
اسلام دنیا کا سب سے تیزی سے پھیلنے والا دین
2010 سے 2020 تک مسلم آبادی میں 36.7 کروڑ کا اضافہ: پیو ریسرچ سنٹر
واشنگٹن، ڈی سی: (دعوت انٹر نیشنل نیوز ڈیسک)
اسلام، عالمگیر مذاہب میں سب سے زیادہ تیزی سے فروغ پانے والا دین ہے، جس نے گزشتہ عشرے میں دیگر مذہبی گروہوں کے مقابلے میں اپنے ماننے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔ پیو ریسرچ سنٹر کے تازہ ترین مطالعے کے مطابق، سنہ 2010 سے 2020 تک عالمی مسلم آبادی میں 34.7 کروڑ افراد کا اضافہ ہوا، جس سے مذہبی منظرنامہ عالم میں ایک نمایاں آبادیاتی تبدیلی کا مظہر بنا۔
(Pew Research Center, "Islam was the world’s fastest-growing religion from 2010 to 2020”, June 2025).
مسلمان جن کی تعداد اب دو ارب کو چھو رہی ہے، عیسائیوں کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے مذہبی گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہندو آبادی عالمی شرح نمو کے ہم پلہ بڑھی اور سنہ 2020 تک 1.20 ارب نفوس تک جا پہنچی، جن میں سے 95 فیصد بھارت میں مقیم ہیں، جیسا کہ پیو ریسرچ سنٹر کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے۔
پیو ریسرچ سنٹر، جو واشنگٹن ڈی سی، ریاستہائے متحدہ میں قائم ایک امریکی تحقیقی ادارہ ہے، غیر جانبداری کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے عوام کو عالمی مسائل، رویوں اور رجحانات سے آگاہ کرتا ہے۔ یہ ادارہ عوامی رائے شماری، آبادیاتی تحقیق، مواد کے تجزیے اور دیگر اعداد و شمار پر مبنی سماجی سائنسی تحقیقات انجام دیتا ہے، مگر کسی پالیسی موقف کو اختیار کرنے سے احتراز کرتا ہے۔
سنہ 2010 سے 2020 تک مسلم آبادی میں 34.7 کروڑ نفوس کا اضافہ ہوا جو دو ارب کی تعداد کو چھو گئی۔ عیسائیوں کی تعداد 12.2 کروڑ کے اضافے سے 2.3 ارب تک پہنچی۔ بدھ مت کے پیروکار واحد گروہ ہیں جن کی تعداد پیو کے تجزیے کے مطابق 1.90 کروڑ کم ہو کر 32.4 کروڑ رہ گئی۔
مسلم آبادی کی تیزی سے نمو کے پیچھے آبادیاتی عوامل بھی کار فرما ہیں۔ مسلمان دیگر بڑے مذاہب کے ماننے والوں کے مقابلے میں اوسطاً زیادہ اولاد رکھتے ہیں اور عمر کے لحاظ سے کم سن ہیں۔ 2015-2020 کے اعداد و شمار کی بنیاد پر پیو نے اندازہ لگایا کہ ایک مسلم خاتون اپنی زندگی میں اوسطاً 2.9 بچوں کو جنم دیتی ہے، جبکہ غیر مسلم خاتون کے لیے یہ تعداد 2.2 ہے۔ سنہ 2020 میں عالمی مسلم آبادی کی اوسط عمر غیر مسلم آبادی سے نو برس کم تھی۔
پیو کے مطالعے کے مطابق عالمی سطح پر مسلم آبادی کی تبدیلی کا سبب مکمل طور پر مذہب کی تبدیلی یا ترک مذہب نہیں ہے۔ 2008 سے 2024 تک 117 ممالک سے جمع کردہ سروے کے اعداد و شمار کی روشنی میں مطالعے نے اندازہ لگایا کہ تقریباً ایک فیصد افراد جو مسلم گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں اپنا دین ترک کرتے ہیں مگر اس نقصان کی تلافی اسی تناسب سے لوگوں کے اسلام قبول کرنے سے ہو جاتی ہے۔
سنہ 2020 میں سب سے زیادہ 1.20 ارب مسلمان ایشیا-بحرالکاہل خطے میں مقیم تھے، اس کے بعد مشرق وسطیٰ-شمالی افریقہ میں 41.4 کروڑ اور ذیلی صحارا افریقہ میں 36.9 کروڑ نفوس تھے۔ یورپ اور شمالی امریکہ کی مسلم آبادی نسبتاً کم ہے، تاہم سنہ 2010 سے 2020 تک ان خطوں میں غیر مسلم آبادی کے مقابلے میں مسلم آبادی کی شرح نمو کہیں زیادہ رہی۔
سنہ 2020 میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ وہ خطہ تھا جہاں مسلمان آبادی کا تناسب 94 فیصد تک بلند تھا۔ تاہم، اسلام کا اس خطے سے گہرا تعلق ہونے کے باوجود یہاں عالمی مسلم آبادی کا صرف پانچواں حصہ مقیم ہے۔
پیو کے تجزیے کے مطابق سنہ 2020 میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ممالک مشرق وسطیٰ-شمالی افریقہ سے باہر ہیں: انڈونیشیا (23.9 کروڑ) پاکستان (22.7 کروڑ) بھارت (21.3 کروڑ) اور بنگلہ دیش (15.1 کروڑ)۔ عالمگیر سطح پر مسلمان 53 ممالک میں اکثریت رکھتے ہیں۔
پیو کے اندازوں نے 201 ممالک و خطوں کا احاطہ کیا جو دنیا کی 99.98 فیصد آبادی کا مسکن ہیں۔ مطالعے نے سات گروہوں پر توجہ مرکوز کی: عیسائی، مسلمان، ہندو، بدھ مت کے ماننے والے، یہودی، دیگر تمام مذاہب کے پیروکار اور وہ افراد جو کسی مذہب سے وابستہ نہیں ہیں۔
34.7 کروڑ کے اضافے کے ساتھ مسلمانوں نے اس عشرے میں تمام غیر مسلم مذاہب کے مجموعی اضافے (24.8 کروڑ) سے زیادہ نفوس شامل کیے۔ درحقیقت مسلم آبادی کا یہ اضافہ سنہ 2020 میں بدھ مت کے ماننے والوں کی کل تعداد (32.4 کروڑ) سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔
پیو ریسرچ سنٹر، جو واشنگٹن ڈی سی میں قائم ہے، ایک معتبر اور غیر جانب دار ادارہ ہے جو عالمی آبادی، مذہب، سیاست، میڈیا اور سماجی رجحانات پر گہرائی سے تحقیق کرتا ہے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی سے متعلق اس کے حالیہ مطالعے کی بنیاد 201 ممالک اور خطوں سے حاصل کردہ 2,700 سے زائد مستند ذرائع پر ہے، جن میں مردم شماریاں، رائے عامہ کے سروے اور سرکاری آبادیاتی رجسٹرز شامل ہیں۔ یہ مطالعہ دنیا کی مجموعی آبادی کا تقریباً مکمل احاطہ کرتا ہے۔
پیو کے تجزیے کے مطابق گزشتہ دہائی میں مسلم آبادی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی عالمی آبادی میں تفاوت کم ہوتا جا رہا ہے۔ 2010 میں مسلمان دنیا کی 23.9 فیصد آبادی پر مشتمل تھے جب کہ عیسائی 30.6 فیصد تھے۔ تاہم 2020 تک یہ تناسب مسلمانوں کے لیے بڑھ کر 25.6 فیصد اور عیسائیوں کے لیے کم ہو کر 28.8 فیصد رہ گیا۔
(ماخذ: Pew Research Center, 10 جون 2025) (https://www.pewresearch.org/short-reads/2025/06/10/islam-was-the-worlds-fastest-growing-religion-from-2010-to-2020)
پیو نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ عیسائیوں کی آبادی میں اضافے کی رفتار سست پڑ گئی ہے، جس کی بڑی وجہ مغربی ممالک میں مذہب ترک کرنے والوں کی بلند شرح ہے۔ اس کے برعکس مسلم آبادی میں اضافے کی رفتار نسبتاً زیادہ رہی ہے جو شرحِ پیدائش اور مذہب سے وابستگی کی بلند سطحوں کی عکاسی کرتی ہے۔
ان رجحانات کی روشنی میں اندازہ ہے کہ آئندہ عشروں میں اسلام کا عالمی مذہبی منظر نامے میں تناسب مزید بڑھے گا۔ اگرچہ اسلام کی بڑھتی ہوئی آبادی زیادہ تر قدرتی آبادیاتی عوامل، جیسے بلند شرحِ پیدائش اور نوجوان آبادی کی عکاسی کرتی ہے لیکن اس کے برعکس دنیا کے ترقی یافتہ اور دولت مند خطوں میں ’’غیر مذہبی‘‘یا ’’مذہب سے وابستگی نہ رکھنے والے‘‘ افراد کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے جو اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ رسمی مذہبی وابستگی ان خطوں میں زوال پذیر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر ایک دو رُخی رجحان سامنے آ رہا ہے: ایک طرف اسلام اپنی عددی اور تہذیبی استواری کے ساتھ ترقی کر رہا ہے تو دوسری طرف ’غیر وابستہ‘ یا ’مذہب ترک کرنے والے‘ افراد کی تعداد بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
یہ صورت حال مسلم امت کے لیے یقیناً ایک خوش آئند پہلو رکھتی ہے کہ مادّہ پرستی اور مذہب گریز رجحانات کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے باوجود اسلام ایک مستحکم، حیات بخش اور توسیع پذیر دین کے طور پر اپنی موجودگی کو نہ صرف برقرار رکھے ہوئے ہے بلکہ دنیا بھر میں نئی نسلوں کے لیے کشش کا باعث بھی بن رہا ہے۔ یہ حقیقت اس امر کی غماز ہے کہ اسلام صرف ایک عقیدہ ہی نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر تہذیبی پیغام بھی رکھتا ہے جو فطرتِ انسانی سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے اور جدید دور کی فکری پیاس کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 جولائی تا 27 جولائی 2025