
ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد
یہ مضمون ان افراد کے لیے لکھا گیا ہے جو اسلام اور اس کی تعلیمات کو غیر مسلموں سے متعارف کروانا چاہتے ہیں ۔اس میں انسانی زندگی سے متعلق تمام پہلوؤں پراسلامی تعلیمات کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح اسلام ساری انسانیت کے لیے رحمت ہے ۔
اسلام یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کائنات کا خالق صرف ایک ہے۔اسلام انسان کو تمام مخلوقات میں اشرف اور اعلیٰ مخلوق قرار دیتا ہے۔ اسلام میں تمام انسان پیدائشی طور پر خالق کی نظر میں برابر ہیں، کوئی برتر یا کم تر نہیں ہے۔ کوئی بچہ گناہ کا بار لیے ہوئے پیدا نہیں ہوتا۔ہر بچہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر اخلاقی حِس کو رکھا ہے جس سے وہ نیکی و برائی،صحیح اور غلط اور حق و باطل کے فرق کو جانتا ہے۔انسان کے نفس میں ضمیر کو بھی رکھا گیا جو انسان کو غلط کام کرنے پر ملامت کرتا ہے۔انسان کوعقل جیسی نعمت سے نوازا جس کو استعمال کر کے انسان جان سکتا ہے کہ کون سی بات معقول ہے اور کون سی بات غیر معقول۔ لیکن جیسے جیسے بچہ بڑا ہونے لگتا ہے تو وہ ماحول کے اثرات قبول کرنے لگتا ہے۔ اچھے انسان ماحول کے برے اثرات سے خود کو بچاتے ہیں اور اپنے نفوس کا تزکیہ کرتے ہیں۔ برے انسان ماحول کے برے اثرات سے متاثر ہو کر برائیوں میں ملوث ہونے لگتے ہیں۔ انسانوں کی ہدایت کے لیے اخلاقی حس اور عقل کافی نہیں ہیں جن سے انسانی زندگی سے متعلق تمام سوالات کے جوابات مل سکیں۔ اس کے علاوہ ہدایت کا ایک اور اہم ذریعہ ہے جس کو وحی کا علم کہا جاتا ہے جو پیغمبروں کے ذریعے انسانوں کو دیا جاتا ہے۔ اسلام اللہ کق جو خالقِ کائنات کا نازل کردہ دین ہے جو مختلف زمانوں میں اپنے منتخب بندوں یعنی پیغمبروں کے ذریعے انسانوں کے لیے بھیجا گیا ہے۔خالقِ کائنات نے اپنے پیغمبروں کو ہدایت کے ساتھ بھیجا تھا اور ان میں سے جو رسول ہیں ان کو الہامی کتابیں دی گئیں ۔ان کتابوں میں اس کائنات کی بنیادی حقیقتوں کو بتایا گیا جیسا کہ اس کائنات کو کس نے پیدا کیا ؟کس مقصد کے لیے پیداکیا گیا ؟اس کائنات میں انسان کا کیا رول ہے ؟مرنے کے بعد انسانوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟اس وقت کائنات اپنے آخری دور سے گزر رہی ہے اس لیے کہ آخری رسول کی آمد ۱۴۵۰ سال قبل ہو چکی ہے اور اللہ کا آخری کلام قرآن اپنی اصلی حالت میں باقی ہے۔چونکہ قیامت تک کوئی رسول نہیں آنے والا ہے اس لیے اس آخری کلام کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ نے خود لے رکھی ہے۔
اسلام یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ اسلام کی ہدایت سارے انسانوں کے لیے ہے ۔اسلام کےایک معنیٰ امن و سلامتی کے ہیں ۔اس کے دوسرے معنی ہیں اطاعت میں سرِ تسلیم خم کرنا ۔اسلام کے مجموعی معنی یہ ہوئے کہ اللہ کی کامل اطاعت میں خود کو اللہ کے سپرد کرتے ہوئے اطمینان و سلامتی حاصل کرنا ۔ جب انسان کو کائنات کے بارے میں اطمینان بخش حد تک تمام بنیادی سوالوں کا جواب مل جاتا ہے تو وہ اطمینان کے ساتھ زندگی کے سفر پر گامزن ہو سکتا ہے۔ جب کسی مسافر کو کسی گاڑی میں بٹھا دیا جائے اور اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی جائے تو وہ اس سفر اور منزل کے بارے میں غیر مطمئن رہے گا جبکہ ایسا مسافر جس کو ابتدائے سفر اور انتہائے سفر کا علم ہو، اس کو سفر کا مقصد بھی معلوم ہو اور وہ سفر کے سنگ ہاے میل کو دیکھ بھی رہا ہو تو اس کا سفر اطمینان کے ساتھ گزرے گا۔ اگر سفر میں کچھ مشکلات بھی پیش آئیں تو وہ ان کویہ سمجھتے ہوئے گوارا کرلے گا کہ یہ سفر عارضی ہے اور وہ بہت جلد اپنی منزل پر پہنچنے والا ہے۔ لیکن اگر کسی کو ہوائی جہازکے بزنس کلاس میں خاطر تواضع کے ساتھ سفر کروایا جائے لیکن منزل سے بے خبر رکھا جائے تو اس کا سفر بے اطمینانی سے گزرے گا۔ اس لیے وہ لوگ جویقینی طور پر زندگی کے اس سفر کی نہ ابتدا جانتے ہوں اور نہ انتہا اور نہ ہی وہ سفر کا مقصد جانتے ہوں وہ کبھی زندگی میں سکون و اطمینان حاصل نہیں کرسکتے چاہے ان کو کتنا ہی مال و آسائشیں حاصل ہوں۔اسلام کے اخلاقی و روحانی نظام کی بنیاد یہ ہےکہ اللہ کی ذات کو انسان کی زندگی میں ہروقت مرکزی حیثیت حاصل ہوکہ اسی کی رضاو خوش نودی مقصود و مطلوب ہو۔ایک ایک بندے کا اللہ تعالیٰ سے تعلق جڑا رہے۔اس تعلق کو برقرار رکھنے کے لیے چند عبادات کو فرض کیا گیا جیسے نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج۔ انسان کی زندگی کا مقصد یہ طے کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کو بغیر دیکھے اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئےدنیا میں پھیلی ہوئی اس کی ربوبیت کی نشانیوں کو دیکھتے ہوئے اپنے خالق یعنی اللہ کے وجود کو مانے ۔یہ انسانی عقل کا امتحان ہے۔ اس امتحان کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ جس ہستی کو وہ اپناخالق اور رب تسلیم کرلے اس کا شکر گزار بندہ بنے اور اس کی وفا داری کو سب سے مقدم رکھے، یہ یقین رکھے کہ اس عارضی زندگی میں جو امتحان لیا جارہا ہے اس کا ایک دن نتیجہ نکلنے والا ہے ۔ایک دن یہ ساری دنیا ختم کر دی جائے گی اور سارے انسان دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور یومِ حساب قائم ہو گا۔ اس دن دنیا میں جو انصاف نہیں ہوسکا وہاں پر کامل انصاف ہوگا۔ایمان اور عملِ صالح کی بنیاد پر جو لوگ کامیاب قرار دیے جائیں گے ان کو ابدی جنت میں داخل کیا جائے گا اور جو لوگ اپنے حقیقی خالق کو پہچان کر اس کی عبادت کرنے میں ناکام قرار دیے جائیں گے ان کو ابدی جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ عقیدۂ آخرت کا بہت گہرا اثر انسانی زندگی پر پڑتا ہے۔آخرت کی زندگی پر یقین مظلوموں کو حوصلہ دیتا ہے کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائےگا۔ دنیا میں عدل وانصاف قائم کرنے والوں کے اندر صبر آزما حالات کے باوجود استقامت کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی جرأت پیدا ہوتی ہے اس امید پر کہ ان کو ان کے صبر کا پھل آخرت میں ملےگا۔ آخرت میں ملنے والے اجر کی قوی امید میں اخلاص کے ساتھ آدمی عملِ صالح اختیار کرے گا چاہے اس کو کتنی ہی مشکلات پیش آئیں، گناہ چاہے کتنے ہی مرغوب ہوں، آخرت میں ملنے والے اجر کی امید میں ان سے بچنے کا عزم اس کے اندر پیدا ہوگا۔ آخرت میں جواب دہی کا احساس انسان کو تنہائی میں بھی گناہ کرنے سے باز رکھے گا۔ لیکن اگر یہی آخرت میں جواب دہی کا احساس غلط تصورات سے بگاڑ کا شکار ہو جائے تو اس سے مفید اثرات رونما نہیں ہوتے۔ مثلاً عقیدۂ آخرت میں یہ غلط تصور پیدا ہو جائے کہ حساب کے دن ہم کو کچھ سفارشی بچالیں گے تو پھر ایسا عقیدہ انسان کو برائیوں سے روک نہیں سکتا اور نہ نیکیوں کی راہ پر چلا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک ابدی مخلوق بنا کر پیدا کیا ہے۔موت جب آتی ہے تو انسان کاجسم پراگندہ ہوجاتا ہے لیکن انسانی روح کو اس کے اعمال سمیت محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ موت کے بعد کی زندگی ابدی زندگی ہے۔موت سے قبل کی زندگی کو امتحان کے لیے عارضی بنایا گیا ۔اس زندگی میں انسان کی عمر محدود ہے لیکن اس کی خواہشات غیر محدود ہیں ۔کوئی انسان نہیں چاہتا کہ اس کو موت آئے، وہ بوڑھا ہو، کم زور اور بیمار ہو۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کو کبھی کوئی غم اور تکلیف لاحق نہ ہو۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کو کامیابیاں اور خوشیاں ہی ملیں کبھی زوال نہ آئے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس پر کبھی ظلم نہ ہو اور اگر ہو تو اس کو کامل انصاف ملے۔ ہم جانتے ہیں کہ انسان کی یہ لا محدود خواہشات کبھی اس محدود زندگی میں پوری نہیں ہوسکتیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ خواہشات پوری ہوں گی لیکن اس جہاں میں نہیں بلکہ قیامت کے بعد ابدی جہاں میں پوری ہوں گی۔ لیکن یہ خواہشات پوری ہوں گی ایک قیمت پر اور وہ قیمت یہ ہے کہ اس عارضی زندگی میں انسان اپنے رب کو بغیر دیکھے اس کی نشانیوں کو دیکھ کر پہچانے اور اس کی کامل اطاعت اختیار کرے۔
اسلام زندگی سے متعلق بنیادی سوالوں کے جوابات دلائل کے ساتھ دیتا ہے تاکہ کوئی شک وشبہ باقی نہ رہے اور پھر اس دنیاوی زندگی کو گزارنے کا طریقہ بھی اس طرح بتلاتا ہے کہ زندگی کا کوئی گوشہ ہدایت سے خالی نہ رہتا۔ اسلام میں زندگی گزارنے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے وہ انسانی فطرت سے مکمل مطابقت رکھتا ہے۔اگر اسلام میں شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے تو حقیقت یہ ہے کہ شراب سے انسانی عقل اور صحت دونوں متاثر ہوتے ہیں جس سے انسانی معاشرہ کو بے حد نقصان پہنچتا ہے۔اگر اسلام نے سود کو حرام قرار دیا ہے تو یہ اس لیے ہے کہ اس سے معاشی نا ہمواری پیدا ہوتی ہے، امیر، امیر ترین اور غریب، غریب ترین بنتے چلے جاتے ہیں۔ سود کو حرام کرتے ہوئے مال داروں پر یہ فرض کر دیا گیا کہ وہ اپنی دولت کا ڈھائی فیصد حصہ ہر سال غریب و فقراء کے لیے نکالیں تاکہ دولت کا ارتکاز نہ ہو اور دولت نچلے طبقات میں پہنچ سکے ۔اس سے ملک کے ہر شہری کی قوتِ خرید بڑھے گی نتیجتاً معیشت مستحکم ہوگی۔معاش کے ارتکاز کے دوسرے ذرائع کو روکا گیا جیسے جوا، سٹہ اور لاٹری جس میں کثیر لوگوں کی جیبوں سے رقم نکل کر چند لوگوں کے پاس جمع ہوتی ہے۔
اگر اسلام نے زنا کو قابلِ سزا جرم قرار دیا ہے تو اس لیے کہ اس سے خاندانی نظام برباد ہو جاتا ہے۔ اس فعل کا آغاز لذت اندوزی سے ہوتا ہے لیکن اس کا انجام نہایت بہت برا ہوتا ہے۔ ناجائز تعلقات کا انجام اکثر قتل کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اسلام نے ان اسباب و محرکات کو بھی روکا ہے جو زنا کی طرف لے جاتے ہیں جیسے تنہائی میں غیر محرم مرد و عورت کا ملنا اور خواتین کا نا زیبا لباس پہننا۔ قرآن نے پہلے مردوں سے خطاب کرکے فرمایا کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور پھر خواتین سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ وہ غیر محرم مردوں کے سامنے اپنے حسن و زینت کی نمائش نہ کریں۔ حجاب کے احکام کا ایک مقصد یہ ہے کہ عورتوں کے نیم برہنہ لباس سے مردوں کے خیالات پراگندہ نہ ہوں اور دوسرا یہ ہے کہ خواتین کی عصمت کی حفاظت ہو۔ معاشرہ میں فحش پھیلانے والے عوامل کو روکا گیا ہے تاکہ زنا کے امکانات کم سے کم ہوں۔غیر فطری جنسی خواہشات کی تسکیں کو حرام قرار دیتے ہوئے فطری خواہش کو بھی نکاح کی حدود میں اس کو جائز قرار دیا گیا تاکہ ایک صحتمند اور نیک معاشرہ وجود میں آئے۔
اسلامی معاشرہ میں انسان کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کو یقینی بنایا گیا تاکہ معاشرہ میں امن وامان قائم رہے۔ جان کے بدلے جان کا قانون بنایا گیا تاکہ انسانی جان چند مجرموں کے ہاتھوں غیر محفوظ نہ ہو۔ اسلام میں حقوق اور ذمہ داریاں متعین کردی گئیں ہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کا خالق اور رب ہے، وہ تمام مخلوقات کی ضروریات کی تکمیل فرما رہا ہے اس لیے بندوں پر اس کا حق یہ ہے کہ وہ اسی کی بندگی بجا لائیں اور اس کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کریں۔ شرک کو اللہ کے نزدیک نا قابلِ معافی گناہ قرار دیا گیا ہے۔ رسول، اللہ کا نمائندہ ہوتا ہے اور رسول ہی کے ذریعے سے انسانوں کو ہدایت ملتی ہے، اس لیے تمام انسانوں کا فرض ہے کہ رسول کی اطاعت کریں۔ والدین چونکہ اولاد کے دنیا میں آنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور وہ انتہائی کم زوری کی حالت سےاپنی اولاد کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے تک ان کی پرورش کرتے ہیں اس لیے ان کی اطاعت، احترام اور خدمت کو فرض قرار دیا گیا ہے۔ والدین پر فرض کر دیا گیا ہے کہ وہ پرورش کے ساتھ ان کی بہترین تربیت کریں تاکہ ان کی اولاد معاشرے کے لیے رحمت بنے نہ کہ باعث شر بنے۔رشتہ داروں کے حقوق بھی بتلائے گئے ہیں کہ ان کو بے سہارا نہ چھوڑا جائے ۔جو مال انسان چھوڑتا ہے اس میں رشتہ داروں کا حصہ متعین کر دیا گیا ہے تاکہ دولت کا ارتکاز نہ ہو اور دولت انصاف کے ساتھ اوپر سے نیچے منتقل ہو۔ اخلاق کا یہ اصول متعین کیا گیا کہ جو خود کے لیے پسند کرے وہی دوسروں کے لیے پسند کرے۔ اپنی زبان اور اپنے ہاتھ کو کسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔ اسلامی حکومت کو اختیار دیا گیا کہ عدالتوں کو قائم کرکے مجرمین کو سزائیں دے تاکہ معاشرہ جرائم سے پاک ہو۔ چند مجرموں سے نرمی برتنے کا مطلب یہ ہوگا کہ سارے معاشرہ کے امن کو خطرہ میں ڈال دیا جائے۔ اس لیے اسلام میں جرائم اور ان کے نتائج کے لحاظ سے سزائیں رکھی گئیں۔ معاشرہ میں اخلاقی تعلیم کو نظام ِ تعلیم کا حصہ بنا کر عوام الناس کے دلوں میں آخرت میں جواب دہی کے احساس کو بیدار کیا جاتا ہے تاکہ لوگ تنہائی میں بھی گناہوں اور جرائم سے بچیں۔ جرائم کو محض تعزیری قوانین، عدالتوں اور پولیس فورس سے روکا نہیں جاسکتا ۔ آخرت میں اپنے اعمال کی جواب دہی کا احساس ہی ایسا زور دار محرک ہے جو معاشرہ میں امن وامان کی ضمانت بن سکتا ہے۔
ایسی معاشرتی برائیوں سے روکا گیا جن سے افراد کے درمیان عداوت اور دشمنی پیدا ہوتی ہو۔ بے بنیاد افواہوں کو پھیلانے سے روکا گیا اور بغیر تحقیق fact finding کے ان پر یقین کرنے سے روکا گیا۔ تجسس کرکے لوگوں کی نجی زندگی میں جھانکنے سے منع کیا گیا ہے۔ حقارت کے جذبے سے ایک دوسرے کا مذاق اڑانے اور برے القاب سے بلانے سے روکا گیا جن سے دل آزاری ہو۔ غیبت کو برا فعل قرار دیا گیا ہے جن سے افراد کے درمیان تعلقات بگڑتے ہیں۔
اسلام میں اس بات کو واضح کردیا گیا ہے کہ معاشرہ سے ظلم مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا۔اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے اس اصول پر بنایا ہے کہ یہاں ہر انسان کا امتحان لیا جارہا ہے ۔امتحان کےلیے فکر و عمل کی آزادی درکار ہے اور وسائل کی فراہمی بھی ۔ہر وقت اس بات کا امکان رہتا ہے کہ انسان اللہ کی دی ہوئی اس آزادی کا غلط استعمال کریں ۔جس کے پاس جتنے زیادہ وسائل اور اختیارات ہوں گے اسی قدر اس بات کا خطرہ رہے گا کہ ان کا غلط استعمال ہو۔ حکم رانوں کے ہاتھ میں سب سے زیادہ وسائل ہوتے ہیں اس لیے اکثر وبیشتر حکم راں طبقہ کے ہاتھوں اختیارات کا غلط استعمال ہوتاہے اور بدترین ظلم کا ارتکاب ہوتا رہتا ہے ۔اسلام یہ حوصلہ دیتا ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکا جائے ۔ظالم کے خلاف حق بات کہنے کو سب سے بڑا جہاد قرار دیا گیا ۔ظالم کا ظلم سہنا اور ظلم سے تنگ آکر خود کشی کرنے کے مقابلے میں ظالم سے لڑتے ہوئے اگر ایک آدمی اپنی جان بھی قربان کرتا ہے تو اس کو شہید کا درجہ دیا گیا ہے۔ظلم کی مزاحمت کی استطاعت نہ ہو تو ظلم پر صبر کرنے کا بڑا اجر بتلایا گیا ہے۔دنیا میں پیش آنے والی ہر مصیبت پر صبر کرنے والوں کوبہت بڑے اجر کی خوش خبری دی گئی ہے۔اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انسان کو یہ امید دلاتا ہے کہ مرنے کے بعد آخرت میں اللہ کی عدالت میں مکمل انصاف ہوگا اور وہاں کوئی مجرم بچ نہیں سکتا۔ یہ یقین ایک مظلوم کو حوصلے کے ساتھ ظلم کے مقابلے میں یا تومزاحمت کرنے کی طاقت دے گایا اسے صبر کی چٹان بنا دے گا۔اسلام انسان کو انسان کا غلام بننے سے روکتا ہے۔ہر طرح کی غلامی چاہے وہ ذہنی ہو یا جسمانی اس سے روکتا ہے۔اسلام ہر طرح کی غلامی سے آزاد ہو کر ایک اللہ کی غلامی و بندگی کی طرف دعوت دیتا ہے۔
دین ِ اسلام میں زبردستی نہیں ہے۔ اسلام اپنے زورِ استدلال سے عقل کو اپیل کرتا ہے ۔فکری اعتبار سے اسلام مضبوط بنیادوں پر قائم ہے ۔جب بھی کسی ملک میں پر امن ماحول دستیاب ہو تو وہاں اسلام اپنی فکری طاقت کے بل پر پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ زور و زبردستی سے انسانوں کو کسی مذہب یا نظریہ کا قائل نہیں بنایا جا سکتا ۔ایسی صورت میں وہ نظریہ دلوں میں جگہ نہیں بنا سکتا۔ لیکن اسلام یہ بھی نہیں چاہتا کہ اسلام کو اختیار کرنے میں یا اس کی اشاعت میں کوئی رکاوٹ ہو۔ایسی رکاوٹوں کو وہ فتنہ قرار دیتا ہے۔اسلام فتنہ اور ہر طرح کے ظلم کے خلاف ہے ۔اسلام اپنے ماننے والوں کو ہر طرح کے ظلم کے خلاف اٹھنے کا حکم دیتا ہے ۔ظلم کے خلاف قوت کو استعمال کرنے کی اسلام اجازت دیتا ہے لیکن اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ لوگ ایک دوسرے کے خلاف قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں ۔عدالتیں اس لیے قائم کی جاتیں ہیں کہ ظلم کو روکا جاسکے اور عدل و انصاف دلایا جائے ۔لیکن کسی ملک کے کسی فرد یا گروہ کو اپنے طور پر مسلح جہاد کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ ارباب اقتدار اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ کب اور کس کے خلاف کارروائی کرنا ہے۔
اسلام کا سیاسی نظام اس اصول پر قائم ہوگا کہ مشاورت سے حکومت کا نظام چلایا جائے۔اسلام ایسی جمہوریت کا قائل ہے جہاں ملک کے حکم راں اور پارلمینٹ کے ممبروں کا انتخاب جمہوری طرز پر ہوگا لیکن قانون سازی اللہ کی ہدایات کی روشنی میں ہوگی ۔اسلام اللہ کا دیا ہوا دین ہے جو ساری انسانیت کے لیے رحمت ہے۔ اسلام میں تمام انسانوں کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت ہے۔اسلام میں کوئی ایک چیز کی بھی نشان دہی نہیں کی جا سکتی جس میں کسی کی حق تلفی ہوسکتی ہو۔ اسلام کا اخلاقی و روحانی، معاشی و سماجی اور معاشرتی و سیاسی نظام سب انسانیت کے باعثِ رحمت ہیں۔یہ تمام نظام ہائے حیات ایک دوسرے کے ساتھ منطقی طور پر مربوط ہیں۔ تجربہ نے ثابت کر دیا کہ جب اسلام زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ کیا گیا تو معاشرہ میں مساوات، عدل و انصاف اور خوش حالی کا دور دورہ تھا۔ جس رسول کے ذریعے دینِ اسلام بھیجا گیا اس کو رحمت للعالمین یعنی ساری دنیا کے لیے رحمت بنایا گیا۔ قرآن کو ساری انسانوں کے لیے دلوں کے امراض کی شفا بناکر نازل کیا گیا۔اسلام کے معنی ہی سلامتی کے ہیں ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ جس دین کا نام سلامتی ہو وہ تشدداور دہشت گردی کی تعلیم دے؟ اسلام میں تو حیوانات کے تک حقوق بھی متعین کیے گئے ہیں اور ان چیزوں سے روکا گیا ہے جن سے ماحول میں آلودگی پیدا ہوتی ہو۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 جنوری تا 25 جنوری 2024