اس دیش میں نغمے بہنے دو اس دیش میں ہم کو رہنے دو
ملک و ملّت کی موجودہ صورتحال اور نجاتکا راستہ
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
بندگی رب کی طرف دعوت سے اللہ کی نصرت یقینی
حالاتبدل سکتے ہیں بشرطیکہ مسلمان قرآن وسیرتؐ سے رجوع ہوں
حالات مایوس کن ضرور ہیں لیکن زندہ قومیں مایوس نہیں ہوتی ہیں۔ مسلمانوں کو اپنی تاریخ میں اس سے بھی زیادہ سخت حالات سے سابقہ پیش آچکا ہے اور لوگوں نے حالات کا مقابلہ کیا ۔
اقصاے ہند میں کیا علماء اور کیا دانشورکیا مسلم سیاسی رہنمااور کیا متوسط طبقہ کے جوان اور کیا عمر رسیدہ انسان سارے کے سارے مسلمان اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ اس ملک میں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہے کیا ان کے مکانوں پر یہاں بلڈوزر چلا دیا جائے گا کیا ان کی عبادت گاہیں گرادی جائیں گی کیا ان کی روشن تاریخ کو بدل دیا جائے گااسکول کے نصاب میں وہ کتابیں داخل کی جائیں گی جو یہ بتائیں گی کہ ہر مسلم حکمراں ظالم تھا ستم گر تھا؟۔ ہر روز جب صبح طلوع ہوتی ہے اخبار کے ذریعہ مسلمانوں پر جبر وظلم کی خبر آتی ہے ہر شام جب آفتاب غروب ہوتا ہے مسلمانوں کے عزت و اقبال کا آفتاب بھی کہیں نہ کہیں غروب ہوتا ہے، یہ رسم چلی ہے کہ مسلمان اس ملک میں سر اٹھا کر نہ چلیں سربزیری سرافگندگی کو اپنا شیوہ بنا لیں۔مسلمانوں کی شکل وصورت دیکھ کر حملے عام بات ہوگئی ہے ۔بستیاں جلادی جاتی ہیں نشیمن پھونک ڈالے جاتے ہیں ،مسلمانوں کے قتل کے مجرم اگر سزایاب بھی ہوتے ہیں تو ان کو رہا کردیا جاتا ہے اورپھر ان کا ایک ہیرو کی طرح شاہانہ استقبال کیا جاتا ہے، مسلمانوں کے قتل عام کی برسرعام دھمکیاں دی جاتی ہیں اور دھمکی دینے والوں کے خلاف کوئی عدالتی کارروائی نہیں ہوتی ہے۔پرسنل لا میں رات دن مداخلت ہوتی ہے یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے، مسلمانوں کے لیے تبلیغ جرم ہے لیکن مسلمان لڑکیوں کے ارتداد کی کوشش ہو رہی ہے ۔یہ مسلمانوں کی مظلومیت کا دور ہے زمیں سخت ہے آسمان دور ہے۔مسلمانوں کا عدلیہ پر اعتماد بھی اٹھتا جارہا ہے گیان واپی اور متھرا کا مسئلہ بھی متنازعہ بن گیا ہے حالانکہ یہ بات طے پائی تھی کہ بابری مسجد کے بعد اب اور کسی دوسری مسجد پر تنازعہ نہیں کھڑا ہوگا،آزادی کے وقت جو بھی عبادت گاہ تھی اس کی حیثیت باقی رکھی جائے گی اب تاریخ کی کتابوں میں ردوبدل ہورہا ہے اور بی جے پی کے نظریات کے مطابق تاریخ نویسی کی جارہی ہے مسلم حکمرانوں کو ظالم اور ستمگرثابت کیا جارہا ہے۔ مرکزی اور ریاستی ملازمتوں میں مسلمانوں کی تعدادان کی آبادی کے مقابلہ میں صفر کے برابر ہے۔ہندوستان کے نیوز چینلوں میں اور اخبارات میں رات دن زہر افشانی کی جاتی ہے ٹرین کے مسلم مسافروں کو جے شری رام کہنے پر مجبور کیا جاتاہے ، اس طرح کے واقعات بہت بار پیش آچکے ہیں۔شمالی مشرقی دہلی برہم پوری میں ہندووں کو کہا گیا ہے کہ نہ مسلمانوں کو مکان کرایہ پر دیا جائے اور نہ ان کے ہا تھ مکان فروخت کیا جائے دھرم سنسد کے واقعات ایک سے زیادہ بار پیش آچکے ہیں جہاں مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی جاتی ہے اور ان کے قتل عام کی اپیل کی جاتی ہے اور پولیس کوئی کارروائی نہیں کرتی ہے۔
مسلمان تعلیم میں اورمعیشت میں بہت زیادہ پسماندہ ہیں، ترقی کے راستے ان کے لیے بند کردئے گئے ہیں ،اوقاف کے گراں قدر اثاثوں پر قبضہ ہے یہ سب صرف شکوہ ظلمت شب نہیں ہے اپنے حصہ کی کوئی شمع جلانے کی اجازت بھی نہیں ہے اگر کسی نے احتجاج کی کوشش کی تو انگلیاں فگار کی جاتی ہیں اورصحافی کاخامہ خوں چکاں ہوتا ہے اور ضمیر کے مطابق لکھنے والوں کو جیل بھیج دیا جاتا ہے لوح وقلم کی متاع چھین لی جاتی ہے اگر کوئی اپنے مذہب کا بھی تعارف کراتا ہے تو زبردستی تبدیلی مذہب کے الزام میں اسے جیل بھیج دیا جاتا ہے حق بات کہنا جر م ہو گیا ہے چند روز پہلے ایک ٹرین میں ایک مسلم تاجر عاصم حسین کو زدو کوب کیا گیا اور اسے جی شری رام کہنے پر مجبور کیا گیا اس نے انکار کیا تو اور بھی زیادہ زدوکوب کیا گیا۔ دینی مدارس نشانہ پر ہیں اورغنیم کے عسکری ہر برج پر کمان بدست ہیں،مسلمانوں کی زبان اور تہذیب کے قلعوں کو مسمار کیا جارہا ہے اور غنیم کے لشکری ہر طرف حلقہ زن ہیں اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے،اس وقت جو حالات ہیں اس سے ملتے جلتے حالات میں حضرت شاہ عبد العزیزمحدث دہلوی نے ہندوستان کے دار الحرب ہونے کا فتوی دیا تھااگرٖ ہندوستان کے حالات قابومیں نہ آئے توہندوستان کے علماء کو پھر یہی فتوی دینا پڑے گا،نئی کشمکش شروع ہوگی اور نئی کشاکش اور پھرکشت وخون کا امکان بڑھ جائے گا۔
اس وقت زعفرانی پرچم لہرانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا عزم ہے اگر یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگیا تو پھر حالات اس ملک میں آتش فشاں ہوجائیں گے صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ ہندووں کے بڑے طبقہ کے لیے یہ چیز قابل قبول نہیں ہوگی۔لیکن اقلیتوں کے لیے خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہوگا یہ وہ حالات ہیں جس نے حساس طبیعتوں کو پریشان کررکھا ہے مسلمانوں کی قیادتیں اب تک کئی کانفرنسیں کر چکی ہیں مسلمانوں کی ایک بڑی تنظیم نے علماء اور عمائدین شہر کی مشاورت بھی منعقد کی تھی یہ سب بے چینی اور پریشانی کے آثار ہیں اور غم دل کا غبار ہیں ،اہل علم اور اہل فکر دلفگار ہیں، بعض کمزور اور کم ہمت لوگ دوسرے ملکوں میں بسنے اور ہجرت کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مرفہ الحال شخصیتوں کا اس ملک کو چھوڑ کر چلا جانا باقی لوگوں کومزید خوف زدہ کرے گا، کاش کہ اس طبقہ کا یہ ذہن بنتا کہ ہمیں اس ملک میں رہنا ہے اور حالات کا مقابلہ کرنا ہے اور اسلام کی دعوت کو ہر گھر اور ہر فرد وبشر تک پہنچانا ہے ہمیں خیر امت کے منصب پر فائز کیا گیا ہے اور اس ملک کو چھوڑ کر چلا جانا اپنی منصبی ذمہ داری سے فرار ہے اور ہندوستان میں مسلمانوں کو اور زیادہ کمزور اوربے یارومددگاراو خوف زدہ کرنے کا سبب ہے۔
حالات مایوس کن ضرور ہیں لیکن زندہ قومیں مایوس نہیں ہوتی ہیں مسلمانوں کو اپنی تاریخ میں اس سے بھی زیادہ سخت حالات سے سابقہ پیش آچکا ہے اور لوگوں نے حالات کا مقابلہ کیا اس وقت ہر کس وناکس یہ پوچھتاہے کہ اب ان نئے حالات میں مسلمان کیا کریں’’ پس چہ باید کرد‘‘اب کیا تدبیر اختیار کریں۔اس ابتلائے عام کے زمانہ میں بھی بہت کم لوگ ہیں جنہوں نے حالات کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے سامنے کام کا واضح نقشہ موجود ہی نہیں ہے انہوں نے گہرائی کے ساتھ حالات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے ان کے پاس بصیرت کی نگاہ مفقود ہے وہ ظاہری حالات کو دیکھتے ہیں ان کا صحیح تجزیہ نہیں کرسکتے ہیں اور نہ صحیح حل تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں حال میں آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت کا بیان آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے’’ہندو ایک ہزار سال سے حالت جنگ میں ہیں یعنی مسلمان ان سے برسرجنگ ہیں۔انہوں نے کہا کہ مسلمان اپنی بالا دستی کا دعوی ترک کردیں مسلمان یہ بات کہنا چھوڑ دیں کہ وہ ایک عظیم قوم ہیں ہم نے اس ملک پر ایک بار حکومت کی اور ہم پھر حکومت کریں گے‘‘ لیکن مسلمانوں کے کارناموں اور ان کی خدمات کا اعتراف تو غیر مسلم مورخین نے بھی کیا ہے ۔موہن بھاگوت اس بات کا اعتراف نہیں کرتے اس ملک میں دلت کئی ہزار سال سے حالت جنگ میں ہیں اور اعلی ذات کے ظلم کا شکار ہیں،موہن بھاگوت کا کہنا ہے کہ ہندوستان کو ہندوستان رہنا چاہیئے یعنی اسے اعلی ذات کے ہندووں کا ملک ہونا چاہیے اور ملک کو اسلام کے خطرہ کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ موہن بھاگوت کے بعد انٹر نیشنل ہندو پریشد کے صدرپروین توگڑیا نے آئین میں تبدیلی کا پرچم اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ مسلمانوں کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کردینا چاہیے اور کہا ہے کہ صرف ہندووں کے مفادات کو سامنے رکھ کر آئین میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔انہوں نے اترا کھنڈ میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ہندوتوا کو ماننے والی تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف مسلسل زہر اگلتی رہتی ہیں ہندووں کی قابل لحاظ تعدادنے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے اور ان کو کوئی سزا نہیں دی جاتی ہے اور ان کو حکومت کی طرف سے خاموش حمایت ملتی ہے۔ حکومت کا معاملہ یہ ہے کہ اس نے لاکھوں مسلمانوں کی شہریت چھین لینے کے لیے اور لاکھوں ہندووں کو باہر سے لاکربسا نے کے لیے CAA ,NRC کا قانون پاس کیاجس پر مسلمانوں نے شاہین باغ کا احتجاج منعقد کیا یہ قانون پاس ہوچکا ہے اور سن 2024 کے الیکشن کے بعد جب بی جے پی مکمل اکثریت میں آئے گی تب اس پر عمل در آمد بھی ہوگااورآئین بھی بدل دیا جائے گا اور ہندوستان کے ہندو راشٹڑ ہونے کا اعلان بھی ہوجائے گااور’’آر ایس ایس‘‘ کی دیرینہ آرزو پوری ہوگی اور ہندوتوا والوں کی امیدوں کے چمن میں بہار آئے گی۔ ہندووں کی ایک اور جماعت نے دو کروڑ کی تعدادمیں ترشول باٹنے کا منصوبہ بنایا ہے تا کہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جاسکے۔مصر کی تاریخ میں فرعون کی اور قبطیوں کی حکومت نے جس طرح بنی اسرائیل پر ظلم کیا تھا اسی طرح مسلمانوں پرہندوستان میں ظلم کا منصوبہ بنالیا گیا ہے۔
اسپین کی تاریخ مین بھی مسلمانوں نے کئی سو سال حکومت کی آخری سو سال سے زیادہ کا عرصہ مسلمانوں پرسخت ظلم وزیادتی کا زمانہ رہا ہے اور پھر مسلمانوں کی تاریخ وہاں اختتام تک پہنچی اور مسلمان جو حکمراں تھے وہاں محکوم بن گئے جو بالا دست تھے وہ زیر دست ہوگئے۔ہندوستان میں اسی کے آثار نظر آرہے ہیں۔ گھٹاٹوپ اندھیری رات ہے اور امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی ہے۔ سوال یہ کہ کہ مسلمانوں کے پاس ان خطرناک حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے کیااسٹریٹجی ہے اور کیا منصوبہ ہے۔ اس وقت مسلمانوں کے ویژن اور دور اندیشی کا امتحان ہے۔ایسے سخت اور جانگسل حالات میں دو طرح کی تدبیریں اختیار کی جاسکتی ہیں ایک توانسانی تدبیریں ہیں اور کچھ قرآنی تدبیریں ہیں۔انسانی تدبیریں تو وہ ہیں جن کی طرف ہر ایک صاحب علم وبصیرت کی نظر جاتی ہے اور وہ ان تدبیروں کو پیش کرتا ہے اور یہ تدبیروں غلط نہیں ہیں ابھی دہلی میں جو کانفرنسیں منعقد ہوچکی ہیں ان میں ان تدبیروں کو دنیوی امور کے تجربہ کارماہرین اور دانشوروں نے پیش بھی کیا ہے ۔جیسے مسلم نوجوانوں میں علمی صلاحیتوں کا ارتقااور بہتر سے بہتر مواقع سے فائدہ اٹھا نے کی کوشش اوراس بات کی کوشش کہ مسلمانوں میں تعلیم عام ہو ،ہر محلہ کی مسجد میں صباحی اور شبینہ ابتدائی مدرسہ ہو جہاں محلہ کے بچوں کو دینی اور اخلاقی تعلیم دی جائے ارو زبان اور قرآن کی تعلیم سے آراستہ کیا جائے ہر محلہ میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے حکومت کے نصاب کے مطابق اسکول کھولے جائیں ،ہر شہر میں مسلمانوں کی تعلیم کا بہتر سے بہتر انتظام ہومسلمانوں کی تمام تنظیمیں اور جماعتیں مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی ترقی کے لیے کام کریں ،خدمت خلق اور خدمت انسانیت کے ادارے قائم ہوں اور بڑے پیمانہ پر رفاہی کام انجام پائیں اور یہ کام ہر محلہ میں بلا امتیاز مذہب ومسلک انجام دئے جائیں، تدبیروں میں ایک ضروری تدبیرہر شہر میں اسلامی ہوسٹل کا قیام بھی ہے جہان مسلم طلبہ کی تربیت کا بھی انتظام ہو۔ ہر شہر میں گاوں دیہات قصبات اور چھوٹے شہروں سے مسلم طلبہ اعلی تعلیم کے لیے شہروں کا رخ کرتے ہیں جہاں ان کے ٹھرنے کا اور دینی اور اخلاقی تربیت کا کوئی انتظام نہیں ہوتا ہے۔ انسانی تدبیروں میں ایک ضروری تدبیر ظلم کی مزاحمت بھی ہے اور بہتر قانونی چارہ جوئی بھی ہے اور حالات کے تناظر میں یہ کام بھی ایک ضروری کام بن گیا ہے۔صلح حدیبیہ کے موقعہ پر حضرت عثمان کی شہادت کی غلط خبر مشہور ہوگئی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت رضوان لی تھی ،معلوم ہوا کہ اگر کسی ایک مسلمان پر بھی ظلم ہوتو مسلمانوں کے اجتماعی نظام کو متحرک ہونا چاہیے اور ان احادیث کی اشاعت ہونی چاہیے جس میں کہا گیا ہے کہ جو شخص اپنی جان ومال کی حفاظت میںمارا جائے وہ شہید ہے تاکہ خود حفاظتی تدبیروں کے اختیار کرنے کا مزاج بن سکے اور مسلمانوں کو نرم چارہ کوئی نہ سمجھے ۔قرآن میں اہل ایمان کی تعریف میں کہا گیاہے وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ یعنی جب ان پر تشدد اور ظلم ہوتا ہے تووہ انتقام لیتے ہیں یعنی وہ دشمنوں کے لیے نرم چارہ نہیں ہوتے ہیں، اسی بات کو اقبال نے اس طرح کہا ہے ’’ حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے اگر کانٹوں میں ہو خوئے حریری‘‘ ۔اسی طرح انسانی تدبیر میں یہ بھی داخل ہے کہ مسلمانوں کے درمیان باہمی اعتماد اور اتحاد کو فروغ دینا چاہیے ایک دوسرے پر سب وشتم کا یکسر خاتمہ ہونا چاہیے ۔امداد باہمی کے جذبہ کو پھیلانا چاہیے ۔مسلمانوں کے درمیان دینی روح پھونکنے کے لیے جمعہ کے خطبات کو منظم کرنے کی ضرورت ہے زکاۃ کے اجتماعی نظام کوزیادہ کار آمد بنانے کی ضرورت ہے غریب طلبہ کے لیے اسکالر شپ کا اور ان کی تعلیمی فیس کا اس کے ذریعہ انتظام ہوسکتا ہے۔ یہ ساری تدبیریں مناسب ہیں۔ان تدبیروں کے علاوہ اور بھی دوسری تدبیریں ہوسکتی ہیں جنہیں اصحاب فہم وذکاء پیش کرتے رہتے ہیں لیکن ان عام انسانی تدابیر سے برتراور بلندتر وہ تدبیریں ہیں جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے جن کے اختیار کرنے سے اللہ کی نصرت نازل ہوتی ہے ۔تیر بہدف نسخہ ڈھونڈہنے کے لیے قرآن اور سیرت سے استفادہ کی ضرورت ہے، مثال کے طور پرقرآن میں اصحاب کہف کا ذکر آیا ہے وہ ایسے ملک میں رہتے تھے جوہندوستان کی طرح کا ملک تھا جہاں شرک وبت پرستی کا راج تھا اور غیر اللہ کی پرستش کا رواج تھاایسے ماحول میں چند نوجوان توحید اور آخرت پر یقین کی دعوت لے کر کھڑے ہوئے انہوں نے شرک اور بت پرستی کے ما حول میں حق کاآوازہ بلندکیااور خدائے واحد کی اطاعت کی دعوت دی وہاں بت پرستی اور شرک کے جتنے رومی سنگٹھن تھے انہوں نے اس دعوت پر نکیر کرنے اور دعوت دینے والوں کو تعزیز دینے کا فیصلہ کیا اور جو چند نوجوان تھے جو دین عیسائیت کی دعوت پوری بے خوفی سے دے رہے تھے وقت کے اقتدار نے ان کو سنگسارکردینے کی تجویز پاس کی،یہ نوجوان سزا سے بچنے کے لیے ایک غار میں جا چھپے لیکن ان کا دین اورپھیلایا ہوا یقین آہستہ آہستہ اثر انداز ہوتا رہا ،لوگ جو ایمان لاچکے تھے اور ان کے حلقہ اثر میں جن کی تربیت ہوچکی تھی ان کے چراغ سے چراغ جلتے رہے اللہ کی مدد نازل ہوئی یہاں تک کہ انقلاب آگیا اور ملک کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھ سے نکل گئی جو شرک پر اصرار کرتے تھے اورعیسائیت اور توحید کے ہر منادی کے لیے سزا تجویز کررہے تھے یہات ک کہ مشرکین اقتدار سے بے دخل کردئے گئے یہ اصحاب کہف جب سو کرسو سال سے زیادہ کی نیندکے بعد اٹھے تو دنیا بدل چکی تھی اور اس وقت کے اہل اسلام کے حق میں فضا سازگار ہو گئی تھی ۔ ان اصحاب کہف سے سب کو عقیدت ہوگئی تھی اور شہر والے ان کو بزرگ اورراہب اورمن جملہ اولیاء اللہ سمجھنے لگے تھے اور ان کے انتقال کے بعدان کی قبروں پر مسجدیں تعمیر کی گئیں ۔
قرآن میں بنی اسرائیل کے قصے بھی بیان کئے گئے ہیں فرعون کے پھیلائے ہوئے نظام شرک میں حضرت موسی نے توحید کی صدا بلند کی فرعون اور اس کی حکومت کا پوراایڈمنسٹریشن اس دعوت کے خلاف ہوگیا بنی اسرائیل کی تذلیل کی گئی ان کو سزائیں دی گئیں ان کے یہاں پیدا ہونے والے ہر نرینہ بچہ کو ماردیا جاتا، قبطی حاکم تھے اور بنی اسرائیل محکوم، لیکن حضرت موسی کی طویل دعوتی جدوجہدکے نتیجہ میں جو پہلے حاکم تھے یعنی قبطی وہ محکوم ہوگئے اور فرعون اور اس کا لشکر پانی کی قبروں میں دفن ہوگیا ۔خدا اپنی عبادت کے لیے دعوت دینے والوں کی مدد ضرور کرتا ہے اور اہل ایمان کو ضرور کا میاب کرتا ہے لیکن اس کے لیے دعوت کے لیے کھڑا ہونا ضروری ہے اور اس راستہ میں جو مصائب آئیں گے انہیں برداشت کرنا اور صبر وتحمل سے کام لینا ضروری ہے، کامیابی اور کامرانی کی قرآنی تدبیر یہی ہے حضور اکرمﷺ کی سیرت سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے مکہ مکرمہ کی دعوت تھی جس نے مسلمانوں کو مدینہ کی زندگی کااستحکام اور اقتدارعطا کیا ۔ہمیں خود اپنا محاسبہ کرنا چاہیے ،صسحیح بات یہ ہے کہ ہم دعوت الی اللہ کو لے کرکبھی نہیں اٹھے ،ہماری ساری تگ ودو ہماری ساری چیخ وپکار صرف اپنے حقوق کے لیے تھی ،اپنے جائز حقوق کے لیے جدوجہد غلط نہیں، لیکن اللہ کی نصرت اللہ کے دین کی طرف دعوت دینے سے نازل ہوتی ہے۔ یہی مفہوم ہے اس آیت کا ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم یعنی اگر تم اللہ کی نصرت کروگے تو اللہ تمہاری نصرت کرے گا اور تمہارے قدموں کو جمادے گا۔اگر ہمارے قدم جم نہیں سکے ہیں اگر ہمارے قدم اکھڑگئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ شرک اور اصنام پرستی کی فضا میں ہم حق کی آواز نہیں بلند کرسکے ہمارے بزرگوں نے بھی گذشتہ صدیوں میں جو کام کیا وہ علمی کام کیا اور مسلمانوں کے درمیان کام کیا اللہ تعالے انہیں ان کے کاموں کا اجر عطا فرمائے لیکن یہ وہ پیغمبرانہ مشن نہیں تھا جس کا ذکر قرآن مجید کے صفحات میں قدم قدم پر ملتا ہے ۔ہمارا ذہن دعوت کِے پیغمبرانہ کام سے اس قدر دور ہوگیا ہے کہ ہمارے ذہن میں وہ ساری’’ صحیح‘‘ انسانی تدبیریں آتی ہیں جن کا اوپر ذکر آیا ہے لیکن وہ پیغمبرانہ تدبیر ہمارے ذہن میں نہیں آتی ہے جسکی تفصیل قرآن کے صفحات میں پھیلی ہوئی ہے اور سیرت طیبہ سے جس کی رہنمائی ملتی ہے۔
امریکہ میں نائین الیون کا واقعہ پیش آیا، ایک عمارت منہدم ہو گئی تو بیسوں کتابیں اس موضوع پر شائع ہوئیں اور لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئیں ہندوستان میں ایک ملت اسلامیہ جو تاج وتخت کی مالک تھی اس کے اقتدار کی دیوار زمین بوس ہوگئی اس حادثہ کا بھی علمی اور فکری مطالعہ کرنا چاہیے تھااور قرآن کو رہنما بنا چاہیے تھا اور صحیح حل تک پہنچنا چاہیے تھا لیکن ایک جاہل قوم جوموبائیل بدست اور شکوہ بلب بن چکی ہے وہ قرآن وسنت اور سیرت وتاریخ سے رہنمائی حاصل کرنے سے گریزاں ہے، چند کتابیں جو اس موضوع خاص پرلکھی گئی ہیں ان کا بھی مطالعہ کرنے والا کوئی نہیں،نہ ان کتابوں کے بارے میں کسی کو کوئی واقفیت ہے۔ایک کتاب کا نام ہے ’’حالات بدل سکتے ہیں‘‘ جس کا اہم اضافوں کے ساتھ نیا ایڈیشن ابھی شائع ہوا ہے اسے انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹییز،قاضی پبلیشرنظام الدین نئی دہلی نے شائع کیا ہے دوسری کتاب کا نام ہے ’’ بند گلی سے آگے کی راہ‘‘کتاب کے مصنف کا نام ہے ڈاکٹر سیدابوذر کمال الدین،یہ کتاب مرکزی مکتبہ اسلامی اوکھلا ابو الفضل انکلیو نئی دہلی سے مل سکتی ہے جناب سعادت اللہ حسینی صاحب کی دو اہم کتابیں اس موضوع پرقابل مطالعہ ہیں ایک ’’ہندوتوا ‘‘ دوسری ’’منزل اور راستے‘‘یہ دونوں کتابیں بھی مرکزی مکتبہ اسلامی سے مل سکتی ہیں ۔ کتابوں کا تذکرہ ہم نے اس لیے کردیا کہ اہل علم اہم اور پیچیدہ مسائل کو سمجھنے کے لیے پہلے علمی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تب لب کشائی کرتے ہیں۔رکشہ چلانے والے ہر موضوع پر بغیر پڑھے ہوئے برجستہ اظہار خیال کرتے ہیں ایسا اظہار خیال ہرزہ سرائی ،یاوہ گوئی ،زولیدہ بیانی کہلاتا ہے ۔چنانچہ آج کل ہر خاص وعام دنیا کے ہر مسئلہ پرمطالعہ کے بغیر ارتجالاً اظہار خیال کرتا رہتا ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں کا مسئلہ بے حد سنگین مسئلہ ہے بغیر تحقیق اور بغیر مطالعہ کے اس موضوع پر بھی لب کشائی کی عادت بن چکی ہے۔ سنجیدگی کے ساتھ کسی گہرے مطالعہ کے بغیرکچھ لوگ یوں لب کشا ہوتے ہیں’’ مسلمانوں کو دنیا کے ملکوں میں وفد بھیجنا چاہیے جو مسلمانوں کی حالت زار سے دنیا والوں کو باخبر کرے‘‘، ایک دوسرے لال بجھکڑ اپنے کنج لب سے یوں گفتگو کا آغاز فرمائیں گے’’ مسلمانوں کو ہر شاہراہ پر ہر گلی کے نکڑ پر اجتماعی دعا مانگنی چاہیے کہ اللہ ہندووں کے دلوں کو نرم کردے‘‘ ،ایک دوسرے یگانہ و فرزانہ دور کی کوڑی لائیں گے اور فرمائیں گے ’’یہاں کے دلتوں کو برہمنوں سے لڑادینا چاہئے‘‘ ایسا لگتا ہے کہ دلت آپ کے اشارے کے منتظر ہیں اور آپ کے فرمانے سے وہ برہمنوں کی بالا دستی کے خلاف بغاوت کربیٹھیں گے، دلتوں کوخوب معلوم ہے کہ ہندو مذہب میں ان کا کوئی مقام نہیں ،انہوں نے خود کو اس احساس سے ہم آہنگ کرلیا ہے وہ برہمن کے خلاف بہت مشکل سے کوئی اسٹینڈ لے سکتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ پیغمبروں کا طریقہ بھی نہیں رہا ہے۔ اسی طرح کی ہرزہ سرائی اور غلط اندیشی کاکوئی فائدہ نہیں ہے ، اسلام کی رہنمائی جاننے کی کوشش کرنی چاہیے ،یہ اصل کام ہے اور اس کے لیے کتابوں کا اور خاص طور پرقرآن وسیرت کامطالعہ کرنا پڑے گااور ہر وقت موبائل میں خودکوگرفتاراور دست بکاررہنے کی عادت ترک کرنی پڑے گی ۔میں نے اس مضمون میں جو قرآنی حل پیش کیا ہے اس پر علماء کو اور دانشوروں کواور ملت کاغم رکھنے والوں کو غور کرنا چاہیے یہ کہنا غلط ہوگا کہ دعوت کے مواقع مسدود ہوچکے ہیں اصل کام نصرت الہی کو متوجہ کرنے کا ہے اور نصرت الہی دعوت کے کام سے متوجہ ہوتی ہے نصرت الہی کے مواقع تلاش کرنے کی ضرورت ہے قرآن سے بھی اس کی رہنمائی مل جاتی ہے قرآن میں ہے يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَٱثْبُتُواْ وَٱذْكُرُواْ ٱللَهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
(الأنفال – 45)
یعنی اے ایمان والواگر تمہارا کسی جتھے اور گروہ کا سامنا ہوجائے تو اللہ کاذکر کثرت سے کروشاید تم کامیاب ہوجاومسلم دشمنی کا بھی اس وقت ایک جتھا موجود ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ سے تعلق کو مضبوط کرنا چاہیے ۔اس آیت میں بھی کا میابی کا رازبتایا گیا ہے ، جب اللہ کی نصرت نازل ہوتی ہے تو قلیل تعداد والے کثیر جماعت پر غالب آجاتے ہیں بقول اقبال ’’ ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کار سپاہ‘‘اسلامی تار یخ کے بے شمار واقعات اس پر شاہد ہیں۔
ہندوستان میں دعوت کے کام کے ذریعہ سے اللہ کی رحمت اور نصرت کو متوجہ کرنے کی ضرورت ہے،اس کے لیے ہر شہر اور ہر محلہ میں برادران وطن سے پہلے تعلقات استوار کرنے ہوں گے ،خیر سگالی کے بورڈ قائم کرنے ہوں گے ۔ مسلمان سیرۃ النبی کے جلسے کثرت سے منعقد کرتے ہیں اور اگر وہ یہ اہتمام کرلیں کہ غیر مسلموں کو بڑی تعداد میں بلائیں اور مناسب اسپیکر کا انتظام کرلیں جو غیر مسلموں کے سامنے موثر طریقہ سے اسلام کی ترجمانی کرسکے تو اسلام کی دعوت غیر مسلموں تک پہنچ سکتی ہے خانقاہیں بھی بڑاکردار ادا کرسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بے شماراور کئی ہزار طریقے دل بدست آوری کے ہیں،اسلام کے اسباب کشش کوشمار نہیں کیا جاسکتا ہے ،بسیار شیوہائے بتاں را کہ نام نیست،نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دلنشیں اور گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے۔ آج بھی مختلف طریقوں سے دعوت کا کام انجام پاسکتا ہے۔ آہوان صحراآج بھی منتظر ہیں کوئی آئے انہیں شکار کرے۔
ہمہ آہوان صحراء سر خود نہادہ برکف
بہ امید آن کہ روزے بشکار خواہی آمد
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جنوری تا 04 فروری 2023