!اسلام دشمنوں کے نورِ نظر یہ غلام حکم راں۔۔

کیا آپ پھر بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صیہونیوں کی مخالفت کرسکتے ہیں؟

سید خالد حسین،سنگاپور

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف صیہونی فوج کی  مسلسل بربریت اور جنگی جرائم کے باوجود اسرائیل نامی صہیونی ادارے کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی سرکاری پالیسی سے واقفیت رکھنے والے چار ذرائع کے حوالے سے میڈیا کی رپورٹس میں یہ بات بتائی گئی ہے۔
متحدہ عرب امارات نے ستمبر 2020 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں صیہونی ادارے کے ساتھ سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ’معاہدہ ابراہم‘ پر دستخط کیے تھے، تب ہی سے ابوظبی اور تل ابیب نے دفاعی تعاون سمیت قریبی اقتصادی اور سیکیورٹی تعلقات استوار کیے ہیں۔ صیہونی ادارے نے 2022 میں یمن میں ایران سے منسلک حوثی تحریک کے ابوظبی پر میزائل اور ڈرون حملوں کے بعد متحدہ عرب امارات کو فضائی دفاعی نظام فراہم کیا تھا۔
متحدہ عرب امارات ابوظبی میں صیہونی سفیر کی میزبانی جاری رکھے ہوئے ہے اور اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ان کے مابین سفارتی تعلقات ختم ہوں گے۔ اس تعلق سے ذرائع کا کہنا ہے کہ ابوظبی کی جانب سے طویل مدتی تزویراتی (اسٹریٹجک) ترجیح کی نمائندگی کی گئی ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال عرب یہ خلیجی ملک علاقائی معاملات میں نمایاں اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ یہ امریکہ کے سیکیورٹی پارٹنر کے طور پر بھی کام کرتا ہے نیز، امریکی افواج کی میزبانی بھی کرتا ہے۔
متحدہ عرب امارات اور صیہونی ادارے کے درمیان تجارت 2020 سے اب تک چھ بلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ صیہونی سیاح متحدہ عرب امارات کے ہوٹلوں، ساحلوں اور شاپنگ سنٹروں کا رخ کرتے رہتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید (62 سال) جنہوں نے برطانیہ میں فوجی تربیت حاصل کی اور اٹھارہ سال کی عمر میں متحدہ عرب امارات کی مسلح افواج میں شمولیت اختیار کی، اسلام پسندی (اسلامی نظام حکومت) حماس، مصر کی تنظیم اخوان المسلمون اور ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کی مخالفت کے لیے جانے جاتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات حماس اور دیگر اسلام پسندوں کو اندرون و بیرون مشرق وسطیٰ استحکام کے لیے ایک خطرہ کے طور پر دیکھتا ہے۔
متحدہ عرب امارات 2017-2021 کے قطر سفارتی بحران میں ایک فریق تھا، اس دعوے کی بنیاد پر کہ قطر اخوان المسلمون کی حمایت کرتا ہے۔ ’دی نیویارکر‘ نے مارچ 2023 میں رپورٹ کیا کہ شیخ محمد بن زاید سوئس میں قائم ایک نجی تحقیقاتی فرم، الپ سروسز کو لاکھوں یورو ادا کر رہے ہیں۔ الپ سروسز قطر اور اخوان المسلمون سمیت اپنے اہداف کے خلاف مہم چلانے کے لیے عرب دنیا کی قدیم ترین تنظیم ہے۔
متحدہ عرب امارات اخوان المسلمون کے خلاف الزامات میں پیش پیش رہا ہے۔ اس نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی کو 2013 میں اخوان المسلمون کے صدر محمد مرسی کو ایک فوجی بغاوت کے ذریعہ بے دخل کرنے میں مدد کی جس کے بعد ان کی حکم رانی کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔ متحدہ عرب امارات نے مرسی کی برطرفی کے بعد مصر کو اربوں ڈالر کی امداد فراہم کی۔
محمد بن زاید نے ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلق برقرار رکھا اور ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ انہوں نے ہی ٹرمپ کو ایران اور اخوان المسلمون کے بارے میں سخت موقف اختیار کرنے پر ابھارا تھا۔
اگست 2020 میں محمد بن زاید نے ٹرمپ اور صیہونی رہنما بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ باضابطہ مشترکہ طور پر اسرائیل-یو اے ای تعلقات کے قیام کا اعلان کیا۔
محمد بن زاید امریکہ کو اپنا اہم اتحادی مانتے ہیں اور ان کے سابق وزیر دفاع جم میٹس اور سابق قومی سلامتی کے مشیر اور انسداد دہشت گردی کے ماہر رچرڈ کلارک سمیت امریکی سفارت کاروں سے مضبوط تعلقات ہیں۔ بلا معاوضہ مشیروں کے طور پر محمد بن زاید ان سے مشورہ کرتے ہیں اور دہشت گردی سے نمٹنے اور یو اے ای کی فوجی طاقت اور انٹیلیجنس کو بڑھانے کے بارے میں ان کے مشورے پر عمل کرتے ہیں۔
محمد بن زاید کے ابتدائی طور پر بارک اوباما انتظامیہ کے ساتھ اچھے تعلقات تھے لیکن یہ اس وقت بگڑ گئے جب بارک اوباما نے ایران جوہری معاہدے کے بارے میں یو اے ای سے مشورہ نہیں کیا اور نہ ہی انہیں مطلع کیا اور معاہدے سے امریکی دستبرداری کی حمایت کی۔
2014 میں جب سے محمد بن زاید عملاً صدر بنے، متحدہ عرب امارات سرکاری طور پر یمن میں سعودی قیادت کی مداخلت میں 2019  میں اپنی افواج سے دستبرداری تک باضابطہ طور پر شریک تھا جب اس نے جنگ میں الاصلاح کی حمایت کے لیے سعودی عرب کے نقطہ نظر سے اختلاف کیا تھا کیونکہ وہ الاصلاح کو اخوان المسلمون کے قریب سمجھتا ہے۔ ابھی حال ہی میں UAE سعودی عرب کے ساتھ معاشی دشمنی میں ملوث رہا ہے اور OPEC+ کی پیداوار میں کمی کے لیے سعودی کوششوں کی مخالفت کی ہے۔
جب محمد بن زاید بچے تھے تب ان کے والد نے انجانے میں اخوان المسلمین کے ایک ممتاز رکن، عزالدین ابراہیم کو ان کا ٹیوٹر مقرر کیا تھا۔ ان کے ٹیوٹر نے ایک ایسی تعلیم دینے کی کوشش کی جو تنقیدوں کی زد پر آگئی۔  محمد بن زاید نے 2007 میں آنے والے امریکی سفارت کاروں کو اخوان المسلمون پر اپنے عدم اعتماد کی وضاحت کرنے کے لیے کہا تھا  ’’میں ایک عرب ہوں، میں مسلمان ہوں اور میں نماز پڑھتا ہوں۔۔ 1970 اور 1980 کی دہائی کے اوائل میں مَیں ان ہی میں سے ایک تھا‘‘۔ وکی لیکس کی طرف سے جاری کردہ ایک خفیہ کیبل میں انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ ان لوگوں (اخوان المسلمون) کا کوئی ایجنڈا ہے۔
محمد بن زاید کے تحت UAE نے 2019 میں سوڈان کے سابق اسلام پسند صدر عمر حسن البشیر کا ساتھ بھی چھوڑ دیا جس کے نتیجے میں کئی دہائیوں تک سوڈانی سیاست پر غلبہ  رکھنے کے بعد اخوان المسلمون کی اقتدار پر سے گرفت ختم ہو گئی جب کہ اس ملک نے قبل ازیں سوڈان کے خزانے میں اربوں ڈالر ڈالے تھے۔
سماجی آزادی
جب سے محمد بن زاید عملاً صدر بن گئے، متحدہ عرب امارات نے قانونی طور پر جسمانی سزا اور خون بہا کے دعووں اور مسلمانوں کے ذاتی حیثیت کے معاملات کو شرعی قانون سے باہر کردیا ہے۔ اسی طرح برضا ورغبت ساتھ رہنے، زائد ازدواجی تعلقات اور مسلمانوں کی طرف سے شراب نوشی، شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کے لیے قانونی عمل کو متعارف کروایا نیز، غیر مسلموں کی ذاتی حیثیت کے معاملات کے لیے سِول عدالتیں قائم کیں۔
محمد بن زاید نے اپنی تعلیم متحدہ عرب امارات میں مکمل کی اور اپریل 1979 میں رائل ملٹری اکیڈمی سینڈہرسٹ سے گریجویشن کیا۔ بعد میں انہوں نے یو اے ای ملٹری میں شمولیت اختیار کی اور متحدہ عرب امارات کی فضائیہ میں پائلٹ بننے سے پہلے مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ انہیں 2005 میں جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔
1980 کی دہائی میں تنزانیہ میں چھٹیوں پر ایک نوجوان فوجی افسر کے طور پر محمد بن زاید نے مسائی لوگوں سے ملاقات کی اور ان کے رسم و رواج اور ملک میں غربت کی حد کو دیکھا۔ واپسی پر وہ اپنے والد سے ملنے گئے۔ ان کے والد نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے ان لوگوں کی مدد کے لیے کیا کیا ہے جن  سے ان کی ملاقات ہوئی تھی؟ محمد بن زاید نے کندھے اچکا کر کہا کہ وہ جن لوگوں سے ملے وہ مسلمان نہیں تھے۔ اس پر ان کے والد نے ان کا بازو پکڑ لیا اور غضب ناک ہوکر آنکھوں میں دیکھ کر کہا ’’ہم سب خدا کی مخلوق ہیں‘‘۔
محمد بن زاید متحدہ عرب امارات کے تیسرے صدر اور شیخ زید بن سلطان النہیان کے تیسرے بیٹے ہیں، جو متحدہ عرب امارات کے پہلے صدر تھے۔
2004 میں شیخ زاید کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے شیخ خلیفہ صدر بنے۔ 2014 میں شیخ خلیفہ کو فالج کا دورہ پڑا۔ پھر محمد بن زاید اصل صدر بن گئے۔ مئی 2022 میں شیخ خلیفہ کی موت کے بعد محمد بن زاید باضابطہ طور پر متحدہ عرب امارات کے صدر بن گئے۔
(بشکریہ: انڈیا ٹومارو ڈاٹ نیٹ)
***

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 نومبر تا 2 دسمبر 2023