اسلام کا معاشرتی نظام سارے نظاموں سے اعلیٰ و ارفع

بھارتی سماج کی اخلاقی صورتحال اور اسلام کی روحانی و اخلاقی تعلیمات۔ایک جائزہ

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

سماجی مساوات اورمنواسمرتی جیسے قوانین کی اصلاحات کے لیے ہندو رہنماؤں کی قابل قدر کوششیں
مسلمان خیر امت ہونے کا فریضہ ادا کرتے ہوئے معاشرے میں اخلاقی اور دینی سدھار کے لیے کمر کس لیں
بھارتی سماج کی اخلاقی صورتحال کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ خود بھارت اور اس میں رائج ’ورن‘ اور’جاتی‘ نظام کو سمجھا جائے ساتھ ہی ہندوستانی تہذیب جس پر ہندوؤں کو فخر ہے اس کی تاریخی حیثیت بھی ہمارے سامنے ہو۔لہٰذا جدید علم جینیات کی رو سے برصغیر کی سرزمین پر تہتر سے پچپن ہزار سال قبل کی درمیانی مدت میں انسانوں کی آمد کا سراغ ملتا ہے جو افریقہ سے آئے تھے۔ لیکن اثریاتی نقطۂ نظر سے جنوبی ایشیا میں انسانی وجود کے اولین آثار تیس ہزار برس پرانے ہیں جبکہ خوارک کی فراہمی، کاشت کاری اور گلہ بانی وغیرہ کے ہنگاموں سے معمور باقاعدہ انسانی زندگی کا آغازسات ہزار ق م کے آس پاس ہوا۔ مہر گڑھ،علم الآثار میں جدید زمانہ پتھر کا ایک اہم مقام ہے۔ معلوم تاریخ کے حساب سے یہ جنوبی ایشیا کا پہلا علاقہ ہے جہاں جَو اور گیہوں کی پیداوار کے آثار ملتے ہیں اور ساتھ ہی ایسے قرائن پائے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے فوراً بعد بھیڑ بکریوں اور گائے بیل وغیرہ مویشیوں کے پالنے کا رجحان پیدا ہو چکا تھا۔ ساڑھے چار ہزار ق م تک انسانی زندگی مختلف شعبوں تک پھیل گئی اور بتدریج وادی سندھ کی تہذیب کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھری۔ اس تہذیب کا شمار عہد قدیم کی اولین تہذیبوں میں ہوتاہے۔Old World سے مراد افریقہ یوریشیا ہے یعنی افریقہ، یورپ اور ایشیا تینوں کو مجموعی طور پر قدیم دنیا کہا جاتا ہے۔ اس خطے کو اس لیے قدیم دنیا کہا جاتا ہے کیونکہ یہی تین براعظم ہی ہیں جہاں ہزاروں سالوں سے انسان آبادہیں،یہی وہ خطہ ہے جس نے بڑی بڑی تہذیبوں جیسے ویدک تہذیب،وادی سندھ کی تہذیب وغیرہ کو جنم دیا۔ یہ قدیم مصر اور میسوپوٹامیا،بین النہرین،عراق میں دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے درمیان واقع علاقے کی تہذیبوں کی ہم عصر تھی جہاں دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں مثلاً عکادی، اشوری اور بابل نے جنم لیا۔ قبل مسیح کے دوسرے ہزارے کے اوائل میں مسلسل قحط اور خشک سالی نے وادی سندھ کی آبادی کو منتشر ہونے پر مجبور کر دیا اور یہاں کے باشندے متفرق طور پر بڑے شہروں سے دیہی مقامات پر منتقل ہو گئے، عین اسی دور میں ہند-آریائی قبائل وسط ایشیا سے نکل کر پنجاب میں وارد ہوئے۔ یہیں سے ویدک دور، جب ویدوں کی تشکیل ہوئی اور ہڑپا ثقافت کے خاتمے کے بعد بھارت میں ایک نئی تہذیب وجود میں آئی ۔ان قبیلوں میں وَرن کا نظام رائج تھا جو آگے چل کر ذات پات کے نظام میں تبدیل ہوگیا۔یہ نظام زمانہ قدیم سے ہندو معاشرے کو چار ذاتوں میں تقسیم کرتا تھا۔
دوسری جانب یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ آریا کون تھے؟ بحیرہ کیسپین (Caspian Sea) اور بحیرہ احمر (Red Sea) کے درمیان کاکیسس کے شمال میں بسنے والے سفید فام خانہ بدوش آریا
کہلاتے تھے۔ گھوڑوں اور مویشیوں کی افزائش نسل ان کا پیشہ تھا۔ آریا نسل کے لوگوں نے قبل مسیح کی دوسری ہزاری کے آغاز میں مختلف اطراف میں ہجرت کا آغاز کیا۔1500ق م میں ان کی آمد تک وادی سندھ کی شہری تہذیب دم توڑ چکی تھی۔ آریوں کو یہاں کاشت کاروں سے واسطہ پڑا، ان کی مذہبی رسوم بھی کچھ زیادہ طمطراق کی حامل نہیں اور فقط لنگ پرستی پر قانع ہیں۔ وادی سندھ میں آثار قدیمہ کی کھدائی سے اس طرح کی شبیہیں بکثرت ملتی ہیں۔ آریاؤں نے اپنے مفتوحوں سے بظاہر کوئی واضح اثر قبول کیا تو یہی لنگ پوجا ہے جو شیو پرست آج تک کرتے ہیں۔ معاشرتی ضروریات کے تحت آریا تین طبقات میں منقسم تھے، یہ تقسیم معاشرتی کردار کی بنیاد تھی۔ ان کی اپنی آبادی پروہتوں، جنگجوؤں اور کارشتکارو مویشی پال طبقے میں تقسیم تھی۔ وید کی اولین مناجات میں باہم متعامل تین طبقات کا ذکر ملتا ہے۔بعد ازاں ان میں ایک چوتھا بھی شامل ہوگیا۔ انہیں داس یا داسیو کا نام دیا گیا۔’داس’کا لغوی مطلب غلام ہے اور ابتدائی اساطیر میں یہ لفظ آریاؤں اور ان کے دیوتاؤں کے دشمن کے طور پر برتاگیا ۔وید کے آخری حصوں میں ان لوگوں کو سماج کے ایک الگ طبقے کے طور پر تسلیم کیاجاچکا تھا۔ انہیں کوشودر کا نام دیا گیا۔ سماجی تقسیم کا نظام ‘ورن’ انڈو ایرانین زبانیں بولنے والے (یعنی آریاؤں) اور ‘ویدک سماج’کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔قدامت پسند ہندو ماہرین کے نزدیک ورن الوہی انصاف کے نظام کا ایک حصہ ہے جس میں ارواح کو اعمال کے مطابق اگلے جنموں میں جان داروں کے اعلیٰ یا ادنیٰ طبقے میں منقلب کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہندو ماہرین الٰہیات یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ورن کبھی مذہبی عقائد سے خارج کیا جاسکتا ہے۔جہاں تک کلاسیکی ہندو فکر کا تعلق ہے اس میں مذہب اور قانون کےدرمیان واضح خط امتیاز نہیں کھینچا جاسکتا۔”دھرم”کی اصطلاح دونوں کا احاطہ کرتی ہے۔قانونی نظام کی بنیاد یعنی ‘دھرم ‘فطری قوانین کا نظام ہے جس کے قواعد کائنات کے ابدی خیال کیے جانے والے نظریات سے ماخوذ ہیں۔ قوانین کے نفاذ کے لیے درکار قوت بھی اسی تصور سے اخذ کی جاتی ہے کہ ان کی بنیادی ابدی تنظیم پر ہے اور یہی تصور ان کو موثر رکھتا ہے۔قانون سے متعلق ادب میں دھرم کے چار منابع یا سرچشمے مانے گئے ہیں۔ وید، سمرتی، سدھاچار(یعنی مسلمہ طور پر نیک لوگوں کا طرز زندگی)اور چوتھے جس پر ضمیر مطمئن ہوجائے ‘آتمستی’۔سنسکرت لفظ سمرتی کا لغوی مطلب ’جسے یاد رکھا گیا‘ ہے۔ سمرتی کی ایک اور ذیلی صنف’دھرم شاستروں‘پر مشتمل ہے۔ دھرم شاستر کے لغوی معنی ’دھرم کا علم‘ہے۔ یہ صنف سمرتی لفظ کے درست معنوں میں ’قوانین کا مجموعہ‘ہے۔ہندو عقیدے کی رو سے شاستروں کا مقصد ویدوں میں بیان ابدی و ناقابل تغیر تعلیمات کی تدریس اور وحدت کا فروغ تھا۔اسی لیے دھرم سے تعلق رکھنے والے ادب میں بیان کردہ قوانین و قواعد کی پابندی ناگزیر قراردی گئی۔ چونکہ دھرم بجائے خود کائناتی ضابطہ مانا گیا تھا لہٰذا مذکورہ بالا سختی عین قابل فہم ہے۔
چھٹی صدی ق م سے اٹھارہویں صدی کے دوران لکھا گیا کلاسیکی ادب،جسے دھرم ،قانون اور قانونی نظام قرارد یا گیا،یہ وہی دھرم ہے جسے "منو دھرم شاستر” یا منو اسمرتی تسلیم کیا جاتا ہے نیز، اسے منوسومبھو سے وابستہ کیا جاتا ہے۔اس نظام قانون کے موثر ہونے کی بنیاد اس مذہبی عقیدے پر تھی کہ دنیا کی تنظیم ،دھرم کے اخلاقی اور فطری ڈھانچے کے گرد قائم ہے۔ قانون کا اطلاق عموماً بادشاہ کی ذمہ داری خیال کی جاتی تھی جسے بالعموم نیم الوہی خیال کیا جاتا تھا(7:4,5منو)۔بادشاہ کا یہی نیم الوہی ہونا اسے شاہی اختیارات دیتا تھا۔اسی لیے دھرم کے کسی بھی اصول کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دینا بادشاہ کی ذمہ داریوں میں سے ایک تھی اور وہی دھرم پر عمل درآمد کا ضامن تھا۔حتمی اور آخری فیصلہ اسی کے دربار میں ہوتا تھا اور وہیں دائرہ ہائے کار کا تعین بھی ہوتا تھا۔یہاں ہونے والے فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست نہیں کی جاسکتی تھی۔کلاسیکی ہندو معاشرے میں ہرفرد کا دھرم ذمہ داریوں اور فرائض کا مجموعہ ہے جو اسی کے ساتھ مخصوص ہے۔چونکہ ہر فرد میں موجود راست بازی اور خیر کی صلاحیت الگ ہے چنانچہ ہر فرد کا اپنا ایک دھرم(سودھرم)بھی ہے۔ فرد میں خیر کی صلاحیت پیدائشی ہے اور پیدائشی کرموں کا نتیجہ ہے۔لہذا وسیع تر اصطلاحات میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ برہمن اور شودر(یعنی اعلیٰ ترین اور ادنیٰ ترین) سماج کے کیفیتیQualitativeمختلف افراد ہیں۔اسی کیفیتی فرق کے باعث ان سے وابستہ سماجی، مذہبی اور قانونی توضیحات بھی ایک جیسی نہیں ہیں۔مثال کے طور پرشودر کو قتل کرنے کی صورت میں برہمن کفارے کا عمل چھ ماہ تک کرے گا، وہ ایک برہمن کو دس سفید گائیں اور ایک بیل بھی دے سکتا ہے۔بلی،نیل کنٹھ، مینڈک، کتے،الّو اور کوّے کو ہلاک کرنے کی صورت میں بھی اسے شودر کے قتل کا سا کفارہ دینا ہوگا۔(11:131-132)۔ ویدوں کی تعلیمات اور سماجی اخلاقیات و نظام کو درست رکھنے کے حوالے سے منواسمرتی میں بارہ ابواب پر مشتمل تعلیمات موجود ہیں۔اس کا ترجمہ "منودھرم شاستر”کے نام سے ارشد رازی نے کیا ہے۔ہم نے اسی ترجمہ سے چند سمرتیوں کودرج کیا ہے جو یہ ہیں : بادشاہ کو،جیسا کہ اس کے شایان شان ہے، ویدوں کے فاضل برہمنوں کو جواہرات تحفے میں دینا چاہیے تاکہ یگیہ وغیر میں کام آسکیں(11:4)۔برہمن یگیہ کے لیے کسی شودر سے کسی حال میں بھیک نہیں لے گا، اس لیے کہ ایسے شخص سے لے کر یگیہ کرنے والا دوبارہ چنڈال کی صورت میں پیدا ہوگا(11:24) پکی خوراک چرانے والا سیام روگ، ویدوں کے الفاظ چرانے والا گنگ،کپڑا چور کوڑھی اور گھوڑا چور لنگڑے پن کا شکار ہوجاتا ہے۔چراغ چرانے والا اندھا، چراغ بجھانے والا کانا، حسیات رکھنے والی مخلوق کو تکلیف دینے والاروگی اور ازدواجی بے وفائی کرنے والا(اعضاء کی سوجن) کا شکار ہوجاتا ہے۔چنانچہ پچھلوں کے گناہوں کی پاداش میں کند ذہن، گونگے، اندھے، بہرے اور مسخ شدہ اعضاء کے حامل لوگ پیدا ہوتے ہیں جن سے پاکباز ہمیشہ نفرت کرتے ہیں۔ اس لیے پچھتاوا اور کفارہ ہمیشہ کرتے رہنا چاہیے تاکہ جن گناہوں کی وضاحت نہیں ہوپاتی اگلے جنم میں باعث عار و جسمانی عوارض اور نشانوں کا سبب نہ بنیں(11:51-54)۔ دوجنما(برہمن، کھشتری یا ویش)جو جان بوجھ کر نشہ آور مشروب استعمال کرے سزا کے طور پر۔ وہی کھولتا ہوا مشروب پیتا رہے حتیٰ کہ اس کے جسم پر چھالے نکل آئیں،تب وہ اپنے جرم سے پاک ہوگا۔یا پھر وہ گائے کا پیشاب،دودھ اور گائے کے گوبر کا ابلتا محلول پیے حتیٰ کہ اس کی موت واقع ہوجائے۔یا پھر شراب نوشی کا جرم دھونے کے لیے سال میں ایک دن رات کے وقت چاول کھائے، اپنے بالوں کے پٹے بنائے، گائے کے بالوں سے بنے کپڑے پہنے اور شراب پینے کا برتن بطور جھنڈا اٹھائے پھرے۔ سرا، درحیقیقت اناج کا غلیظ فضلہ ہے اور گناہ کو بھی میل کہتے ہیں، چنانچہ برہمن، کھشتری اور ویش سرا نہیں پیے گا(11:91-94)۔برہمن کی تپسیا، مقدس علوم کی جستجو اور حصول میں، کھشتری کی تپسیا لوگوں کی حفاظت کرنے میں، ویش کی تپسیا، اپنے روز مردہ کے کاروبار کی دیکھ بھال اور شودر کی تپسیا سب کی خدمت کرنے میں ہے(11:237) جان لے کہ ان سب کا حاکم پرش چھوٹے سے چھوٹا، سونے کا چمکدار اور تجرید کی طرح عقل کی حددود میں صرف حالت تنویم میں آسکتا ہے۔اسے کچھ اگنی، کچھ منو،کچھ مالک مخلوقات،کچھ اندر اور کچھ روح حیات کہتے ہیں، بعض کے نزدیک وہی لازوال برہما بھی ہے(12:122-123)۔
بھارتی سماج کی تشکیل نو کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب آٹھویں صدی کے آغاز میں برصغیر میں عربوں کی آمد ہوئی اور انہوں نے افغانستان اور سندھ میں اپنی حکومت قائم کی۔پندرہویں صدی عیسوی میں سکھ مت کا ظہور ہوا۔ سولہویں صدی عیسوی سے عہد جدید کی ابتدا ہوتی ہے جب مغلیہ سلطنت نے برصغیر ہند کے بڑے رقبہ کو اپنے زیر نگین کر کے صنعت کاری کے ابتدائی نمونے پیش کیے اور عالمی سطح پر عظیم ترین معیشت بن گئی۔ اٹھارویں صدی کے اوائل میں مغلوں کا تدریجاً زوال شروع ہوا جس کی بنا پر مرہٹوں، سکھوں، میسوریوں، نظاموں اور نوابان بنگال کو برصغیر ہند کے بہت بڑے رقبے پر زور آزمائی کا موقع مل گیا اور جلد ہی متفرق طور پر ان کی علیحدہ علیحدہ ریاستیں وجود میں آئیں۔ اٹھارویں صدی کے وسط سے انیسویں صدی کے وسط تک ہندوستان کے بیشتر علاقوں پر بتدریج ایسٹ انڈیا کمپنی قابض و متصرف ہو گئی۔ لیکن ہندوستان کے باشندے کمپنی راج سے سخت بیزار اور بد دل تھے نتیجتاً 1857ء میں تحریک آزادی کی زبرست لہر اٹھی اور شمالی ہند سے لے کر وسطی ہند تک اس لہر نے حصول آزادی کی روح پھونکی۔ اس دوران اسلام نے اپنی آفاقی تعلیمات سے بھارتی سماج کو متاثر کیا۔ ایک اللہ کی بندگی،اس کے رسول کو اللہ کا بندہ اور پیغمبر تسلیم کیاجانا، آخرت اور زندگی کے بعد موت کاتصور ۔نیز، تمام انسان اللہ کے بندے ہیں، سب عزت و تکریم کے لحاظ سے برابر ہیں،رنگ ،نسل اور علم کی سطح پر سب کو برابر کے حقوق انسانوں کے رب اللہ تعالیٰ نے فراہم کیے ہیں۔دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور اس کے بعد ابدی زندگی ہے جہاں کامیابی وناکامی صرف اللہ کی بندگی اور اس کی خوشنودی سے حاصل کی جاسکتی ہے، وغیرہ تعلیمات نے ایک عظیم انقلاب بھارتی سماج میں برپا کردیا۔لوگوں نے اسلامی تعلیمات اور عملی مشاہدات کے نتیجہ میں اسلام قبول کیا اور ایک نئی تہذیب وجود میں آئی۔لیکن اسلام اور اسلامی تعلیمات سے قبل بھی بھارتی سنسکرتی اور دھرم کے خلاف اِسی سماج سے اصلاح کی کوششوں کے قرائن نظر آتے ہیں۔ان میں آدی شنکر آچاریہ کا تذکرہ ملتا ہے۔یہ قرون وسطیٰ کے ہندوستان کے ایک اہم ہندو فلسفی، ماہر الٰہیات، مصلح اور اْپنشدوں کے مفسر گزرے ہیں۔ یہ 788ء میں کیرالا کے علاقے کالڈی کے ایک براہمن گھرانے میں پیدا ہوئے۔ کم عمری ہی میں دھرم، یوگ اور درشن (ہندو فلسفہ) میں یدِطولیٰ حاصل کر لیا۔ ذات پات کے خود ساختہ بندھنوں کی عملاً مذمت کی اور لا یعنی مذہبی رسومات کو تیاگ دینے کی تعلیم دی۔اپنے نظریہ ادویت اور وحدانیت کا پرچار پورے ہندوستان میں کیا اور روحانی علوم کی ترویج کے لیے چار مٹھ قائم کیے۔ 820ء میں ان کا دیہانت ہوا۔
آٹھویں سے اٹھارویں صدی تک اسلامی تعلیمات کے اثرات ہندوستانی تصورات اور سماج پر نمودار ہوتے رہے ۔ساتھ ہی اس دوران عقائد اور نظریہ میں ایک زبردست تبدیلی، ورن نظام اور ذات پات کے نظام کے اندر دیکھنے کو ملتی ہے۔مختلف تحریکوں اور احیا پسند افراد نے اس سلسلے میں نمایاں کوششیں کی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں :
(1)بھکتی تحریک کی ابتدا بارہویں صدی میں جنوبی ہند میں ہوئی۔ اس کے بانی سوامی رامانج، مادھو، آنند تیرتھ، وشنو سوامی اور باسو تھے۔بھکتی تحریک کے بانیوں نے خدا اور انسان سے پریم کا پرچار کیا تھا۔ کبیر، رائے داس، وھنا، سائیں، دادو اور دوسرے بھگت سماجی اصلاح کی خواہاں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ذات پات کا فرق، چھوت چھات، پوجا پاٹ اور طبقاتی اونچ نیچ پنڈتوں کے ڈھونگ ہیں۔ لوگ اگر پریم کے پرستار ہوجائیں اور دکھاوے کی رسموں کو ترک کر دیں تو خدا اور انسان کے درمیان میں سے حجابات اٹھ جائیں گے۔اگرچہ اس تحریک کا ایک مقصد مسلم معاشرے میں اسلام کے بنیادی عقائد ،تصورات اوراعمال میں تضاد پیدا کرنا بھی تھا ۔
(2)سوامی رامانج یا رامانج آچاریہ جنوبی ہند کا پہلا آدی شنکر تھا۔ دوسرا ہندو مصلح تھا۔ 1016 میں مدراس کے علاقے میں پیدا ہوئے، شنکر آچاریہ کے شاگردوں سے علم حاصل کیا مگر ان سے اختلاف رائے کی بنا پر الگ ہو گئے۔ وہ مایا کے نظریہ کے مخالف اور توحیدِ الٰہی کے قائل تھے اور خدا کو اچھی صفات کا حامل بتاتے تھے۔ رامانج نے کہتے تھے کہ خدا تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور اس کی ذات میں کوئی شریک نہیں۔ وہی قادر مطلق ہے۔ وہی روح اور مادہ کو پیدا کرنے والا ہے اور سب اسی کے محتاج ہیں۔ انہوں نے شودروں اور چنڈالوں کے حق عبادت کو تسلیم کیا اور ان کی عبادت کے لیے مندر کھول دیے۔
(3)مہارشی دیانند سرسوتی 1824ء ایک ہندوستانی مذہبی رہنما اور ویدک دھرم کی ایک ہندو اصلاحی تحریک، آریہ سماج کے بانی تھے۔اس وقت ہندو مت میں رائج بت پرستی اور رسمی عبادتوں و پوجا کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ویدک نظریات کو بحال کرنے کی کوشش کی۔
(4) راجا رام موہن رائے،بنگال میں پیدا ہوئے۔ بنگالی اور سنسکرت کے علاوہ عربی، فارسی اور انگریزی کے بڑے فاضل تھے۔ اسلام اور عیسائیت کی تعلیمات نے ان پر اثر کیا اور انہوں نے ہندو سماج کے سدھار کا کام شروع کیا۔ مورتی پوجا کی مخالفت کی اور خدا کی وحدانیت کی تعلیم دی۔ ستی کی خوفناک و شرمناک رسم ختم کرنے میں بڑا کام کیا۔
(5)اوروبندو گھوش پیدائش 1872ء، ایک ہندوستانی فلسفی، یوگی، گرو، شاعر اور قوم پرست تھے۔پانڈیچری میں قیام کے دوران انہوں نے روحانی تجربہ کا ایک نیا طریقہ ایجاد کیا جسے وہ "مکمل یوگا” کہا کرتے تھے۔ ان کے افکار کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ انسانی زندگی ارتقا کرتے کرتے خدائی زندگی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
(6)بھیم راؤ رام جی امبیڈکر سال میں 1891 مدھیہ پردیش میں پیدا ہوئے۔وہ ایک بھارتی قانون دان، سیاسی رہنما، فلسفی، تاریخ دان، ماہر اقتصادیات اورمصلح بدھ مت تھے۔ 1924 میں انگلینڈ سے واپس آنے کے بعد انہوں نے دلت اورمحروم طبقوں کی فلاح و بہبود کے لیے آواز اٹھائی۔تعلیم کو پھیلانا، معاشی حالات کو بہتر بنانا اور محروم طبقے کی شکایات کا ازالہ کرنا ان کا مقصد تھا۔ڈاکٹر امبیڈکر کا کہنا تھا کہ مجھے وہ مذہب پسند ہے جو آزادی، مساوات اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے۔
ان مذکورہ بالا مصلحین کے علاوہ اور بھی مصلحین نے ہندو ورن نظام، جاتی نظام،منودھرم اور برہمنیت کے خلاف نظریاتی اور عملی ہر دو سطح پر آواز اٹھائی اور آج تک یہ کوششیں بھارتی سماج میں جاری ہیں۔اس کے باوجود معاشرتی سطح پر ورن اور جاتی نظام اس قدرپختہ اور گہرائی تک اپنی جڑیں مستحکم کیے ہوئے ہےکہ اسے نہ ختم کیا جا سکا ہے اور نہ ہی اس نظام میں کمزوری محسوس کی جاتی ہے۔
موجودہ بھارتی سماج،اس کی آستھا اور وَرن یا جاتی نظام آزاد ہندوستان میں رائج الوقت جمہوری نظام کے تحت ایک جانب بیرونی دنیا کو اپنی ہیئت،شکل اور نظام میں اصلاحات کی بات کرتا نظر آتا ہے جس میں کہیں وہ سماجی سطح پر ہیومنزم، لبرلزم، نیشنلزم، سوشلزم، کمیونزم، کیپٹلازم، مارکس ازم، مٹیرئیلزم، ریشنل ازم، فیمنزم وغیرہ کا دم بھرتا ہے۔دوسری جانب جدید یت،مابعد جدیدیت اور عصر حاضر کے افکار و نظریات نے اسے اندرون خانہ حد درجہ کنفیوژن میں مبتلا کر دیا ہے۔ نتیجہ میں بھارتی سماج کا بڑا طبقہ مذہبی اعتبار سے ہندو ہونے اور ہندو دھرم میں آستھا رکھنے کے باوجود چند رسم و رواج کے علاوہ مذہبی تعلیمات سے نا واقف اور عملی زندگی میں اس سے بے زار نظر آتا ہے۔وہیں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ایتھزم یا الحاد کا شکار ہوچکا ہے۔ نیز، زندگی کے ہر مرحلے میں ہر شخص اور گروہ کے لیے جو آزادی مستانہ کے نعروں نے خاندان اور معاشرہ کا نظام درہم برہم کردیا ہے۔نتیجہ میں ایک جانب فاشزم تو دوسری جانب پاپولزم یا پاپولسٹ سیاست کو فروغ حاصل ہوا ہے ۔پاپولسٹ سیاست میں نفرت، خوف اور افراتفری اہم عناصر ہوتے ہیں۔چونکہ پاپولسٹ سیاست میں کرشماتی قیادت اہم ہوتی ہے اور وہ عوام میں مختلف خوش نما نعروں کی شکل میں موجود خیالات کو اپنی شعلہ بیانی سے کامیابی کے لیے بیانیہ تیار کرتے ہیں لہٰذا عوام کے جم غفیر کے لیے اس میں کشش پائی جاتی ہے۔ جس کاآخری نتیجہ اس کرشماتی قیادت کو سسٹم میں لاکر لامحدود اختیارات سے نوازنا ہوتا ہے۔اسی لیے بسا اوقات پاپولسٹ سیاست اور پاپولسٹ قیادت کے سامنے جمہوریت کمزور پڑ جاتی ہے۔
ان حالات میں سوال یہ ہے کہ ہندوستانی سماج جو دراصل تکثیری سماج ہے اس میں مسلمانوں کا کیا رویہ ہونا چاہیے؟ اس سلسلے میں جہاں ایک جانب تکثیری معاشرت میں مادیت پرستی عرف عام ہے اس کے برعکس مکی عہد نبوی میں سماجی تعلق کو اولیت دی گئی ہے۔ اسلامی معاشرے ہمیشہ تکثیری Plural معاشرے رہے ہیں اور غیر مسلم گروہوں کو ان کی شناخت کے ساتھ اجتماعیت کا حصہ تسلیم کیا گیا ہے، ان کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے، ان کے لیے قانون سازی کی گئی ہے،ضوابط بنائے گئے ہیں اور ان کو ہر قسم کی زیادتی سے تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے دکھ درد میں شریک ہوتے، باہم اتفاق اور رواداری کی طرف رہنمائی فرماتے۔انسانی سماج کی بہترین تشکیل اخلاقی خوبیوں کی بنیاد پر ہوتی ہے، اور چونکہ رسول اللہ ﷺ کی سماجی زندگی ایک بہترین اور کامل انسان کی زندگی ہے، جس کے اخلاق فاضلہ کی روشنی سے ہر دور کے انسانی سماج کو منور کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ”بے شک آپ اخلاق کے بڑے درجے پر ہیں”(القلم:4)۔
ایک سماج کے لوگوں کے درمیان پرامن بقائے باہم اور خوشگوار زندگی کا سب سے بہتر نمونہ اور اصول ’’میثاق مدینہ‘‘ کے نام سے ہمارے سامنے موجود ہے۔ غیر مسلم پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے، ان کی ضرورتوں میں کام آنے، حتیٰ کہ ان پر مال خرچ کرنے کی اجازت ہے۔ اسی طرح غیر مسلموں کا پانی، غذائی اشیاء، بر تن، کپڑے اور دیگر چیزیں بلا کراہت استعمال کی جاسکتی ہیں۔ ان سے ملنا جلنا، ان کا اعزاز واکرام کرنا، انہیں مہمان بنانا، ان کی عیادت کرنا، پسماندگان کی تعزیت کرنا، ان کاموں کی اسلام مسلمانوں کو اجازت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے افراد تیار ہوں جو خدا شناس اور اخلاقی وروحانی کردار کے حامل ہوں۔ موجودہ بھارتی سماج ہو یا دنیا کا کوئی سماج، اس میں میں درآئی کمزوریوں کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ اہل ملک کے حقوق کی حق تلفی نہ کی جائے۔ان کا پہلا حق یہ ہے کہ وہ اپنے رب اعلیٰ کو پہنچانیں اور دوسرا یہ ہے کہ بحیثیت بندگان خدا ان کی ہر ممکن مدد کی جائے۔چاہے یہ مدد ان کی جسمانی ہو یا روحانی، ہر دو سطح پر ان کی مدد و رہنمائی کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے سپردکی ہے۔نیز، اسلامی تعلیمات اور اس کی اخلاقی خصائل کو قولی و عملی شکل میں پیش کرنے کی ذمہ داری بھی مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک جانب اٹھارویں صدی کی تیسری دہائی میں نظریہ قومیت اپنی جڑیں مضبوط کررہا تھا وہیں دوسری طرف ہندوستان میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مسلمانان ہند کو اسلام اور اس کی روشنی میں مسلمانوں کو ان کے حقیقی کردار کی طرف متوجہ کررہے تھے۔اوربعد میں جب جماعت اسلامی ہند کا وجود عمل میں آیا تو اس نے سب سے پہلے اپنے دستور و پالیسی پروگرام میں یہ بات واضح کردی کہ الٰہ صرف اللہ ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ یعنی اللہ ہی ہے جو سب انسانوں کا معبود برحق اور حاکم تشریعی ہے، جو ہمارا اور اس پوری کائنات کا خالق، پروردگار، مدبر،مالک اور حاکم تکوینی ہے۔پرستش اور حقیقی مطاع صرف وہی ہے اور ان میں سے کسی حیثیت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔یعنی اللہ کے سوا کسی کو نفع یا نقصان پہنچانے والا نہ سمجھا جائے، کسی سے تقویٰ نہ کرے، کسی سے خوف نہ کھائے،کسی پر توکل نہ کرے اور کسی سے امیدیں وابستہ نہ کرے۔کیونکہ تمام اختیارات کا مالک حقیقتاً صرف اللہ ہے، اس کے سوا کسی کو فی الواقع مالکیت اور حاکمیت کا حق نہیں پہنچتا۔اس لیے اپنے اخلاق میں ،برتاؤمیں، معاشرت اور تمدن میں ،معیشت اور سیاست میں،غرض زندگی کے ہرمعاملے میں صرف اللہ کی ہدایات کو ہدایت مانے اور صرف اسی ضابطے کو ضابطہ تسلیم کرے۔دوسری جانب محمد ﷺ کے رسول اللہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ معبود برحق اور سلطان کائنات کی طرف سے روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو جس آخری نبی کے ذریعے قیامت تک کے لیے مستند ہدایت نامہ اور مکمل ضابطہ حیات بھیجا گیا اور جسے اس ہدایت اور ضابطے کے مطابق عمل کرکے ایک مکمل نمونہ قائم کرنے پر مامور کیا گیا وہ حضرت محمد ﷺ ہیں۔لہٰذا ہر اس تعلیم اور ہر اس ہدایت کو بے چوں و چراقبول کیا جائے جو محمد ﷺسے ثابت ہو۔جو خیال یا عقیدہ یا طریقہ کتاب و سنت کے مطابق ہو ،اسے اختیار کیا جائے اور جو ان کے خلاف ہو اسے ترک کر دیا جائے۔ان حالات میں جماعت اسلامی ہند نے امت مسلمہ کو اپنے قول و عمل اور پالیسی و پروگرام کے نفاذ کے ذریعہ توجہ دلائی ہے کہ موجودہ حالات میں امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی نجات دہندہ بن کر اٹھ کھڑی ہو۔مسلمان خیر امت ہیں، یعنی ان کی ذمہ داری خود تک محدود نہیں ہے۔ وہ اخرجت للناس ہیں، سارے انسانوں کے لیے ذمہ دار ہیں، شہداء علی الناس ہیں۔تمام انسانوں پر انہیں حق کی گواہی دینی ہے۔ وہ امت وسط ہیں، لوگوں کو ہرطرح کی بے اعتدالی سے بچانے کا کام ان کے سپرد ہے، وہ قوامین بالقسط ہیں، اللہ کے ہر بندے کو عدل و انصاف فراہم کرنا ان کا مشن ہے۔ یہ مشن نہ صرف مسلمانوں کے اصولوں اور ان کے دین کا تقاضا ہے بلکہ اس ملک میں بہتر مستقبل اور باعزت زندگی کا راستہ بھی یہی ہے ۔مقاصد کے حصول کے لیے جماعت اسلامی ہند گزشتہ پچھتر سالوں سے سرگرم عمل ہے۔وہ ایک اللہ کی بندگی کی جانب انسانوں کی رہنمائی کررہی ہے ۔مسلم معاشرے میں درآئی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ملک کے تمام شہریوں میں بلا تفریق رنگ ،نسل و مذہب خدمت خلق کا کام انجام دے رہی ہے ۔اخلاقی کمزوریوں کو دور کرنے اور عدل وقسط کے قیام کے لیے کوشاں ہے جس کے بغیر ایک صالح اور پر امن معاشرے کا تصور نا ممکن ہے۔

 

***

 جماعت اسلامی ہند نے امت مسلمہ کو اپنے قول و عمل اور پالیسی و پروگرام کے نفاذ کے ذریعہ توجہ دلائی ہے کہ موجودہ حالات میں امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی نجات دہندہ بن کر اٹھ کھڑی ہو۔مسلمان خیر امت ہیں، یعنی ان کی ذمہ داری خود تک محدود نہیں ہے۔ وہ اخرجت للناس ہیں، سارے انسانوں کے لیے ذمہ دار ہیں، شہداء علی الناس ہیں۔تمام انسانوں پر انہیں حق کی گواہی دینی ہے۔ وہ امت وسط ہیں، لوگوں کو ہرطرح کی بے اعتدالی سے بچانے کا کام ان کے سپرد ہے، وہ قوامین بالقسط ہیں، اللہ کے ہر بندے کو عدل و انصاف فراہم کرنا ان کا مشن ہے۔ یہ مشن نہ صرف مسلمانوں کے اصولوں اور ان کے دین کا تقاضا ہے بلکہ اس ملک میں بہتر مستقبل اور باعزت زندگی کا راستہ بھی یہی ہے ۔مقاصد کے حصول کے لیے جماعت اسلامی ہند گزشتہ پچھتر سالوں سے سرگرم عمل ہے۔وہ ایک اللہ کی بندگی کی جانب انسانوں کی رہنمائی کررہی ہے ۔مسلم معاشرے میں درآئی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ملک کے تمام شہریوں میں بلا تفریق رنگ ،نسل و مذہب خدمت خلق کا کام انجام دے رہی ہے ۔اخلاقی کمزوریوں کو دور کرنے اور عدل وقسط کے قیام کے لیے کوشاں ہے جس کے بغیر ایک صالح اور پر امن معاشرے کا تصور نا ممکن ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 ستمبر تا 07 ستمبر 2024