![](https://dawatnews.net/wp-content/uploads/2025/02/20250209-14.jpg)
ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد
انسان کا امتیازی وصف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اخلاقی حس(Moral Sense) عطا کرکے پیدافرمایا ہے جبکہ حیوانات کے اندر اخلاقی حس کے بجائے جبلت رکھ دی گئی ہے جو ان کومحض غذاحاصل کرنے ، اپنا دفاع کرنے اور اپنی نسل کی افزائش جیسے افعال انجام دینے کی حد تک ہے۔یہ حقیقت اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ اس کرۂ ارض پر انسانوں کا وجود حیوانات سے ارتقائی عمل کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ انسان کو امتیازی شان عطاکرکے اعلیٰ اوصاف کے ساتھ اشرف المخلوقات بناکر پیداکیا گیا ہے۔ حیوانات کو انسان کے لیے اس طرح مسخر کیا گیا کہ کچھ تو انسانوں کے لیے نافع بنائے گئے ہیں ۔کچھ کو جنگل کی زینت بنایا گیا ہےاور کچھ کو اللہ اپنی قدرت اور کمالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی اعلیٰ صفات کے پرتَو پر پیداکیا ہے تاکہ وہ اعلیٰ مقاصد کے لیے کام کرے(سورۃ الروم ۳۰)۔اسی لیے انسان کے اندرالٰہی صفات میں سے بعض کا عکس نمایاں طورپرنظر آتا ہے جیسے رحمٰن کی صفت کا ایک حصہ ماں کی مامتا میں نظر آتا ہے ۔ رب ہونے کی صفتِ ربوبیت کا ایک حصہ باپ کے اندر رکھ دیا گیا ہے کہ جس کی بدولت وہ اپنے اہلِ و عیال کی ضروریا ت کی تکمیل میں اپنی زندگی کو کھپا دیتا ہے۔عدل کی صفت رکھی گئی جس نے انسانوں کو نظام عدل کو قائم کرنے پرمجبورکیا ۔اسی طرح محدود طورپر انسان کے اندر تخلیقی صلاحیت رکھی گئی ہے جس کی بدولت انسان نت نئے ایجادات کرتا رہتا ہے۔انسان کے اندر انتظامی صلاحیت پائی جاتی ہے جو اللہ کے مدبّر ہونے سے ماخوذہے۔ اللہ تعالیٰ لامحدود حکمت (Wisdom) سے اس کائنات کو چلارہا ہے۔انسان بھی اس اعلیٰ صفت کا محدود پیمانے پر استعمال کرکے اپنی عقل کے ذریعے طبعی قوانین کو دریافت کرتارہتا ہے جن کی بدولت نت نئے مسائل حل ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ حلم و بردباری کی اطلاقی شان رکھتا ہے۔اس اعلیٰ صفت کا مظہر انسانی زندگی میں اعلیٰ اخلاق کی صورت میں ظاہرہوتا رہتا ہے۔انسان کی تکریم کی معراج یہ ہے کہ وہ اعلیٰ اخلاق پر فائز رہے۔ حضرت محمد ﷺ کے مقصدِ بعثت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کو مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس طرح آپ کو خراج تحسین پیش کیا ہے : وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ (سورۃ القلم ۴)۔”اور بےشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو‘‘۔کائنات کی سب سے معززشخصیت کو اللہ تعالیٰ نے سارے انسانوں میں اخلاق کے انتہائی بلند مقام پر فائز فرمایا ۔یعنی انسان کی تکریم اس کی خوش اخلاقی کے سبب سے ہے اور اسی کے بقدرہے ۔ساری انسانیت کے لیےاللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زندگی کو اعلیٰ اخلاق کامل نمونہ بنایا ہے : لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (سورۃ الاحزاب ۲۱)۔’’درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ تھا ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امید وار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔‘‘
انسان کی روح کے اندر اخلاقی حس کو اس طرح ودیعت کیا گیا ہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ کے کاموں کو پسند کرتا ہے اور فسق وفجور سے نفرت کرتا ہے۔انسان خواہشات کے غلبہ میں برائی کو اختیار تو کرتاہے لیکن وہ یقین کے ساتھ جانتا ہے کہ برائی کبھی لائق ستائش نہیں ہوسکتی ۔وہ مفادات کے خاطر حق کی مخالفت کرتا ہے لیکن وہ خود حق پرستوں کی سچائی کا دل سے معترف ہوتا ہے۔انسانی فطرت نیک اخلاق کو پسند کرتی ہے اور بداخلاقی کو ناپسند کرتی ہے(سورۃ الشمس ۸)۔ اس کے ساتھ مزید ایک حساس پیمانہ انسانی روح میں رکھ دیا گیا ہے جو ناپ تول کر بتا دیتا ہےکہ ایک انسان نے کس حدتک برائی یا بداخلاقی کا عمل انجام دیا ہے جس کو نفسِ لوامہ کہا جاتا ہے(سورۃ القیامہ ۲) ۔برائی کے بقدرانسان کا دل ملامت کرتا رہتاہے۔شقی القلب انسان کا دل بھی ملامت کرنے سے نہیں تھکتا ۔وہ اندرسے کچوکے لگاتا رہتا ہے۔بعض اوقات یہ احساس ِ ملامت(Sense of Guilt) انسان کو اس حدتک جھنجھوڑتا ہے کہ اس سے وہ سخت ذہنی اذیت میں مبتلا ہوجاتا ہے جس سے چھٹکاراپانے کے لیے اس کے اندر خودکشی کے خیالات پیدہونے لگتے ہیں ۔انسان ایک معاشرتی مخلوق ہے جس کو معاشرہ سے الگ تھلگ نہیں کیا جاسکتا ۔ اعلیٰ انسانی اخلاق ہر اس موقع پر مطلوب ہیں جہاں ایک انسان دوسرے انسان سے قول وعمل کے ذریعے تعامل کرے ۔معاملات چاہے جس نوعیت کے ہوں وہاں ہر شخص اپنے اندر کے انسان کو اچھے یا برے اخلاق کے ذریعے ظاہر کرتا رہتاہے۔مطلوب اخلاقیات کو اللہ تعالیٰ نےمجرد اخلاقی حس اور احساسِ ملامت عطاکرنے پر اکتفانہیں فرمایا ہے بلکہ رسالت و نبوت کے ذریعے کو اختیارکرکے علم وحی کے ذریعے سے انسان کے سامنے مکمل ضابطۂ اخلاق (Complete code of conduct)بھی رکھ دیا ہے۔یہ اس لیے ہے کہ انسان فکر و عمل کی آزادی کو استعمال کرکے چاہے تو اخلاق کی بلندیوں پر پہنچ کر ملائکہ سے بھی اونچا مقام حاصل کرلے یا برے اخلاق کو اختیارکرکے اسفل ترین انسان بن جائے (سورۃ التین ۵)۔
انسان کی کارکردگی کے دو میدان ہیں : ایمان اور عمل صالح ۔اعمال صالحات میں دو بہت اہم عنوان ہیں ۔ ایک ہے عبادات اور دوسرے ہے معاملات۔ عبادات اللہ کے حقوق سے متعلق ہیں اور معاملات وہ امورہیں جو انسانوں کے مابین ہوتے ہیں جو حقوق اور فرائض کے طورپر شریعت میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں ۔جب بھی انسان اور انسان کے درمیان کوئی ربط وتعامل اور معاملہ درپیش ہووہاں پر دو چیزیں مطلوب ہیں ایک ہے عدل کا رویّہ اور دوسرا احسان کا رویّہ۔یہی رویّے اعلیٰ اخلاق کا مظہر ہوتے ہیں۔بلند اخلاقی اوصاف کو قرآن میں مختلف اندازمیں بیان کیا گیا ہے۔شرک سے بچنے کی تعلیم دینے کے بعد والدین سے حسن سلوک کو اخلاقی تعلیمات میں سے سب سے مقدم رکھا گیا (سورۃ بنی اسرائیل۲۳، ۲۴ ،سورۃ لقمان ۱۴، ۱۵)۔فضول خرچی سے روکا گیا (سورۃ بنی اسرائیل ۲۶)جس سے معاشرہ کے غریب لوگوں کے اندراحساسِ محرومی پیداہو نے لگتا ہے ۔فضول خرچی اور اسراف سے جہاں انسان چاہتا ہے کہ اس کی بڑائی وستائش ہو، وہیں اس سے محرومین کی کمتری اور حقارت لازم آتی ہے۔اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ یہ اخلاق سکھاتا ہے کہ مالدارلوگ فضول خرچی کے بجائے غریب رشتہ داروں اور مسکینوں پر خرچ کریں۔ اور خرچ بھی اس طرح کریں کہ نہ احسان جتائیں اور نہ ان سے تعریف اورشکریہ کے امیدوارہوں ۔
اعلیٰ اخلاق کے بارے میں فرمایا گیا کہ رحمٰن کے بندے زمین پر نرم چال چلتے ہیں یعنی ان کی زبان اور ہاتھ سے کسی کو نہ کوئی ضرر پہنچے اور نہ دل آزاری ہو یہاں تک کہ ان کا چلنے میں بھی شرافت کا اظہار ہو (سورۃ الفرقان۶۳) ۔ان کی چال سلامتی کی چال ہو ۔ زمین پر اکڑکر چلنے اور لوگوں سے بدتمیزی کے ساتھ گفتگوکرنے سے روکا گیا (سورۃ لقمان ۱۸)۔ چال میں میانہ روی ہو اور بلندآواز سےگفتگونہ کی جائے (سورۃ لقمان ۱۹)۔ اشارے کنائے میں بھی کسی کے ساتھ حقارت سے پیش نہ آئیں (سورۃ الھمزۃ :۱)۔ ایمانیات کو اخلاق سے جوڑا گیا ہے۔جس دل میں ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت ہوگا وہ کبھی یتیم کے ساتھ بدسلوکی نہیں کرسکتا ۔وہ یتیم کی تکریم کرے گا اور مسکین کو کھانا کھلائے گااور اگر خود کھاناکھلانے پر قادر نہ ہوتو دوسروں کو کھانادینے پر اکسائے گا۔
اسلامی اقدارکی اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ ان کی بنیادایسے ٹھوس عقائد پرہے جس کے لیے قرآن مضبوط دلائل فراہم کرتا ہے۔ایمان باللہ ،بندوں کے دلوں میں اللہ سے شدید محبت پیداکرتا ہے ۔اللہ کے بے انتہااحسانات اہل ایمان کے دلوں کو احسان شناس بناتے ہیں ۔اللہ کی قدرت کے کمالات اہل ایمان کے قلوب میں اللہ کی عظمت پیداکرتے ہیں۔اسلامی اخلاق ان کو اللہ کے سامنے عجزو انکساری سکھاتا ہے وہیں اسلامی اخلاق ان کو دنیا کے کسی متکبر سے مرعوب ہونے نہیں دیتا۔ایمان بالآخرت اہل ایمان کے دلوں میں اعلیٰ مقاصد کے خاطر قربانیاں پیش کرنا آسان بنادیتا ہے۔ دنیا میں پیش آنے والے مصائب کو خندہ پیشانی ، عالی ظرفی اوراعلیٰ درجے کے صبر سےبرداشت کرنا سکھاتا ہے ۔یہ یقین پیداکرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو آخرت میں نعمت بھری جنتوں کی صورت میں ان کے صبر کا بدلہ دے گا۔ ان اخلاقیات کو objective moralityکہا جاتا ہے جو ہرحال میں اور ہرزمانے میں قابل قدراور مطلوب ہیں اور جو حالات کے ساتھ نہیں بدلتے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اخلاقی اقدار جن کی پشت پر سچے اور مضبوط عقائد نہ ہوں تو ایسے اقدار حالات کے ساتھ بدلنے لگتے ہیں ۔قومی حمیت جب اہم ترین ہوجاتی ہے تو یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ اپنے ملک و قوم کے مفاد کےلیے دوسری قوم کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے اور ان کے شہریوں پر ظلم کیا جاسکتا ہے۔دنیا میں طاقتور ملکوں نے کمزورملکوں کے وسائل پر ناجائز قبضہ کرنے کے لیے ان پر جنگوں کو مسلط کیا اور لاکھوں شہریوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔اس صدی کے اوائل میں افغانستان اور عراق پر حملوں کا کوئی جوازاس کے سوانہیں تھا کہ ان کے وسائل پر قبضہ کیا جائے۔ ۷۶سالوں سے صہیونی اسرائیلی ریاست نہتے فلسطینیوں پر مظالم ڈھارہی ہے ۔غزہ کو مکمل برباد کردیا گیا ہے ۔ نسلی برتری قوم پرست سیاست دانوں کو جوازفراہم کرتی ہے کہ قومی تفاخر اور برتری کو قائم کرنے کے لیےدشمن قوم کو نیست ونابود کیا جاسکتا ہے اور ان کے شہریوں پر بم برسائے جاسکتے ہیں ۔یہ اپنے ملک کے اندر اپنے ملک کے شہریوں کو عدل و انصاف پر ابھارتے ہیں لیکن دوسرے ملکوں پر ظلم کو جائز بنالیتے ہیں ۔ایسی اخلاقیات کو subjective morality کہا جاتا ہےجو ملک و قوم کے مفادات کے ساتھ تغیر پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔جبکہ اسلام نے ایسے اعلیٰ اخلاقی اقدار کو قرآن میں بیان فرمایا ہے جس سے دنیا میں امن وسلامتی کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ لِلّهِ شُهَدَاء بِالْقِسْطِ وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (سورۃ المائدہ۸)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دُشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھرجاوٴ۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈرکر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پُوری طرح باخبر ہے‘‘۔یہ آیت ایک مستقل اخلاقی قدر کو بیان کرتی ہے جو ہر زماں و مکاں کےلیے ہے یہاں تک کہ حکم دیا گیا ہے کہ دشمن ملک سے بھی عدل کیا جائے ۔
اسلام کے اخلاقی نظام کا احاطہ بہت وسیع ہے۔اس کا آغازاللہ سے وفاداری سےہوتا ہے۔انسانی شرافت کا پہلا تقاضایہ ہے کہ بندہ سب سے پہلے اپنے خالق کا وفادار اور شکرگزارہو۔وہ اللہ کی عظمت کے سامنے اپنے عجز کا معترف ہواور اس کے ہر قول و عمل میں اللہ کی بندگی کی شان نظر آئے۔ہرلحظہ مومن کی نئی شان نئی بان: گفتارمیں کردارمیں اللہ کی برہان چونکہ حضرت محمد ﷺ آخری رسول اور رحمت اللعٰلمین بنا کر دنیا میں بھیجے گئے ہیں اورمکارمِ اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں اس لیے آپ کی اتباع ہی میں اخلاق کی بلندیوں کا سفر طے ہوسکتا ہے۔اللہ ورسول کے بعد انسانوں میں سب سے مقدم والدین ہیں ۔ بنیادی اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے ۔والدین اپنے بچوں کی تربیت کے لیے گھر کو اسلامی اخلاقیات کی پہلی درسگاہ بنائیں ۔رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے۔معاشرہ میں اخلاقی حِس اس حدتک پائی جائے کہ کوئی محروم ،سائل ،یتیم و مسکین خود کو ایک غم خوارمعاشرہ میں محسوس کرے جہاں بغیر عزت نفس کو ٹھیس پہنچائے اس کی بھر پورمددواستعانت ہو۔افرادمیں حلم وبردباری ہو، نہ کہ انانیت اور احساسِ تفاخر وبرتری جو دوسرے انسانوں کی تحقیر پر انسان کو اکساتا ہے؟ اسلام میں ایک دوسرے کو برے القاب سےپکارنے ، تنقیص کی غرض سے تجسس کرنے اورغیبت و چغل خوری کرنے سے سخت منع کیا گیا ہے۔اس شوہر کو سب سے بہتر قراردیا گیا جو اپنی بیوی سے حسن سلوک کے معاملے میں سب سے بہتر ہو۔اس بیوی کو سب سے بہترین قراردیا گیا جب اسے شوہر دیکھے تو اس کو خوش کردے۔ فرد پر لازم ہے کہ اجتماعی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دے ۔حکومت پر لازم ہے کہ فرد کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کرے۔تعلیمی نظام میں اخلاقیات کو اہم مقام دیا جائے۔ امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ معاشرہ کی بقا کا ضامن ہےجس کے تحت اعلیٰ اخلاقیات کا درس دیا جائے اور غیر اخلاقی امورسےاجتناب کی تعلیم دی جائے۔بالخصوص جمعہ کے خطبوں کے ذریعے خطیب حضرات اعلیٰ اخلاقیات کو معاشرہ میں پروان چڑھائیں اور معاشرتی برائیوں سے بازرکھیں ۔اس طرح اسلام گھر سے لے کر بین الاقوامی معاملات تک اسلام پر عمل کرنے والوں کو اعلیٰ اخلاقیات کو برپا کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے جس سے دنیامیں عدل وانصاف قائم ہو اور دنیا رہنے کے قابل رہے ۔
اسلام میں صداقت ،عدالت اورشجاعت کو اعلیٰ اسلامی اقدارمیں شمار کیا گیا ہے۔جب صداقت مبرہن ہوکر سامنے آجائے تو اس کو بلاتامل قبول کرلیا جائے۔جب اختیارات ہاتھ میں آجائیں تو عدل و قسط کو برپا کیا جائے۔دنیا میں عدل وقسط کے قیام اور ظلم کے خاتمے کے لیے ظالموں کے مقابلے میں شجاعت دکھائی جائے ۔ان اقدار کے مجسم پیکر بننے والوں کی تین مثالیں ہیں : ایک مثال حضرت ابوبکرؓ کی ہے جنہوں نے سچائی کو لپک کر قبول کیا اور صدیق کا لقب پایا ۔ حضرت عمرؓ اپنے دورِ خلافت میں عدل و قسط کو قائم کرکے پیکرِ عدل وقسط بن گئے ۔اور حضرت علیؓ نے اسلامی جنگوں میں حصہ لے کر شجاعت کی عظیم مثال بن گئے۔علامہ اقبال نے ان اوصاف کو اس شعر میں سمودیا :سبق پڑھ پھر صداقت کا شجاعت کا عدالت کا لیا جائے کا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا بلند اخلاق کا معیارمختصرمگرجامع حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : ’’تم میں سے کوئی شخص سچا مومن نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز نہ پسند کرے جو اپنے لیے کرتا ہے‘‘(سنن نسائی ۵۰۱۹)۔ اعلیٰ اخلاق کا معیار یہ بھی بتلایا گیا کہ مومن کی زبان اور ہاتھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔رسول اللہﷺنے فرمایا:’’مسلم وہ ہے جو مسلم کو اپنی زبان اور ہاتھ سے محفوظ رکھے اور مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں سےرک جائے جس سے اللہ نے منع کیا ہے‘‘(صحیح بخاری ۶۴۸۴)۔ ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا :مجھےمیرے رب نے نو باتوں کا حکم دیا ہے:
’’۱) ہر حال میں اللہ کی خشیت اختیارکروں ۔۲)غصے اور رضا دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کروں ۔۳) فقراور مالداری دونوں میں میانہ روی اختیارکروں ۔۴)جوقطع تعلق کرے میں اس سے صلہ رحمی کروں ۔اور جو مجھے محروم کرے میں اسے دوں۔۵) جو مجھ پر ظلم کرےمیں اس کو معاف کردوں ۔۶)میری خاموشی فکر کی خاموشی ہو۔۷) میرابولنا اللہ کا ذکرہو۔۸) میرادیکھنا عبرت کا دیکھنا ہو۔۹)میں نیکی کا حکم دوں اور گناہوں سے روکوں ‘‘(مشکوٰۃ المصابیح )۔ایک اور حدیث میں ہے کہ:’’میری امت کا مفلس شخص وہ ہے جو قیامت کے دن نماز،روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا ۔ایک شخص آئے گا جسے اس نے گالی دی ہوگی ،کسی پر تہمت لگائی ہوگی ،کسی کا مال کھایا ہوگا،کسی کا خون بہایا ہوگا،کسی کو مارا ہوگا،اس شخص کی نیکیاں ان لوگوں میں تقسیم کردی جائیں گی۔اگر اس کے ذمہ لوگوں کے حقوق پورے ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو ان کے گناہ اس شخص پر لاد دیے جائیں گے ۔پھر اسے آگ میں پھینک دیا جائے گا(السلسلہ ،حدیث نمبر۱۳۱۳)۔مندرجہ بالا احادیث میں اخلاق کے وہ اعلیٰ معیارات پیش کیے گئے ہیں جن سے ایسامعاشرہ وجود میں آئے گا جہاں لوگ اپنے حق سے زیادہ دوسروں کے حقوق کے محافظ بن جائیں گے۔اب یہ دیکھیں کہ اسلامی اخلاقیات کا مآخذ کیا ہے؟ اسلامی اخلاقیات کا مآخذ اللہ کا فرمان یعنی قرآن اور سنتِ رسول ہے ۔ رسول اللہ ﷺکو اخلاق کے انتہائی بلند مقام پر فائزکرکے ان کی سیرت کو اللہ تعالیٰ نے ساری انسانیت کے لیے نمونہ بنایا ہے۔اب یہ دیکھیں کہ اسلامی اخلاقیات کا محرک کیا ہے؟محرک خوفِ خدااور رضائےالٰہی ہے۔اسلامی اخلاقیات پر عمل اسی وقت ممکن ہے جب آخرت میں اپنے اعمال کی جواب دہی کا جیتا جاگتا احساس دلوں میں موجودہو۔آخرت میں گناہوں پر مواخذہ کا بھی احساس ہواورنیکیوں پر اجر ملنے کا یقین بھی ہو۔عقیدہ میں فساد ہوتو فکر آخرت باقی نہیں رہتی ۔اگر ایک شخص کو یہ امید ہوجائے کہ فلاں ولی میدانِ حشر میں اس کو بچالیں گے تو ایسا شخص اپنے اعمال و معاملات میں محتاط نہیں ہوسکتا۔ ایسا عقیدہ اس کو برائیوں سے بازنہیں رکھے گا اور نہ نیکیوں کا طالب بنائے گا۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی اخلاقیا ت کا ماٰخذ اللہ کی ہدایت ہے۔اس کا نمونہ رسول اللہﷺکی حیاتِ طیبہ میں رکھا گیا جو اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں ۔اسلامی اخلاقیات کا معیار انتہائی بلند رکھا گیا کہ ایک انسان دوسروں کے لیے وہی چاہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو۔اسلامی اخلاقیات پر عمل درآمد کا محرک اللہ کے پاس جواب دہی کا احساس ہے۔اسلامی اقدارمستقل اور غیر مبدل ہوتے ہیں جو تمام انسانوں کے لیے اور ہرزماں و مکاں کے لیے یکساں ہیں ۔
***
اسلام نے اخلاقیات کا معیار اس قدر اعلیٰ مقرر کیا ہے کہ ہر انسان دوسروں کے لیے وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے چاہتا ہے۔ ان اخلاقی اصولوں پر عمل کا بنیادی محرک اللہ کے حضور جواب دہی کا شعور ہے۔ اسلامی اقدار مستقل اور غیر متبدل ہیں جو ہر زمانے اور ہر مقام پر تمام انسانوں کے لیے یکساں طور پر قابلِ عمل ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 فروری تا 15 فروری 2025