اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری۔۔

صحافی صدیق کپن سے متھرا جیل میں وحشتناک سلوک

وقار حسن و غزالہ احمد

’دوران تفتیش مجھے ہر جواب پر تھپڑ مارا جاتا۔ ٹی وی چینل پر پابندی کے خلاف احتجاج کے بعد سے ہی میں نشانے پر تھا‘
’اڈانی کی اصل کہانی بیرونی کمپنی کے ذریعہ سامنے آئی، بھارت کے صحافی خوف کے ماحول میں جی رہے ہیں‘
اکتوبر 2020میں ایک دلت خاتون کی مبینہ عصمت ریزی اور قتل کی واردات کی رپورٹنگ کے لیے صحافی صدیق کپّن کو اتر پردیش کے مقام ہاتھرس جانے کے دوران راستے میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔ دو فروری 2023 کو اٹھائیسں ماہ سے زیادہ عرصہ تک جیل میں رہنے کے بعد انہیں سپریم کورٹ اور الہ آباد ہائیکورٹ نے دو علیحدہ مقدمات میں ضمانت منظور کی تھی۔ Clarion India کے نمائندے وقار حسن اور غزالہ احمد کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے قید کے دوران یو پی پولیس اور سرکاری حکام کے ہاتھوں ان کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر، ان کی نجی زندگی اور قید میں رہنے کے دوران ان کے افراد خاندان پر پڑنے والے اثرات کے علاوہ بھارتی صحافیوں اور میڈیا کی صورت حال کے بارے میں گفتگو کی، جس کے اقتباسات اس طرح ہیں:
سوال: جب آپ یو پی کے مقام ہاتھرس میں ایک دلت خاتون کی مبینہ عصمت ریزی اور قتل کی واردات کی رپورٹنگ کے لیے جارہے تھے تو یو پی پولیس نے آپ کو کن وجوہات کے تحت گرفتار کیا تھا اور گرفتاری کے وقت آپ کے ساتھ کیا ہوا تھا؟
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یو پی کے علاقہ ہاتھرس میں ایک دلت خاتون کی مبینہ عصمت ریزی اور پھر اس کے قتل کی واردات کی رپورٹنگ کے لیے اکتوبر 2020 کو ہم ہاتھرس جارہے تھے۔ جب ہم متھرا کے ٹول گیٹ پر پہنچے تو دیکھا کہ وہاں پولیس کی جانب سے ہر کار کی تلاشی لی جارہی تھی۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ یہ تلاشی کیوں لی جارہی تھی۔ اس وقت میں آدھی نیند میں گاڑی میں بیٹھا تھا۔ چند منٹ بعد ایک پولیس اہلکار ہماری گاڑی کے پاس آیا اور پوچھا کہ ہم کہاں اور کس کام کے لیے جا رہے ہیں؟
میں نے پولیس اہلکار کو پریس کلب آف انڈیا کا اپنا شناختی کارڈ دکھایا اور کہا کہ میں نیوز پورٹل سے وابستہ صحافی ہوں اور اپنے اخبار کے لیے ایک عصمت ریزی اور قتل کی رپورٹنگ کے لیے ہاتھرس جارہا ہوں۔ رپورٹنگ کا سنتے ہی اس پولیس عہدہ دار نے ہماری کار کے ڈرائیور کو گھسیٹتے ہوئے باہر نکالا، خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور ہماری کار کا رخ دلی کی جانب موڑ کر پارک کر دیا۔ ہماری کار میں وہ ہمارے ساتھ تقریباً آدھا گھنٹہ یونہی بیٹھا رہا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کہ آخر معاملہ کیا ہے؟ اگر ہاتھرس جانے میں پولیس کو کوئی اعتراض ہے تو کم از کم ہمیں دلی واپس جانے دیجیے۔ اس وقت تک ہماری کار کے قریب تین چار پولیس اہلکار اور آگئے، وہ کسی سے فون پر بات کر رہے تھے۔ ہمیں ہماری ہی کار میں بند کر دیا گیا۔ فون پر بات ختم ہونے کے بعد انہوں نے دلی واپس جانے کی اجازت دے دی لیکن دلی جانے سے پہلے، قریبی پولیس اسٹیشن میں پانچ منٹ کے لیے آنے کا حکم دیا۔ وہاں سے ہم ان کے بتائے ہوئے پولیس اسٹیشن پہنچے۔ لیکن پولیس اسٹیشن میں ہمیں پانچ منٹ کے بجائے صبح دس بجے سے شام پانچ بجے تک یونہی بٹھا دیا گیا، نہ کسی نے پانی کو پوچھا نہ کھانے کو۔ اس دوران میں نے اپنا لیپ ٹاپ کھولا اور بھوکا پیاسا اپنا کام شروع کردیا۔ اس دوران ایک پولیس اہلکار نے ہمیں بتایا کہ وہ ہمارے لیے اپنے کسی عہدہ دار سے اگلے حکم کا انتظار کر رہا ہے۔ اس وقت پولیس اسٹیشن میں میرے اور میرے ڈرائیور کے علاوہ دو آدمی اور تھے جنہیں یونہی بٹھا دیا گیا تھا۔ شام چھ بجے سادہ لباس میں کچھ پولیس افسران آئے اور پوچھا کہ ہم میں سے کیرالا سے تعلق رکھنے والا صحافی صدیق کپّن کون ہے؟ اس کے بعد وہ مجھے ایک کمرے میں لے گئے جہاں پر مجھ سے تفتیش شروع کی۔ وہ مجھ سے مسلسل مختلف قسم کے بے تکے سوالات کرتے رہے۔ سب سے پہلے انہوں نے پوچھا’’تم کتنی بار اسلام آباد جا چکے ہو؟‘‘ ’’تم اسلامی مذہبی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائک سے کتنی مرتبہ ملے ہو، جو اس وقت ملایشیا میں ہے؟‘‘ ’’تمہاری
گرل فرینڈس کون کون ہیں؟‘‘ ’’کیا تم ماو نواز ہو؟‘‘ ’’کیا تم جے این یو اسٹوڈنٹس یونین کی ایک تنظیم ڈی ایس یو کے حامی ہو؟‘‘
اس کے بعد انہوں نے مجھے ماو نواز اور کمیونسٹوں کے حامی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، میرا موبائل چھین لیا گیا اور اس میں کچھ تلاش کرنے لگے، فون واپس کرتے ہوئے پوچھنے لگے کہ میرے فون میں زیادہ تر مسلمان قائدین کے نمبرات ہی کیوں ہیں؟ دراصل میرے لیپ ٹاپ میں بھی دیگر نمبروں کے ساتھ ساتھ کچھ مسلم قائدین کے فون نمبر بھی درج تھے۔ انہوں نے ان مسلم قائدین کے بارے میں بھی بے تکے سوالات کیے۔ ان کے ان تمام سوالات کے جواب دینے کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ اگر ان مسلم قائدین کے فون نمبرات میرے پاس ہیں تو اس میں غلطی کیا ہے؟ اتنا سننا تھا کہ ایک پولیس افسر نے میرے منہ پر زور دار طمانچہ مارا۔ دراصل وہ مجھ سے ایسے جوابات کے متمنی تھے جو ان کے مزاج، ان کی پسند اور ان کے مقصد سے مطابقت رکھتے ہوں۔ میں ان پولیس افسروں میں سے کسی کا نام نہیں جان سکا۔ وہ سب مل کر مجھے ذہنی اور جسمانی، دونوں طرح سے مسلسل ٹارچر کر رہے تھے۔
انہوں نے پوچھا ’’کیا تم بیف کھاتے ہو؟‘‘ پھر پوچھا ’’میں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں کیوں تعلیم حاصل کی؟‘‘ میں نے جواب دیا کہ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا باقاعدہ طالب علم نہیں ہوں بلکہ اردو پڑھنے کے لیے فاصلاتی کورس مکمل کررہا ہوں۔ اس پر انہوں نے پوچھا ’’اردو کیوں سیکھنا چاہتے ہو؟‘‘ اس پر میں نے جواب دیا کہ میں تو عربی کی تعلیم بھی حاصل کر رہا ہوں۔ اس پر انہوں نے میری عینک اتاری، پہلے چہرے پر لگاتار تھپڑ مارتے رہے پھر ایک لاٹھی سے میری ٹانگوں پر مارا اور سر پر گھونسے بھی مارے۔ اس کے بعد بلا وجہ تھپڑ مارنے کا سلسلہ یونہی بہت دیر تک جاری رہا۔ بلا مبالغہ، ہر سوال کے جواب کے بعد مجھے تھپڑ مارا جاتا تھا۔ جب ایک پولیس عہدہ دار چلا جاتا تو اس کی جگہ فوراً دوسرا تازہ دم افسر آجاتا۔ اس دوران وہاں اے ٹی ایس لکھنوٗ کے کچھ افسر بھی آگئے۔ اس مسلسل تفتیش کے دوران، میں ان افسران کی گنتی بھول گیا کہ کتنے افسروں نے میری تفتیش کی تھی۔ کسی بھی افسر نے اپنا تعارف نہیں کروایا کہ وہ کون ہے نہ انہوں نے کوئی سرکاری یونیفارم پہنا ہوا تھا، وہ سب سادہ لباس میں تھے۔ اگر میں ان سے کچھ پوچھنے کی جرات کرتا تو وہ مجھے پوری طاقت سے تھپڑ مارتے تھے اور ساتھ ساتھ فحش گالیاں بھی دیتے جاتے۔ مجھے محسوس ہوا کہ یقیناً پولیس عہدہ داروں اور جیل حکام کو عوام کو اس طرح بلاوجہ گالیاں دینے کی خصوصی تربیت دی گئی ہے یا انہیں اس کی خود بخود عادت سی پڑ چکی ہے۔
سوال: اس حادثے کی صحافتی رپورٹنگ کے لیے یقیناً دیگر مقامات سے کئی اور صحافی بھی آئے ہوں گے۔ پھر صرف آپ ہی کو اس تشدد کا نشانہ کیوں بنایا گیا؟
دراصل میں اس وقت کیرالا یونین آف ورکنگ جرنلسٹس کا سکریٹری تھا۔ فروری 2020 میں دہلی فسادات کے بعد مرکزی حکومت نے دو ملیالی ٹی وی چینلس پر دو دن کے لیے پابندی عائد کی تھی۔ اس پابندی اور مرکزی وزارت داخلہ کے اس غیر
جمہوری حکم کے خلاف میں نے احتجاج منظم کیا تھا۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ جرنلسٹس یونین کا سکریٹری ہونے کے ناطے، میں نے اس احتجاج کی قیادت بھی کی تھی۔ اتفاق سے اس احتجاجی مظاہرے میں ہمارے ساتھ سی پی آئی ایم کے کچھ قائدین بھی بطور اظہار یگانگت شامل ہو گئے تھے۔ شاید اسی دن سے میں پولیس کے نشانے پر تھا۔ احتجاج کے دوران جب میں تقریر کر رہا تھا تو کچھ پولیس عہدہ داروں وہاں موجود لوگوں سے میری ذاتی معلومات، نام اور موبائل نمبر بھی حاصل کر چکے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اسی دن سے میں پولیس اور انتظامیہ کی نظروں میں میں کھٹک رہا تھا۔ چنانچہ اس احتجاج کے کچھ دنوں بعد ہی آر ایس ایس سے وابستہ ایک گمنام ویب سائٹ پر میرے خلاف ایک پروپگنڈہ شروع کیا گیا۔ اسی چینل نے دعوی کیا کہ صدیق کپّن پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے کروڑوں روپے لے چکا ہے جو ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کروانے کے لیے خرچ کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ اس چینل نے مجھ پر کئی بے بنیاد اور فرضی الزامات بھی لگائے اور افواہیں بھی پھیلائی گئیں۔ جب مجھے لگا کہ اب پانی سر سے اونچا ہونے لگا ہے تو میں نے اس ویب سائٹ کے خلاف ایڈووکیٹ کی جانب سے ایک قانونی نوٹس بھیجی۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے پریس کے ذریعے ان تمام الزامات کی تردید بھی کی کہ میرا تعلق نہ پی ایف آئی سے ہے نہ کانگریس سے نہ کسی اور سیاسی پارٹی سے۔ مجھے لگتا ہے شاید اس قانونی نوٹس کے رد عمل کے طور پر آر ایس ایس اور بی جے پی نے مجھے نشانہ بنایا حالانکہ دیگر بے شمار صحافی ہاتھرس میں پولیس اور انتظامیہ کی ناکامیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے ہاتھرس جارہے تھے۔ دراصل حکومت کو اس بات کا شدید خدشہ تھا کہ اگر صحافی، ہاتھرس معاملے کو نربھیا کیس کی طرح ابھارنے میں کامیاب ہوگئے تو ریاستی حکومت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ محض ہاتھرس ریپ کیس پر سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے مجھے قربانی کا بکرا بنایا گیا۔
سوال: آپ کو کب پتہ چلا کہ آپ کو گرفتار کر لیا گیا ہے؟ گرفتاری کے بعد آپ کے ساتھ کیا ہوا؟
پانچ اکتوبر کو مجھے متھرا کے ایک پولیس اسٹیشن میں زیر حراست رکھا گیا۔ اگلے دن مجھے پولیس اسٹیشن سے کسی نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔ میں نہیں جانتا کہ وہ کونسی جگہ تھی۔ جس Innova کار میں مجھے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا تھا اس پر بی جے پی کا جھنڈا لگا ہوا تھا۔ پولیس اسٹیشن کا ایک انچارج اہلکار، گاڑی چلا رہا تھا۔ مجھے متھرا کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے دفتر لے جایا گیا اور مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ یہاں مجھے پتہ چلا کہ میں قانونی طور پر باضابطہ گرفتار ہو چکا ہوں اور آئی پی سی کی دفعہ 151 کے تحت میرے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ میں نے مجسٹریٹ کو بتایا کہ میں ذاتی مچلکے پر ضمانت حاصل کرسکتا ہوں کیونکہ مجھ پر دفعہ 151کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس پر مجسٹریٹ نے صرف اتنا کہا کہ وہ یہاں سے مجھے صرف اسی صورت میں جانے کی اجازت دیں گے جب جیل سے کوئی ذمہ دار افسر مجھے لینے آئے گا۔ اس کے بعد مجھے چودہ دنوں کی حراست میں جیل بھیج دیا گیا۔ دراصل ایک سرکاری اسکول کو عارضی طور پر قرنطینہ مرکز صحت اور عارضی جیل میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اسی مرکز کے ایک کمرے میں مجھے دیگر چالیس تا پچاس افراد کے ساتھ فرش پر بٹھا دیا گیا جس میں بیت الخلا کی بھی سہولت نہیں تھی۔ بیت الخلا کے بجائے اسی کمرے میں ایک کونے میں ایک بالٹی رکھی ہوئی تھی جس میں ایک کے بعد ایک قیدی ضرورت سے فارغ ہوتا تھا۔ اس کمرے میں مجھے اکیس دن رکھا گیا۔ نومبر میں مجھے متھرا جیل منتقل کیا گیا۔ یہاں بھی جیل کے ہر کمرے میں گنجائش سے زیادہ قیدی ٹھونسے گئے تھے۔ ایک کمرے میں دیگر اسی
قیدیوں کے ساتھ مجھے بھی رکھا گیا۔ اس وقت تک میں اپنے گھر والوں یا خاندان کے کسی فرد سے کوئی رابطہ قائم نہ کرسکا تھا۔ وہ نہیں جانتے کہ میں کہاں اور کس حال میں ہوں۔ مجھے بعد میں یہ بھی پتہ چلا کہ جیل میں جب میرا وکیل مجھ سے ملنے پہنچا تو جیل کے حکام نے اسے مجھ سے ملاقات کی اجازت نہیں دی اور اسے واپس لوٹا دیا گیا۔
سوال: جیل میں قید کے دوران آپ کے دماغ میں پیدا ہونے والے سب سے زیادہ خدشات یا پریشانیاں کی تھیں؟
مجھے جیل منتقل ہونے تک یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ مجھے UAPA کے قانون کے تحت گرفتار کرکے جیل میں قید کر دیا گیا ہے۔
میں اب تک اس غلط فہمی کا شکار تھا کہ مجھے دفعہ 151 کے تحت ہی گرفتار کیا گیا ہے اور مجھے پندرہ دنوں کے اندر ضمانت مل جائے گی۔ مجھے اس حقیقت کا علم اس دن ہوا جب انفورسمنٹ ڈائرکٹریٹ کے ذمہ دار افسران مجھ سے تفتیش کرنے جیل پہنچے۔ اس کے باوجود اب بھی مجھے یقین نہیں آیا کہ ED نے بھی مجھ پر مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ اس کے بعد کسی نے مجھے یہ نہیں بتایا کہ میرے خلاف مزید کون کون سی دفعات کے تحت مقدمات دائر کیے گئے ہیں۔ اس غیر یقینی صورت حال کے باوجود، میں سوچتا تھا کہ آج نہیں تو کل مجھے ضرور رہائی ملے گی کیونکہ واقعتا میں نے کسی بھی جرم کا ارتکاب نہیں کیا تھا بلکہ ٹریفک قوانین کی بھی خلاف ورزی تک نہیں کی تھی۔ ہمیشہ سرکاری عہدہ داروں کے ساتھ تعاون ہی کرتا رہا۔ میں حکومت کے ذمہ داروں سے سوال کرتا ہوں کہ کیا کسی جرم کا ارتکاب کرنے کے لیے میں ایک قلم، ایک نوٹ بک اور لیپ ٹاپ اپنے ساتھ لے جاوں گا؟ فی الواقعی میں تو عصمت ریزی اور قتل کے واقعے کی رپورٹنگ کے لیے ہی ہاتھرس جا رہا تھا۔ جیل میں حراست کے دوران میں مسلسل تناو کا شکار رہا۔ گھر سے جب نکلا تھا تب میری ماں اور میرا بیٹا بیمار تھے، خصوصاً میری والدہ کی طبیعت تشویشناک حد تک خراب تھی۔ مجھے اندازہ لگانا بھی مشکل ہو رہا تھا کہ میری شدید بیمار ماں کس حال میں ہوگی؟ اسی تناو کے ماحول میں ایک مہینہ گزر گیا۔ اس وقت تک میں گھر کے کسی فرد سے رابطہ نہ کر سکا۔ پینتالیس دن بعد مجھے خاندان کے کسی ایک فرد سے صرف دو منٹ کے لیے بات کرنے کی اجازت دی گئی۔ لیکن مجھے اس بات کا پابند کیا گیا کہ میں صرف ہندی یا انگلش میں بات کرسکتا ہوں۔ اس پر میں نے اعتراض کرتے ہوئے جیل حکام سے کہا کہ میرا تعلق کیرالا سے ہے اور میں اپنی ماں سے بات کرنا چاہتا ہوں جو ملیالم زبان کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں جانتی۔ جیل حکام کے ساتھ تھوڑی سی بحث کے بعد مجھے ملیالم زبان میں دو منٹ بات کرنے کا موقع دیا گیا۔ اس بات چیت کے بعد میرے گھر والوں کو پتہ چلا کہ میں متھرا جیل میں UAPA کے تحت قید ہوں۔
سوال: آپ پر جو سنگین الزامات لگائے گئے تھے ان کے بارے میں آپ کو کیا معلومات تھیں اور آج آپ اپنے دفاع میں کیا کہنا چاہیں گے؟
دراصل مجھ پر لگائے گئے الزامات کا علم خود مجھے اس وقت ہوا جب میں نے جیل میں ایک ہندی اخبار پڑھا۔ اخبار نے میری گرفتاری کے بارے میں جھوٹ کی بنیاد پر خبر اور ایک تبصرہ بھی شائع کیا تھا۔ اخبار نے لکھا تھا کہ میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے وابستہ ہوں اور پی ایف آئی نے مجھے نقد سو کروڑ روپے دے کر ریاست یو پی میں فرقہ وارانہ فسادات کروانے اور عوام کو آپس میں بھڑکانے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ میں یہ بتلاتا چلوں کہ ان تمام جھوٹے اور انتہائی سنگین الزامات کا پردہ سپریم کورٹ میں فاش ہوا جب سپریم کورٹ نے ای ڈی سے اس کے ثبوت مانگے۔ الہ آباد کورٹ نے بھی انفورسمنٹ ڈپارٹمنٹ سے یہ جاننا چاہا کہ اس محکمے کا پانچ ہزار روپے کی معمولی رقم کے مقدمے سے کیا لینا دینا ہے؟ اگر اس بنیاد پر کسی شہری کے خلاف قانونی کارروائی کرنی ہی ہے تو گوتم اڈانی کا معاملہ کیوں ہاتھ میں نہیں لیا؟ جن پر کئی سنگین الزامات ہیں اور آج تک ای ڈی نے ان سے پوچھ تاچھ کرنے کے لیے انہیں طلب ہی نہیں کیا۔ میں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ پینتالیس ہزار روپے منی لانڈرنگ کا الزام مجھ پر لگایا گیا ہے حالانکہ یہ رقم خود میں نے اپنے ہی اکاونٹ میں جمع کروائی تھی۔ مجھ پر یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ میں نے ایک اجنبی طالب علم کے اکاونٹ میں پانچ ہزار روپے جمع کروائے تھے جس پر ای ڈی نے میرے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کیا۔ میں نے کہا کہ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ ملک کا ایک باوقار ادارہ ہے، ایک ذمہ دار ایجنسی اگر اتنی غیر ذمہ داری اور لاپروائی کے ساتھ کام کرے گی تو اس کا کیا وقار رہ جائے گا، کتنے لوگ اس ایجنسی پر اعتماد کریں گے، جب وہ خود بے قصور شہریوں پر بے بنیاد جھوٹے الزامات لگا کر انہیں زبردستی جیل بھیجنے کی کوشش کررہی ہو؟ دراصل انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کو لین دین کے صرف ان معاملات میں تفتیش کرنے کی اجازت ہے جہاں ایک کروڑ سے زیادہ رقم کا معاملہ ہو۔ اس وضاحت کے بعد میں نے سوال کیا کہ اگر میرے اکاونٹ میں پانچ ہزار یا پینتالیس ہزار روپے ہوں تو کسی کو کیا مسئلہ ہے؟ کیا بھارتی شہریوں کو اپنے اکاونٹ میں ایک لاکھ روپے رکھنے کا بھی حق نہیں؟ میں ایک تنخواہ یافتہ ملازم ہوں، مجھے ہر ماہ تنخواہ ملتی ہے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ ایک اہم ترین ایجنسی ہے، اگر وہ بے گناہ، سیدھے سادے، معصوم شہریوں پر اس طرح جھوٹے الزامات لگا کر بے گناہ عوام کو جیل بھیجنے کی کوشش کرے گی اور عدالت میں وہ خود ان الزمات کو ثابت نہ کرسکے تو ای ڈی کی کیا عزت رہ جائے گی؟
سوال: ایک بے گناہ کی حیثیت سے آپ کی گرفتاری اور بلا وجہ قید میں رہنے کے مسئلے نے بین الاقوامی توجہ حاصل کرچکی ہے۔ آپ کے علاوہ ادیش کمار اور فہد شاہ جیسے دیگر صحافی، آج بھی جیل میں ہیں۔ ان کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
بھارت میں گزشتہ آٹھ نو سالوں کے دوران بے شمار صحافیوں کو جیل پہنچا دیا گیا ہے۔ کوویڈ وبا کے دوران اگر کسی نے حکومت کی ناکامیوں کو شائع یا نشر کیا تو ان میں سے اکثر کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں بے شمار صحافیوں کو حراست میں لے کر جیلوں میں قید کر دیا گیا ہے۔ ان کی صحیح تعداد کا کسی کو علم نہیں۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے تمام بے قصور صحافیوں کو فورا رہا کر دیا جائے۔ صرف اتنا ہی نہیں ہے بلکہ ہمیں ان کی رہائی کے لیے متحدہ طور پر عملی کوششیں کرنی چاہئیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ ملک کے کچھ مشہور اخبارات، حکومت کی جھوٹی تعریفیں کرتے ہیں، ترقی کی غلط خبریں شائع کرتے ہیں، ہر محاذ پر حکومت کی تائید کرتے ہیں اور خصوصاً اپوزیشن پر صرف تنقیدیں ہی کرتے ہیں۔ دراصل اس طرح کرنا ان کی مجبوری ہے اپنی بقا کے لیے اور سرکاری اشتہارات کے لیے۔ اگر ان کے پاس سرکاری اشتہارات نہ ہوں تو ان کا میڈیا ایک ماہ سے زیادہ پنپ نہیں سکتا۔ اسی وجہ سے ایسے اخبار حکومت کی چاپلوسی کرنے پر مجبور ہیں۔ انہیں یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ محض اپنے اخبار، ٹی وی چینل وغیرہ کے نام، شہرت اور دولت کے لیے وہ حقیقی صحافت کو دنیا میں بد نام کر رہے ہیں۔ یو پی سے شائع ہونے والے ہندی اخبارات ’’جاگرن‘‘ اور ’’امر اجالا‘‘ نے مجھے نام نہاد صحافی کہا۔ انہیں اخبارات کے بموجب جو صحافی موجودہ حکومت کی تائید میں، اس کے کاموں کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں، دراصل وہی حقیقی صحافی ہیں۔ اس کے برخلاف جو صحافی حکومت کے کاموں پر تنقید کرتے ہیں یا ان کی پالیسیوں پر سوال اٹھاتے ہیں تو وہ نام نہاد صحافی ہیں۔ اس پر میں تو ضرور کہوں گا کہ رپبلک ٹی وی کے صحافی ارنب گوسوامی جو اپنے آپ کو حقیقی صحافی کہتے ہیں، وہ شاید صحیح ہیں۔ اس کے برخلاف صدیق کپّن یقینا ایک نام نہاد صحافی ہے۔ ان حالات میں مجھے نام نہاد صحافی کہلانے جانے پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ مجھے فخر ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ اگر بابائے قوم مہاتما گاندھی کا قاتل، ایک محب قوم کہلایا جا سکتا ہے تو میں تو ایک "دہشت گرد” ہی ہوا بلکہ کئی اخباروں نے مجھے دہشت گرد کہہ بھی دیا ہے۔
سوال: قید کے دوران آپ کے لیے بدترین لمحات کون سے تھے؟
اٹھائیسں ماہ میں مجھے دو الگ الگ جیلوں میں رکھا گیا۔ متھرا جیل میں مجھے اپنے وکیل سے ملاقات کرنے اور کتابیں پڑھنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ جیل میں نام نہاد میڈیا ہاوز کے کچھ ہندی اخبارات پڑھنے کو ملے جن میں سوائے غلط بیانی اور جھوٹ کے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ مجھے پڑھنے کے لیے کوئی کتاب ملی نہ ہی مجھے لائبریری جانے کی اجازت دی گئی۔ بے شک اس صورت حال میں مجھے پریشانی اور جھنجھلاہٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ ظاہر ہے کہ جیل جانے کا میرا یہ پہلا تجربہ تھا لیکن یہاں آکر میں نے دیکھا کہ جیل میں قیدیوں کے ساتھ کتنا بدترین سلوک کیا جاتا ہے، خاص طور پر شمالی ہند کی جیلوں میں۔شاید یہ جان کر آپ چونک جائیں گے کہ یو پی کی کسی بھی جیل میں آپ کو بھنگ، سگریٹ، بیڑی اور دیگر کئی چیزیں بڑی آسانی سے مل جائیں گی لیکن آپ کو قلم، کاغذ اور کتاب نہیں ملے گی۔ مجھے
قلم، کاغذ اور کتابیں حاصل کرنے کے لیے جیل حکام سے تین مہینے تک مسلسل لڑنا پڑا تھا۔ ایک اور بات جو میں نے نوٹ کی وہ یہ ہے کہ جیل میں اردو کتابوں پر سخت پابندی ہے اور اندر لانے کی سخت ممانعت ہے۔
سوال: اٹھائیسں ماہ کی قید سے آپ کی صحافتی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟
یقیناً کچھ اثرات مرتب ہوئے ہیں لیکن سب مثبت ہی رہے۔ جیل سے باہر آنے کے بعد میں نے اپنے افراد خاندان، دوست و احباب، حامیوں اور صحافی برادری کو بتایا کہ اٹھائیسں ماہ کی قید میرے لیے ایک تربیتی کورس ثابت ہوئی ہے جو میری آئندہ عملی زندگی اور صحافتی پیشے کے لیے بہترین سبق ہے۔ شکر ہے کہ مجھے ایک کارآمد اور بہترین تربیتی کورس مکمل کرنے کا موقع ملا۔ ہمیں دنیا میں مشکل حالات اور برے وقت کا پامردی سے مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ ہر حال میں کام کرنے کی جرات اور ہمت مجھ میں پیدا ہوئی۔ مجھے محسوس ہوا کہ پانچ اکتوبر 2020 سے پہلے میں اتنا بہادر اور طاقتور صحافی نہیں تھا جتنا آج میں اپنے آپ کو محسوس کرتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اگر حکومت اسی طرح اپنی عوام مخالف پالیسیوں پر عمل کرتی رہی تو مستقبل میں یقینا ہمیں بے شمار نڈر، قابل اور مضبوط صحافی
ملیں گے۔ حکومت کے اس منفی رویہ کا شکریہ ادا کرنے پر میں مجبور ہوں۔ حال ہی میں، میں نے ایک انگریزی اخبار میں پڑھا تھا کہ پولیس کہہ رہی ہے کہ میری گرفتاری کے وقت پولیس کو معلوم نہیں تھا کہ میں ایک صحافی ہوں۔ ایسا کہنا سراسر جھوٹ ہے حالانکہ میں نے انہیں پریس کلب کے شناختی کارڈ دکھلائے تھے۔ آج بھی میرا پریس کلب کا شناختی کارڈ، ٹرائل کورٹ متھرا کے ریکارڈ میں مہر بند محفوظ ہے۔ میں گزشہ دس گیارہ سالوں سے صحافت سے وابستہ ہوں، میرے پاس پریس کلب کے علاوہ کئی صحافتی شناختی کارڈس تھے جو پولیس حکام نے ضبط کر لیے اور آج تک مجھے واپس بھی نہیں کیے گئے۔
سوال: جب آپ جیل میں تھے اس دوران آپ کے افراد خاندان، کس طرح کے حالات سے دوچار تھے؟
میری غیر موجودگی میں بہت سے لوگوں نے میرا اور میرے افراد خاندان کا ساتھ دیا۔ آج بھی مجھے سب سے بہت اچھی امیدیں ہی وابستہ ہیں۔ یہاں بسنے والے انسان، غیر جانب دار اور سیکولر ہیں۔ بہت سے ایماندار صحافی ہمارے سماج میں موجود ہیں جو دوسروں کی طرح نام نہاد نہیں ہیں۔ صحافی برادری سے وابستہ دوستوں نے اس مشکل وقت میں میری غیر موجودگی میں میرے افراد خاندان کی مدد کی۔ میری بیوی اور اس کے خاندان کے لوگوں نے، میرے اپنے دوست احباب نے ہمارے ساتھ پر خلوص تعاون کیا۔ البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ موجودہ حکومت نے بھارت کو عملاً میانمار بنا دیا ہے۔
سوال: آج جب کہ آپ آزاد ہیں، تو اپنے آپ کو کیسا محسوس کرتے ہیں؟
میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ایک قیدی کی حیثیت سے میں کبھی جیل جاوں گا۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد مجھے آزادی کی قدر کا احساس ہوا۔ اٹھائیسں ماہ تک پولیس والوں نے میرے ہاتھ باندھ رکھے تھے لیکن آج میرے وہی ہاتھ میرا بیٹا اور بیوی تھامے ہوئے ہیں۔ جیل میں مجھے اپنی مرضی سے کھانے پینے پڑھنے لکھنے کی آزادی نہیں تھی، پڑھنے کے لیے کتابیں نہیں تھیں، لکھنے کے لیے قلم اور کاغذ نہیں تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے جیل میں قیدیوں کے لیے قلم رکھنا بھی کوئی جرم ہو۔ جیل میں ایک پولیس والے سے میں نے پانچ روپے والا بال پن مجبوراً ساٹھ روپے میں خریدا۔ حالانکہ یہ بھی غیر قانونی کام ہے۔ ایک اور بات جو میں بلا مبالغہ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس پیسے ہیں تو جیل میں آپ کچھ بھی خرید سکتے ہیں، کچھ بھی۔ جیلوں میں قیدیوں کی زیادہ تر تعداد نہایت غریب لوگوں کی ہے، ان میں روہنگیائی اور کشمیری سب سے زیادہ ہیں۔ غربت کی وجہ سے ان کی اکثریت، کسی وکیل یا کسی قانونی مدد حاصل کرنے کی سہولت سے محروم ہے۔ دس پندرہ سال سے انہیں قید تنہائی جیسی سخت سزا کے تحت رکھا گیا ہے۔ تماشہ یہ ہے کہ اتنے برس بعد بھی یہ زیر تفتیش قیدیوں کے زمرے کے تحت قید ہیں، یعنی ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت ابھی تک نہیں ملا۔
سوال: کیا آپ کو رہائی کے بعد عام لوگوں کی طرف سے کسی طنز یا دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑا؟
اب تک تو مجھے اس طرح کے کسی مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ لوگوں نے ہمیشہ میری حمایت ہی کی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا جیسے بی بی سی، سی این این اور دی گارجین کے علاوہ کئی بین الاقوامی صحافیوں نے میرا انٹرویو لیا اور انہوں نے میری آواز بین الاقوامی سطح تک پہنچائی۔ کچھ بین الاقوامی صحافی مجھ سے ملاقات کرنے اور میرا انٹرویو لینے میرے گھر آئے۔ ویسے بھارت کا عام آدمی اچھی طرح جانتا ہے کہ آج کل ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ بھارت کے صرف چالیس فیصد عوام ہی بی جے پی کے ساتھ ہیں، مابقی ساٹھ فیصد عوام عملاً حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ عوام بے وقوف نہیں ہیں، وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور محسوس بھی کررہے ہیں۔
سوال: ضمانت ملنے کے بعد آپ کئی ہفتے جیل ہی میں رہے۔۔ مسئلہ کیا تھا؟
دراصل یو پی پولیس جان بوجھ کر میری رہائی کے لیے میری شناخت کی تصدیق کی کارروائی روایتی سست رفتاری کے ساتھ کر رہی تھی کیوں کہ شاید رہا شدہ قیدیوں کو جیل ہی میں رکھنے سے انہیں کوئی اندرونی مسرت یا خوشی محسوس ہوتی ہو گی۔ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ لکھنوٗ یونیورسٹی کی سابقہ وائس چانسلر روپ ریکھا ورما نے میری رہائی کے لیے عدالت میں اپنی شخصی ضمانت کی پیشکش بھی کی تھی۔
مجھے بہت خوشی ہے کہ ایسے نڈر اور بہادر اور سیکولر انسان آج بھی بھارت میں رہتے ہیں۔ شاید یہی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ضمانت پر میری رہائی کے احکامات جاری ہونے کے باوجود مجھے رہا کرنے میں عمداً تاخیر کی گئی۔
سوال: بھارت کی موجودہ صورت حال پر آپ کچھ کہنا چاہیں گے؟
بھارت کی موجودہ صورت حال سے ہم سب بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ مثال کے طور آج کے سلگتے ہوئے مسئلے ہی کو لے لیجیے۔ جب ایک بیرونی کمپنی نے ایک بھارتی صنعت کار کی نام نہاد ترقی، عروج اور دولت کی حقیقت کو بین الاقوامی مارکٹ میں بے نقاب کیا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آج بھارت میں خود بھارتی صحافی خوف کے ماحول میں جی رہے ہیں۔ وہ کسی بھی عنوان کے تحت پر تنقید یا تبصرہ کرنے سے گھبراتے ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ یا سی بی آئی انہیں گرفتار نہ کرلے۔ اس ماحول کی وجہ سے بین الاقوامی صحافت میں بھارتی میڈیا کی شبیہ بگڑ چکی ہے۔ انہیں حکومت کے ہر کام میں ہاں میں ہاں ملانے والے،
حکومت کے ہر کام کی تعریف اور تائید کرنے والے چمچوں کی ضرورت ہے۔ اخبارات، ٹی وی چینلس اور میڈیا حکومت کے پریس ریلیز کے منتظر رہتے ہیں جس سے ان کی روزی روٹی چلتی ہے۔ پورے ملک میں یہی صورت حال چھائی ہوئی ہے۔
(ترجمہ: سلیم الہندیؔ حیدرآباد)
***

 

***

 ’’دراصل حکومت کو اس بات کا شدید خدشہ تھا کہ اگر صحافی، ہاتھرس معاملے کو نربھیا کیس کی طرح ابھارنے میں کامیاب ہوگئے تو ریاستی حکومت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ محض ہاتھرس ریپ کیس پر سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے مجھے قربانی کا بکرا بنایا گیا۔‘‘


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023