اسلام کی نظر میں صحافت ،امانت اور عوامی خدمت کا ذریعہ

سچ میں جھوٹ کی ملاوٹ، حقائق میں ہیراپھیری اور مفاد عامہ سے کھلواڑ کب تک؟

فضل الرحمن، علی گڑھ

کارپوریٹ اجارہ داری اور نجی مفادات نے میڈیا کو اخلاقی بگاڑ میں مبتلا کیا
اظہار رائے کی آزادی کے غلط استعمال سے ذرائع ابلاغ کا اعتبار مجروح
صحافت یا میڈیا میں اخلاقیات کی بحث بہت قدیم ہے۔اخلاقی بگاڑ سے میڈیا بھی محفوظ نہیںہے۔حالیہ برسوں میں جب دائیں بازو کی جماعتوں کا اثر و رسوخ سماجی و سیاسی سطح پر قومی و بین الاقوامی منظرنامے پر بہت واضح اور نمایاں نظر آنے لگا ہے تو میڈیا میں اخلاقیات کی وکالت بھی اسی شدو مد کے ساتھ کی جانے لگی ہے۔ اگر ہمارے ملک کی بات کریں تو یہاں بھی دائیں بازو کی تنظیموں کے اثر و نفوذ اور کارپوریٹ کلچر کے اُبھار کے باعث مین اسٹریم میڈیا بشمول پرنٹ، براڈ کاسٹ، ڈیجیٹل اور انٹرٹینمنٹ میڈیا میں اخلاقی گراوٹ، نیوز روم کی یک طرفہ بحثوں کے ذریعہ نفرت کی یلغار، غیرجانب دار میڈیا آؤٹ لیٹ کی گھیرابندی کے لیے متعصبانہ ریگولیٹری قوانین کی منظوری اور غیر جانبدار میڈیا اداروں اور صحافیوں کی آن لائن ٹرولنگ ایک عام بات ہوگئی ہے۔ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی جانب سے بھی ایسی فلمیں بنائی جارہی ہیں جو کمزور اور حاشیہ پر رہنے والے طبقات، خاص طور سے ملک کی اقلیتوں بشمول مسلمانوں کی منفی تصویر کشی کرتی ہیں اور عوام کی نظروں میں انہیں ویلن کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ میڈیا کی اس روش کی وجہ سے اس کا اعتبار بری طرح مجروح ہوا ہے ۔
میڈیا اپنی ذمہ داریوں سے بھٹک گیا
پریس کونسل آف انڈیا نے 133 صفحات پر مشتمل اپنی کتاب بعنوان ’’نارمس آف جرنلسٹک کنڈکٹ‘‘ میں صحافتی اخلاقیات پر کافی طویل بحث کی ہے نیز، اچھی اور بری صحافت کے فرق کو مثالوں سے واضح کیا ہے۔ کونسل نے صحافیوں اور ایڈیٹروں کی سماجی، قانونی اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کو اپنائے جانے کی وکالت کی ہے ۔
جب ہم اس عمدہ دستاویز کی عملی تعبیر تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو مایوسی ہاتھ لگتی ہے۔ آخر میڈیا اپنی ذمہ داریوں سے کیوں بہک گیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں میڈیا پر نظر رکھنے والے لکھنؤ نشیں ذولسانی صحافی مسٹر سہیل وحید کہتے ہیں کہ ’’اخلاقیات ردّی کی ٹوکری میں پڑی ہیں، البتہ ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ میڈیا حالات کے اعتبار سے اپنی روش بدلتا ہے جسے وہ ’سچویشنل ایڈجسٹمنٹ‘ کا نام دیتا ہے۔ انہوں نے کہا ’’چونکہ تقریباً سبھی میڈیا گھرانے کارپوریٹ کی تحویل میں ہیں اس لیے اپنے مفاد میں وہ حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی میڈیا اداروں کے مالکین نظریاتی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں اس لیے اپنے مفادات پر مبنی مواد فراہم کرنا ان کی اولین ترجیح ہے۔ صحافتی غیر جانب داری کا تصور یا جمہوریت کا چوتھا ستون محض خوبصورت اعلانیہ بن کر رہ گئے ہیں‘‘۔
صحافتی اداروں کی وضع کردہ اخلاقیات
صحافیوں کو نہ صرف اخلاقی معیارات کو برقرار رکھنے کے لیے بلکہ اپنی آزادی اور اپنے آئینی حقوق کی حفاظت کے لیے ایمان داری سے کام کرنا چاہیے۔ ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے صحافیوں کے لیے ایک ضابطہ اخلاق تیار کیا ہے جو بالواسطہ طور پر صحافتی اداروں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اس میں اخبار یا الیکٹرانک چینل کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے حقائق کو ایمان داری سے پیش کرنے اور ان پر بغیر کسی تعصب کے منصفانہ تبصرہ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس ضابطہ اخلاق کے مطابق جان بوجھ کر غلط بیانی اور جانب دارانہ تبصرہ ساکھ کے لیے دشمن ہیں۔ سنسنی خیزی سے کام لینے سے رپورٹ کے معانی بدل جاتے ہیں جس سے چند گھنٹوں یا ایک دو دن کے لیے توجہ حاصل کی جاسکتی ہے لیکن مسلسل سنسنی خیزی سے پرنٹ یا الیکٹرانک چینل کا اعتماد عوام کی نظروں میں ختم ہوجاتا ہے ۔
حقائق کی درستگی کا احترام، اعتبار حاصل کرنے اور ساکھ بنانے کا ایک بہتر ذریعہ ہے۔ یہ لوگوں کے جاننے کے حق کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو بغیر کسی تبصرے کے اور اپنے ’فیصلے‘ سے قبل حقائق بتائے جائیں۔ مؤخرالذکر کے لیے بھی جگہ ہے، لیکن حقائق کو بیان کرنے کے بعد اور بالکل علیحدہ جگہ پر ایسا کیا جائے تاکہ حقیقت اور رائے کے درمیان قارئین اور ناظرین فرق کرسکیں۔
یہ ضابطہ اخلاق کہتا ہے کہ خبر کی پیش کش میں قیاس آرائیوں اور مضمر تبصروں پر قابل اعتماد حقائق کو فوقیت دینی چاہیے اور چونکہ پریس رائے عامہ کی تشکیل کا ایک بنیادی آلہ ہے، اس لیے صحافیوں کو چاہیے کہ وہ اسے ایک امانت سمجھیں اور عوامی مفادات کی خدمت اور حفاظت کے لیے ہمیشہ کوشاں رہیں۔
اسی ضابطہ اخلاق میں یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں صحافیوں کو بنیادی انسانی اور سماجی حقوق کی قدر کرنی چاہیے اور لازمی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے طور پر خبروں اور تبصروں میں نیک نیتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور منصفانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ امن و قانون کے لیے مسئلہ بننے والی رپورٹوں کی اشاعت اور نشریہ میں خاص تحمل کا خیال رکھنے پر زور دیا گیا ہے ۔یہ ضابطہ کہتا ہے کہ صحافیوں کو خاص طور پر فرقہ وارانہ کشیدگی، فسادات، فرقہ وارانہ انتشار کا باعث بننے والے ابتدائی حالات سے متعلق رپورٹس اور تبصرے شائع کرنے میں بہت زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ایسی کمیونٹیوں کی شناخت بتانے سے گریز کرنا چاہیے جو رد عمل کا باعث بنیں۔
رہنما ہدایات میں مزید کہا گیا ہے کہ صحافیوں کو اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ پھیلائی جانے والی معلومات حقیقتاً درست ہو۔ کسی بھی حقیقت کو مسخ نہ کیا جائے اور نہ ہی ضروری حقائق کو جان بوجھ کر چھوڑ دیا جائے۔ غلط معلوم ہونے والی کوئی بھی خبر شائع نہ کی جائے۔ صحافی غیر صحافتی مقاصد کے لیے اپنی حیثیت کا استعمال نہ کریں۔ لوگوں کی نجی زندگی کو متاثر کرنے والی افواہوں یا غیرمصدقہ باتوں کو رواج دینے سے گریز کریں، یہاں تک کہ لوگوں کی نجی زندگی کو متاثر کرنے والی مصدقہ خبروں کو بھی شائع نہ کیا جائے۔ میڈیا ایسے معاملات کو شائع کرنے سے گریز کرے جس کی وجہ سے برائی اور جرم کی حوصلہ افزائی ہو۔ صحافی اپنی تحقیقات کے مختلف مراحل میں خود سے اخلاقی سوالات پوچھیں اور ایڈیٹرز اپنے رفقاء اور عوام کے سامنے اپنے فیصلوں کا جواز پیش کرنے کے لیے تیار رہیں۔
حقائق کی درستگی، غیر جانب داری، معروضیت اور عوامی احتساب سنجیدہ صحافت کے اصول ہیں۔ واقعات کو مروجہ مفروضات (اسٹیریوٹائپ) کے مطابق پیش کرنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے افراد یا کمیونٹیوں کی منفی شبیہ کو تقویت ملتی ہے جو عوام الناس میں سماجی طور پر ناپسندیدہ رویے یا نفرت کو فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں۔ بیشتر اسٹوریوں کے دو پہلو ہوتے ہیں، لہٰذا سیاق و سباق کے ساتھ اسٹوریوں کو متوازن ہونا چاہیے، جس سے اعتبار اور اعتماد پیدا ہوتا ہے۔
ضابطہ اخلاق میں اس بات کی بھی نشان دہی کی گئی ہے کہ حکومتیں اور کارپوریٹ ادارے سنسرشپ اور شیئرز کی ملکیت کے ذریعے نیوز میڈیا کے ساتھ ہیرا پھیری کی کوشش کر سکتی ہیں۔ اس سے چوکنا رہنا ہوگا۔
میڈیا، جمہوریت اور پریس کی آزادی
جمہوریت میں میڈیا اور حکومت کے درمیان ایک خاص رشتہ ہوتا ہے۔ اگرچہ بھارت میں میڈیا اور اظہار رائے کی آزادی کا حق آئین ہند کے آرٹیکل 19 کے تحت دیا گیا ہے لیکن صحافیوں کی طرف سے اس آزادی کا استعمال اخلاقیات سے جڑا ہوا ہے۔ ایک جمہوری حکومت عوامی نمائندوں کے انتخاب سے قائم ہوتی ہے اور نمائندوں کے جواب دہ ہونے اور حکومت کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے بنیادی طور پر ذرائع ابلاغ ایک ستون کی طرح کام کرتے ہیں۔ اگر یہ ستون حکومت کی طرف یا حکم راں جماعت کی طرف جھک جائے اور اس سے مل کر کام کرنے لگے تو مفاد عامہ اور حکومت کی جواب دہی کا تصور پس پشت چلے جائیں گے۔
بھارت میں ایک طرف جہاں میڈیا کی غیر جانب داری اور معروضیت پر سوالیہ نشانات لگ رہے ہیں تو دوسری طرف حکومت پر بھی میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانے یا اسے کنٹرول کرنے کے الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں پریس کی آزادی کا اشاریہ (پریس فریڈم انڈیکس) لگاتار گر رہا ہے ۔عالمی تنظیم ’’رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز‘‘ نے 2024ء کے اپنے پریس فریڈم انڈیکس میں بھارت کو 180 ملکوں میں 159 ویں مقام پر رکھا ہے۔ بھارت کو روس، ترکی اور متحدہ عرب امارات کے آس پاس رکھا گیا ہے جہاں پر بادشاہت یا برائے نام جمہوریت ہے۔ 2003ء سے قبل بھارت کی رینکنگ 100ویں مقام کے آس پاس تھی جو حالیہ برسوں سے بہت بہتر تھی۔
میڈیا کی اخلاقیات اور اسلامی نقطہ نظر
صحافتی اخلاقیات اس بات کا مطالبہ کرتی ہیں کہ میڈیا نجی یا سیاسی مفادات سے آزاد ہو، اپنے مالی مفادات کے بارے میں شفافیت سے کام لے، اخلاقیات اور معیارات کی پاسداری کرے، غیر متعصب اور غیرجانب دار ہو، شہریوں کے تئیں جواب دہ ہو اور مفادعامہ کا خیال رکھے۔
اسلامی نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے میڈیا امور میں دلچسپی رکھنے والے اور ایک عصری ادارے کے بانی لکھنؤ کے مولانا یحییٰ نعمانی ندوی نے کہا کہ صداقت، انصاف، غیر جانب داری، توازن اور جواب دہی کے اصولوں کو اسلامی نقطہ نظر کے اعتبار سے صحافتی اخلاقیات میں اساسی حیثیت حاصل ہے۔صحیح رپورٹنگ کی اپنی اہمیت ہے، سیاق و سباق کے ساتھ خبروں، رپورتاژ اور اسٹوریوں کو متوازن کرنا، الفاظ یا تصاویر سے دوسروں کو نقصان پہنچانے سے گریز کرنا اور عوام کے تئیں جواب دہ ہونا صحافتی اخلاقیات کا حصہ ہے ۔
مولانا نعمانی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلام نے سچائی میں جھوٹ کی ملاوٹ اور حق بات کو چھپانا ممنوع قرار دیا ہے۔ مذہب کی اور اظہار رائے کی آزادی کا مہذب طریقے سے استعمال کیا جانا چاہیے۔ اپنی تحریروں اور باتوں سے لوگوں کو گزند نہیں پہنچانا چاہیے اور اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ جملوں اور تصاویر کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اسلام مفاد عامہ کے خیال اور فحاشی و عریانیت کو فروغ دینے سے روکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ ذمہ دار صحافت کا ایک اہم اصول جواب دہی کا احساس ہے۔ صحافت ایک امانت اور عوامی خدمت کا ذریعہ ہے۔ اسلام انسان کو جواب دہ بناتا ہے، اس کے نزدیک ہر قول و عمل کا حساب دینا طے ہے۔ لہٰذا اپنی تمام تحریروں میں بھی جواب دہی کے ان اصولوں کا پاس رکھنا ضروری ہے ۔
آزادی کے نام پر ’اسلام اور مسلم فوبیا‘ کو بڑھاوا
مولانا یحیٰ نعمانی نے میڈیا کے بگاڑ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج کل یہ دیکھا جا رہا ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں ہی اسلام اور مسلمان کو ایک نیوز آئٹم کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور آئے دن نئے ایشوز چھیڑ کر عوام الناس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ ہر کس و ناکس کے اسلام اور مسلم مخالف بیان کو نمایاں کرکے شائع اور نشر کیا جاتا ہے، اس کا مقصد سماج میں انتشار اور نفرت پیدا کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اگر کچھ نہیں ملتا ہے تو حقائق کو توڑ مروڑ کر منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ صحافتی اخلاقیات محض طاق کی زینت ہیں۔ یہ بڑی افسوسناک صورت حال ہے ۔
سہیل وحید نے کہا کہ ایڈیٹرز گلڈ اور پریس کونسل کا کردار لگ بھگ ختم ہو گیا ہے۔ پریس کونسل کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2024ء کے لوک سبھا الیکشن میں جب تقریباً پورا میڈیا حکم راں جماعت کے ساتھ کھڑا ہوا تھا، الٹرنیٹیو یا متبادل میڈیا اور یوٹیوب پر سرگرم صحافیوں نے اچھا کردار نبھایا اور خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی جو ایک اچھی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سِول سوسائٹی کو متحرک ہونا چاہیے جو میڈیا اداروں پر تنقیدی نظر رکھے اور اس کا محاسبہ کرے تاکہ مین اسٹریم میڈیا کو اپنی کمیوں کا احساس ہو یا عوام کی نظروں میں ان کی اہمیت اور ان کا رلیوینس کم ہوجائے۔ بھارت میں صحافتی اخلاقیات کو مین اسٹریم میں لانے کا اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ حقیقی آزادی تو یہی ہوگی کہ میڈیا کی جانب سے ڈر اور نفرت کو بڑھاوا دینے کی ہر کوشش کو ناکام بنایا جائے اور کارپوریٹ میڈیا گھرانوں کو عوام کے حقیقی مسائل یاد دلائے جائیں۔

 

***

 پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں ہی اسلام اور مسلمان کو ایک نیوز آئٹم کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور آئے دن نئے ایشوز چھیڑ کر عوام الناس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ ہر کس و ناکس کے اسلام اور مسلم مخالف بیان کو نمایاں کرکے شائع اور نشر کیا جاتا ہے، اس کا مقصد سماج میں انتشار اور نفرت پیدا کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اگر کچھ نہیں ملتا ہے تو حقائق کو توڑ مروڑ کر منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ صحافتی اخلاقیات محض طاق کی زینت ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 ستمبر تا 07 ستمبر 2024