اساتذہ کے لیے رہ نمائی سیریز (قسط ۔4)

کلاس روم مینجمنٹ: سائنس بھی اور آرٹ بھی

سید تنویر احمد
ڈائریکٹر ہولسٹیک ایجوکیشن بورڈ، دلی

کلاس روم میں ٹیچر کیسے داخل ہوں
کلاس روم میں ٹیچر کس انداز سے داخل ہوتے ہیں اور بچوں سے کس طرح مخاطب ہوتے ہیں۔ اس کا بڑا اثر بچوں پر پڑتا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے لکھا ہے کہ ٹیچر میں تین خصوصیات لازماً ہونی چاہئیں۔ وہ ہیں : دستار ، گفتار اور کردار۔ یہاں دستار کا مطلب لباس ہے۔ تو ٹیچر چاہے مرد ہو یا عورت، جب کلاس روم میں داخل ہوتے ہیں تو ان کا لباس شائستہ ہونا چاہیے ۔ ان کے لباس سے ان کی شخصیت جھلکتی ہے۔ ایسا لباس نہ پہنا جائے کہ معلوم ہو کہ کسی فیشن شو میں جارہے ہیں یا کوئی ایسا لباس جوسماج میں معتبر نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اگر ایسا لباس پہن کر کلاس روم میں داخل ہوتے ہیں تو بچوں پر منفی اثر پڑتا ہے اور ٹیچر کا وقار جو بچوں کے دلوں میں ہونا چاہیے وہ نہیں رہتا۔ بلکہ اس سے بچوں کی نظر میں ٹیچر کا احترام کم ہوتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ لباس کا خاص خیال رکھا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ ٹیچر اپنی تنخواہ کا کم سے کم دس فی صد حصہ اپنے لباس کے رکھ رکھاؤ پر خرچ کریں ۔ یہ ان کے پروفیشن کا تقاضا ہے۔
ٹیچر کلاس روم میں جب داخل ہوتے ہیں تو وہ پوری طرح بچوں کی طرف متوجہ ہوکر داخل ہوں، بعض وقت وہ موبائل فون پر گفتگو کرتے ہوئے کلاس روم میں داخل ہوتے ہیں۔یہ عمل مناسب نہیں ہے۔ ٹیچر کلاس روم میں وقت پر داخل ہوں۔ اگر تاخیر سے داخل ہوتے ہیں تو اس کا منفی اثر بچوں پر پڑتا ہے اور اس دوران بچے کلاس روم کے ماحول کو بگاڑ سکتے ہیں۔
بعض ٹیچر کلاس روم میں داخل ہوتے ہوئے جماہی لیتے ہیں یا پھر ان کے چہرے پر سستی و غنودگی کے اثرات طاری رہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔
کلاس کا آغاز
یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ ٹیچر کلاس روم میں داخل ہوتے ہوئے کس طرح مخاطب ہوتے ہیں؟ بعض اسکولوں میں آج بھی یہ نظام رائج ہے کہ ٹیچرکے کلاس روم میں داخل ہوتے ہی بچے کھڑے ہوکر سلام کرتے ہیں۔ جب کہ دینی طریقہ یہ ہے کہ محفل میں داخل ہونے والا شخص سلام کرے۔ اس لیے مناسب یہ ہے کہ ٹیچر جب کلاس میں داخل ہوں تو وہ سلام کریں اور بچے اس کا جواب دیں۔ سلام کرتے وقت ٹیچر کو چاہیے کہ وہ اپنے لب و لہجے کو بھی بہتر رکھیں۔ ان کی باڈی لنگویج بھی بہتر ہونی چاہیے ۔ وہ بچوں کی طرف دیکھ کر ، ان کی نظروں سے نظریں ملا کر سلام کریں۔ سلام صرف زبان سے ادا کردینے والے چند الفاظ کا نام نہیں ہے بلکہ ٹیچر کے انداز تخاطب اور ان کی نظروں سے یہ جھلکے کہ وہ بچوں کے حق میں دعا کررہے ہیں ، ان سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں ، ان سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ بعض ٹیچر رسماً سلام کرتے ہیں ۔ ان کا چہرہ یا تو نیچے ہوتا ہے یا بلیک بورڈ کو صاف کرتے کرتے سلام کرتے ہیں یا پھر موبائل فون ہاتھ میں ہوتا ہے ، کچھ واٹس ایپ میسیج دیکھتے ہوئے سلام کرتے ہیں۔ نظریں موبائل پر ٹکی ہوتی ہیں اور زبان سے الفاظ ادا ہورہے ہوتے ہیں۔اس طرح کے رویے سے ٹیچر کا بچوں کے ساتھ جو رابطہ پیدا ہونا چاہیے ، وہ پوری طرح نہیں ہوپاتا۔ سلام کے بعد عام طور پر ٹیچر سبق پڑھانا شروع کریتے ہیں یا بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ابتدا سے ہی کلاس میں ایک منفی ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ جب کلاس میں منفی ماحول پیدا ہوجاتا ہے تو پھر طلبہ پڑھ نہیں پاتے ۔ اس لیے بچوں کو پڑھنے کی طرف آمادہ کرنے کے لیے آغاز کا مناسب انداز اختیار کرنا چاہیے ۔ اس کے لیے ٹیچر چاہیں تو کوئی لطیفہ ، کوئی اچھا سا چھوٹا مختصر واقعہ سنادیں یا کوئی پہیلی پیش کرسکتے ہیں یا کوئز کرواسکتے ہیں۔ اس طرح کی کوئی ہلکی پھلکی سرگرمی ہوجائے تو بچوں کے اندر موجود تناؤ دور ہوسکتا ہے۔ بہترین ٹیچر وہ ہیں جو کلاس کا آغاز بچوں کے تناؤ کو دور کرکے کرتے ہیں۔ آپ مربی ہیں۔ کلاس روم کو مینیج کرنے میں ٹیچر کا بہت بڑا رول ہے۔
کلاس روم میں ٹیچر کا رویہ
ٹیچر موجودہ زمانے میں محض ٹیچر نہیں ہے۔ اور وہ اسکول جو اقدار پر مبنی تعلیم دینا چاہتے ہیں ، ان کے نزدیک ٹیچر کی حیثیت مربی کی ہوتی ہے۔ ٹیچر اور مربی میں بہت زیادہ فرق ہے۔ ٹیچر بچوں میں صرف معلومات کو کتاب سے یا اپنے دماغ سے بچوں کے ذہنوں میں منتقل کرتا ہے۔ موجودہ زمانے میں ہم اسکولوں میں ٹیچر زیادہ اور مربی جسے انگریزی میں (Mentor) کہاجاتا ہے، کم دیکھتے ہیں ۔ مینٹر یا مربی طلبہ کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ بچے عام طور پر ٹیچروں سے معلومات ہی حاصل نہیں کرتے بلکہ ان سے طور طریقے بھی سیکھتے ہیں۔ یہ عمل ابتدائی جماعتوں میں زیادہ ہوتا ہے۔ مثلًا آپ اپنے گھروں میں دیکھتے ہوں گے کہ چھوٹے بچے اسکول سے گھر واپس آکر ٹیچر کی نقل زیادہ کرتے ہیں۔ مثلا وہ کہیں گے
”All of you sit down”
یا بچی ہاتھ میں لکڑی تھامے کہے گی اور کہے گی
”Put your finger on your lip”
یا بچیاں کہیں گی
”All of you keep quite”
اصل میں یہ بچے اپنے اساتذہ کی نقل کرتے ہیں۔ اگر ٹیچر چھڑی کا استعمال کرتے ہیں اور اس سے بچوں کو سزا دیتے ہیں تو بچے گھر میں آکر اس کی نقالی کرتے ہیں۔ یہاں ایک دلچسپ واقعہ ہم بیان کرنا چاہیں گے۔ ایک دفعہ ایک ماں ہمارے پاس ایک بچی کو لے کر آئی۔ بچی ’یو کے جی‘ کی طالبہ تھی۔ ماں کی شکایت یہ تھی کہ بچی گھر میں دن میں کئی بار پین ، پنسل یا کسی اور چیز کو لے کر ہونٹوں پر رگڑتی ہے۔ اس طرح جیسے کہ عورتیں لپ اسٹک ( Lip Stick) لگاتی ہیں۔ اس چیز کو ہونٹوں پر رگڑنے کے بعد دونوں ہونٹوں کو اسی طرح دباتی ہے جس طرح لڑکیاں لپ اسٹک کو لگا کر اس میں یکسانیت لانے کے لیے اپنے ہونٹوں کو دباتی ہیں۔ ماں کا کہنا تھا کہ گھر میں کوئی لپ اسٹک نہیں لگاتا ہے۔پتہ نہیں بچی نے اس طرح کی عادت کہاں سے سیکھی ہے ، یہ بڑا عجیب لگتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ پاس پڑوس کی کوئی خاتون لپ اسٹک لگاتی ہیں تو ماں کا کہنا تھا کہ بچی پڑوس کے فلیٹ میں بہت کم جاتی ہے اور ویسے بھی پڑوس میں لپ اسٹک کا استعمال کرنے والی خواتین نہیں ہیں۔ پھر میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ بچے یا تو ماں باپ اور گھر کے بڑوں سے عادتیں سیکھتے ہیں یا پھر اسکول میں۔ بچی اتنی چھوٹی تھی کہ یہ کہنا مشکل تھا کہ اس کی سہیلیاں لپ اسٹک کا استعمال کرتی ہوں گی۔ میں نے یہ گمان کیا کہ شاید ٹیچر بار بار کلاس روم میں لپ اسٹک کا استعمال کرتی ہوں گی۔ تفتیش کرنے پر پتہ چلا کہ جب اسکول اختتام کے قریب ہوتا تو اس بچی کی ایک ٹیچر اسکول چھوڑنے سے پہلے کلاس روم میں میک اپ کرتی ہیں اور لپ اسٹک کا استعمال بھی کرتی ہیں۔ یہ عمل اس ٹیچر کے ذریعے لگ بھگ روزانہ اختیار کیا جاتا تھا۔ کلاس میں بچیاں بھی ٹیچر کو دیکھا کرتی تھیں۔ اس بچی نے اس عمل کو بغور دیکھا اور بنا سوچے سمجھے اسے کسی حد تک اختیار کرلیا تھا ۔ تو یہ مطالعہ بتاتا ہے کہ بچے ٹیچروں کے رویوں کو بھی اپنے دماغ اور تحت الشعور میں بٹھالیتے ہیں۔ ٹیچر کا بچوں کے ساتھ سلوک ، گفتگو اور ان کے ساتھ برتاؤ طلبہ پر گہرے اثرات ڈالتا ہے۔ یہاں ذیل میں ہم چند رویوں کا ذکر کررہے ہیں:
(الف)کلاس میں داخل ہونے کے بعد اگر ٹیچر بچوں سے مخاطب ہوئے بغیر بلیک بورڈ کی جانب اپنا چہرہ کیے ہوئے کچھ لکھتے ہوئے پڑھاتے ہیں تو کم زور طلبہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کئی ٹیچر بلیک بورڈ کی طرف ہی اپنا چہرہ کرکے سوالات پوچھتے ہیں۔ جواب اکثر ذہین طلبہ کی طرف سے آتا ہے۔ ایسا ٹیچر یہ سمجھتا ہے کہ وہ جواب جو ذہین طالب علم نے دیا ہے ، وہ اس کا جواب ہی نہیں بلکہ تمام طلبہ کا جواب ہے۔ یہ تصور غلط ہے۔ بہترین ٹیچر وہ ہے جو طلبہ کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو کرے۔ صرف ذہین طلبہ ہی نہیں بلکہ کم زور طلبہ سے بھی سوال کرے۔غرض ٹیچر کا چہرہ بلیک بورڈ کی جانب کم اور طلبہ کی جانب زیادہ ہونا چاہیے ۔
(ب)طلبہ سے مخاطبت بھی ایک اہم نکتہ ہے۔ اکثر ٹیچر طلبہ کو ان کی کم زوریوں کی نشان دہی کرتے ہوئے مذاق اڑاتے ہیں یا پھر انہیں مختلف غیر مناسب ناموں سے مخاطب کرتے ہیں۔ بالخصوص کم زور طلبہ کو مختلف نام دیے جاتے ہیں۔ مثلًا کاہل ، جاہل، لیٹ لطیف ، تھرڈ کلاس اسٹوڈنٹ، ڈل اسٹوڈنٹ، ناکارہ، بدھو، گدھے، موٹو، پتلو، جوکر وغیرہ۔ اس طرح کے ناموں سے بچوں میں نفسیاتی طور پر کم زوری پیدا ہوجاتی ہے اور وہ پڑھنے کے معاملے میں ٹیچر کی اس طرح مخاطبت سے مزید پچھڑتے چلے جاتے ہیں۔ کئی طلبہ ٹیچروں کے اس طرح کے رویے سے ڈراپ آؤٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، اسکول ، ٹیچر اور مضمون سے انہیں نفرت ہونے لگتی ہے۔
(ج)ٹیچروں کو چاہیے کہ بچوں کو ہمیشہ اچھے ناموں سے پکاریں ، منفی انداز کو اختیار نہ کریں۔ ہر طالب علم ، ہر دن کچھ نہ کچھ سیکھ سکتا ہے لیکن اسے ٹیچر کے ذریعے ہمت افزائی اور مثبت رویے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کلاس روم میں ٹیچر طلبہ کی حوصلہ شکنی(Discourage) نہ کریں ۔ انہیں پست ہمت نہ کریں۔ بلکہ ان کی حوصلہ افزائی (Motivate) کریں ، انھین ہمت دلائیں۔
(د) بعض طلبہ کلاس میں دیر سے آتے ہیں یا چست نہیں بیٹھتے ہیں ، وہ کلاس میں چستی نہیں دکھاتے ہیں یا ذہنی تناؤ میں رہتے ہیں، اس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ بہترین ٹیچر وہ ہے جو کلاس روم میں بچوں کو ہمت دلائے۔ اگر کسی طالب علم میں وہ تناؤ دیکھتے ہیں یا کم زوری پاتے ہیں تو اس طالب علم کو اکیلے میں بلائیں اور اس کی تفصیلات حاصل کریں۔ یہ مربی کا کام ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے طالب علم کے گھر میں کوئی مسئلہ ہو یا پھر وہ از خود صحت کے کسی مسئلے سے دوچار ہو۔ کئی طلبہ آنکھوں کے امراض سے دوچار ہوتے ہیں۔ انہیں بلیک بورڈ پر لکھی ہوئی چیزیں صحیح دکھائی نہیں دیتی ہیں، تو وہ مجبوراً پڑوس میں بیٹھے بچے کی کاپی ( بیاض ) پر بار بار نظر ڈالتے ہیں۔ یہ حرکت بعض ٹیچروں کو پسند نہیں آتی۔ ایک طالب علم کے والد نے اسی طرح کی شکایت ہم سے کی تھی۔ ٹیچر بچے کی مجبوری کو سمجھ نہیں پارہا تھا۔ بعدازاں معلوم ہوا کہ بچے کی آنکھوں میں ایک بڑا مسئلہ تھا۔ اس لیے ٹیچروں کو چاہیے کہ ایسے بچے جو غیر نارمل رویوں (Behaviour) کو پیش کرتے ہیں، انہیں الگ بلا کر ان سے بات کریں ، ان کی کونسلنگ کریں اور ان کے مسئلے کو سمجھیں۔ کلاس روم میں طلبہ کی ہمت افزائی پورے کلاس روم میں ایک مثبت لہر پیدا کردیتی ہے۔ طلبہ مثبت رویے اور مثبت کلام کرنے والے ٹیچروں کو زندگی بھر یاد رکھتے ہیں۔
(ھ) بچوں کو سزا دینے کے معاملے میں بھی احتیاط برتنی چاہیے ۔ اگر کوئی طالب علم کلاس روم میں شرارت کرتا ہے تو اس طالب علم کو کنٹرول کرنے کا عام طریقہ تو یہ ہے کہ اسے سزا دی جاتی ہے لیکن ایسا کرنے سے اس کا طالب علم کی شخصیت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ سزا کے بجائے بہتر رویہ یہ ہے کہ اس طالب علم کو یا تو اگلی صف میں بٹھایا جائے یا پھر ٹیچر اپنے قریب بٹھالے۔ ایسے طلبہ کی بعض وقت کونسلنگ بھی ہونی چاہیے ۔ بعض اسکولوں میں ایسے طلبہ کی کونسلنگ کے لیے پرنسپل کے آفس میں ایک کرسی ہوتی ہے جس کا نام کرسی برائے احساس خطا ( Realization Chair) رکھا گیا ہے۔ اس کرسی پر بچے کو بٹھادیں اور اکیلے میں اس سے سوالات پوچھیں کہ آپ شرارت کیوں کررہے ہیں ۔ اگر آپ کو بھری کلاس میں سزا دیں تو کیسا لگے گا۔ اگر پچھلی بنچ پر کھڑا کردیں تو کیسا لگے گا۔ اگر گھر واپس بھیج دیں تو کیسا لگے گا۔ اگر اس رویے کی شکایت تمھارے ابو سے کردیں تو کیسا لگے گا۔ بچے کو وقت دیں اور کہیں کہ وہ اس پر غور کرے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جو شریر بچے ہوتے ہیں ، انہیں الگ تھلگ (Isolate) کردیا جائے۔ انہیں دیگر بچوں سے علیحدہ کردیا جائے اور دیگر بچوں سے کہا جائے کہ کوئی ایسے شریر بچے کا تعاون نہ کرے ، الا یہ کہ وہ کلاس روم میں شرارت کم کردے یا بند کردے۔ شرارت پر پوری طرح قابو پایا نہیں جاسکتا ۔ شرارت ایک الگ چیز ہے، ڈسپلن ایک الگ چیز۔ ڈسپلن کلاس روم میں ہونا چاہیے ۔ جو بھی ڈسپلن کو بگاڑ ے گا ، اس سے عدم تعاون کا معاملہ کرنا چاہیے ۔ (جاری )
(مکمل مواد کتابچے کی شکل میں دستیاب ہے۔ اور 9844158731 پر وھاٹس ایپ مسیج بھیج کراس کتابچہ کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔)
***

 

***

 وہ اسکول جو اقدار پر مبنی تعلیم دینا چاہتے ہیں ، ان کے نزدیک ٹیچر کی حیثیت مربی کی ہوتی ہے۔ ٹیچر اور مربی میں بہت زیادہ فرق ہے۔ ٹیچر بچوں میں صرف معلومات کو کتاب سے یا اپنے دماغ سے بچوں کے ذہنوں میں منتقل کرتا ہے۔ موجودہ زمانے میں ہم اسکولوں میں ٹیچر زیادہ اور مربی جسے انگریزی میں (Mentor)کہاجاتا ہے، کم دیکھتے ہیں ۔ مینٹر یا مربی طلبہ کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ بچے عام طور پر ٹیچروں سے معلومات ہی حاصل نہیں کرتے بلکہ ان سے طور طریقے بھی سیکھتے ہیں۔ یہ عمل ابتدائی جماعتوں میں زیادہ ہوتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 جنوری تا 21 جنوری 2023