اساتذہ کے لیے رہنمائی سیریز (قسط۔1)

کوویڈ سے متاثرہ اور کم زور طلبہ کے معیار کی بلندی کیسے؟

سید تنویر احمد
ڈائریکٹر ہولسٹیک ایجوکیشن بورڈ، دلی

انتہائی تعلیمی نگہداشت کے مرکز اور قابلیت کے لحاظ سے طلبہ کی گروگروپ بندی کا ایک کامیاب تجربہ
کم زور طلبہ کی سیکھنے کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے دو تجربات کا یہاں تعارف کرایا جائے گا۔
پہلا، اے آئی سی یو (Academic Intensive Care Unitیعنی انتہائی تعلیمی نگہداشت کا مرکز)
دوسرا،طلبہ کے گروپ
ان دونوں کا آپس میں تعلق بھی ہے، کیوں کہ دوسرے تجربے سے پہلے تجربے کو انجام دینے میں مدد ملتی ہے۔
پہلا تجربہ: اے آئی سی یو (Academic Intensive Care Unit)
کوویڈ کی وبا کے نتیجے میں سماج مختلف مسائل سے دوچار ہوا تھا۔ بعض مسائل وقتی تھے جوختم ہوگئے لیکن بعض مسائل کا سلسلہ جاری ہے، جن میں سے ایک بچوں کی تعلیم کا مسئلہ ہے۔ کوویڈ وبا کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران طویل مدت تک اسکول بند رہے۔یہ میعاد کم و بیش دو سال تک رہی۔ کچھ اسکول درمیان میں کچھ مدت کے لیے کھولے بھی گئے۔ بہتوں نے آن لائن تعلیم کو جاری رکھنے کی کوشش کی تھی، لیکن ٹکنالوجی کے مسائل اور انٹرنیٹ کی دور دراز علاقوں میں عدم فراہمی کی وجہ سے آن لائن تعلیم سے طلبہ محروم رہے۔ تعلیم سے محرومی کے علاوہ دیگر سماجی و گھریلو مسائل بھی بچوں میں تناؤ بڑھانے کا محرک بنے۔ اس تناؤ کے سبب بچوں میں سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوئی۔ کوویڈ میں بچوں پر پڑنے والے ان اثرات کو جاننے کے لیے مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں نے چھوٹے بڑے سروے کیے۔ حکومت ہند کی وزارت تعلیم نے بھی ایک سروے کیا تھا جسےnational achievement survey کہا جاتا ہے۔ اس سروے نے چونکانے والے نتائج پیش کیے۔ سروے کے مطابق ہائی اسکول تک کے طلبہ کے درمیان کوویڈ کی وجہ سے دو مضامین میں، جن میں ریاضی (math)اور زبان (language) شامل ہیں سیکھنے کی صلاحیت میں تشویش ناک حد تک کم زوری دیکھی گئی۔ ان دونوں مضامین کے حوالے سے کیا گیا تجزیاتی مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ زبان کے معاملے میں طلبہ میں تقریباً 40 فی صد کم زوری ریکارڈ کی گئی۔ جب کہ یہ کم زوری ریاضی کے مضمون میں 50 فی صد تک دیکھنے میں آئی۔ یہاں کم زوری سے مراد یہ ہے کہ طلبہ اپنی سابقہ جماعتوں میں پڑھائے گئے اسباق کو بھول گئے تھے۔ ریاضی اور زبان میں یہ کم زوری ان کے لیے اونچی جماعتوں میں مضامین کو سمجھنے میں مشکلات پیدا کررہی تھی۔یہ مسئلہ ریاضی کے ساتھ زیادہ تھا۔ اس لیے کہ ریاضی کے مضمون میں پچھلی جماعتوں کے اسباق کو سمجھنا اور ذہن نشین رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ زبان کے ساتھ بھی ہے۔
اس مسئلے کو’پڑھائی کا پچھڑا پن‘(learning gap)کہا جاتا ہے۔ لرننگ گیپ کی جہاں ایک بڑی وجہ کوویڈ رہی ہے،وہیں عام حالات میں بھی کئی ایسے عناصر ہیں جو طلبہ پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کی تعلیمی صلاحیت کو کم زور کردیتے ہیں۔ بعض طلبہ جو لرننگ گیپ کا شکار ہوتے ہیں ان میں سے اکثر تعلیم کو منقطع کردیتے ہیں جنھیں ہم’ ڈراپ آؤٹ‘بھی کہتے ہیں۔ اس کتابچے میں کوویڈ کی وجہ سے پیدا شدہ لرننگ گیپ کے مسئلے کے علاوہ ’ڈراپ آؤٹ‘ کا حل بھی ساتھ ہی پیش کیا گیا ہے۔ بیان کردہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کئی تجاویز پیش کی گئی تھیں۔ جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا کہ یہ مسئلہ صرف کوویڈ ہی کی وجہ سے نہیں پیدا ہوا تھا، بلکہ اس کے علاوہ دیگر وجوہات بھی ہیں۔ اس لیے یہ تصور کرنا غلط ہوگا کہ لرننگ گیپ صرف کوویڈ کی وجہ سے ہوا ہے اور اس کو حل کرنے کے بعد یہ مسئلہ دوبارہ پیش نہیں آئے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ مستقل رہے گا اور اس کے حل کی تدابیر بھی مسلسل اختیار کی جانی چاہئییں۔اس لیے اس کتابچے میں بیان کردہ ’اے آئی سی یو‘کی مستقل اہمیت ہے۔ اس کے حل کے لیے عام طور پر’تعلیمی کم زور ی کے تدارک کی کلاسوں‘(special classes/remedial classes )کا اہتمام کیا جاتاہے۔ ایسی کلاسیں اکثر اسکولوں میں سالانہ امتحانات کے بعد منعقد کی جاتی ہیں۔ ان کلاسوں سے کچھ تو فائدہ ہوتاہوگا لیکن ہماری نظر میں اس سسٹم کی دو کم زوریاں ہیں۔
اول، طالب علم سال بھر تک بنا سمجھے اس خاص مضمون کو پڑھتا رہتا ہے۔ مثلاً ریاضی کے اہم اصولوں (concepts)سے ناواقف رہتا ہے۔ اس کی اس کم زوری کے باوجود اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ سال بھر تک ریاضی کی کلاس میں حاضر رہے۔ چوں کہ وہ بنیادوں سے ناواقف ہوتا ہے، اس لیے اسے ریاضی کے گھنٹے میں تناؤ محسوس ہوتا ہے۔ اسی تناؤ کی وجہ سے کم زور طلبہ ریاضی کے مضمون سے خوف کھانے لگتے ہیں اور ریاضی کے استاد سے بھی۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ امتحان کے بعد خصوصی کلاسوں کا اہتمام کرنے کے بجائے سال کے آغاز ہی میں کم زور طلبہ کے معیار کو اتنا اونچا اٹھا دیا جائے کہ وہ متعلقہ جماعت کے مضامین کو سمجھ سکیں۔
اس سسٹم کی دوسری کم زوری یہ ہے کہ سالانہ امتحانات کے بعد طلبہ کی نفسیات چھٹیاں منانے کی ہوتی ہیں۔ طلبہ کو چھٹیوں کے بجائے مزید کلاسوں کے لیے مجبور کیا جاتا ہے تو اس سے سیکھنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ طلبہ میں یہ احساس تناؤ پیدا کرتا ہے کہ وہ تعلیمی اعتبار سے کم زور ہیں۔ اس کا ایک اور منفی پہلو یہ ہے کہ جو طلبہ اسپیشل کلاسوں میں شامل ہوتے ہیں وہ نفسیاتی طور پر خود اعتمادی میں کم زور ہوجاتے ہیں۔اس لیے کہ اساتذہ انھیں جس انداز سے مخاطب کرتے ہیں وہ منفی ہوتا ہے اور طلبہ پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ طلبہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی کم زوریوں کی وجہ سے چھٹیوں کا مزا لینے کے بجائے وہ کلاس روم میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ یہ تو رہا طلبہ کی نفسیات کا معاملہ۔ دوسری جانب اسپیشل کلاس لینے والے اساتذہ بھی منفی نفسیاتی تناؤ محسوس کرتے ہیں۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کم زور طلبہ کی وجہ سے وہ چھٹیوں کی خوشیاں حاصل نہیں کرپارہے ہیں۔ چھٹیاں گزارنے کے لیے انھوں نے جو منصوبہ بنایا ہوا تھا، اس پر پانی پھر جاتا ہے۔ ان کے اوقات عام اسکولی دنوںکے اوقات جیسے گزرنے لگتے ہیں۔یہ احساس اساتذہ میں چڑچڑاپن پیدا کردیتا ہے، نتیجتاً اسپیشل کلاسوں کے طلبہ کو اس طرح نہیں سکھایا جاتا جس طرح عام دنوں میں کلاسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بعض اسکولوں میں تو یہاں تک دیکھنے میں آیا کہ اساتذہ ان کم زور طلبہ سے جان چھڑانے کے لیے انھیں صرف اتنا ہی پڑھاتے ہیں جتنا کہ انھیں امتحان میں حل کرنا ہوتا ہے۔ ایسے اساتذہ کم زور طلبہ کے لیے منعقد کیے جانے والے خصوصی امتحان کے پرچوں کو فاش (out)کردیتے ہیں تاکہ وہ کم سے کم محنت کرپائیں۔
بعض اسکولوں کا رویہ اس انتہا تک غیر انسانی ہوتا ہے کہ وہ کم زور بچوں کا معیار بہتر بنانے کے بجائے اپنے اسکول سے ہی خارج کردیتے ہیں۔ انھیں یہ کہہ کر ٹرانسفر سرٹیفکیٹ دے دیا جاتا ہے کہ آپ ہمارے اسکول کے لائق نہیں ہیں۔ آپ کی وجہ سے ہمارے اسکول کا معیار گھٹ جائے گا جس کے نتیجے میں اسکول کی بدنامی ہوگی۔ یہ رویہ اسکولوں میں سماجی انصاف کے مغائر ہے۔
اگر اس تجزیے سے اتفاق ہو تو پھر کیوں نہ کسی اور سسٹم کو اختیار کیا جائے، جس میں یہ خامیاں نہ ہوں اور طلبہ اور اساتذہ دونوں ہی بغیر کسی بد دلی اور تناؤ کے اس مسئلے کو حل کرسکیں۔
چوں کہ یہ مسئلہ کوویڈ سے پہلے بھی موجود تھا، اس لیے اس کے حل کے لیے مختلف ماہرین نے اپنی تجاویز پیش کی تھیں۔ حکومت دہلی کی جانب سے چلائے جارہے اسکولوں میں بھی لرننگ گیپ کو دور کرنے کے لیے ایک کارگر نظام موجود ہے۔ یہ اور اس طرح کے اور بھی نظام اور نمونوں (modules)کا مطالعہ کرکے ہم ذیل میں ایک ماڈیول پیش کررہے ہیں۔ اس کا نام اے آئی سی یو یعنی’ انتہائی نگہداشت کا تعلیمی مرکز‘ ہے۔ اے آئی سی یو کے اس ماڈیول کو گذشتہ کئی برسوں سے ’شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنز‘ بیدر، کام یابی کے ساتھ نافذ کررہا ہے۔ اس نظام کے ذریعے شاہین گروپ نے بڑے دل چسپ اور حیرت انگیز نتائج حاصل کیے ہیں۔ اسی نظام کے ذریعے شاہین گروپ حفاظ کرام کو جدید تعلیم سے قلیل مدت میں جوڑ کر میٹرک کا امتحان دلواتاہے۔ وہ طلبہ جو کبھی اسکول نہیں گئے تھے، وہ اس نظام کے ذریعے میٹرک اور بارہویں کے امتحانات میں اعلیٰ نمبرات حاصل کرکے نیٹ (NEET) کے ذریعے میڈیکل اور دیگر کورسوں میں داخلہ لے رہے ہیں۔
اے آئی سی یو سسٹم کے نفاذ کے لیے مندرجہ ذیل اصول (concept) اور مراحل (stages)کو سمجھنا ضروری ہے۔ پہلے ہم اس کی وضاحت کریں گے، پھر’ اے آئی سی یو‘کے عملی پہلوؤں کو پیش کریں گے
(۱) ہر طالب علم کی عمر کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے
حیاتیاتی عمر(biological age)۔ یہ طلبہ کی وہ عمر ہے جو ہم اس کی حقیقی عمر قرار دیتے ہیں۔
تعلیمی عمر(academic age)۔ یہ دراصل بچے کی تعلیمی لیاقت کو ظاہر کرنے کی عمر ہے۔ اس عمر کو ذہنی عمر (mental age) بھی کہا جاتا ہے۔ اسے ہم جماعت یا گریڈ کے پیمانے سے ناپتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی بچے کی حیاتیاتی عمر 6 سال 4 ماہ ہے تو اس کی تعلیمی عمر گریڈ 1 یا پہلی جماعت کی ہونی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے’یو کے جی‘کے تمام مضامین سے اور اس کے نصاب سے واقفیت ہونی چاہیے۔ اسی طرح اگر کسی طالب علم کی حیاتیاتی عمر 7سال 5 ماہ ہے تو اس طالب علم کی تعلیمی عمر دوسری جماعت (گریڈ 2) کی ہوگی، یعنی اس طالب علم کو گریڈ 1 کے نصاب سے پوری واقفیت ہونی چاہیے۔
اگر بچے کی تعلیمی عمر اور اس کی حیاتیاتی عمر میں مطابقت پیدا نہیں ہورہی ہے تو ہم اسے لرننگ گیپ کہتے ہیں۔ مثلاً ایک طالب علم جس کی حیاتیاتی عمر 8 سال 6 ماہ ہے، اس کی تعلیمی عمر تیسری جماعت یا گریڈ 3 کی ہونی چاہیے۔ اب فرض کریں کہ اس طالب علم کو گریڈ 2 کی ریاضی کے تمام اصولوں سے واقفیت نہیں ہے ،یا پھر گریڈ 2 میں زبان دانی جس معیار کی ہونی چاہیے وہ نہیں ہے۔ وہ طالب علم بس گریڈ 1 یا کلاس فرسٹ کی ریاضی کے اصولوں ہی کو جانتا ہے اور اس کی زبان دانی بھی گریڈ 1 کی سطح کی ہے تو ہم یہ کہیں گے کہ اس کی حیاتیاتی عمر 8 سال 6 ماہ ہے اور تعلیمی عمر گریڈ 1 کی ہے۔ اس طالب علم کا لرننگ گیپ ایک سال کا ہے۔ اس لیے کہ اسے دوسری جماعت کے نصاب سے مکمل واقفیت ضروری تھی، تاکہ وہ تیسری جماعت میں اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکے۔
ایک اور مثال ہم پیش کرتے ہیں۔ فرض کیجیے کہ ایک طالب علم کی حیاتیاتی عمر 13 سال اور 3 ماہ ہے تو اس طالب علم کی تعلیمی گریڈ 8 یا جماعت ہشتم کی ہونی چاہیے، لیکن اس کی صلاحیت و قابلیت جانچنے سے معلوم ہوا کہ وہ نہ تو ریاضی اور نہ ہی زبان کی معلومات جماعت ہشتم کے معیار کی رکھتا ہے، بلکہ اس میں جماعت پنجم ہی کی قابلیت ہے۔ اس طرح جانچ سے یہ پتہ چلا کہ طالب علم کی حیاتیاتی عمر 13 سال کی ہے اور تعلیمی عمر درجہ ششم کی۔ جب کہ اس کی تعلیمی عمر درجہ ہشتم ( گریڈ 8 ) کی ہونی چاہیے تھی۔ اس طالب علم کا لرننگ گیپ دو سال کا مانا جائے گا۔ ان مثالوں کے ذریعے ہم نے حیاتیاتی عمر، تعلیمی عمر اور لرننگ گیپ کو واضح کیا ہے۔
اب آئیے ہم طلبہ کی تعلیمی عمر معلوم کرنے کا ایک طریقہ تجویز کرتے ہیں۔ یہ طریقہ عام امتحانات جیسا ہی ہے۔ اگر ہم بچوں کی تعلیمی عمر جانچنا چاہتے ہیں تو پہلے ان کی حیاتیاتی عمر معلوم کی جائے اور اس عمر سے پانچ کو منہا کیا جائے۔ جو عدد باقی رہے گا وہ اس کی تعلیمی عمر ہوگی۔ لیکن ضروری نہیں کہ بچے کی تعلیمی عمر اسی اصول سے رہے۔ اس لیے کہ مختلف وجوہات کی بنا پر بچوں کی تعلیمی عمر ان کی حیاتیاتی عمر کے مطابق نہیں ہوتی ہے۔ اسے جانچنے کے لیے ہمیں بچوں کے پچھلے درجے کا امتحان لینا ہوگا۔ امتحان کے پرچے میں ہر سبق سے دو سوالات لیں۔ مثلاً اگر ریاضی کی جماعت پنجم کی کتاب میں 15 اسباق ہیں تو ہر سبق سے دو سوالات کو ترتیب دیں، تو اس طرح جماعت پنجم کے لیے 30 سوالات ہوں گے۔ ان 30 سوالات کے کل نمبرات 100 ہونے چاہییں۔ یہ تو رہا ریاضی کے پرچے کو ترتیب دینے کا طریقہ۔ دیگر مضامین کے لیے بھی یہی اصول اختیار کیا جاسکتا ہے۔
اس طریقے کے علاوہ اساتذہ دیگر انداز بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ مثلاً زبانی ٹیسٹ، انٹرویو کے ذریعے صلاحیت کو معلوم کرنا یا کوئز کے ذریعے۔ اگر طالب علم اسی اسکول کا ہے جس میں وہ اب تعلیم حاصل کررہا ہے تو پچھلے درجات (classes) میں حاصل کیے گئے نمبرات کے ذریعے بھی صلاحیت کی جانچ اور تعلیمی عمر کو پرکھا جاسکتا ہے۔ (جاری)
(نوٹ: یہ مضمون اور اس کی آنے والی قسطیں ایک کتابچہ کی شکل میں دستیاب ہیں جسے قارئین دعوت 9844158731پر اپنا پتہ واٹس ایپ کرکے حاصل کرسکتے ہیں۔قارئین دعوت کے لیے کتاب کی قیمت میں خاص رعایت رکھی گئی ہے)
***

 

***

 بعض اسکولوں کا رویہ اس انتہا تک غیر انسانی ہوتا ہے کہ وہ کم زور بچوں کا معیار بہتر بنانے کے بجائے اپنے اسکول سے ہی خارج کردیتے ہیں۔ انھیں یہ کہہ کر ٹرانسفر سرٹیفکیٹ دے دیا جاتا ہے کہ آپ ہمارے اسکول کے لائق نہیں ہیں۔ آپ کی وجہ سے ہمارے اسکول کا معیار گھٹ جائے گا جس کے نتیجے میں اسکول کی بدنامی ہوگی۔ یہ رویہ اسکولوں میں سماجی انصاف کے مغائر ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 فروری تا 11 فروری 2023