اسلام دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک ہے

امریکی ایوان نمائندگان میں قرارداد

مسعود ابدالی

الحان عمر، رشیدہ طلیب اور آندرے کارسن تحریک کو منظور کروانے کے لیے کوشاں
یہ انتہائی جامع قرارداد ہے جس میں مسلمانوں کے عقیدے، اجمالی تاریخ، قرآن کریم کی حقانیت، عقائد، پانچ بنیادی ارکان، جدید علوم کے لیے مسلمانوں کی خدمات کے ساتھ ساتھ اسلام کو مکمل نظریہ حیات قرار دیا گیا ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان (لوک سبھا) میں ٹیکساس (Texas) سے رکنِ کانگریس جناب ایل گرین (Al Green) نے ایک قرارداد پیش کی ہے جس کا مقصد اسلام کو دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک کے طور پر تسلیم کرنا ہے۔ پچھتر سالہ ایل کرین ٹیکسس کے حلقہ نو سے 2004ء میں رکن کانگریس منتخب ہوئے ہیں۔ جنوب مغربی ہیوسٹن کے اس حلقے میں سیاہ فام، ہسپانوی اور ایشیائیوں کا تناسب 88 فیصد سے زیادہ ہے۔ یہ ڈیموکریٹک پارٹی کا گڑھ ہے جہاں 1883ء کے بعد سے صرف ایک بار یعنی 1994ء میں ریپبلکن پارٹی کامیابی حاصل کرسکی۔ جناب ایل گرین کانگریس کے پاکستان گروپ یا Caucus کے سرگرم رکن اور سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کے زبردست پشتیبان ہیں۔ فلسطین، کشمیر، روہنگیا اور ایغور مسلمانوں کے معاملے میں ان کا موقف بہت ہی دو ٹوک ہے۔ گزشتہ برس آنے والے سیلاب پر وہ دوسرے ہی دن پاکستان پہنچے اور نقصان کا جائزہ لینے کے بعد ہیوسٹن میں ہیلپنگ ہینڈ اکنا Helping Hand ICNA کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے چند ملین ڈالر کی امداد مذاق ہے۔ اس لیے کہ امریکہ، یورپی یونین اور چین کے کارخانوں سے خارج ہونے والی کاربن نے ماحول کو تبدیل کیا جس کی قیمت پاکستان کے لوگ چکا کر رہے ہیں، چنانچہ ان ممالک کو نہ صرف سیلاب سے پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کرنا چاہیے بلکہ تاوان کی ادائیگی بھی ان تینوں کی ذمہ داری ہے۔
قرآن سوزی کے حالیہ واقعات پر امریکہ کے سیاہ فاموں میں خاصی بے چینی بلکہ خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ امریکی مسلمانوں کی اکثریت افریقی نژاد افراد پر مشتمل ہے اور قرآن جلانے کے واقعات کو امریکی مسلمان اپنے لیے دھمکی تصور کر رہے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ امریکہ کے انتہا پسند گورے انتخابات کے دنوں میں نفرت کی آگ بھڑکانے کے لیے یہاں بھی توہینِ قرآن کی مہم شروع کر سکتے ہیں۔اسی پس منظر میں جناب ایل گرین نے یہ قرارداد ترتیب دی۔
کانگریس کے تینوں مسلم ارکان، ریاست مینیسوٹا کی صومالی نژاد الحان عمر، مشیگن سے فلسطینی پس منظر رکھنے والی محترمہ رشیدہ طلیب اور انڈیانا کے جناب آندرے کارسن قرارداد کے تائید کنندہ ہیں۔ رشیدہ طلیب اور الحان عمر کانگریس کی ان ‘باغی’ لڑکیوں میں شمار ہوتی ہیں جنہوں نے سابق صدر ٹرمپ کا ناطقہ بند کر رکھا تھا۔ یہ خواتین دہشت گرد فلسطین کُش پالیسیوں پر اسرائیل کی بہت بر وقت اور موثر گوشمالی کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے 2022ء کے انتخابات میں جیسے ہی ریپبلکن پارٹی نے اکثریت حاصل کی، الحان عمر کو کانگریس کی کمیٹی برائے امور خارجہ سے نکال دیا گیا اور کمیٹی کے اسرائیل نواز ڈیموکریٹ ارکان نے یا تو اخراج کی حمایت کی یا خاموش رہے۔
جمعہ 28 جولائی کو قرارداد کا مسودہ اسپیکر کو پیش کیا گیا اور اسپیکر آفس نے اسی دن HR-635, 2023-2024, 118th Congress کا نمبر لگا کر ابتدائی جائزے کے لیے اسے کمیٹی برائے خارجہ امور کے حوالے کر دیا۔
قراداد میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور دنیا بھر میں اسلامی برادری سے یکجہتی کے لیے، ایوان نمائندگان اسلامی عقیدے کو دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ متن کے اعتبار سے یہ انتہائی جامع قرارداد ہے جس میں مسلمانوں کے عقیدے، اجمالی تاریخ، قرآن کریم کی حقانیت، عقائد، پانچ بنیادی ارکان، جدید علوم کے لیے مسلمانوں کی خدمات کے ساتھ اسلام کو مکمل نظریہ حیات قرار دیا گیا ہے۔ قرارداد میں بہت صراحت سے کہا گیا ہے کہ امریکہ میں مسلمانوں کی پہلی بڑی آبادی افریقی غلاموں پر مشتمل تھی اور بہت سے غلاموں کو ان کے مالکین نے اسلام چھوڑنے پر مجبور کیا۔ قرارداد میں پیغمبر اسلام کے اسم گرامی کے ساتھ بہت احترام سے "صلی اللہ علیہ و سلم” کا انگریزی ترجمہ درج کیا گیا ہے
قارئیں کی دلچسپی کے لیے قرارداد کا متن پیش خدمت ہے:
• لفظ اسلام کا مطلب خدا کی مرضی اور امن کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے۔
• اسلام کی بنیادی کتاب قرآن مجید ہے جس میں چھ ہزار سے زائد آیات اور ایک سو چودہ ابواب ہیں۔
• مسلمان قرآن مجید کو ہدایت الہی کی کتاب مانتے ہیں
• مسلمان اپنے طرز زندگی کو حدیث کے گرد ترتیب دیتے ہیں، جو پیغمبر اسلام حضرت محمد (ﷺ) کے اقوال کا مجموعہ ہے۔
• اگرچہ اس کی جڑیں مزید پرانی ہیں لیکن یہ دین 622ء میں تیزی سے پھیلنا شروع ہوا جب رسول اللہ (ﷺ) نے مکہ سے مدینہ کا سفر شروع کیا جس کے پہلے دن اسلامی کیلنڈر کا آغاز ہوا۔

• قرآن کے مطابق روشنائی (Ink) شہید کے خون سے زیادہ مقدس ہے، اسی بنا پر سائنس، فلکیات، کیمیا، ریاضی، طب اور فلسفے کے میدان میں مسلمانوں کی خدمات بہت واضح ہیں۔
• اسلام دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور تیزی سے پھیلتا ہوا مذہب ہے۔
• ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا دو ارب سے زیادہ مسلمان ہیں۔
• امریکہ میں 35 لاکھ مسلمان آباد ہیں، جن کا تعلق مختلف نسلی اور ثقافتی پس منظر سے ہے۔
• امریکی مسلمان ملک کی معیشت، تنوع، رفاہی کوششوں، طبی اور سائنسی تحقیق، مفید شہری خدمات اور دوسرے بہت سے شعبوں میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
• امریکہ میں مسلمانوں کی پہلی بڑی آبادی غلام افریقیوں کی تھی جن میں سے بہت سے غلاموں کو ان کے مالکین کی طرف سے عقیدہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔
• اسلام ایک توحید پرست مذہب ہے اور اللہ مسلمانوں کا واحد معبود ہے۔
• اسلام تعلیم دیتا ہے کہ اللہ کے ننانوے نام ہیں جن میں سے ہر ایک اس کی خصوصیات کی نمائندگی کرتا ہے، جیسے رحم کرنے والا یا رزق دینے والا وغیرہ۔
• اسلام مضبوط اخلاقی اعتقادات کا ایک مکمل نظام ہے جو امن، مساوات اور سماجی انصاف کا حکم دیتا ہے۔
• اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ حکومتوں کو ہمیشہ مساوات، انصاف اور ہمدردی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
• اسلام نسل یا سماجی حیثیت سے قطع نظر تمام لوگوں کے درمیان مساوات کی تعلیم دیتا ہے اور ان نظاموں کو ختم کرتا ہے جو اس کے خلاف ہیں، بشمول ذات پات کا نظام۔
• قرآن مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان رواداری کی بات کرتا ہے۔
• بنیادی مسلم اعمال کو اسلام کے پانچ ستونوں کے طور پر جانا جاتا ہے۔
• پانچ ستونوں میں شہادت (اعلان ایمان) نماز (روزانہ پانچ وقت) زکوٰۃ (تمام آمدنی کا 2.5 فیصد صدقہ کرنا) صوم (ماہ رمضان میں روزہ رکھنا) اور حج (مکہ یا بیت اللہ کی زیارت) شامل ہیں۔
• روزانہ کی پانچ نمازیں مومنوں کے درمیان رابطہ اور گناہوں سے بچنے میں ایک دوسرے کی مدد کے لیے فرض کی گئی ہیں۔
• واجب صدقہ کا مقصد انسان کو خود غرضی سے پاک کرنا اور غریبوں کا ہمدرد بنانا ہے۔
• رمضان میں روزہ رکھنے سے تحمل اور روحانی تجدید کو فروغ ملتا ہے۔
• مکہ مکرمہ کی زیارت مختلف پس منظر کے پیروکاروں کو مذہبی جشن میں اکٹھا کر کے اہل ایمان کو متحد کرنے کی طاقت کے طور پر کام کرتی ہے۔
• اسلام واضح طور پر یہ تعلیم دیتا ہے کہ مذہب میں کوئی جبر نہیں ہے اور ہر شخص کسی بھی مذہب پر عمل کرنے یا انکار کرنے کے لیے آزاد ہے۔
• مسلمان اسلام کو ایک مکمل طرز زندگی سمجھتے ہیں۔
• مسلمان جو اہم تعطیلات مناتے ہیں وہ عیدالفطر اور عیدالاضحی ہیں جو بالترتیب رمضان کے مہینے کے اختتام پر اور اسلامی قمری کیلنڈر کے آخری مہینے کے دسویں دن منائی جاتی ہیں۔
• مسلمان اسلامی قمری کیلنڈر کی پیروی کرتے ہیں جسے ہجری کیلنڈر بھی کہا جاتا ہے جس کے مطابق نیا چاند (ہلال) نظر آنے پر نیا مہینہ شروع ہوتا ہے۔
• ان ذمہ داریوں کو نبھا کر مسلمان اپنی زندگی کو مطلوبہ راستے پر ڈھال دیتے ہیں۔
لہذا،
ریاستہائے متحدہ امریکہ اور دنیا بھر میں اسلامی برادری کے ساتھ یکجہتی اور حمایت کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایوان نمائندگان اسلامی عقیدے کو دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔
بلاشبہ یہ قرارداد انتہائی جامع اور امریکی مسلمانوں کی امنگوں کی ترجمان ہے تاہم سوال ہے کہ کیا یہ تحریک منظور ہو جائے گی؟ بدقسمتی سے ہمارا جواب نفی میں ہے یعنی اس کی منظوری کا امکان نہیں ہے۔ امریکی کانگریس سے ایسی قراردادیں بہت کم منظور ہوتی ہیں جو حزب اختلاف کی جانب سے پیش کی گئی ہوں۔ مذکورہ قرارداد کے محرک اور تینوں تائید کنندہ رنگ دار ہیں جس کی وجہ سے یہ ایک ’غیر اہم‘ تحریک ہے۔ پارلیمانی امور کے ماہرین کے خیال میں کمیٹی سے اس کی منظوری کے امکانات ستائیس فیصد سے بھی کم ہیں اور اگر کمیٹی نے قرارداد کو بحث کے لیے ایوان کے سامنے پیش کرنے کی اجازت دیدی تو وہاں اس کی منظوری کے امکانات تقریباً سترہ فیصد ہی ہیں۔
امریکہ کی پارلیمانی سیاست میں سرخ فیتہ ایک آہنی دیوار ہے جسے عبور کرنا آسان نہیں۔ ایک مثال ملاحظہ ہو:
1989ء میں سیاہ فام رکن کانگریس آنجہانی جان کانیرز John Conyers نے افریقی امریکیوں کے لیے تلافی کمیشن ایکٹ یا Commission to Study Reparation Proposals for African-Americans Act کے عنوان سے ایک مسودہ قانون ایوان زیریں میں پیش کیا تھا۔ مسٹر کونئرز کی قرارداد کو اسپیکر نے بل کی شکل میں HR-40 کی حیثیت سے درج کر لیا۔ اس وقت سے یہ بل مجلس قائمہ برائے انصاف کی سماجی انصاف ذیلی کمیٹی کے پاس ہے لیکن اسے سماعت کے لیے پیش نہیں کیا گیا۔ ہر دو سال بعد یہ قرارداد کانگریس کی مدت ختم ہو جانے پر غیر موثر ہو جاتی لیکن جناب کانئیرز بہت مستقل مزاجی کے ساتھ اسے ہر نئی کانگریس میں اسے پیش کرتے رہے۔ حتیٰ کہ جنوری 2018ء میں مسٹر جان کونیرز ایک جنسی اسکینڈل کا شکار ہونے کی بناء پر ایوان سے مستعفی اور اکتوبر 2019ء میں تلافی کا ارمان لیے دنیا سے بھی رخصت ہو گئے۔

(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 قرآن سوزی کے حالیہ واقعات پر امریکہ کے سیاہ فاموں میں خاصی بے چینی بلکہ خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ امریکی مسلمانوں کی اکثریت افریقی نژاد افراد پر مشتمل ہے اور قرآن جلانے کے واقعات کو امریکی مسلمان اپنے لیے دھمکی تصور کر رہے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ امریکہ کے انتہا پسند گورے انتخابات کے دنوں میں نفرت کی آگ بھڑکانے کے لیے یہاں بھی توہینِ قرآن کی مہم شروع کر سکتے ہیں۔اسی پس منظر میں جناب ایل گرین نے یہ قرارداد ترتیب دی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اگست تا 19 اگست 2023