خان سعدیہ ندرت امتیاز خان(پوسد، مہاراشٹرا)
آزادی نسواں کا تصّور دراصل مرد و زن کے درمیان مساوات سے عبارت ہے ۔ اس تصور کے حاملین چاہتے ہیں کہ عورت ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ تمام ذمہ داریوں کو پورا کرے یعنی معاشرت، معیشت، سیاست اور زندگی کے ہر شعبے میں وہ اپنا رول ادا کرے کیونکہ مرد و عورت حقوق میں برابر ہیں۔ مغرب نے آزادئ نسواں کا نعرہ دیا اور وجہ یہ بتائی کہ آزادی عورت کو طاقتور بناتی ہے۔
جی ہاں!! آزادئ نسواں کا نعرہ سوائے فریب کے کچھ نہیں، آزادی کے نام پر غلامی اور قید ہے۔ ایسی قید اور غلامی جس میں عورت سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گئی ہے۔ آزادی نسواں کے اس نعرے کے ذریعہ وہ چاہتے ہیں کہ ایک عورت بیک وقت، نسوانی حسن کا پیکر بنی رہے، معزز خاتون کا رویہ اختیار کرے، مرد کی طرح سوچے، گدھے اور کتے کی طرح کام کرے۔
بِلاشبہ آزادئ نسواں، دور جدید کا پر فریب نعرہ ہے جس میں عورت کو جھانسہ دے کر انہیں محفوظ حِصار سے نکال کر تمام فطری اور اخلاقی قیود سے آزاد کردیا اور اُسے جدیدیت کا نام دے دیا اسی جدت پسندی نے عورت کو بازار کی زینت بنا کر اس کے وجود کو تشہیر کا ذریعہ بنا دیا اور ستم بالائے ستم یہ کہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسے نعرے بھی دے دیے۔
لیکن جب عورت نے گھر کی چار دیواری کا حِصار توڑا ، عریاں ہوکر چہروں کو بے حجاب کیا اور چہروں نے کھل کر نگاہوں کے پردے فاش کیے تو آزاد نگاہوں نے خیالات کو آزاد کر دیا اور اِن خیالات نے اعضائے حسن کو بے حجاب کرنے کا کام کیا ہے۔
اس بے حجابی کے نتیجے میں عورت ’قوام‘ کے قبضے سے نکل گئی کیوں کہ آزادی کی ایک کڑی دوسری کڑی کو طبعی کشش کے ساتھ کھینچتی ہے۔ پھر اس ناجائز آزادی کے ساتھ قانون سازی میں آزاد ہو کر اس میں ایسی دفعات کا اضافہ کرنے لگی کہ مردانہ عقل کسی حالت میں یہ گوارا نہیں کر سکتی۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ فحاشی کی کڑیاں اس قدر مربوط ہیں کہ ایک کو دوسری سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔
تہذیب مغرب کا اصل ہدف ہی بے حیائی اور فحاشی کا فروغ ہے آزادئ نسواں کے فریب کے ذریعے معاشرے میں فحاشی کی وبا کو پھیلا دیا گیا اور اس کے اثرات اس طرح ظاہر ہوئے کہ
1) احترام نسواں کا خاتمہ ہوا
2) فواحش کی کثرت
3)ہم جنسی
4)شہوانی ماحول کا نسل پر اثر
5) امراضِ خبیثہ کی کثرت
6) آزمائشی نکاح
7)عائلی نظام (خاندانی نظام) کی بربادی
8) فطری تقاضوں کا خون
9)قتل اولاد
10) بوڑھے والدین کی کسمپرسی۔
جب یہ مبادیات پورے ہوئے تو مغرب اپنے مقصد سے قریب تر ہو گیا۔بقولِ علامہ اقبال
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں معذور ہیں مردانِ خرد مند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادئ نِسواں کہ زمرد کا گلوبند
عورت فطرتاً مرد کے مقابلہ میں کمزور ہوتی ہے اسی لیے تو اسے صنف نازک کہا جاتا ہے۔ اگر کمزور عورت پر طاقتور مرد کے برابر ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دیا جائے تو یہ اس کے ساتھ انصاف نہیں بلکہ ظلم ہوگا۔ اسی لیے اسلام نے مرد وعورت کی تخلیق کے فطری تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دونوں کے الگ الگ دائرہ ہائے کاراور ذمہ داریاں متعین کی ہیں جو کمال درجہ عدل اور توازن پر مبنی ہیں ۔ اسلام ہر سطح پر انصاف کا علمبردار ہے۔ اس نے عورت کے نسوانی شخصیت اور اس کی نسائیت کو تحفظ اور احترام بخشا ہے۔ ایک مسلمان زندگی کی قدروں اور عورت کے نسوانی کردار کا تحفظ کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس بات پر پختہ ایمان رکھتا ہے کہ یہ احکامِ الہی ہیں جن میں تبدیلی کا اُسے کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ یہ پختہ ایمان ہی اُس طوفانِ بلا خیز کا مقابلہ کر سکتا ہے جو جدید مغرب سے اٹھا ہے۔
اسلام نے عورت کو اس کے فطری دائرہ کار میں رکھتے ہوئے سارے حقوق اور ساری قوتیں بخشیں جو اس کی آزادانہ اور خود مختارانہ شخصیت کی تکمیل کے لیے ضروری ہے۔ اگر اسلام کے عطا کردہ حقوق عورت کو دے دیئے جائے تو آزادئ نسواں جیسے پُر فریب نعروں کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔
فیمنیسٹ تھریسا کوربن نے اسلام قبول کیا اور کہا کہ ’’اسلام فیمنیسٹ تصورات سے یقیناً ہم آہنگ نہیں ہے لیکن فیمینسٹ آئیڈیلز کی تکمیل کہیں ہو سکتی ہے تو وہ صرف اسلام ہے‘‘۔
یہ صرف تھریسا کوربن کا ہی خیال نہیں ہے۔ مغرب اور یورپ کی سفید فارم عورتوں میں یہ تصور بہت تیزی سے عام ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا اس لیے ہوا کیوں کہ اسلامی تعلیمات ہی کے ذریعے نسوانی شخصیت کا باعزت اظہار ہوتا ہے۔
لائحہ عمل
آزادئ نسواں کے مغربی تصور کے سلسلے میں دو کام کرنے ہوں گے
ایک تو اسلام کے تصور کی بالا (دستی) تری کو ثابت کرنا ہوگا۔ دورِ جدید کے فریب کو پوری شدّت اور اعتماد کے ساتھ مذمت اور تنقید کرنی ہوگی۔
دوسرا اہم کام یہ کہ اسلامی تعلیمات کو عملاً نافذ کیا جائے۔
تیری حیات ہے کردارِ رابعہ بصری
تیرے فسانے کا موضوع ہے عصمتِ مریم
نہ دیکھ رشک سے تہذیب کی نمائش کو
کہ سارے پھول یہ کاغذ کے ہیں خدا کی قسم
وہی ہے راہ تیرے عزم و شوق کی منزل
جہاں ہے عائشہ و فاطمہ کے نقشِ قدم
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023