اسلام اہلِ مغرب کی نظر میں

قرآن مجید، سیرت طیبہ اور انگریزی ادب کے حوالے سے مغربی فضلاء کی تصانیف کا جائزہ

کتاب کا نام : اسلام اہلِ مغرب کی نظر میں
مصنف: پروفیسر عبدالرحیم قدوائی
مرتب: رفیق احمد رئیس سلفی
ناشر: ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی، علی گڑھ
صفحات: 296 اشاعت: 2023ء قیمت: 500 روپے
مبصر: ابو سعد اعظمی

پروفیسر عبدالرحیم قدوائی علمی دنیا کا ایک معروف نام ہے۔ مشہور مفسر قرآن مولانا عبد الماجد دریابادیؒ ان کے نانا ہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید، سیرۃ طیبہ اور اسلامی شعائر سے محبت انہیں ورثے میں ملی ہے۔ انہیں مشرق و مغرب سے استفادہ کا موقع نصیب ہوا اور جلوہائے دانش فرنگ کا عمیق مطالعہ ومشاہدہ کا شرف بھی۔ مطالعہ استشراق ان کا اختصاص ہے۔ اس سے قبل پروفیسر اخترالواسع نے ان کے مجموعہ مضامین کو ’’مستشرقین اور انگریزی تراجم قرآن‘‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ پروفیسر توقیر عالم فلاحی اور پروفیسر ابوسفیان اصلاحی نے اس کتاب کے مباحث کا عمدہ تجزیہ کیا ہے۔ زیر نظر کتاب درحقیقت اسی مطالعہ استشراق کی توسیع ہے جیسا کہ مصنف نے پیش لفظ میں وضاحت کی ہے۔ اس کتاب میں عرض مرتب، پیش لفظ اور کتابیات ومصادر کے علاوہ تین ذیلی عناوین بالترتیب قرآن مجید پر مغربی فضلاء کی تصانیف کا تنقیدی جائزہ (گیارہ مقالات) سیرۃ طیبہ پر مغربی فضلاء کی تصانیف کا تنقیدی جائزہ (پانچ مقالات) اور انگریزی ادب پر مغربی فضلاء کی تصانیف کا تنقیدی جائزہ (پانچ مقالات) کے تحت کل اکیس ایسے مقالات شامل ہیں جو اس سے قبل ہند وپاک کے معتبر علمی رسائل کی زینت بن چکے ہیں۔
سب سے پہلے اکیسویں صدی کے بعض مغربی فضلاء کے قرآنی مطالعات کا محاکمہ کیا گیا ہے۔ مصنف نے وضاحت کی ہے کہ ’’1980 سے نمایاں طور پر مسلمان مترجمین قرآن مجید کے منظر عام پر آنے کے بعد باون سال تک کسی مغربی فاضل کا نیا انگریزی ترجمہ سامنے نہیں آیا گو کہ ما قبل کے شر انگیز تراجم کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا اور وہ اسلام / قرآن مجید کے متعلق قارئین کے قلب وذہن کو مسموم کرتے رہے۔ البتہ 2007 میں Alan Jones کا انگریزی ترجمہ بعنوان The Quran Translated into English شائع ہوا۔ یہ ترجمہ قرآن اپنے پیش رو مستشرقین کی طرح اسلام اور قرآن سے متعلق غلط معلومات سے پر ہے۔ عربی زبان وادب کے اس استاذ نے قرآن مجید کے اسلوب اور محاورہ بیان پر اعتراضات کی ایک طویل فہرست بلکہ فرد جرم عائد کی ہے۔ ان کی دانست میں اپنے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے متعدد قرآنی آیات غیر واضح، مغلق، باہم متضاد، غیر متعین، مبہم، مجہول، غیر منطقی، انتہائی پیچیدہ اور مخاطبین کی فہم واستعداد کے اعتبار سے پریشان کن ہیں۔ (ص17)
شگاکو یونیورسٹی کے شعبہ الٰہیات کے استاذ A J Droge کا ترجمہ قرآن مجید 2014 میں منظر عام پر آیا۔ مصنف نے وضاحت کی ہے کہ "اپنے مندرجات کے اعتبار سے یہ ترجمہ قارئین کو قرآن مجید کے خلاف صرف گمراہ کرنے کا وہی فریضہ انجام دیتا ہے جو صدیوں سے مغربی فضلاء کا وطیرہ رہا ہے”۔(ص19) مصنف نے اس امر پر خوش گوار حیرت کا اظہار کیا ہے کہ "بعض مقامات پر مصنف کو اس حق گوئی کی توفیق ہوئی ہے کہ قرآن مجید کا پیغام بائبل سے مختلف اور منفرد ہے”۔ (ص22)
۔ G.S Reynolds کا ترجمہ قرآن (2018) میں شائع ہوا۔ امریکی جامعہ جارج ٹاؤن کی خاتون پروفیسر Jane D.McAuliffe کا ترجمہ 2017 میں شائع ہوا۔ مصنف نے وضاحت کی ہے کہ مصنفہ نے ممتاز برطانوی نو مسلم محمد مارماڈیوک پکتھال کا 1930 کا یعنی تقریباً ایک صدی قبل کا انگریزی ترجمہ بجنسہ نقل کر دیا ہے۔ طرہ یہ کہ اصل مصنف پکتھال کی صراحت بھی کہیں نہیں کی ہے۔ امریکہ کے نامور پروفیسرBruce Lawrence کے ترجمہ قرآن کی ببلوگرافی  کی مصنف نے یہ کہتے ہوئے پذیرائی کی ہے ’’فاضل مصنف کی معروضیت ان کے مغربی فضلاء کے تراجم قرآن مجید پر نقد ونظر میں  بھی نمایاں ہے۔ انہوں نے بلا رو و رعایت ان مترجمین کے بغض وعناد، ان کی دانستہ اور فاش غلطیوں اور ان کے عیسائی مبلغ اور مناظر ہونے کی حقیقت بے نقاب کی ہے‘‘۔ (ص36)
فرائی بیگ یونیورسٹی جرمنی میں الٰیہات کی خاتون پروفیسر Johanna Pink کی تصنیف دور حاضر کے متعدد ممالک کے مسلمان شارحین قرآن مجید کے تنقیدی مطالعے پر مرکوز ہے۔ فاضل مصنف کا احساس ہے کہ "یہ امر باعث تاسف بھی ہے اور تشویش بھی کہ آج بھی ان مغربی فضلاء کے ذہنی سانچے اور موقف قرون وسطی کے تعصبات اور مزعومات کے اسیر ہیں اور بالخصوص تراجم قرآن مجید کے حوالے سے قارئین کو اسلام سے متنفر کرنے کی صدیوں قدیم روایت معروضیت اور مفاہمت کے بلند بانگ دعووں کے باوصف اب بھی بدستور منفی ہے” (ص40)
دوسرے مقالہ میں قرآنیات سے متعلق مستشرقین کا حالیہ علمی محاذ کورپس کورانیکم (Corpus Coranicum) کے کوائف اور اس کے بعض مطبوعہ نتائج کا محاکمہ پیش کیا گیا ہے اور اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ ’’قرآنیات کے طلباء کے لیے یہ محاکمہ چشم کشا ہے کہ قرآن مجید پر آج کے مستشرقین کے اعتراضات کی کیا نوعیت ہے۔ان کے علمی تعاقب اور تدارک کے لیے ان منصوبے کے مالہ وماعلیہ سے واقفیت ضروری ہے‘‘ (ص41)۔ بنیادی طور پر اس منصوبے کے چار شعبے ہیں۔ (1) مخطوطات (2) مصاحف میں اختلافات کا مطالعہ (3) قرآن مجید کے نزول کے دور کے دیگر متون اور (4) قرآن مجید تفسیری حواشی، تفسیری حواشی گو مختلف فضلاء کے قلم سے ہیں، ان میں قدر مشترک متن قرآن مجید کا استخفاف اور شکوک وشبہات کی تخم ریزی ہے۔ اس کے بعد مختلف سورتوں پر ان کے تفسیری حواشی کا محاکمہ کرکے ان کی بد باطنی کو طشت از بام کیا گیا ہے۔
تیسرا مقالہ قرآن کریم کے اعجازی پہلو: مستشرقین کے موقف کا محاکمہ کے عنوان سے ہے۔ اس کتاب کے متعدد مقالات میں استشراق کا نقطہ آغاز، ان کے اہداف ومقاصد اور اس کے پس منظر کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ قرآن مجید پر مستشرقین کی ’نظرِ عنایت‘ خاصی تاخیر سے بارہویں صدی میں ہوئی۔ اس کے خلاف مستشرقین کے یہ اعتراضات ذخیرہ کتب میں عام ہیں کہ یہ نظم وربط سے عاری، انتہائی گنجلک اور ناقابل فہم تصنیف ہے۔ یہ صرف قتل اور خوں ریزی کی تلقین اور تشویق سے عبارت ہے۔ یہ غیر مسلموں کے جان ومال اور ناموس کا دشمن ہے۔
چوتھے مقالہ میں مرتضی کریم نیا کی مرتبہ ببلوگرافی کے تناظر میں انگریزی میں مطالعہ قرآن مجید کے جدید رجحانات کا چشم کشا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں مطالعہ قرآن کے دوران مستشرقین جن موضوعات کے تحت اپنے قلم کی جولانیاں دکھاتے ہیں ان کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اسی طرح 1980 سے اس میدان میں مسلمان اہل قلم کے عمل دخل کے باعث مطالعہ قرآن کی جو نئی حیات بخش اور ایمان پرور جہات یورپی زبانوں کے ذخیرہ قرآن میں نمایاں ہوئی ہیں ان کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
پانچواں مقالہ جدید مستشرقین کے مطالعات تفسیر: رجحانات اور تعبیرات کے عنوان سے ہے۔اس مقالہ میں استشراق کے پس منظر، ان کے اہداف و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی زبان دانی کا اعتراف بھی کیا گیا ہے۔ "فتنہ پروری کے باوجود ان تحریروں میں بہرکیف طباعی، ندرت اور جودت طبع ہوتی ہے۔ یہ محض سب وشتم، جوشیلے، جذباتی تاثرات اور سطحی بیان بازی پر مشتمل نہیں ہوتیں ۔ مستشرقین بالعموم عربی زبان و ادب، بالخصوص صرف ونحو، تاریخ، آثاریات اور اسلام کے بنیادی اور ثانوی مآخذ پر دسترس رکھتے ہیں۔ ان کے دلائل اور نتائج بلاشبہ معاندانہ اور منفی ہوتے ہیں کہ ان کے مطالعہ کا مقصود ہی اسلام، قرآن مجید، حدیث، سیرت طیبہ، فقہ غرض یہ کہ اسلام کے ہر ہر مظہر کی شبیہ کو داغ دار اور مسخ کرنا ہوتا ہے، لیکن ان کا پیش کردہ لوازمہ بہر کیف لائق مطالعہ، غور طلب اور مسکت تردید کا طالب ہوتا ہے کہ وہ نصوص اور دیگر اسلامی مآخذ پر ہی مبنی ہوتا ہے”۔ (ص86)
تحریک استشراق کے اثرات کے ضمن میں مصنف لکھتے ہیں کہ ’’۔۔۔اس سے بھی زیادہ عبرت ناک پہلو یہ ہے کہ بعض مسلمان طلبا غیر شعوری طور پر ان مستشرقین کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ اپنے مسلمان نام کے باجود ان کی آرا اور تحقیقات اپنے مستشرق اساتذہ اور نگران تحقیق کے نظریات کی بڑی حد تک تکرار اور توسیع کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ نوبت کھلے ہوئے ارتداد تک تو نہیں پہنچتی لیکن عملاً وہ اسی غیر اسلامی فکر کے اسیر بن کر رہ جاتے ہیں‘‘۔ (ص87) اس کے بعد بعض مسلم اسکالرس اور مستشرقین کی مرتبہ کتابیات اور تصانیف کے حوالہ سے مستشرقین کے رجحانات وتعبیرات کے چشم کشا حقائق پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
چھٹا مقالہ برطانوی مستشرقین کے تراجم قرآن مجید: ایک محاکمہ کے عنوان سے ہے۔ اس میں الیگزنڈر راس، جارج سیل، جے ایم راڈویل، ریچرڈ بیل، این جے داؤد، ایلن جونس اور اے جے دروک کے انگریزی تراجم قرآن کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
ساتواں مقالہ قرآن مجید کے انگریزی تراجم: ایک تنقیدی جائزہ کے عنوان سے ہے۔ شروع میں انگریزی تراجم قرآن کے پس منظر پر روشنی ڈالی گئی ہے اور الیگزنڈر راس کے انگریزی ترجمہ کو اولین انگریزی ترجمہ قرار دیا گیا ہے۔ راس کے ترجمہ قرآن کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے بعض مستشرقین کی اس علمی خیانت پر مذمت کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ اس کے بعد جارج سیل، راڈویل، پالمر، رچرڈ بیل، آرتھر جان آربیری، جوزف داؤد، ایلن جونز وغیرہ کے انگریزی تراجم کا محاکمہ کرتے ہوئے اس حقیقت کو بے نقاب کیا گیا ہے کہ مستشرقین کا تعصب اور قرآن و اسلام دشمنی میں آج بھی کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے اور تراجم قرآن سے ان کے پیش نظر آج بھی انہیں اہداف ومقاصد کی تکمیل ہے جو قرون وسطیٰ میں تھی۔
آٹھواں مقالہ قرآن مجید کے بارے میں مستشرقین کا علمی تعاقب کے عنوان سے ہے۔ شروع میں استشراق کے اہداف ومقاصد کی تصویر کشی کے بعد مصنف نے یہ واضح کیا ہے کہ "علم وفضل، معروضیت، سائنسی، تجربی طرز فکر اور تحقیقی کے تمام بلند وبانگ دعوؤں کے باوجود کسی مستشرق کو آج تک اس کی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اسلام کے بارے میں مسلمانوں کے عقائد کو کم از کم نقل ہی کردے۔ اپنی تمام تصانیف میں جب بھی وہ اسلام کا تعارف پیش کرتے ہیں تو اس کی رو سے نہ قرآن مجید کتاب اللہ ہے، نہ وحی الٰہی کی کوئی حقیقت ہے، نہ حضور اکرم کی کوئی حیثیت دینی پیشوا کی ہے، نہ حدیث کا کوئی تاریخی مقام ہے۔ آٹھویں صدی کے سینٹ جان سے لے آج اکیسویں صدی کے مائیکل کک، پیٹریشیا کرون اور اینڈریو رپن سب پر صادق آتا ہے‘‘۔(ص121) اس ضمن میں مصنف نے پروفیسر محمد مصطفی اعظمی اور پروفیسر محمد مہر علی کی خدمات کا اعتراف یہ کہتے ہوئے کیا ہے کہ یہ امر عالم اسلام کے لیے انتہائی خوش کن اور باعث طمانیت ہے کہ علمی تاریکی کے اس ماحول میں استشراق کے اس فتنہ عظیم کا پردہ چاک کرنے اور اس کا مسکت جواب دینے کی توفیق اللہ نے حال میں ان دو مسلمان اہل قلم کو بخشی ہے۔
نواں مقالہ ایک مستشرق کا خوش گوار انگریزی ترجمہ قرآن کے عنوان سے ہے۔ اس میں انہوں نے امریکی نژاد اور امریکہ ہی میں مقیم مستشرق ٹامس کلیری کے انگریزی ترجمہ اور اس کے امتیازی اوصاف کا ذکر کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ ہرچند کہ یہ ترجمہ ایک مستشرق کے قلم سے ہے لیکن خوش گوار بلکہ ناقابل یقین حد تک صدیوں کو محیط، مستشرقین کی اسلام سے بغض وعناد سے عبارت رویے سے یکسر مبرا ہے۔ ان کے تعارف یا حواشی میں مستشرقین کے تسامحات، تعصبات، مزعومات اور افترا کا طومار نہیں ملتا بلکہ اس کے برعکس مخلصانہ اور دیانت دارانہ سعی اس امر کی ہے کہ آج کی سیکولر بلکہ مذہب بیزار دنیا کے سامنے قرآن مجید کی اہمیت، معنویت اور جواز کو ثابت کیا جائے۔ (ص129)
دسواں مقالہ دو حالیہ گراں قدر انگریزی تراجم قرآن مجید کے عنوان سے ہے۔ اس میں یہ معلومات بھی فراہم کی گئی ہیں کہ 1930ء تک کسی مسلمان فاضل کا انگریزی ترجمہ قرآن موجود نہ تھا۔ 2000ء سے 2017ء تک مسلمان اہل قلم کے چالیس سے زائد تراجم قرآن منظر عام پر آچکے ہیں۔ 1649ء سے آج تک شائع 120 تراجم سے زائد مکمل تراجم قرآن میں بیش تر ناقص اور غیر معیاری ہیں۔ غیر مسلم مستشرقین، قادیانی اور متجددین کے 30 سے زائد تراجم ہیں ۔ تقریباً 90 تراجم مسلمان اہل قلم کے ہیں۔ مصنف نے واضح کیا ہے کہ مسلمان اہلِ قلم کے انگریزی تراجم کی یہ تعداد یقیناً مرعوب کن ہے لیکن ان میں زیادہ تر مسلکی رنگ میں رنگے ہوئے، پیغام الٰہی سے زیادہ ترجمان اپنے اپنے مکتب فکر کے، ان میں دیوبندی، سلفی، بریلوی اور شیعہ مسلک کے نمائندے شامل ہیں۔ (ص136)
گیارہوں مقالہ میں جنوبی افریقہ کے ہائی کورٹ کے انگلستان نژاد سفید فام جج جان مرفی کے قبول اسلام کے حوالہ سے چند تاثرات کو پیش کیا گیا ہے اور اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ قرآن مجید کا اعجاز آج بھی اتنا ہی اثر آفریں ہے جتنا اپنے نزول کے دور میں تھا۔ شرط صرف یہ ہے کہ اس کا مطالعہ اخلاص، دیانت داری اور غیر جانب داری سے کیا جائے۔
سیرت طیبہ پر مغربی فضلاء کی تصانیف کا تنقیدی جائزہ کے عنوان سے پانچ مقالات شامل ہیں۔ ان مقالات کے عناوین اس طرح ہیں:
سیرت طیبہ پر مستشرقین کی تصانیف، سیرۃ طیبہ پر تھامس کارلائل کا رجحان ساز خطبہ، سیرۃ طیبہ حالیہ مغربی تصانیف کے آئینہ میں، بہتر مسلم-عیسائی تعلقات کی نقیب ایک حالیہ گراں قدر تصنیف، سیرۃ طیبہ پر مغربی فضلاء کی تصانیف : خوش آئند رجحانات۔
ان مقالات میں استشراق کے پس منظر، سیرت طیبہ پر مستشرقین کے اعتراضات، ان اعتراضات کے پس پشت کار فرما مقاصد واہداف کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ شاہ باسل اول کے حکم پر بازنطینی اہل قلم نسطاس نے نویں صدی عیسوی میں رد اسلام میں ایک کتاب تصنیف کی۔ کتاب کے مندرجات کیا ہیں محض آنحضرتؐ کی شان میں گستاخانہ کلمات اور شر انگیز اتہامات ہیں۔ اس کے بعد وولٹیر، الیگزنڈر، ایم بریکو اور دانتے کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ نشاۃ ثانیہ کے اوتار کی حیثیت سے دانتے کو مغرب میں آج تک پوجا جاتا ہے اور اس کی علم دوستی، فراخ دلی اور روشن دماغی کا چہار سو شہرہ ہے لیکن اس کی مشہور نظم ڈیوائن کامیڈی کے بعض حصے اسلام کے بارے میں ناقابل بیان حد تک شرمناک اور جہالت وتعصب کی بد ترین مثال ہیں۔ (ص153)
اس کتاب کا تیسرا جز انگریزی ادب پر مغربی فضلاء کی تصانیف کے تنقیدی جائزہ پر مشتمل ہے۔ اس میں بھی پانچ مقالات شامل ہیں اور ان کے عناوین اس طرح ہیں۔ استعماری فکر کی روایت انگریزی ادب کے تناظر میں، انگریزی رومانوی شاعرات کے کلام میں ہندوستان کی تصویر کشی، برطانوی ناول نگار ای ایم فوسٹر: ہند-اسلامی تہذیب کا شناور، قوموں کا عروج وزوال: چند مغربی مفکرین کی آراء، انگریزی ادب میں رسول اللہ کی تصویر کشی جو درحقیقت پروفیسر قدوائی کی ایک انگریزی تصنیف کی زریاب فلاحی کے قلم سے تلخیص ہے۔
کتاب قرآن مجید اور سیرت طیبہ کے حوالہ سے استشراق کے ناپاک عزائم، معاندانہ رویہ اور متعصبانہ اپروچ کا پردہ چاک کرتی ہے۔ استشراق کی تاریخ، پس منظر، اہداف و مقاصد سے روشناس کراتی ہے۔ مستشرقین کے انگریزی تراجم قرآن کی تاریخ سے واقف کراتی ہے۔ قرآن کریم کے بارے میں ان کے افکار و خیالات کا نقشہ کھینچتی ہے۔ سیرت کے موضوع پر تصنیف کردہ اہم کتابوں کا محاکمہ وتجزیہ کرتی ہے۔ مسلمان اہل علم کے انگریزی تراجم کے نقائص سے باخبر کرتی ہے اور اس ضرورت کا احساس پیدا کرتی ہے کہ عصر حاضر میں مسلمانوں کی ترجیحات کیا ہوں، طلبہ کے اہداف کیا ہوں۔ عصر حاضر میں درپیش مسائل کا ادراک اور ان کے قرآنی حل کا داعیہ بھی پیدا کرتی ہے۔ کتاب اس لائق ہے کہ اس کا بار بار مطالعہ کیا جائے اور اس کے مباحث موضوع گفتگو بنیں۔
***

 

***

 یہ کتاب قرآن مجید اور سیرت طیبہ کے حوالہ سے استشراق کے ناپاک عزائم، معاندانہ رویہ اور متعصبانہ اپروچ کا پردہ چاک کرتی ہے۔ استشراق کی تاریخ، پس منظر، اہداف و مقاصد سے روشناس کراتی ہے۔ مستشرقین کے انگریزی تراجم قرآن کی تاریخ سے واقف کراتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 نومبر تا 2 دسمبر 2023