اسلام کا سیاسی نظام نہایت منظم، بالکل واضح اور لائق ِ نفاذ ہے

مولانا صدرالدین اصلاحی کی کتاب “اسلام ایک نظر میں” کے ایک باب سے ماخوذ

محمد عبدالملک

اسلامی نظامِ حیات کی بنیاد دو سب سے زیادہ حساس اساسی حقیقتوں پر مبنی ہے۔  ایک اللہ تعالیٰ کی ذاتی حیثیت جو وہ اس پوری کائنات کے خصوصاً انسان کے مقابلہ میں رکھتا ہے، جس طرح خالق اور پروردگار ہونے کی ہے، اس طرح اس کے حاکم حقیقی ہونے کی بھی ہے۔ دوسرا انسان کی ذاتی حیثیت، جس طرح اللہ رب العالمین کی مخلوق اور پروردہ ہونے کی ہے، اس طرح اس کے غلام  اور زمین پراس کے نائب وخلیفہ ہونے کی ہے۔ ان دونوں اساسی حقیقتوں کو بنیاد قرار دیتے ہوئے اسلام نے سیاست کا جو نظام مقرر کیا ہے اس کے نمایاں خطوط یہ ہیں :1۔ اقتدار اعلیٰ اور حق حاکمیت صرف اللہ کے لیے، اس میں کوئی فرد، خاندان، طبقہ بلکہ پوری نوع انسانی بھی ذرہ برابر اس کی شریک اور حصہ دار نہیں ہے اور یہ اس کی ازلی و ابدی اہمیت ہے۔ فرمان الہی ہے: إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ (سورۃ یوسف : 40) ’’فرماں روائی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے، اس کا فرمان ہے کہ تم سب سوائے اس کے کسی اور کی عبادت نہ کرو‘‘
2۔ اصل قانون ساز صرف اللہ ہے۔ اس کا دیا ہوا آئین انسانی زندگی کا آئین اور اسی کا دیا ہوا قانون انسانی زندگی کا قانون ہے، کسی بھی فرد یا ادارے کو بطور خود یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے لیے یا کسی اور کے لیے قانون بنائے۔
3۔ اللہ کے نبی اس دنیا میں اس کے نمائندہ اور اس کے احکام ومرضیات کے شارح ہوتے ہیں، اس لیے ان کی حیثیت بھی تحتی قانون ساز کی ہے اور ان کے دیے ہوئے احکام بھی اسی طرح واجب الاطاعت ہوتے ہیں جس طرح اصل قانون ساز (یعنی اللہ تعالیٰ) کے ہوتے ہیں۔ فرمان الہی ہے :’’وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا‘‘ (الحشر:7)
’’اور تمہیں جو کچھ رسول دیں لے لو اور جس سے روکیں رک جاؤ‘‘
فرمان الہی ہے :”مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَهَ "(النساء :80)
’’ رسول کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔‘‘
4۔ اللہ اور رسول کے دیے ہوئے احکام کی ٹھیک ٹھیک پیروی اور ان کے بنائے ہوئے قوانین کے لیے ایک اجتماعی نظم اور ایک حکومتی ادارے کا قیام ضروری ہے۔
اصطلاح شریعت میں اس اجتماعی نظم اور حکومتی ادارے کو خلافت یا امامت یا امارت کہا گیا ہے اور یہ بنیادی طور پر ایک فرد پر مشتمل ہوتا ہے جس کو خلیفہ، امام یا امیر کہتے ہیں۔
5۔ اسلامی ریاست کا حقِ شہریت ہر اس شخص کو حاصل ہوگا جو اسلام پر ایمان رکھتا ہو، اس طرح صرف وہی مسلمان اس ریاست کے شہری نہ ہوں گے جو اس کے حدود میں پیدا ہوتے ہوں بلکہ دنیا کے کسی بھی حصے کا رہنے والا مسلمان جیسے ہی اس ریاست میں آئے گا اپنے آپ اس ریاست کا شہری بن جائے گا۔ فرمان الہی ہے :وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُبَعْضٍ
(التوبۃ : 71) مومن مرد و عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور) دوست ہیں۔‘‘
6۔ اسلامی ریاست کے اندر رہنے والے جو لوگ اسلام کو اپنا دین نہ مانتے ہوں گے وہ بھی اگرچہ ریاست کے شہری ہوں گے لیکن ان کی شہریت قدرے مختلف ہوگی۔ اس نوعیت کے شہریوں کو اسلامی اصطلاح میں "ذمی” کہا جاتا ہے اور یہ اس لیے کہ اسلامی ریاست ازورئے معاہدہ ان کی جان ومال اور عزت و آبرو کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ ذمیوں کے حقوق، خلیفہ اور ریاست کی مرضی پر موقوف نہیں ہوتے کہ جب چاہے ان میں کمی کردے بلکہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی طرف سے طے شدہ ہوتے ہیں اور اسلامی حکومت ہر حال میں انہیں پورا کرنے کی پابند ہوتی ہے ۔
7۔ خلیفہ کا کام یہ ہے کہ وہ حاکم حقیقی (اللہ تعالیٰ) کے احکام ومرضیات کے مطابق مملکت کا نظام چلائے، لوگوں میں عدل قائم کرے، ان کے حقوق کی حفاظت کرے، ملک وملت کا دفاع کرے اور سب سے آخری بات یہ کہ اس منشا کو پورا کرے  جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسلام کو نازل کیا اور نبی آخرالزماں حضرت محمد (ﷺ) کو مبعوث فرمایا اور امت مسلمہ کو وجود بخشا۔ اس بارے میں وہ اللہ اور خلق اللہ دونوں کے سامنے جواب دہ ہوگا۔
8۔ خلافت کی اس بھاری ذمہ داری کا حق ادا کرنے کی مدد کرنے کے لیے ایک مجلس شوریٰ ہوگی اور ضروری ہے کہ وہ مملکت کا نظم ونسق اس مجلس کے مشورے سے چلائے۔ نبی(ﷺ) تک کو اللہ تعالیٰ کا حکم تھا کہ وہ اہم معاملات میں اپنے اصحاب  سے مشورہ کریں :فرمان الہی ہے :وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ (سورۃ آل عمران: 159)اور کام کا مشوره ان سے کیا کریں۔
9۔ خلیفہ وہ شخص بنتا ہے جسے اسلامی سوسائٹی اس بھاری ذمہ داری کا اہل سمجھتی ہے اور اس کی خلافت پر راضی ہوتی ہے۔ وہ انتخاب کے ذریعہ برسر اقتدار ہوتا ہے۔ اور اگر اپنے فرائض ادا کرنے میں کوتاہ ثابت ہو تو معزول بھی کیا جاسکتا ہے، حتیٰ کہ اگر کوتاہی بھی خلافت کے بنیادی مقصد سے روگردانی کی حد تک پہنچ جائے تو ایسی صورت میں ملت کا
یہ فرض ہوجائے گا کہ اس کے ہاتھ سے خلافت کا زمام فوراً چھین لے۔
10۔ خلیفہ کے انتخاب کی شکل کیا ہو؟
اس بارے میں شریعت نے تو کوئی لگا بندھا طریقہ اختیار کرنے کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ صرف یہ کیا ہے کہ ایک طرف تو انتخاب کا مدعا بتا دیا ہے اور دوسری طرف اس کے طریقے کے بارے میں ایک اصولی ہدایت دی ہے۔اب اس مدعا کو پورا کر دینے والا اور اس اصولی ہدایت سے مطابقت رکھنے والے انتخاب کا جو طریقہ اختیار کیا جائے گا وہ اسلامی طریقہ ہوگا۔ مدعا تو یہی ہے کہ صرف ایسا شخص برسر اقتدار آئے جو اپنے علم، اپنے نقوش، اپنے تدبر اور اپنی ذہنی صلاحیتوں اور عملی قوتوں کے لحاظ سے بحیثیت مجموعی بہتر ہو، اور عام لوگوں کو اس کا اعتماد اور احترام حاصل ہو، اصولی ہدایت یہ ہے کہ انتخاب بنیادی طور پر معاشرے کے وہ لوگ کریں جو اپنی سوجھ بوجھ، اپنی دینی وابستگی اور اپنی قوت فیصلہ کے اعتبار سے ملت کے ’اولوالعزم ‘ یعنی ارباب حل وعقد اور سربراہ ہوں اور باقی افراد یعنی عوام اس کی توثیق کریں۔ یہ اصولی ہدایت بھی درحقیقت اس لیے دی گئی ہے کہ انتخاب کا مدعا زیادہ اچھی طرح حاصل ہو سکے۔
11۔ خلافت کا منصب: (اور اسی طرح حکومت کا کوئی عہدہ) کسی ایسے شخص کو نہیں دیا جا سکتا جو اسے طلب کرے یا پھر اس کا خواہش مند ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں حکومت ’حق‘ نہیں ہے بلکہ ذمہ داری اور امانت ہے جس کی اللہ کے  سامنے بھاری جواب دہی کرنی ہوگی، اس لیے کوئی صاحبِ احساس اس کا طالب اور خواہش مند ہو کر اپنے آپ اس بات کی ہرگز جرأت نہیں کر سکتا کہ کل اللہ کے سامنے جب حاضر ہو، تو حساب دینے کے لیے اس کی اپنی ذاتی ذمہ داری کے علاوہ ہزاروں، لاکھوں بلکہ کروڑوں بندگانِ خدا کے حقوق ادا کرنے کی عظیم ترین ذمہ داریاں بھی شامل ہوں جیسا کہ:
سیدنا ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا: ’’ تم انسانوں کو کان کی طرح پاؤ گے (بھلائی اور برائی میں) جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں بہتر اور اچھی صفات کے مالک تھے وہ اسلام لانے کے بعد بھی بہتر اور اچھی صفات والے ہیں بشرطیکہ وہ دین کا علم بھی حاصل کریں اور حکومت اور سرداری کے لائق اس کو پاؤ گے جو حکومت اور سرداری کو بہت ناپسند کرتا ہو‘‘ (بخاری)
اگر کوئی شخص کسی عہدہ کی طرف ازخود لپکتا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسے طریقے کی نوعیت کا کوئی احساس نہیں ہے، اور ظاہر ہے کہ جسے کسی کام کی نوعیت کا احساس ہی نہ ہو وہ صحیح طریقے سے اس کام کو انجام نہیں دے سکتا۔
12۔ کسی فرد کے لیے جائز نہیں کہ وہ منتخب ہوجانے والے کی خلافت تسلیم کرنے سے انکار کردے، اگر کوئی ایسا کرے گا تو اسلام کی شاہراہ سے ہٹ کر جاہلیت کی راہ پر جا پڑے گا۔
سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے سنا: "جس شخص نے مسلمانوں کے حکم راں کی اطاعت سے ہاتھ کھینچا وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے اس حال میں حاضر ہو گا کہ اس کے حق میں کوئی دلیل نہ ہو گی اور جو شخص اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں کسی مسلمان حکم راں کی بیعت نہیں تھی تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔”(مسلم)
کیوں کہ یہ انکار دراصل ایک فرد کی خلافت کا انکار نہیں ہے بلکہ پوری اسلامی ریاست کا انکار اور اس کے خلاف بغاوت کا اعلان ہوتا ہے۔
13۔ ہر فرد پر شرعاً لازم ہے کہ خلیفۃ المسلمین کے احکام کی اطاعت کرے۔
فرمان الہی ہے :يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ (سورۃ النساء : 59)
اے ایمان والو! فرماں برداری کرو اللہ کی اور فرماں برداری کرو رسول کی اور اولی الامر کی۔
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا: "جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (مسلم)
لیکن اگر وہ کسی معصیت کا حکم دے تو ایسی حالت میں اس کی اطاعت نہ کرنا لازم ہے: سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا: ’مسلمان شخص پر حاکم کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے، وہ بات اس کو پسند ہو یا ناپسند، سوائے اس کے کہ اسے گناہ کا حکم دیا جائے، اگر اسے گناہ کا حکم دیا جائے تو اس میں سننا روا ہے نہ ماننا۔ (مسلم)
خلیفۃ المسلمین کا صرف یہی حق نہیں ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے بلکہ یہ بھی ہے کہ دل سے اس کی خیر خواہی کی جائے۔ یہ اسلام اور دین داری کا تقاضا ہے۔
سیدنا تمیم داریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا: ’دین خیر خواہی کا نام ہے۔‘ہم نے پوچھا: کس کی خیر خواہی؟ آپ نے فرمایا: "اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول کی، مسلمانوں کے امیروں کی اور عام مسلمانوں کی۔(مسلم)
14۔ یہ عوام کا حق ہے بلکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ خلیفہ اور اس کے ماتحتوں پر احتساب کی کڑی نظر رکھیں۔ وہ جہاں غلطی کرتے پائے جائیں فوراً ٹوک دیے جائیں، اگر ٹیڑھی راہ چلیں تو ہر مناسب کوشش اختیار کر کے انہیں سیدھی راہ چلنے پر مجبور کیا جائے۔
سیدنا ابوبکرؓ نے خلیفہ مقرر ہونے پر لوگوں کو ان کی ذمہ داری یاد دلاتے ہوئے ان سے احتساب کا تقاضا کرتے ہوئے کہا تھا:
"پس اگر میں حسن معاملہ کروں تو میرے ساتھ دست تعاون دراز کرنا اور اگر میں کج روی اختیار کروں تو مجھ کو سیدھا کر دینا۔”
15۔جن مسائل اور معاملات کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے واضح احکام موجود نہ ہوں ان کے لیے قوانین بنائے جائیں گے۔ یہ قوانین خلیفۃ المسلمین اور اس کی مجلس شوریٰ طے کرے گی۔
16۔ اسلامی ریاست ہر شخص کی خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم اس کی جان و مال، عزت وآبرو کی حفاظت کی ذمہ دار ہوگی۔ اس طرح ہر شخص کو عبادت اور ضمیر کی پوری پوری آزادی حاصل ہوگی۔ اظہار رائے پر صرف اتنی پابندی ہو گی کہ اسٹیٹ کے خلاف بغاوت کی اپیل نہیں کی جاسکے گی نہ اس طرح کی باتیں کی جا سکیں گی جو ملک میں فتنہ وفساد پھیلانے والی یا اخلاقی گراوٹ پیدا کرنے والی ہوں، کسی شخص کا جرم ثابت کیے بغیر اس کی آزادی نہ چھینی جاسکے گی۔
17۔ اسلامی ریاست کے قیام کا مقصد و منشاء اور حکومت کا فریضہ بہت بلند اور بہت وسیع ہے۔ اس کے بنیادی نکات قرآن حکیم کی یہ آیتیں متعین کرتی ہیں :
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (سورۃ الحدید : 25)
’یقیناً ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (ترازو) نازل فرمایا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں۔ ‘
يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ (سورۃ ص : 26)
’اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنا دیا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو‘
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ (سورہ الحج :41)
’یہ وه لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے قدم جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں۔ ‘
پہلی دو آیتیں اسلامی حکومت کے قیام کا عمومی اور تیسری آیت اس کا خصوصی مقصد واضح کرتی ہے۔ پہلی اور دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کا کام معاشرے میں انصاف قائم کرنا ہے اور یہ وہ مقصد ہے جس کے لیے کم سے کم اپنے ارادے اور دعوے کی حد تک ساری ہی حکومتیں قائم ہوا کرتی ہیں اور جو ایک حکومتی نظام کے وجود کو ناگزیر ٹھیراتا ہے۔ تیسری آیت اس عمومی مقصد پر ایک اضافہ کرتی ہوئی اسلامی حکومت کا منشا یہ بتاتی ہے کہ معاشرے کو نماز قائم کرنے والا، معروف سے خود محبت کرنے والا، دوسروں کو اس کا حکم دینے والا اور منکر سے خود رکنے والا اور دوسروں کو اس سے روکنے والا بناتے جائیں۔ اور یہ وہ مقصد ہے جو کسی اور جگہ لفظوں اور دعوؤں کی حد تک نہیں پایا جا سکتا۔ یہ مقصد جن چار بنیادی نکات (اقامت صلوۃ، ادائے زکوٰۃ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) پر مشتمل ہیں۔ ذرا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ دراصل پورے دین کے قائم رکھنے، اس کی برکتوں کے دائرے کو بڑھاتے رہنے اور معاشرے کو صحیح اسلامی معاشرہ بنائے رکھنے کی عظیم ترین ذمہ داری اور اَن تھک کوشش ہی کا دوسرا نام ہے ۔
***

 

***

 کسی فرد کے لیے جائز نہیں کہ وہ منتخب ہوجانے والے کی خلافت تسلیم کرنے سے انکار کردے، اگر کوئی ایسا کرے گا تو اسلام کی شاہراہ سے ہٹ کر جاہلیت کی راہ پر جا پڑے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 نومبر تا 2 دسمبر 2023