سید تنویر احمد
ڈائریکٹر ہولسٹیک ایجوکیشن بورڈ، نئی دلی
کلاس روم کے ہر طالب علم کی مثال ایک پتھر کی سی ہے جسے تراش کر استاد اسے قیمتی نگینہ بناتا ہے۔ اس عظیم مقصد کے تحت کلاس روم میں جس ماحول کو ترتیب دیا جانا چاہیے، وہ ماحول بھی اسی مناسبت سے ہونا چاہیے۔
اسکول کا ایک اہم حصہ کلاس روم ہوتا ہے۔ کلاس روم محض ایک چہار دیواری نہیں ہے بلکہ اس میں قومیں جنم لیتی ہیں اور ملک و ملت کا مستقبل طے ہوتا ہے۔ یہاں آدمی انسان بنتا ہے، معرفت الہی حاصل ہوتی ہے اور انسان کو اللہ سے قریب کیا جاتا ہے۔ یہ دراصل تعلیم و تربیت اور تزکیہ کا مرکز ہوتا ہے۔
کلاس روم کبھی دار ارقم ہوا کرتا تھا تو کبھی مسجد نبوی کا صفہ اور پھر مراقش کی جامعۃ القرویین کی شکل میں بھی رونما ہوا اور آج دنیا بھر میں مختلف شکلوں میں موجود ہے۔ کلاس روم مینجمنٹ موجودہ دور میں اسکول مینجمنٹ کا ایک اہم حصہ ہے۔ کلاس روم مینجمنٹ میں یوں تو اہم کردار استاد کا ہوتا ہے لیکن استاد کے ساتھ اس اہم کام میں دوسرا اہم کردار طلبہ اور ان کے والدین کا بھی ہے۔ کلاس روم مینجمنٹ ایک سائنس بھی ہے اور آرٹ بھی۔ یعنی کلاس روم کی بہترین ترتیب و انتظام، استاد کے علم و ذہانت، قائدانہ صلاحیت اور ایک اجتماعیت (Team) کو چلانے کی صلاحیت پر منحصر ہے۔ بہترین کلاس روم وہ ہے جہاں طلبہ کو علم حاصل کرنے کی سہولتیں، رہ نمائی، ماحول اور ترغیب ملتی ہے۔ کلاس روم میں بچوں کو معلومات ہی فراہم نہیں کی جاتیں بلکہ ان کے اندر کردار اور اخلاق و اقدار پیدا کیے جاتے ہیں۔ کلاس روم کے ہر طالب علم کی مثال ایک پتھر کی ہے جسے تراش کر استاد اسے قیمتی نگینہ بناتا ہے۔ اس عظیم مقصد کے تحت کلاس روم میں جس ماحول کو ترتیب دیا جانا چاہیے، وہ ماحول بھی اسی مناسبت سے ہونا چاہیے۔ چناں چہ اقدار پر مبنی تعلیم دینے والے اسکولوں میں کلاس روم مینجمنٹ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ذیل میں ہم کلاس روم مینجمنٹ کے اصول و عناصر کو بیان کررہے ہیں۔ وہ امور جنہیں کلاس روم کے اندر یعنی چہار دیواری میں بروئے کار لانا ہے اور جن کا ہمیں لحاظ رکھنا ہے اور وہ بھی جو کلاس روم کے باہر سے اثر انداز ہوتے ہیں۔
کلاس روم مینجمنٹ یعنی کلاس روم کا انتظام و انصرام۔ یہ اصطلاح یوں تو پرانی ہے لیکن ادھر چند سالوں سے اس کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ کلاس روم مینجمنٹ، استاد کی ایک اہم صلاحیت (Skill) کا نام ہے۔ موجودہ زمانے کے اساتذہ کو جن مختلف صلاحیتوں سے آراستہ ہونے کی ضرورت ہے، ان میں سے ایک اہم صلاحیت یا فن کلاس روم مینجمنٹ بھی ہے۔ کلاس روم مینجمنٹ یوں تو ہر سطح کی کلاسوں کے لیے ضروری ہے لیکن بالخصوص سکنڈری اسکول تک یہ فن چند خصوصی صلاحیتیں چاہتا ہے۔ کلاس روم مینجمنٹ ہر سطح کی کلاسوں کے لیے مختلف ہوا کرتا ہے۔ مثلاً ایک پری اسکول کلاس روم مینجمنٹ، دوسرا پرائمری اسکول، اس کے بعد ہائر سکنڈری اسکول یعنی میٹرک تک۔ طلبہ کی عمر کی مناسبت سے کلاس روم مینجمنٹ کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ اس کتابچہ میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ مختلف مراحل اور مختلف درجات میں کس طرح کے مینجمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے یا استاد کو کلاس روم میں کن باتوں کا دھیان رکھنا چاہیے۔
پری پرائمری اسکول
پری پرائمری اسکولوں میں یوں تو کلاسوں کا سسٹم نہیں ہونا چاہیے، کلاسوں کے بجائے مونٹیسوری طریقہ تعلیم (Montessori Education Method) میں ماحول (Environment) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، اسے اختیار کرنا چاہیے۔ انوائرنمنٹ کا مطلب ہے ماحول، یعنی بچے مخصوص ماحول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے، سیکھتے اور آگے بڑھتے ہیں۔ پری پرائمری اسکول ویسے بنیادی طور پر اسکول نہیں ہوتا ہے۔ تمام ماہرین تعلیم کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ بچوں کو اسکول کے لیے تیار کرنے کا مرحلہ ہوتا ہے۔ چناں چہ پری پرائمری اسکولوں میں اس طرح کا اسٹرکچرڈ باضابطہ کلاسوں کا نظام اور طریقہ کار نہیں ہونا چاہیے جس طرح گریڈ اول یا درجہ اول سے کیا جاتا ہے۔ اب تو ہماری نئی تعلیمی پالیسی میں پری پرائمری کے بجائے فاؤنڈیشن کورس کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ بہت جلد اب ریاستوں کے تعلیمی ادارے اور تعلیمی امور کے محکمے (Education Department) اسی پیٹرن کو جاری کریں گے اور اسی طریقہ کار کو اختیار کریں گے۔ فاؤنڈیشن کورس، نرسری سے لے کر گریڈ2 (درجہ دوم) تک ہوگا۔ یعنی تقریباً ساڑھے تین سال سے سات سال کی عمر تک فاؤنڈیشن کورس ہوگا۔ جب بچہ آٹھویں سال میں داخل ہوگا تو وہ گریڈ 3 میں داخل ہوجائے گا۔ گریڈ 3 سے گریڈ 5 یعنی درجہ سوم سے درجہ پنجم تک کو پرائمری ایجوکیشن کہا جائے گا۔ فاؤنڈیشن کورس کا مقصد بچوں کو پرائمری اسکول کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ اس دوران بچوں کے اندر چند بنیادی صلاحیتیں پیدا کی جائیں جن میں سے اہم یہ ہیں:
(1) زبان کی صلاحیت (Language Skill)
(2) بنیادی ریاضی کی صلاحیت (Methematical Skills)
(3) سماجی صلاحیتیں( Social Skills)
(4) صحت و بچوں کی جسمانی نشو و نما ( Motor Skill)
جن میں سماجی مہارت (social skill) ایک وسیع عنوان ہے، جس کے تحت بچوں کے لیے ضروری سماجی صلاحیتیں پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ان سماجی صلاحیتوں میں بچوں میں بنیادی اخلاق کی نشو و نما، بچوں کی جذباتی و نفسیاتی تربیت اور بچوں میں انفرادی و اجتماعی زندگی گزارنے کے بنیادی اصولوں کی تعلیم دینا بھی شامل ہے۔
بچوں کی جسمانی نشو ونما پری اسکول کا ایک اہم مقصد ہے۔ ابتدائی عمروں میں بچوں کے لیے متوازن تغذیہ صحت کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ چنا ں چہ حکومت کی جانب سے قائم پری اسکول جنہیں بعض ریاستوں میں بال واڑی و آنگن واڑی کہا جاتا ہے، ان میں حکومت کی جانب سے بچوں کو مناسب غذا بھی فراہم کی جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں جو (Hunger Index) منظر عام پر آیا تھا اس میں ایک سو بیس ممالک کی فہرست میں بھارت کو ایک سو ساتواں مقام حاصل ہوا تھا۔ یہ تشویش کا امر ہے۔ اس کی ایک وجہ بچوں کو غیر متوازن غذا ملنا ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اکثر پری اسکول کے کلاسوں میں بچوں کے لیے متوازن غذا کی فراہمی کا انتظام نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی اسکول اس کے لیے والدین کی تعلیم و رہ نمائی کا انتظام کرتے ہیں۔
جنک فوڈ کے نقصانات کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے اور اس کے فوری بعد بچے آلو کے چپس کھانے لگتے ہیں۔ یہ عمل بھی کلاس روم کے مینجمنٹ کا غماز ہے۔
حقیقتاً پری پرائمری اسکولوں میں زیادہ اہمیت بچوں کی صحت، ان کے اندر سماجی صلاحیتیں بڑھانے کی ہے، جس میں ڈسپلن بھی شامل ہے۔ انہیں بڑی اہمیت پہلے بھی حاصل رہی ہے اور آج بھی ہے۔ چنا ں چہ اسی اہمیت کے پیش نظر پری پرائمری ایجوکیشن کو چند برسوں پہلے تک خواتین اور خاندانی بہبود (Women and Family Welfare Dept) یا بعض ریاستوں میں خاندانی اور بچوں کی بہبود (Women and Child Welfare Dept) کے تحت رکھا گیا تھا۔ بہر حال اس کی مزید تفصیلات ہیں۔ یہاں ہم یہ بحث نہیں کررہے ہیں کہ پری پرائمری اسکول کا نصاب (Syllabus) کیا ہوتا ہے اور کیسے پڑھایا جاتا ہے۔ ہم یہ بنیادی معلومات یہاں اس لیے پیش کررہے ہیں کہ اس کے مطابق پری پرائمری اسکول کے ٹیچر کلاس روم کی ترتیب کو انجام دیں اور کلاس روم مینجمنٹ کریں۔ آئیے سب سے پہلے ہم مختصر سی گفتگو اس پر کرتے ہیں کہ پری پرائمری اسکولوں کا کلاس روم کیسا ہونا چاہیے؟
کلاس روم کا سائز
پری اسکول کے کلاس روم کا سائز جو مختلف ریاستی حکومتوں نے تجویز کیا ہے وہ 18×22 فٹ ہونا چاہیے۔ سی بی ایس سی کے اسٹینڈرڈ کے مطابق یہ سائز 22×25 فٹ ہوجاتا ہے۔ لیکن جن اسکولوں میں مانٹیسوری تعلیمی اصول (Montessori Education Method) اختیار کیا گیا ہے، اس میں کلاس روم کا سائز اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے کہ مانٹیسوری تعلیمی اصول میں کلاس روم نہیں ہوتا بلکہ ماحول ہوتا ہے۔ ایک بڑے ہال میں چھوٹے چھوٹے پارٹیشن کرکے مختلف ماحول بنائے جاتے ہیں۔ چوں کہ عام طور پر ہندستان کے پری اسکول مانٹیسوری اصول تعلیم کو اختیار نہیں کرتے، اس لیے ہم اس پر زیادہ تفصیلات میں نہیں جائیں گے۔18×22 فٹ کے ہال میں عام طور پر مختلف انداز کی پینٹنگ کرائی جاتی ہے۔ ہم نے کئی اسکولوں میں دیکھا ہے کہ کلاس روم کی دیواروں پر مختلف جملے لکھے ہوتے ہیں یا پھر کہیں کہیں ہم نے کچھ مشہور کہاوتیں، محاورے یا مذہبی معلومات لکھی ہوئی دیکھی ہیں۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اگر آپ پری اسکول میں لمبے لمبے جملے لکھ دیں یا ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ جیسی نظم لکھ دیں تو کیا یہ جملے اور یہ نظم بچے پڑھ سکتے ہیں؟ اگر بچے اتنے قابل نہیں ہیں کہ وہ پڑھ سکیں تو پھر کیوں لکھا جاتا ہے۔
بہتر یہ ہے کہ کلاس روم کی آدھی دیوار پر کچھ ہلکی سی پینٹنگ ہو اور زیادہ تر دیوار ہلکے پینٹ والی رکھی جائے تاکہ ماحول خوشں گوار نظر آئے اور ان دیواروں پر وقتا فوقتا کچھ چارٹ لٹکائے جاتے رہیں تو بچوں کو ان چارٹوں پر فوکس کرنے میں سہولت ہوگی۔اگر پوری دیوار پینٹنگ سے بھر دی جاتی ہے تو بچے کسی خاص چارٹ پر فوکس نہیں کر سکتے۔ یہاں ہم جن چارٹوں کا ذکر کر رہے ہیں، وہ تعلیمی چارٹ ہیں جنہیں ہم امیج میموری کے ذریعے بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ نرسری میں بچوں کو ’ a‘ پڑھا رہے ہیں تو بڑے سائز کا’A‘ پینٹ کیا ہوا ہینگر کلاس روم کی چاروں دیواروں کی اوپری سطح پر لگا دیں تو یہ چارٹ دن بھر بچے کے ذہن پر نقش ہوتا رہے گا۔ اس کا اثر اس وقت بہتر ہوگا جب اس دیوار پر ہلکا سا پینٹ ہو اور اس پر کوئی دوسرا ڈیزائن نہ ہو، تو اس طرح کلاس روم میں پینٹنگ کا اہتمام بچوں کے لیے بار آور ہوگا۔
کلاس روم میں آئینہ
پری اسکول کے کلاسوں میں دو سے ڈھائی فٹ کا ایک آئینہ دیوار کے نچلے حصے پر لگایا جائے۔ یہ آئینہ کلاس روم کے داخلے کے قریب ہونا چاہیے۔ بچے کلاس روم میں داخل ہوکر اپنے آپ کو جب آئینے میں دیکھتے ہیں تو اس سے بچوں پر کئی نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں اوراس سے کئی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ مثلاً جب بچے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتے ہیں تو انہیں یہ اندازہ لگانے میں زیادہ مشکل نہیں ہوتی کہ ان کے بال بے ترتیب تو نہیں ہیں، ان کا لباس کیسا ہے، لباس صحیح انداز میں پہنا گیا ہے یا نہیں وغیرہ۔ بچے جب اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتے ہیں تو ان کے اندر ایک خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ اگر کوئی بچہ تناؤ لیے آتا ہے یا اگر کچھ بچے روتے ہوئے آتے ہیں تو آئینے میں دیکھ کر ان کا تناؤ ختم ہوجاتا ہے اور روتا ہوا بچہ ہنسنے لگتا ہے۔ آئینے کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ وہ آئینے کے سامنے مختلف انداز سے نقالی (Acting) کرکے اور چہرے بناکر سرور حاصل کرتے ہیں۔ کبھی دوستوں کے گلے میں ہاتھ ڈال کر تو کبھی دوستوں کو چھیڑ کر لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے ایک آئینہ فاؤنڈیشن کورس میں یعنی نرسری سے گریڈ 2 یا جماعت دوم کی کلاسوں میں لگانا چاہیے۔ (جاری)
(مکمل مواد کتابچے کی شکل میں دستیاب ہے۔ اور 9844158731 پر وہاٹس ایپ مسیج بھیج کراس کتابچہ کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔)
***
بچوں کی جسمانی نشو ونما پری اسکول کا ایک اہم مقصد ہے۔ ابتدائی عمروں میں بچوں کے لیے متوازن تغذیہ صحت کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ چنا ں چہ حکومت کی جانب سے قائم پری اسکول جنہیں بعض ریاستوں میں بال واڑی و آنگن واڑی کہا جاتا ہے، ان میں حکومت کی جانب سے بچوں کو مناسب غذا بھی فراہم کی جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں جو (Hunger Index) منظر عام پر آیا تھا اس میں ایک سو بیس ممالک کی فہرست میں بھارت کو ایک سو ساتواں مقام حاصل ہوا تھا۔ یہ تشویش کا امر ہے۔ اس کی ایک وجہ بچوں کو غیر متوازن غذا ملنا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 ڈسمبر تا 31 ڈسمبر 2022