں‘‘۔ معترضینِ اسلام نے جزیہ لینے کو منفی طور پر پیش کیا اور اس کو انصاف کے خلاف قراردیا جبکہ آج دنیا کے تمام ممالک میں ٹیکس لیا جاتا ہے اور ٹیکس میں چوری کو جرم قراردیا جاتا ہے۔اسلامی مملکت میں مسلمانوں سے زکوٰۃ وصول کی جاتی ہے اور غیر مسلموں سے جزیہ جس کو عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کیا جاتا ہے۔جیسے غریب مسلم عوام سے زکوٰۃ وصول نہیں کی جاتی اسی طرح سے غریب و نادار غیرمسلموں سے جزیہ بھی نہیں لیا جاتا ۔اگر کوئی غیر مسلم بھوک و افلاس کا شکار ہوتو اسلامی مملکت کا یہ فرض ہے کہ اس کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کرے جس طرح ایک مسلم نادار کی ضرورت پوری کی جاتی ہے۔ حضرت عمرؓ نے شام کے گورنر حضرت ابو عبیدہؓ ؓکو جو فرمان لکھا تھا اس میں منجملہ دیگر احکام کے یہ بھی درج تھا:” تم بحیثیت گورنر شام، مسلمانوں کو غیر مسلم شہریوں پر ظلم کرنے ،انہیں نقصان پہنچانے اور ناجائز طریقہ سے ان کا مال کھانے سے سختی کے ساتھ منع کرو “۔ ایک دفعہ گورنر مصر حضرت عمرو بن العاصؓ کے بیٹے نے ایک غیر مسلم کو نا حق سزا دی ۔ خلیفہ وقت امیر المومنین حضرت عمرؓ کے پاس جب اس کی شکایت کی گئی تو انہوں نے سر عام گورنر مصر کے بیٹے کو اس غیر مسلم مصری سے سزا دلوائی اور ساتھ ہی وہ تاریخی جملہ ادا فرمایا جو بعض محققین کے نزدیک انقلابِ فرانس کی جدو جہد میں صدائے انقلاب بنا۔ آپ نے گورنر مصر حضرت عمرو بن العاصؓ کے بیٹے سے فرمایا:”تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا؟“۔ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:”خبردار! جس نے کسی غیر مسلم شہری پر ظلم کیا یا اس کا حق مارا یا اس پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالا یا اس کی دلی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز اس سے لی تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے جھگڑا کروں گا “۔ اگر اسلامی ریاست میں موجود غیر مسلم شہریوں پر کوئی باہر سے حملہ آور ہو اور انہیں پکڑنے ،مارنے یا اذیت دینے کی کوشش کرے تو اس صورت میں اسلامی ریاست پر لازم ہے کہ ان کا تحفظ کرے ۔ اسلام غیر مسلم شہریوں کو نہ صرف ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے بلکہ ان کی عبادت گاہوں کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے ۔ حضرت ابو بکرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :”جو مسلمان کسی غیر مسلم شہری (معاہد) کو نا حق قتل کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام فرما دے گا“۔انسانی جان کی حرمت کو اس طرح قائم کیا گیا کہ قصاص کو فرض کردیا گیا اور فرمایا گیا کہ قصاص میں انسانی معاشرہ کی بقا ہے(سورۃ البقرۃ ۱۷۸، ۱۷۹)۔
اسلام میں قبائلی عصبیت کی گنجائش نہیں ہے۔قبائلی نسبت محض تعارف کےلیے ہے کہ فلاں شخص فلاں قبیلہ و قوم سے تعلق رکھتا ہے یا فلاں زبان بولتا ہے لیکن انسانیت کی تکریم اگر ہوگی تو وہ اس علم و تقویٰ کی بنیا د پر ہوگی جو اس نے اپنے ارادہ سے اختیار کیا ہو(سورۃ الحجرات ۱۳)۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ و بلند مقصد کے لیے تخلیق فرمایا ہے اور اس کی تخلیق احسنِ تقویم پر فرمائی ہے ۔ہر بچہ معصوم sinlessاورفطرتِ سلیمہ پر پیداہوتا ہے ۔بعد میں وہ ماحول سے متاثر ہوکر اپنے عقیدہ وعمل کے فساد میں مبتلا ہوتا ہے جس کا وہ خود ذمہ دار ہوتا ہے اور عنداللہ مسئول بھی ۔اس کے برخلاف جوشخص فکر و عمل کے فساد سے پاکیزگی حاصل کرتا ہے وہ مزکی شخصیت بن جاتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے ۔یہی کاوش اللہ کے نزدیک قابلِ قدرہے اور یہی انسان کی تکریم و عزت کا معیار ہے۔اس کے برخلاف رنگ ،نسل، زبان و علاقہ کی بنیاد پر انسانوں کی تکریم و فضیلت کے سارے تصورات کی اسلام نفی کرتا ہے۔ خطبہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا : اے لوگو! خبردار ہوجاؤ کہ بے شک تمہارا رب ایک ہے اور تمہارے باپ (آدم علیہ السلام) ایک ہیں۔ کسی عرب کو غیر عرب پر اور کسی غیر عرب کو عرب پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی گورے کو کالے پر اور نہ کالے کو گورے پر فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ کے۔مزیدآپؐ نے فرمایا :”بے شک تمہارا خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہاری اس دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں مقرر کی گئی ہے ۔“
اسلام میں ان سفارت کاروں کی جان کی بھی حرمت ہے جواسلام کے دشمن ہوں ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں :”میں حضور اکرم کے پاس بیٹھا ہوا تھا جب مسیلمہ کذاب کی طرف سے دو لوگ سفارت کار بن کر آئے تو انہیں آپ نے فرمایا:کیا تم دونوں اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ انہوں نے (اپنے کفر و ارتداد پر اصرار کرتے ہوئے )کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ(معاذ اللہ ) اللہ کا رسول ہے ۔حضور نبی اکرم نے ( تحمل کی اعلیٰ ٰ مثال قائم کرتے ہوئے ) ارشادفرمایا : اگر میں سفارت کاروں کو قتل کرنے والا ہوتا تو تم دونوں کو قتل کر دیتا۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ دشمن ملک کے سفارت خانہ اور اس کے اسٹاف کی حفاظت اسلامی مملکت کی ذمہ داری ہے ۔انسانی جان کی حرمت کے یہ وہ آداب ہیں جو ۱۴۵۰ سال قبل بتا دیے گئے ہیں جب سفارت کاروں کا قتل عام بات تھی اگروقت کے بادشاہ کو ان کی باتیں نا گوار گزرتیں ۔ اسی طرح غیر مسلم مذہبی رہنماؤں کے قتل کی بھی ممانعت کی گئی ۔حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے :”رسول اللہ ﷺ جب اپنے لشکروں کو روانہ کرتے تو حکم فرماتے :غداری نہ کرنا، دھوکہ نہ دینا ،نعشوں کی بے حرمتی نہ کرنا اور بچوں اور پادریوں کو قتل نہ کرنا“۔
اسلام دنیا میں عدل و قسط اور انصاف کا علم بردار ہے ۔اسلام میں قتال بھی اس لیے فرض کیا گیا ہے کہ دنیا میں ظلم ،فتنہ و فساد باقی نہ رہےاور وہ نظام غالب رہے جس میں امن کی ضمانت ہے(سورۃ الانفال ۳۹) ۔انسانی تاریخ نے ثابت کردیا کہ اسلام کےماسواہر مذہب کے ماننے والوں نےانسانیت کو ظلم اورناانصافی اور قتلِ ناحق سے لہولہان کیا ہے ۔اس وقت ملک میں ہندتوادیوں نےساورکر اور گولوالکرکے نظریات کو عملی جامہ پہنا نا شروع کردیا ہے جس میں صاف کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔یہی شدت پسندانہ نظریات ملک کی تقسیم کا باعث بنے جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ قتل ہوئے اور اس سے زیادہ ہجرت کرنے پر مجبورہوئے ۔یہودیوں کی صہیونی تحریک نے ایسے انسان دشمن لیڈر پیداکیے جنہوں نے فلسطین کے بچوں ،عورتوں کے قتل کو جائز بنالیا ہے اور اب وہ گریٹر اسرائیل کے ناپاک خواب کو پوراکرنے کے لیے اہلِ غزہ وفلسطین پر قیامت ڈھارہے ہیں ۔ ابھی شام میں حالات معمول پر بھی نہیں آئے اسرائیل اس نازک موقع سے فائدہ اٹھاکر شام کی زمین پر قبضہ کرتا چلا جارہا ہے۔صہیونی درندے اپنی ناجائزریاست کو وسعت دینے کی ایسی ہوس رکھتے ہیں کہ وہ چاہے تو قیامت تک اپنا ظلم جاری رکھیں گے ۔ایسا لگتا ہے عیسیٰ ابن مریم ہی آکر ان کے ناپاک ارادوں سے ان کو باز رکھیں گے ۔عیسائی حکم راں صلیبی جنگوں سے لے کر آج تک مسلم ملکوں میں سازشوں کے ذریعے جنگ کی آگ کو بھڑکانے اور ان میں خانہ جنگی برپا کرنے کے راستے پر آج تک گامزن ہیں ۔ بدھ مذہب جو بہت پر امن سمجھاجاتا تھا اس کے ماننے والوں نے میانمار(برما)میں ہزاروں روہنگیائی مسلمانوں کا قتلِ عام کرکے اراکان کے مسلمانوں کو جلا وطن ہونے پر مجبورکردیا جو آج بنگلہ دیش میں پناہ گزیں بنے ہوئے ہیں ۔برخلاف اس کے اسلامی تعلیمات کا اثر ہے کہ کسی مسلم حکم راں نے اپنی مملکت میں غیر مسلموں کو نشانہ نہیں بنایا ۔ ایسی کوئی تاریخی دستاویز نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ مسلم مملکت میں غیر مسلموں کو ظلم و جبر کا نشانہ بنایا گیا ہو۔عرب ممالک میں حکم رانوں نے اپنی مسلم رعایا پر ظلم کیا لیکن انہوں نے عیسائی و یہودی اقلیت کو ہاتھ تک نہیں لگایا ۔ملکِ شام میں علوی اقلیت نے سنی مسلم اکثریت پر روح فرسامظالم ڈھائے اور چھ لاکھ لوگوں کا قتل کیا اور آج وہی ظالم، رحم کی بھیک مانگ رہے ہیں تو ان کو عام معافی دی جارہی ہے۔پوری اسلامی تاریخ میں مسلم مملکت میں حکومت کی سطح پر کبھی اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور ان کوحقوق کو سلب کرنے کی کوئی مہم جوئی نہیں کی گئی ۔ مغل بادشاہوں پر جھوٹے الزامات لگاکر جھوٹی تاریخ کو نئی نسل کے سامنے پیش کیا جارہا ہے لیکن ہوش مند لوگ یہ پوچھنے کی جسارت نہیں کررہے ہیں کہ ان الزامات کا تاریخی ثبوت کیا ہے۔مسلم بادشاہوں نے ہندواکثریت کو خوش رکھنے کی کوشش کی یہاں تک کہ شہنشاہ اکبرنے ایسا دین ایجاد کیا تھا جو ہندوؤں کے لیے بھی قابل قبول ہو۔اگر بادشاہ بابر نے ظلم کیا ہوتا تو تلسی داس کی تحریروں میں اس ظلم کی ایک جھلک ضروردکھائی دیتی جوشہنشاہ اکبر کے ہم عصر تھے ۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام ہی دنیا میں امن و سلامتی کی ضمانت دے سکتا ہے ۔اگر اسلام میں جہاد و قتال کا حکم دیا گیا تو اس لیے دیا گیا تاکہ ظلم کا خاتمہ ہواور دنیا رہنے کے قابل بنی رہے ۔جب بھی ظلم کے ساتھ اقتدارجمع ہوجاتا ہے تو امن کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ دینِ اسلام کا غلبہ بھی اسی لیے مطلوب ہے جس سے انسانیت کو امن وا نصاف میسر آئے ۔جہاد فی سبیل اللہ کا واحدمقصدیہ ہے کہ دنیا سے ظلم کا خاتمہ ہو اورانسانوں کو فکر وعمل کی آزادی حاصل رہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ جہاد جیسے مقدس لفظ کو ہمارے ملک میں بہت بدنام کیا گیا ۔
رسول اللہ ﷺنے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد میثاقِ مدینہ کے ذریعے مدینے میں رہنے والے تمام لوگوں کویکساں شہری حقوق دیےاور یہودیوں سے معاہدات کیے تاکہ مدینہ بیرونی حملوں سے محفوظ رہے لیکن یہودی قبائل بدعہدی کرتے گئے جس کی وجہ سے ان کو جلاوطن کردیا گیا ۔یہودی قبیلہ بنو قریظہ نے تو حدکردی ۔انہوں نے غزوۂ احزاب کے موقعہ پر ایسی بدعہدی کی کہ سارے مدینے کے باشندوں کی زندگیوں کو خطرہ سے دوچار کردیا ۔ چنانچہ اس بدعہدی کی سزا ان کو تورات کے احکام کے مطابق دی گئی ۔
اسلام عدل وقسط کا دین ہے ۔قرآن کے احکامات تو اتنے واضح ہیں کہ دشمن قوم کی دشمنی بھی عدل وقسط کرنے میں مانع نہ ہو ۔اس سے بڑھ کرعدل وقسط کامعیار کیا ہوسکتا ہے؟اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ لِلّهِ شُهَدَاء بِالْقِسْطِ وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (سورۃ المائدہ ۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھرجاو۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈرکر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پُوری طرح باخبر ہے۔
خالقِ کائنات کا سچا کلام ہی عدل و قسط کا ایسا معیار انسانیت کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔اسلامی تعلیمات کے اثرات نے انسانیت پر ایسا گہرا اثر ڈالا کہ جس ملک میں بھی امن کی فضا میسرآئی وہاں اسلام کے بہترین اصول اور مسلمانوں کے کردار نے اسلام کے پھیلنے کے اسباب فراہم کیے چناں چہ انڈونیشیا اور ملائیشیا میں اسلام اسی طرح پھیلا ۔جنوبی بھارت میں بھی اسلام عرب تاجروں کے اخلاق اور ان کی دعوت کے ذریعے پھیلا ۔اسلام کی اشاعت کے لیے جبر کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی یہ مطلوب ہے۔اسلام کی روشن تعلیمات میں اتنی طاقت تھی کہ اسی سے لوگوں کے دل مفتوح ہوئے ۔طاقت سے ظالموں کا زور توڑا گیا لیکن دلوں کو فتح کرنے کا کام تو اسلام نے کیا ۔طاقت سے ملک فتح کیے جاسکتے ہیں دل نہیں ۔تاتاریوں نے بغداد میں ہول ناک خوں ریزی کے ذریعے عباسی خلافت کا خاتمہ کیا لیکن ان کے پاس ایسی تہذیب اور ایسا عقیدہ نہیں تھا جس سے وہ عربوں کے دل جیت سکیں ۔چنانچہ فاتحین مفتوح قوم کے دین سے اتنامتاثر ہوئے کہ انہوں نے مفتوح قوم کا دین قبول کیا ۔یہ ایسا معجزہ تھا جس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی کہ فاتحین نے مفتوح کا دین قبول کیا ہو ۔
بھارت میں اسلام دشمن عناصر ہندو قوم کوقائل کرنے کی کوشش کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں کہ بھارت میں جو مسلمان ہیں یہ وہ ہندو ہیں جنہوں نے اسلام کو جبر کے ذریعے قبول کیا ہے لہٰذا ان کو گھر واپسی کرنی چاہیے ۔وہ تاریخ کو مسخ کرکے مسلمانوں کو دشمن قوم ثابت کرنا چاہتے ہیں تاکہ مسلمانوں کی جان ،مال اور عزت و آبرو پر حملوں کے لیے جواز فراہم کیا جائے۔ مسلم اقلیت پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔اگر مسلمانوں کو گھر واپسی کروانی ہوتو اسلام کے خلاف وہ نظریاتی جنگ کرنا کیوں نہیں چاہتےجس سے اسلام کے مقابلے میں ہندومذہب کی برتری کو ثابت کرسکیں۔ان کو معلوم ہے کہ نظریاتی جنگ میں وہ جیت نہیں سکتے اس لیے انہوں نے جبرو تشدد کا راستہ اختیارکیا ہوا ہے یا وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو ملک میں امن میسر آجائے تو پھر یہاں اسلام پھیلے گا۔بھارت کے مسلمانوں کے لیے یہ صبر آزما حالات دراصل ان کو خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے ہیں تاکہ وہ دینِ اسلام کے سچے پیراور داعی بنیں اور اپنے مقصدِ وجود پر گامزن ہوں ۔
***
اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی جان، مال اور عزت کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جزیہ ان کی حفاظت کی علامت ہے اور نادار غیر مسلموں سے یہ وصول نہیں کیا جاتا۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے کسی غیر مسلم شہری پر ظلم کیا، قیامت کے دن میں اس کا وکیل بنوں گا۔‘‘ (ابو داؤد)
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 جنوری تا 11 جنوری 2024