ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد
روحانی ارتقاء کے لیے فرائض کو اخلاص کے ساتھ ادا کریں اور نوافل کے ذریعے احسان کی منزل میں داخل ہونے کی کوشش کریں
مادیت کے اس دور میں ملحدین جہاں اللہ کے وجود کا انکار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں وہیں وہ انسان کے روحانی وجود کا بھی انکار کرتے ہیں، جب کہ انسان ایک ایسی حیرت انگیز مخلوق ہے جس کے اندر جسم و جان کے ساتھ نمایاں طور پر اور نا قابلِ انکار حد تک روحانی اور اخلاقی وجود پایا جاتا ہے۔ سوائے بدھ اور جین مذاہب کے سارے ہی مذاہب میں روحانیت کا تصور پایا جاتا ہے۔ تمام مذاہب میں روحانیت سے مراد انسانی روح کا اس خدا سے تعلق ہے جو کائنات کا خالق، مالک اور رب ہے۔اسلام میں روحانیت کا مطلب ہے بندے کا اللہ تعالیٰ سے ایسا جیتا جاگتا تعلق قائم ہو جو محبت، شکر وصبر، توکل،تسلیم و رضا، اطاعت و بندگی اور اظہارِ عجز و دعا کی صورتوں میں ظاہر ہو۔ روحانیت کے ارتقاء کو تزکیہ نفس سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اور تزکیہ نفس میں دو چیزیں شامل ہیں: ایک ہے نفس کی تطہیر اور دوسرے روح کی نشوونما۔
ارشاد باری تعالٰی ہے: قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ تَزَكّٰىۙ ﴿اعلیٰ :14﴾ (فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی)
روحانیت کو سمجھنے سے قبل روح کو سمجھنا ضروری ہے۔ روح کا مآخذ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو خالقِ کائنات اور رب کائنات ہے۔ پہلے انسان کی تخلیق کے بارے میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کا جسم مٹی کے اجزاء سے بنایا تو اپنی روح میں سے پھونکا: فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَهُ سَاجِدِينَ ﴿الحجر:29﴾ (جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گِر جانا) پہلے انسان کی تخلیق کے بعد انسانی نسل کے تسلسل کے لیے جو تخلیقی عمل اختیار کیا گیا اس کو اس طرح بیان کیا گیا: ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاء مَّهِينٍ ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ ﴿السجدہ:8-9﴾ (پھر اس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے پھر اس کو نِک سُک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی اور تم کو کان دیے، آنکھیں دیں اور دل دیے۔ لیکن تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو) آدم علیہ السلام کی اور ان کے بعد انسانی نسل کی تخلیق کے دونوں مواقع کے بارے میں فریایا گیا کہ انسان کے جسم وجان میں اللہ کی روح میں سے پھونکا گیا جس کے بعد انسان کی شعوری شخصیت کا آغاز ہوتا ہے ۔حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ استقرارِ حمل کےبعد جنین، نطفہ سے علقہ اور علقہ سے مضغہ بنتا ہے تو چار ماہ بعد اللہ تعالیٰ فرشتہ کو بھیج کر اس میں روح ودیعت کرتا ہے (ترمذی) اللہ کی روح میں سے پھونکنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے اعلیٰ اوصاف پر پیدا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات اطلاقی شان رکھتی ہیں جبکہ انسان کو یہ اعلیٰ صفات محدود سطح پر دی گئی ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَاَقِمۡ وَجۡهَكَ لِلدِّيۡنِ حَنِيۡفًا ؕ فِطۡرَتَ اللّٰهِ الَّتِىۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيۡهَا ؕ لَا تَبۡدِيۡلَ لِخَـلۡقِ اللّٰهِ ؕ ذٰ لِكَ الدِّيۡنُ الۡقَيِّمُ ۙ وَلٰـكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يَعۡلَمُوۡنَ ﴿الروم:30﴾ (پس اے نبیؐ اور نبیؐ کے پیروو) یک سُو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جما دو، قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نےانسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں) اس آیت میں فرمایا گیا کہ اللہ کی فطرت پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے یعنی اللہ کی اعلیٰ صفات کا پرتو ڈال کر انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسانی روح اللہ کی روح کا حصہ ہے۔ یہ تصور گم راہ کن ہے۔ اسی سے وحدت الوجود کا عقیدہ نکالا گیا جس کے ماننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ہر شئے میں خدا ہے۔
انسانی روح کو قرآن میں قلب، فواد اور نفس سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ قلب میں یا قلب کی جگہ یعنی سینہ روح کا مسکن ہوتا ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا: أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ ﴿الحج:46﴾ (کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے اور ان کے کان سننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں)
روح ایک غیر مادی اور غیر مرئی چیز ہے جس کا تعلق اس کرۂ ارضی سے نہیں ہے۔ روح عالمِ بالا سے آتی ہے اور واپس عالمِ بالا کی طرف چلی جاتی ہے جبکہ جسم مٹی کے اجزاء سے بنتا ہے اور مرنے کے بعد مٹی کا حصہ بن جاتا ہے۔ روح کے متعلق جب پوچھا گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں فرمایا: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً ﴿بنی اسرائیل:85﴾(یہ لوگ تم سے رُوح کے متعلق پُوچھتے ہیں کہو ”یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایا ہے“) یعنی انسانی جسم اسباب وعلل کے اصول پر بنتا ہے لیکن روح کو اللہ تعالیٰ نے بغیر اسباب کے اپنے حکم سے جسم میں فرشتہ کے ذریعے سس وقت ودیعت فرمات ہے جب بچہ ماں کے پیٹ میں جنین کی حالت میں ہوتا ہے۔ روح انسانی شخصیت کی اصل ہے جس کے اندر شعور، ارادہ، اخلاقی حِس، احساسِ ملامت (نفسِ لوامہ) خواہشات کی طلب (نفسِ امارہ) اور اطمینان (نفسِ مطمئنہ) رکھا گیا ہے۔ نفس (روح) اسی وقت حالتِ اطمینان میں رہتا ہے جب وہ وجودِ حقیقی ذاتِ باری تعالیٰ سے جڑا رہتا ہے۔ارشادِ ربانی ہے: الَّذِينَ آمَنُواْ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللّهِ أَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ﴿الرعد:28﴾ (ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنہوں نے اس نبی کی دعوت کو مان لیا اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔ اطمینان قلب اسی قلب کو حاصل ہوگا جو قلب میں اٹھنے والے سارے سوالات کے جوابات پر مطمئن ہو۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب قلب (روح یا نفس) کو ہدایت ملے۔ جب منزل کا پتہ ہو اور راستہ بھی مانوس ہو تو ایسے مسافر کا سفر اطمینان قلب سے طے ہوگا۔ چونکہ اللہ کی ذات ہی انسانی قلوب کا مآخذ ہے اس لیے اللہ سے تعلق اور اس کے ذکر سے ہی قلوب کو اطمینان حاصل ہو سکتا ہے۔ ذکر سے مراد قرآن بھی ہے۔ قرآن اللہ کا ایسا کلام ہے جس میں جو بھی دعویٰ پیش کیا گیا اس کو ثابت کرنے کے لیے آفاق و انفس سے دلائل پیش کیے گئے ہیں تاکہ قلوب کو اطمینان حاصل ہو۔ ہدایت یافتہ دل (روح) میں اطمینان ہوتا ہے چاہے کتنے ہی مصائب در پیش ہوں۔ اگر دل ہدایت سے محروم ہو تو ایسا دل مضطرب رہے گا چاہے کتنے ہی سامانِ عیش و عشرت دستیاب ہوں۔ہمارے مشاہدے میں ایسے مال دار اور شہرت یافتہ لوگ ہیں جو اپنے قلب میں خلا محسوس کرتے ہیں۔ راتوں کی نیند سے محروم رہتے ہیں اور ڈپریشن کا شکار رہتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو خود کشی بھی کر بیٹھتے ہیں۔
جب بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو وہ احسن تقویم پر پیدا ہوتا ہے اور جیسے جیسے وہ بڑا ہونے لگتا ہے تو ماحول کے اثرات کو قبول کرنے لگتا ہے لیکن اس کے قلب میں جو اخلاقی حس رکھی گئی ہے وہ اسے بتاتی رہتی ہے کہ نیکی کیا ہے اور برائی کیا ہے۔ انسان اپنے ارادے سے اچھائی اور برائی کو اختیار کرتا ہے۔ اس لیے انسان فکر وعمل کی آزادی کے ساتھ جو کچھ کرتا ہے اس کا وہ خود ذمہ دار ہوتا ہے۔ چناں چہ فرمایا گیا: وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا ﴿الشمس:7-10﴾ (اور نفسِ انسانی کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری اس پر الہام کر دی۔ یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نا مراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا) نفس کے تزکیہ سے مراد یہ ہے کہ نفس کو جھوٹے عقائد، نیتوں کے کھوٹ، خرافات، لغویات اور فحش و منکرات کی آلودگیوں سے پاک کرتے رہیں۔ پھر اللہ کی یاد سے اور قرآن کی تلاوت سے روح کو غذا فراہم کرتے ہوئے اس کو بلندیوں پر پہنچاتے رہیں۔ انسانی روح اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا عظیم شاہ کار ہے جس میں اخلاقی حِس بھی موجود ہے اور احساسِ ملامت بھی، وہیں خواہشاتِ نفس کی کشش بھی رکھی گئی ہے۔ اب یہ انسان کا امتحان ہے کہ خواہشات کو پورا تو کرے لیکن ان اخلاقی حدود کے اندر رہتے ہوئے جن کو اللہ تعالیٰ نے علمِ وحی سے انسانوں کو بتلائے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی خوبی یہ ہے کہ ایک انسان اپنے نفس کی خواہشات کو اخلاقی حدود میں پورا کرتے ہوئے روحانیت کے اعلیٰ منازل تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
انسانی روح کبھی کسی حیوان یا پرندے کے جسم میں براجمان نہیں ہوسکتی۔ اگر انسان کی ابتدا بندر سے ہوتی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ حیوانی ارتقاء کے اس سفر میں کیوں کر ایسا ہوا کہ ایک نقطہ پر یکایک انسان کے اندر شرم و حیا کے احساسات پیدا ہوئے؟ اس سے آواگان کے عقیدہ کی بھی نفی ہوتی ہے کہ انسان کی روح پچھلے جنم کے اعمال کے نتیجہ میں سزا کے طور پر کسی حیوان کے جسم میں ڈال دی جاتی ہے۔ انسان کی روح اور حیوان کی روح میں بے انتہا فرق ہوتا ہے۔حیوانات تو جبلت کے پابند ہوتے ہیں جب کہ انسانی روح اعلیٰ اوصاف کی حامل ہوتی ہے۔
اسلام میں روح، جسم و جان اور عقل کے مابین ایسا بہترین تعامل ہے جس سے ایک انسان دنیا میں کامیابی کے ساتھ آخرت کی زندگی میں بھی کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ جسم میں جان کے سلامت رہنے کے لیے ہوا، پانی، غذا، کپڑا اور مکان چاہیے۔ روح کی زندگی کے لیے اللہ تعالیٰ سے تعلق کا قائم ہونا لازمی ہے جہاں سے اس کو روحانی غذا اور توانائی ملتی رہتی ہے۔ جس طرح ماں کے پیٹ میں بچے کو نال umbilical cord سے توانائی ملتی رہتی ہے۔ انسان کو اعلیٰ صلاحیت کا دماغ دیا گیا ہے جو کسی مخلوق کو نہیں دیا گیا ہے۔ دماغ معقول کو غیر معقول سے ممیز کرتا ہے۔دل (روح) کسی کام کا ارادہ کرتا ہے اور دماغ جسم کے اعضاء کو احکامات بھیجتا ہے تاکہ ارادے کو عمل میں لایا جاسکے۔دوسرے مذاہب میں جسم کو روح کے لیے قید خانہ قرار دیا گیا ہے۔ روح کی بلندی کے لیے یہ لازمی قرار دیا گیا کہ جسم کے تقاضوں کو کچلا جائے۔ آرام دہ زندگی کو چھوڑ کر پہاڑوں اور غاروں میں جا کر تپسیا کی جائے اور ازدواجی زندگی کو ترک کرکے برہمچاری بنے۔ اس کو قرآن میں رہبانیت کہا گیا اور فرمایا گیا کہ یہ اللہ کی طرف سے نہیں ہے بلکہ یہ انسانوں کی خود ساختہ پابندیاں ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ جسم کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بھی ایک انسان روح کو بلندی پر لے جا سکتا ہے۔ اس کے لیے اسلام نفس کشی کے بجائے ضبطِ نفس کی تعلیم دیتا ہے۔
روحانی ترقی کا پہلا زینہ ہے اپنے خالق کو پہچاننا۔ اگر پہلے زینے پر کامیابی حاصل نہ ہوئی تو سارا روحانی سفر غلط ہو جاتا ہے۔ یہ انسانی عقل کا امتحان ہے کہ بندہ اپنے خالق کو پہچانے۔ خدا شناسی انسان کو خود شناسی سے آشنا کرتی ہے ورنہ انسان اپنی حقیقت ہی سے غافل رہ کر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ أُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿الحشر:19﴾ (ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انہیں خود اپنا نفس بھلا دیا، یہی لوگ فاسق ہیں) یہ انسان کی بدنصیبی ہے کہ وہ دنیا میں مادی ترقی تو کرے لیکن اپنی ذات کی حقیقت سے نا آشنا رہ کر دنیا سے چلا جائے۔ اکثر لوگ اس بات کو تو مانتے ہیں کہ اس کائنات کا ایک ہی خالق ہے لیکن وہ اسے اپنا رب نہیں مانتے۔ وہ اس حقیقت کو معلوم کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں کہ اس خالق کی صفات کیا ہیں اور اس نے انسانوں کو کیوں پیدا کیا ہے ان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے۔ اس حقیقت کو معلوم کرنے کے لیے محض حواس اور عقل دونوں کافی نہیں ہیں۔اس کے لیے وہ علم چاہیے جس کو علمِ وحی کہا جاتا ہے جو خدا کے پیغمبروں کے ذریعے سے حاصل ہوتا ہے۔ جب اپنے رب کی صفات اور اس کی قدرت کے کمالات اور اس کے احسانات کا علم حاصل ہوتا ہے تو دل تعریف اور شکر کے جذبات سے بھر جاتا ہے اور رب کی محبت دل میں پیدا ہوتی ہے۔ اس منزل کو ایمان کی منزل کہتے ہیں۔ روحانی سفر کی اگلی منزل ہے رب کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کر دینا اور اس کی کامل اطاعت اختیار کرنا۔ اس منزل کو اسلام کی منزل کہتے ہیں۔ اس کے بعد روحانیت کے دو اور درجے ہیں: تقویٰ اور احسان۔ ان کو سمجھانے کے لیے حدیثِ جبریل میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ’’احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر یہ درجہ نہ حاصل ہو تو پھر یہ تو سمجھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ (بخاری) یہ بہت ہی اہم حدیث ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ احسان کی منزل اگر حاصل نہ بھی ہو تو تقویٰ کی منزل تو ضرور حاصل ہونی چاہیے۔ تقویٰ اس احساس کا نام ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کو دیکھ رہا ہے۔ یہ احساس بندے کو تنہائی میں بھی گناہ کرنے سے باز رکھتا ہے۔ تقویٰ سے آگے کا جو لیول ہے وہ روحانیت کا اعلیٰ مقام ہے جہاں بندہ یہ تصور کرتا ہے کہ گویا وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ حالاں کہ کوئی بھی اللہ تعالیٰ کو دیکھ نہیں سکتا لیکن صفات کے آئینہ میں تو اللہ کو دیکھ سکتا ہے۔ جیسے وہ الرحمٰن ہے، مالک یوم الدین ہے، عادل ہے، الخالق ہے، الحکیم ہے،السمیع ہے، البصیر ہے، العلیم ہے، القادر ہے اور العظیم ہے۔ آخرت میں اہل ایمان کو سب سے بڑی نعمت یہ حاصل ہوگی کہ وہاں انہیں اللہ کا دیدار نصیب ہوگا۔ دنیا میں جو اللہ تعالیٰ کو صفات کے آئینہ میں دیکھ رہے تھے وہاں وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا بھی اپنے سر کی آنکھوں سے دیدار کریں گے۔ احسان کی منزل یہ ہوتی ہے کہ بندہ فرائض پر قانع نہیں ہوتا بلکہ اللہ کی مزید خوش نودی کا طالب بن کر نوافل کا اہتمام کرتا ہے۔ جب بندہ احسان کا مقام حاصل کرتا ہے تو اللہ کی پسند بندے کی پسند بن جاتی ہے اور اللہ کی نا پسند بندے کی نا پسند بن جاتی ہے۔ اس مقام پر بندے کو سب سے بڑھ کر اپنے رب سے محبت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلّهِ ﴿البقرہ:165﴾ (ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں) یہ وہ مقام ہے جہاں بندہ کو دنیا میں ہر چیز سے بڑھ کر اللہ سے محبت ہو۔ وہ عشقِ مجازی کے مقابلے میں عشقِ حقیقی کی منزل میں قدم رکھتا ہے۔ وہ صاحبِ کمال سے زیادہ خالقِ کمال کی قدر کرتا ہے۔ وہ صاحبِ کمال کے حُسن کا دل دادہ ہو کر خالقِ کمال کی ناراضی نہیں مول لیتا۔
کچھ لوگ خالق کی تلاش میں مخلوق ہی کو خالق کا درجہ دے بیٹھتے ہیں۔ روحانی سفر کی پہلی منزل تک پہنچنے میں یہ سب سے بڑی ناکامی ہے۔ اس ناکامی کا شکار لوگ چاہے خود ساختہ روحانیت کا دعویٰ کریں اور یوگا یا مراقبے meditation کا اہتمام کریں، وہ حقیقی روحانیت سے محروم رہتے ہیں۔ حقیقی روحانیت کو حاصل کرنے کا پہلا زینہ ہے اپنے خالق کو پہچاننا جیسا کہ وہ حقیقت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کا تعارف اس طرح پیش کیا: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴿سورہ اخلاص﴾ (کہو، وہ اللہ ہے یَکتا۔ اللہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد۔ اور کوئی اس کا ہم سر نہیں ہے) اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ کا جامع تعارف پیش کیاگیا ہے۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ سب اس کے محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ وہ سبب و علل سے ماوراء uncaused اور uncreated ہے۔ اس جیسا کوئی نہیں ہے۔ اس کی ہستی مادہ، خلا اور وقت (matter, space and time) سے ماوراء ہے۔ اس پیمانے پر اترنے والی صرف ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے۔سب سے اعلیٰ و ارفع مقام پر دو یا دو سے زیادہ ہستیاں نہیں ہوسکتیں۔ایسی ہستی سے تعلق ہی کا نام حقیقی روحانیت spirituality ہے۔
قرآن میں روحانی کیفیات کو دل کی حالتوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ وہ لوگ جن کے دل اللہ کی یاد سے معمور ہیں اور جو اللہ کی طرف ہر حال میں رجوع کرتے ہیں ان کے دل کو قلبِ منیب کہا گیا ہے: مَنۡ خَشِىَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَيۡبِ وَجَآءَ بِقَلۡبٍ مُّنِيۡبِۙ ﴿ق:33﴾ (جو بے دیکھے رحمٰن سے ڈرتا تھا اور جو دلِ گرویدہ لیے ہوئے آیا ہے) وہ دل جو سلامت ہو اور امن و سلامتی کے راستے پر گامزن ہو اس کو قلبِ سلیم کہا گیا ہے: (سورۃ الصافات ۸۴) وہ دل جو مطمئن ہو اس کو قلبِ مطمئن کہا گیا ہے (سورۃالرعد۲۸) اہل ایمان کے دلوں کو ہدایت یافتہ دل کہا گیا ہے (سورۃ التغابن ۱۱) اللہ سے ڈرنے والے دل کو متقی دل کہا گیا (سورۃ الحج۳۲) لرزنے والے دل کو قلبِ وجل کہا گیا ہے (سورۃ المومنون ۶۰) جو دل اللہ کی نشانیوں کو دیکھنے کے بعد بھی اللہ کے وجود کے منکر ہیں ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ ان کے دل اندھے ہیں (سورۃ الاحزاب ۴۶) وہ دل جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ان کو غافل دل کہا گیا ہے (سورۃ الانبیاء) وہ دل جو گناہ کرتے کرتے سیاہ ہو چکے ہوں ان کو گناہ آلود دل کہا گیا ہے (سورۃ البقرۃ ۲۸۳) وہ لوگ جو تکبّر اختیار کرتے ہیں اور عارضی طاقت پر اتراتے ہیں ان کے دل کو متکبّر دل کہاگیا (سورۃ المومن ۳۵)
تزکیہ نفس کے طریقے: جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ تزکیہ کے معنی تطہیر کے ہیں۔ جس طرح ہمیں جسم اور کپڑوں کی صفائی مسلسل مطلوب ہے اسی طرح روح کو فاسد عقائد، نیتوں کے کھوٹ اور عبادات اور اعمالِ صالح کو بدعات وخرافات سے پاک کرنا مطلوب ہے۔ گناہ دلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں جس طرح لوہے پر زنگ لگ جاتا ہے اس کا حل رسول اللہ ﷺ نے یہ بتلایا کہ قرآن کی کثرت سے تلاوت (سمجھ کر) کی جائے اور موت کو کثرت سے یاد رکھا جائے۔ گناہوں سے تزکیہ حاصل کرنے کا مؤثر ترین طریقہ توبہ و استغفار ہے۔ صالح اجتماعیت سے جڑنے سے بھی تزکیہ نفس کا کام بہت آسان ہو جاتا ہے، اس لیے کہ شیطان تنہا انسان پر آسانی سے حملہ آور ہوتا ہے۔ جنت کو اللہ تعالیٰ نے مزکی شخصیات کے لیے بنایا ہے۔ قرآن کے مطابق شرک اور کفر کی آلودگی اتنی سنگین ہے کہ اس کے ساتھ جنت میں داخلہ نا ممکن قرار دیا گیا ہے۔ کبیرہ گناہوں سے تزکیہ سچی توبہ سے ہوگا۔ استغفار کی کثرت سے گناہِ صغیرہ معاف ہو جاتے ہیں۔ ایمان ہو لیکن پھر بھی اعمال نامے میں گناہوں کا پلڑا بھاری ہو تو اللہ تعالیٰ دنیا کی مصیبتوں سے کچھ گناہوں کو مٹا دیتے ہیں۔ اس کے بعد بھی گناہ باقی رہ جائیں تو موت کی تکلیف، عالمِ برزخ کا عذاب، میدانِ حشر میں انتظار کے ذریعے گناہوں کی تلافی کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود بھی گناہ نیکیوں پر بھاری ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کا تزکیہ اس طرح فرمائے گا کہ ان لوگوں کو گناہوں کی سزا جہنم میں دی جائے گی اور ایمان کی بدولت وہ بالآخر جنت میں داخل کر دیے جائیں گے۔
تزکیہ نفس کی دعا: حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ اس طرح دعا مانگا کرتے تھے:’’ اَللّٰہُمَّ آتِ نَفْسِیْ تَقْوَاہَا وَزَکِّہَا اَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکَّاہَا اَنْتَ وَلِیُّہَا وَمَوْلَاہَا‘‘ اے اللہ! میرے نفس کو تقویٰ عطا فرما اور اسے پاکیزہ کر، تو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے، تو ہی اس کا ولی اور مولیٰ ہے۔
تزکیہ نفس کے ساتھ روحانی درجات میں بلندی کے لیے بہترین نمونہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس میں موجود ہے۔ جب آپ سے آپ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہؓ نے پوچھا تھا کہ آپ نمازِ تہجد میں اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں جب کہ آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہو چکے گئے ہیں تو آپؐ نے فرمایا اے عائشہ! کیا میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ اگر ہم روحانی ارتقاء چاہتے ہیں تو پہلے فرائض کو اخلاص کے ساتھ ادا کریں۔اس کے بعد نوافل کے ذریعے احسان کی منزل میں داخل ہونے کی کوشش کریں۔ تقویٰ یہ ہے کہ بندہ فرائض انجام دے اور بندوں کے حقوق ادا کرے۔ احسان یہ ہے کہ فرائض سے بڑھ کر نوافل ادا کریں اور بندوں کو ان کے حقوق سے بڑھ کر دیں۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 فروری تا 08 فروری 2025