اساتذہ کے لیے رہنمائی سیریز (قسط۔ 2)

کوویڈ سے متاثرہ اور کم زورطلبہ کے معیار کی بلندی کیسے؟

سید تنویر احمد
ڈائریکٹر ہولسٹیک ایجوکیشن بورڈ، دلی

بچوں کی تعلیمی عمر معلوم کرنے کے لیے ایک مفیدتکنک کا استعمال۔ ’اے آئی سی یو‘کے بہتر نتائج
اب آئیے وا ضح کرتے ہیں کہ کس طرح پرچوں کی مدد سے بچوں کی تعلیمی عمر جانچی جاسکتی ہے۔ فرض کیجیے کہ آپ آٹھویں جماعت کے طلبہ کی تعلیمی عمر یا سیکھنے کی صلاحیت معلوم کرنا چاہتے ہیں تو ان میں درجہ ہفتم (ساتویں جماعت) کا ریاضی کا پرچہ تقسیم کردیں۔ واضح رہے کہ یہ پرچہ اوپر بیان کردہ اصول کے مطابق ہونا چاہیے۔یعنی اگر آپ نے آٹھویں جماعت کے 40 بچوں کا ٹیسٹ لیا ہے اور ان پرچوں کی جانچ کے بعد مندرجہ ذیل نتائج حاصل ہوئے
جملہ 40 طلبہ میں سے 10 طلبہ نے 80 سے زیادہ نمبرات حاصل کیے اور 10 بچوں نے35 سے کم نمبرات حاصل کیے ہیں۔ اس امتحان کے نتائج کا تجزیہ بتاتا ہے کہ 35 سے کم نمبرات حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد 10 اور 35 سے زیادہ نمبرات حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد 30 ہے۔ اگر اس نتیجے کے بارے میں عام اساتذہ سے سوال کیا جائے کہ کتنے طلبہ درجہ ہشتم میں جانے کے لائق ہیں تو جواب ہوگا کہ 30 طلبہ۔ اس لیے کہ ہمارے اسکولوں میں کسی مضمون میں کام یابی حاصل کرنے کا معیار صرف 35 نمبرات ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ 35 نمبرات میں کام یابی کا معیار صرف بر صغیر اور چند تیسری دنیا کے ممالک میں رائج ہے۔ سامراجی نو آبادیاتی حکومتوں نے 35 نمبرات کا معیار جاری کیا تھا، اس لیے کہ وہ مقامی باشندوں کو اعلیٰ تعلیم سے متصف کرنے کے قائل نہیں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مقامی باشندوں میں سے چند افراد کو اتنی بنیادی تعلیم دی جائے کہ وہ حکومت کے دفتروں میں کلرکی کا کام انجام دے سکیں۔بدقسمتی سے آج بھی ہم اسی تعلیمی نظام کے غلام ہیں اور 35 نمبرات حاصل کر نے والے طلبہ کو کام یاب قرار دیتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں کام یابی کے لیے کم سے کم ہر مضمون میں 60 نمبرات حاصل کرنے ہوتے ہیں۔ ’اے آئی سی یو‘کے لیے کم سے کم 80 نمبرات کا تعین ہم نے کیا ہے۔ 80 نمبرات کی شرط ریاضی کے مضمون میں لازم ہے جب کہ دوسرے مضامین میں مزید 10 نمبرات کی رعایت دی جاسکتی ہے۔
35 نمبرات میں کسی طالب علم کو کام یاب قرار دینے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ نصاب کے 35 فی صد اصولوں اور معلومات کو جانتا ہے جب کہ 65 فی صد کو نہیں جانتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 35 نمبرات حاصل کرنے والا طالب علم 65 فی صد ناواقفیت کے ساتھ اونچے درجے میں جارہا ہے۔ اس کا طالب علم پر منفی اثر پڑتا ہے، اس لیے کہ بہت سارے اصولوں اور معلومات کا تعلق پچھلی جماعت کے نصاب سے ہوتا ہے۔ اس لیے ہم 80 نمبرات حاصل کرنے والے طالب علم کو اگلی کلاس میں بٹھاتے ہیں، ورنہ’ اے آئی سی یو‘ کے ذریعے اس کی لیاقت میں اضافہ کرکے اس طالب علم کو 80 نمبرات حاصل کرنے والا بناتے ہیں۔ واضح رہے کہ جو طلبہ 80 یا اس سے زیادہ نمبرات حاصل کرتے ہیں تو ان کے پرچوں کی جانچ کے نتیجے میں طلبہ کی کسی غلطی یا غلط جواب کی نشان دہی ہوتی ہے تو اس غلطی کے حوالے سے اس مخصوص طالب علم کو آگاہ کیا جاتاہے اور جس ریاضی کے اصول کو سمجھنے میں اس سے غلطی یا کم زوری ہوئی ہے، اس کو وہ اصول سمجھایا جاتا ہے۔ تاکہ طالب علم کو پچھلی جماعت کے تمام اصولوں سے واقفیت ہوجائے۔
اب آئیے ہم یہ بتاتے ہیں کہ اوپر دی گئی مثال کے 40 طلبہ کے ساتھ’ اے آئی سی یو‘ کا اہتمام کیسے کیا جائے؟
مرحلہ اولجماعت ہشتم کے 40 طلبہ کا ٹیسٹ کیا جائے۔ فرض کیجیے کہ ان میں سے 10 طلبہ نے 80 سے زائد نمبرات حاصل کیے تھے۔ ان 10 طلبہ کے لیے دو تین مخصوص کلاسوں کا اہتمام کیا جائے اور طلبہ نے جوابات لکھنے میں جو غلطیاں کی ہیں، ان کلاسوں میں انھیں واضح کیا جائے تاکہ طلبہ 100 فی صد گذشتہ کلاس کے ریاضی کے اصولوں کو سمجھ لیں۔ اس کے بعد انھیں آٹھویں جماعت کی مستقل کلاس( regular class) میں داخل کردیا جائے۔
مرحلہ دوماب ہمارے پاس 30 طلبہ ہیں جنھوں نے 80 نمبرات سے کم حاصل کیے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تمام طلبہ جماعت ہشتم کے لائق نہیں ہیں۔ اگر انھیں 35 نمبرات سے زیادہ حاصل کرنے کی بنیاد پر جماعت ہشتم میں بٹھایا بھی جاتا ہے تو طلبہ کو تناؤ محسوس ہوگا۔ اس لیے کہ انھوں نے گذشتہ نصاب سے پوری طرح واقفیت حاصل نہیں کی ہے۔ لہٰذا ان 30 طلبہ کا ایک اور امتحان ان کی تعلیمی عمر یا بیس لائن (baseline) معلوم کرنے کے لیے کیا جانا چاہیے۔ اب ہم ان 30 طلبہ کا جماعت ششم کا ٹیسٹ لیں گے۔
مرحلہ سومفرض کیجیے کہ جماعت ششم کے ٹیسٹ کے نتیجے میں 30 طلبہ میں سے 20 طلبہ نے 80 نمبرات سے زیادہ حاصل کیے۔ اس امتحان کا نتیجہ یہ بتاتا ہے کہ 20 طلبہ کی تعلیمی لیاقت جماعت ہفتم کی ہے۔ اس لیے کہ انھوں نے 80 سے زائد نمبرات حاصل کیے ہیں۔ ان 20 طلبہ کو 6 یا 10 کے گروپ میں تقسیم کردیا جائے گا۔ یعنی ان 20 طلبہ کے دو یا تین گروپ بنائے جائیں گے۔ طلبہ کے سیکھنے کی صلاحیت کے اعتبار سے استاد گروپوں کی تشکیل کرلے، یعنی ہر گروپ میں ذہین، اوسط اور کم زور تینوں طرح کے طلبہ ہونے چاہییں۔ (گروپ سازی کا ایک طریقہ ہم آنے والے صفحات میں طلبہ کی گروپ سازی کے عنوان کے تحت بیان کریں گے۔ اگر اساتذہ اس تکنیک کا مطالعہ کرلیں گے تو مفید تر گروپ سازی میں مدد ملے گی)۔
ان دو یا تین گروپوں کو جماعت ہفتم کا نصاب پڑھایا جائے گا۔ ان کی یہ مخصوص کلاس کوچنگ کے انداز کی ہوگی نہ کہ عام روایتی کلاس۔ یہ’ اے آئی سی یو‘کم سے کم ہر دن ڈیڑھ یا دو گھنٹے کی ہونی چاہیے۔ جب اس کلاس کا اہتمام کیا جائے گا تو’ اے آئی سی یو‘کے طلبہ ریاضی کی ریگولر کلاس attend نہیں کریں گے۔
ایک اور مضمون یا تو لنگویج یا پھر سوشل اسٹڈیز کی کلاس سے بھی ان طلبہ کو رخصت دی جاسکتی ہے۔ یہ’ اے آئی سی یو‘ تقریباً 15 دن تا ایک ماہ جاری رکھا جائے۔ تاوقتیکہ طلبہ جماعت ہفتم کی ریاضی کا مکمل نصاب پورا کرلیں۔ نصاب کی تکمیل کے بعد ان طلبہ کو جماعت ہشتم (آٹھویں جماعت) کی ریگولر کلاس میں بٹھایا جائے۔
مرحلہ چہارماب دس طلبہ وہ رہ گئے ہیں جنھوں نے اوپر بیان کردہ ( چھٹی جماعت کے ریاضی ٹیسٹ ) میں 80 سے کم نمبرات حاصل کیے ہیں۔ ان طلبہ کی تعلیمی عمر ( اکیڈمک ایج ) معلوم کرنے کے لیے ان کا درجہ پنجم کی ریاضی کا ٹیسٹ لیا جائے۔ فرض کیجیے کہ ٹیسٹ کا نتیجہ یہ بتاتا ہے کہ دس میں سے پانچ طلبہ نے 80 سے زیادہ نمبرات حاصل کیے ہیں اور پانچ طلبہ نے 80 نمبرات سے کم، تو سمجھاجائے گا کہ پانچ طلبہ کی تعلیمی عمر درجہ ششم یا گریڈ 6 کی ہے۔ ان پانچ طلبہ کے لیے’ اے آئی سی یو‘ کا اہتمام کیا جائے گا۔ پہلے انھیں جماعت ششم کا نصاب مکمل کرایا جائے گا پھر ہفتم کا اور ہفتم کے نصاب کی تکمیل کے بعد انھیں آٹھویں جماعت کی ریگولر کلاس میں بھیجا جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ ان طلبہ کی’ اے آئی سی یو‘کلاس دوماہ تک چلے۔ اب رہ گئے مزید پانچ طلبہ، ان پانچ طلبہ کا ٹیسٹ چوتھی جماعت کے لیے لیا جائے گا۔ اگر یہ تمام پانچ طلبہ 80 نمبرات سے زیادہ حاصل کرتے ہیں تو ان کی’ اے آئی سی یو‘کلاس جماعت پنجم کے نصاب سے شروع ہوگی۔ اگر ان پانچ طلبہ میں سے ایک طالب علم یا دو طلبہ 80 نمبرات سے کم حاصل کرتے ہیں تو پھر ان کا ٹیسٹ مزید پچھلی کلاسوں کے لیے ہوگا۔ ٹیسٹ کے بعد ان کے ذریعے حاصل کیے گئے نمبرات ان کی تعلیمی قابلیت یا اکیڈمک ایج کو بیان کریں گے۔ مندرجہ بالا اصولوں کے مطابق ان کے لیے’ اے آئی سی یو‘کا اہتمام کیا جائے۔
ہم نے اوپر’ اے آئی سی یو‘کے طریقۂ کار کو واضح کیا ہے۔’ اے آئی سی یو‘کے طریقۂ کار میں بیس لائن یا طلبہ کی اکیڈمک ایج معلوم کرنے کے طریقے کو استاد اپنے طور پر بھی وضع کرسکتے ہیں۔ اسی طرح’ اے آئی سی یو‘کلاس کا اہتمام بھی اوپر بیان کردہ طریقے کے ذریعے کیا جاسکتا ہے یا اس کے علاوہ بھی کوئی اور مؤثر طریقہ اختیار کیا جاسکتاہے۔ اس پورے پروجیکٹ میں مقصد اہم ہے، نہ کہ طریقۂ کار۔ مقصد یہ ہے کہ طلبہ کی حیاتیاتی عمر اور تعلیمی عمر میں مطابقت پیدا ہوجائے اور ان میں موجود لرننگ گیپ ختم ہوجائے یا کم سے کم ہوجائے۔
ہم نے مثال ریاضی کے مضمون کی دی ہے۔’اے آئی سی یو‘ریاضی (math)اور زبان (language)کے لیے لازماً چلانا چاہیے۔ اس کے علاوہ دیگر مضامین کے لیے بھی’ اے آئی سی یو‘کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ ریاضی کا مضمون ایک ایسا مضمون ہے جس میں اگلی جماعت کے نصاب کا گہرا تعلق پچھلی جماعت کے نصاب سے ہوتا ہے۔ طلبہ پچھلی جماعت کے اصولوں سے پوری طرح واقف نہیں ہوتے ہیں تو پھر انھیں اگلی جماعت کا نصاب مشکل محسوس ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اکثر طلبہ ریاضی سے خوف کھاتے ہیں اوراس مضمون سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح ریاضی کے استاد اس لیے پسندیدہ نہیں ہوتے ہیں کہ وہ طلبہ کو پچھلی کلاس کے اصولوں سے پوری طرح واقفیت کرائے بغیر، یا ان کی صلاحیت کو پرکھے بغیر نصاب کو پڑھانا شروع کردیتے ہیں۔ جب طالب علم کی معلومات کم زور ہوتی ہیں، تو وہ ریاضی سمجھ نہیں پاتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ استاد سے خوف کھاتا ہے یا نفرت کرنے لگتا ہے۔
ریاضی کی طرح زبان کا بھی پوری طرح جاننا اور اس میں قابلیت پیدا کرنا ضروری ہے۔ اگر طلبہ میں زبان دانی کی کیفیت کو بڑھایا جائے، تو وہ دیگر مضامین بھی بڑی حد تک اپنے آپ پڑھ سکتے ہیں۔ اکثر طلبہ نفس مضمون (Concept)تو سمجھ جاتے ہیں لیکن زبان(language) کم زور ہونے کی وجہ سے وہ امتحان میں لکھ نہیں پاتے ہیں۔ زبان کی کم زوری کا ایک اور اثر یہ ہوتا ہے کہ طلبہ سمجھ کر لکھنے کے بجائے رٹے ہوئے جملوں کو امتحان میں لکھ دیتے ہیں۔زبان کی کم زوری عملی اور پروفیشنل زندگی میں طلبہ کے لیے مسائل کھڑے کردیتی ہے اور بیش تر موقعوں پر ترقی کی راہ میں رکاوٹ بھی بنتی ہے۔ اس لیے زبان کی صلاحیت کو پروان چڑھانے کے لیے’ اے آئی سی یو‘ کا اہتمام کرنا کارگر ثابت ہوگا۔
اے آئی سی یو کو مزید سمجھنا چاہتے ہوں تو اس لنک پر مصنف کی ویڈیو کو دیکھا جاسکتا ہے۔

(جاری)
(نوٹ: یہ مضمون اور اس کی آنے والی قسطیں ایک کتابچہ کی شکل میں دستیاب ہیں جسے قارئین دعوت 9844158731پر اپنا پتہ واٹس ایپ کرکے حاصل کرسکتے ہیں۔قارئین دعوت کے لیے کتاب کی قیمت میں خاص رعایت رکھی گئی ہے)
***

 

***

 اگر طلبہ میں زبان دانی کی کیفیت کو بڑھایا جائے، تو وہ دیگر مضامین بھی بڑی حد تک اپنے آپ پڑھ سکتے ہیں۔ اکثر طلبہ نفس مضمون (Concept)تو سمجھ جاتے ہیں لیکن زبان(language) کم زور ہونے کی وجہ سے وہ امتحان میں لکھ نہیں پاتے ہیں۔ زبان کی کم زوری کا ایک اور اثر یہ ہوتا ہے کہ طلبہ سمجھ کر لکھنے کے بجائے رٹے ہوئے جملوں کو امتحان میں لکھ دیتے ہیں۔زبان کی کم زوری عملی اور پروفیشنل زندگی میں طلبہ کے لیے مسائل کھڑے کردیتی ہے اور بیش تر موقعوں پر ترقی کی راہ میں رکاوٹ بھی بنتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 فروری تا 18 فروری 2023