اسلام کا معاشرتی نظام

والدین اور رشتہ دار، اسلامی معاشرت کی اولین اینٹ

ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد

اسلام، خودغرضی پر مبنی معاشرے کے بجائے فلاحی معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے، جہاں عدل و احسان کا رویہ عام ہو
معاشرتی نظام سے مراد انسانوں کے مابین معاملات و تعلقات کے آداب، ایک دوسرے پر عائد ہونے والے فرائض اور حقوق کی تفصیل ہے۔ زندگی کے تمام نظام منطقی طور پر ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں اور یہ سب ان بنیادی عقائد کے عین مطابق ہوتے ہیں جو کسی معاشرے میں رائج ہوں۔ دنیا میں جتنے بھی نظام موجود ہیں، وہ اس کائنات، اس کے خالق اور اس کے منصوبۂ تخلیق کے بارے میں پائے جانے والے تصورات کی عکاسی کرتے ہیں۔ مثلاً ملحدانہ تصورات کے مطابق جو معاشرتی، معاشی، سیاسی اور اخلاقی نظام تشکیل پاتے ہیں وہ اسلامی نظام ہائے حیات سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ آج اکثر ممالک میں سیکولر ڈیموکریٹک سیاسی نظام قائم ہے، جہاں مذہب کو محض انفرادی معاملہ سمجھا جاتا ہے اور جمہور کے نمائندوں کو قانون سازی کا غیر مشروط اختیار حاصل ہوتا ہے۔ منتخب شدہ عوامی نمائندے نئے اصول طے کرکے نئے قوانین بنا سکتے ہیں۔ مثلاً ایک سیکولر لبرل معاشرے میں مرد و زن کو یہ آزادی حاصل ہوتی ہے کہ وہ نکاح کے بغیر بھی تعلقات قائم کر سکیں۔ اسی طرح، معیشت میں ایسے عوامل جو دولت کے ارتکاز کا سبب بنتے ہیں، جیسے سودی کاروبار، وہ معاشی نظام کی بنیاد قرار پاتے ہیں۔ اخلاقی اقدار بھی ملکی و قومی مفاد کی بنیاد پر طے کی جاتی ہیں، چاہے وہ دوسرے ممالک کے لیے کتنی ہی نقصان دہ کیوں نہ ہوں۔
چونکہ ملحدانہ نظامِ حیات میں خدا کو ہر میدان سے خارج کر دیا گیا ہے، اس لیے انسانی معاشرہ افراط و تفریط کا شکار ہو جاتا ہے اور نئے نئے تجربات کے باعث انسانی زندگی اجیرن بنتی رہتی ہے۔
اسلامی نظامِ حیات
اسلامی نظام ہائے حیات اسلامی عقائد سے ماخوذ ہیں۔ عقیدۂ توحید کا تقاضا یہ ہے کہ قانون سازی اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے اصولوں کی پابند ہو۔ اسلامی معیشت میں سودی لین دین کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ یہ دولت کے ارتکاز کا سبب بنتا ہے۔ اسلامی نظام میں دولت کی تقسیم اس طرح ہوتی ہے کہ وہ اوپر سے نیچے کی طرف بہتی ہے، یعنی مالداروں سے زکوٰۃ، صدقات اور وراثتی تقسیم کے ذریعے غریبوں کی طرف منتقل ہوتی رہتی ہے، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب مسلم ریاست میں کوئی غریب باقی نہیں رہتا۔
اسلامی معاشرت ان اخلاقی اصولوں کی پابند ہوتی ہے جو انسانی فطرت سے ہم آہنگ بھی ہیں اور اللہ کے مقرر کردہ حدود و قیود سے متجاوز بھی نہیں ہوتے۔ مثلاً اسلامی معاشرت میں غیر محرم مرد و زن کے درمیان نکاح کے علاوہ کسی اور تعلق کی کوئی گنجائش نہیں۔
مرد و زن کا باہمی تعلق اور خاندان کی اہمیت
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم و حوا سے انسانی نسل کا آغاز فرمایا۔ مرد و عورت کی تخلیق میں بنیادی فرق کے باوجود وہ ایک دوسرے کے تکملے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان ایک فطری کشش رکھی ہے تاکہ وہ اعلیٰ مقصد کے لیے قربانی دے سکیں، اور یہ اعلیٰ مقصد انسانی نسل کی افزائش اور اس کی تربیت ہے۔ لیکن اگر اس کشش کو اخلاقی حدود میں محدود نہ کیا جائے تو معاشرے میں جنسی فساد برپا ہو جاتا ہے اور وہ مقصد فوت ہو جاتا ہے جس کے لیے یہ فطری کشش رکھی گئی ہے۔
انسانی بچہ دیگر مخلوقات کے بچوں کے برعکس نہایت کمزور ہوتا ہے اور تقریباً ۱۸ سال تک والدین کی نگرانی اور سرپرستی کا محتاج رہتا ہے۔ حیوانات کے بچے جلد ہی اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اپنی خوراک حاصل کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں لیکن انسانی بچہ ایک سال تک تو چلنے کے بھی قابل نہیں ہوتا۔ اس کے لیے مسلسل ماں کی توجہ درکار ہوتی ہے، جبکہ باپ دن بھر محنت کرکے خاندان کی معاشی ضروریات پوری کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانوں کے لیے ایک مستحکم خاندان کی ضرورت ہوتی ہے جہاں شوہر اور بیوی ذہنی یکسوئی کے ساتھ ازدواجی رشتے میں بندھے رہیں تاکہ نسل کی صحیح پرورش ہو سکے۔
اسلام میں خاندان کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ اگر مرد اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل تو چاہے لیکن اس تعلق سے پیدا ہونے والے بچے کی ذمے داری لینے سے انکار کر دے، تو اسلام ایسی سوچ کو مجرمانہ قرار دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زنا کو اسلام میں قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا ہے، چاہے وہ رضا مندی سے ہی کیوں نہ ہو۔
غیر اسلامی معاشروں میں زنا کو گناہ تو سمجھا گیا مگر اتنا بڑا نہیں کہ اس پر کوئی سزا دی جائے۔ مغربی دنیا میں اس سوچ کی ابتداء ہوئی اور آج یہ پوری دنیا میں سرایت کر چکی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خاندان تباہ ہو رہے ہیں، شوہر اور بیوی کے درمیان اعتماد ختم ہو چکا ہے، معمولی باتوں پر طلاقیں ہو رہی ہیں، اور بچوں کی پرورش و تربیت شدید متاثر ہو رہی ہے۔
خاندان کی تباہی کے نتائج
ایک اکیلی ماں (single mother) جو گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے باہر کام کرنے پر مجبور ہو، نہ ماں کا کردار ادا کر سکتی ہے اور نہ باپ کا۔ ایسے بچے محرومیوں کا شکار ہو کر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں، منشیات کے عادی بن کر جرائم پیشہ بن جاتے ہیں اور معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
اسی لیے اسلام خاندان کو بچانا چاہتا ہے، کیونکہ خاندان محفوظ ہوگا تو معاشرہ محفوظ ہوگا اور معاشرہ محفوظ ہوگا تو ملک بچے گا۔ آج کئی ترقی یافتہ ممالک میں شادی کا رجحان کم ہوتا جارہا ہے۔ اگر شادی ہو بھی جائے تو طلاق کی شرح بہت زیادہ ہے اور اکثر جوڑے کم سے کم بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ نتیجتاً، ترقی یافتہ ممالک میں شرح پیدائش منفی ہو چکی ہے۔
ایک وقت آئے گا جب ان ممالک میں کام کرنے والے لوگ بھی نہیں ہوں گے، اور نہ ہی ملک کی حفاظت کرنے والے سپاہی باقی رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
شرح پیدائش کا بحران
فی الحال امیگریشن کے ذریعے یہ ممالک اپنی آبادی کا توازن برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن کئی ترقی یافتہ ممالک میں شرح پیدائش خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے۔
• جنوبی کوریا میں شرحِ تولید (fertility rate) محض 0.7 ہے۔
• تائیوان میں یہ 0.87 ہے۔
• جاپان، چین، اٹلی، اسپین، جرمنی اور روس میں یہ 1.8 سے بھی کم ہے، جبکہ آبادی کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے کم از کم 2.1 ہونا ضروری ہے۔
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ کئی ممالک اپنی بقا کے لیے شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ اگر شرحِ پیدائش اسی طرح کم ہوتی رہی تو یہ ترقی یافتہ ممالک آئندہ چند دہائیوں میں شدید بحران کا شکار ہو سکتے ہیں۔
اصلاح کی کوشش (صلح و مصالحت)
قرآن مجید شوہر بیوی کے اختلاف کی صورت میں فوری طلاق کے بجائے صلح و مصالحت کی تلقین کرتا ہے:
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُواْ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا (سورۃ النساء: ۳۵)
"اور اگر تمہیں میاں بیوی کے تعلقات بگڑنے کا اندیشہ ہو تو ایک فیصلہ کرنے والا مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے مقرر کرو۔ اگر وہ دونوں اصلاح چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔”
طلاق سے قبل عدت کا لحاظ
اگر مصالحت کی تمام کوششیں ناکام ہوجائیں اور شوہر طلاق دینے کا فیصلہ کرے، تو قرآن تاکید کرتا ہے کہ طلاق حالتِ طہر میں دی جائے اور ازدواجی تعلق قائم نہ کیا گیا ہو:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ (سورۃ الطلاق: ۱)
"اے نبیؐ! جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے لیے طلاق دو، اور عدت کا حساب درست طریقے سے رکھو۔”
تدریجی طلاق کا اصول
قرآن طلاق کو یکمشت دینے کے بجائے تدریجی طریقے سے دینے کی ہدایت کرتا ہے:
الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ (سورۃ البقرہ: ۲۲۹)
"طلاق دو بار ہے، پھر یا تو اچھے طریقے سے عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے رخصت کر دیا جائے۔”
اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی طلاق کے بعد عدت (تین حیض) کے اندر رجوع ممکن ہے۔ اگر عدت میں رجوع نہ کیا جائے تو نکاح ختم ہو جاتا ہے، تاہم عدت کے بعد تجدیدِ نکاح کی اجازت ہے۔ اگر ازدواجی زندگی دوبارہ قائم ہو اور مستقبل میں پھر طلاق ناگزیر ہو، تو دوسری طلاق اسی طریقے سے دی جا سکتی ہے۔
تیسری طلاق اور حلالہ
اگر تیسری طلاق بھی ناگزیر ہوجائے، تو اس کے بعد رجوع یا تجدیدِ نکاح ممکن نہیں، سوائے ایک صورت کے جو کسی منصوبہ بندی کے تحت نہ ہو۔ یعنی اگر عورت عدت کے بعد کسی اور مرد سے نکاح کرے اور کسی وجہ سے طلاق ہو جائے، تو عدت کے بعد سابق شوہر سے نکاح ہو سکتا ہے:
فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىَ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ (سورۃ البقرہ: ۲۳۰)
"پھر اگر شوہر نے (تیسری بار) طلاق دے دی تو وہ عورت اس کے لیے حلال نہیں ہوگی، جب تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے اور وہ طلاق نہ دے۔”
عدت کی مدت
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوءٍ (سورۃ البقرہ: ۲۲۸)
"اور جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، وہ تین ماہواری تک انتظار کریں۔”
یعنی ہر طلاق کے بعد عدت تین حیض کے برابر ہوگی۔
عدت کے دوران نان و نفقہ اور رہائش
أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ (سورۃ الطلاق: ۶)
"زمانۂ عدت میں انہیں وہیں رکھو جہاں تم رہتے ہو، جیسی جگہ تمہیں میسر ہو، اور انہیں تنگ کرنے کے لیے نہ ستاؤ۔”
یہ ہدایت اس لیے دی گئی ہے کہ ایک ہی چھت کے نیچے رہنے سے صلح کی کوئی راہ نکل سکے۔
طلاق: آخری حل
قرآن طلاق کو آخری حل کے طور پر پیش کرتا ہے اور صلح کی ہر ممکن کوشش کرنے کا حکم دیتا ہے۔ تاہم، اگر میاں بیوی کے درمیان عدم مطابقت (incompatibility) ہو اور ازدواجی زندگی تلخی میں گزر رہی ہو، تو طلاق ایک بہتر حل ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد دونوں نئے رشتے قائم کر کے بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔
خاندانی نظام کی مضبوطی میں والدین کے حقوق کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ شکرگزاری میں سب سے بڑا حق اللہ کا ہے، جیسا کہ حکیم لقمان کو عطا کردہ حکمت کا اولین تقاضا اللہ کا شکر ادا کرنا بیان ہوا:
"وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ” (لقمان: 12)۔
اللہ کا شکر ادا کرنے کے دو پہلو ہیں:
1. اس کی بندگی و اطاعت
2. اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی
کفرانِ نعمت کی بدترین صورت اللہ کے وجود کا انکار یا اس کی عبادت کے بجائے غیراللہ کی بندگی ہے، جو آخرت میں ناکامی کا سبب بنے گی۔
اللہ کا شکر بجا لانے کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے، خصوصاً ان کی ضعیفی کے دوران:
"وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ…” (لقمان: 14-15)۔
اگر والدین اولاد کو شرک پر مجبور کریں تو اللہ کے حکم کو مقدم رکھنا ضروری ہے، کیونکہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔
خاندان کے بعد رشتہ داروں، مساکین اور ضرورت مندوں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا گیا:
"وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ…” (بنی اسرائیل: 26)۔
معاشرتی حقوق کو جامع انداز میں بیان کرتے ہوئے فرمایا:
"وَاعْبُدُوا اللّهَ وَلاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا…” (النساء: 36)۔
اسلام، خودغرضی پر مبنی معاشرے کے بجائے فلاحی معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے، جہاں عدل و احسان کا رویہ عام ہو:
"إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاء ذِي الْقُرْبَى…” (النحل: 90)۔
اسلامی معاشرت کی اساس یہ ہے کہ تمام انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں، اور برتری کا معیار تقویٰ ہے، نہ کہ رنگ و نسل (الحجرات: 13)۔
اسی سورت میں ان برائیوں کا بھی ذکر ہے جو معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتی ہیں، جیسے دوسروں کو حقیر سمجھنا، برے القاب سے پکارنا، بے جا تجسس اور غیبت کرنا۔ یہ امراض معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتے ہیں، جن سے بچنا ضروری ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 فروری تا 22 فروری 2025