ارتکاز-ابن خلدون اور ہم

علم عمرانیات اور فلسفۂ تاریخ کے بانی عبد الرحمن ابن خلدون کا زاویہ ٔنظر

ڈاکٹر خان یاسر
ڈائرکٹر انچارج، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ ریسرچ

حصولِ ترقی کیلئے موبائل اور جدید تکنیکی آلات کا استعمال حدود و قیود کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا جانا چاہئے
راجستھان کا ریگستان ہو یا شمالی افریقہ کا صحرائے اعظم، آفتاب عالم تاب کی تمام تر قہرسامانیوں کے باوجود ایک معمولی سے کاغذ میں بھی اتنی جرأت و قوت ہوتی ہے کہ وہ اطمینان اور بے فکری سے کئی کئی گھنٹوں نہیں بلکہ کئی کئی مہینوں تک اڑتا پھرتا رہے۔ لیکن گھر کے آنگن میں بھی، جہاں واجبی سی دھوپ ہو، اسی کاغذ پر ایک محدب عدسے(Convex Lens)کی مدد سے سورج کی شعاعوں کو مرتکز کیا جائے تو وہ چند ہی ثانیوں میں جل اٹھتا ہے۔ ایسا کیوں؟ جو کاغذ تپتے بیابان میں بھی خورشید اعظم کو خاطر میں نہ لایا تھا، آخر گھر کے آنگن کی معمولی سی دھوپ میں کیوں جل اٹھا؟ یہ کمال ارتکاز (Focus/Concentration)کا ہے۔
علم کا بھی یہی حال ہے۔ معلومات کا سورج ہر آن سروں پر چمکتا رہتا ہے۔ انفجار معلومات کی ان لہروں اور کرنوں سے لوگ بساط بھر استفادہ بھی کرتے ہیں۔ ایک میکانکی پروسس کے تحت مقالہ جات اور کتابوں کی پیداوار؛ لیکچرز اور امتحانات کا کاروبار بھی چلتا ہے؛ یوں مدرسوں، یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کا بھرم قائم رہتا ہے۔ لیکن صحیح معنوں میں معلومات کے اس آفتاب کی ضیاء پاشیوں کو مرتکز نہ کیا جائے تو شعور و آگہی کی چنگاری پیدا نہیں ہوتی۔ پھر نہ حقیقی معنوں میں تنقید و تحقیق کے شعلے بلند ہوتے ہیں اور نہ فکر و دریافت کے نئے راستے کھلتے ہیں۔
سورج کی روشنی کو کاغذ پر مرتکز کرنا ہو تو محدب عدسے کا استعمال کیا جاتا ہے اور علم کی روشنی کو ذہن میں مرتکز کرنا ہو تو مطالعے کے بعد غور و فکر کا۔ مثال کے طور پر یہ دیکھیے کہ تاریخ کے نام پر انسانی ماضی کے سیکڑوں ہزاروں سال کے مختلف حقائق کتابوں سے لے کر آثار قدیمہ تک میں موجود ہیں۔ ان حقائق کو نئے سرے سے ترتیب دے کر تاریخ کی بے شمار کتابیں مزید لکھی جاسکتی ہیں۔ لیکن یہ حقائق جب کسی ابن خلدون کے ذہن میں مرتکز ہوتے ہیں تو نتیجۂ فکر محض ایک کتاب نہیں بلکہ ایک انقلاب ہوتا ہے۔ انسان کا تاریخی بلکہ انفسی شعور کچھ اور بلند ہوجاتا ہے۔ تب یہ دریافت ہوتی ہے کہ تاریخ بکھرے ہوئے واقعات کا مجموعہ اور دفترِ اتفاقات و حوادث نہیں بلکہ اپنے آپ میں ایک سائنس ہے۔
ابن خلدون کے مطابق قوموں کے عروج و زوال کا سارا فسانہ الل ٹپ نہیں بلکہ مختلف فطری قوانین کے تابع ہے۔ انھوں نے بیان کیا کہ حکومت کی اصل طاقت اور پائیداری نفاذ شریعت میں ہے (اور شریعت کے نفاذ کے لیے حکومت ناگزیر)۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی حکومت یا بادشاہ کی اصل طاقت عوام ہیں؛ عوام کے اطمینان (اور ان کے طاقت بنے رہنے)کے لیے دولت ضروری ہے؛ اور افزائش دولت کے لیے ترقی لازم ہے۔ ترقی، عدل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔ ابن خلدون زور دیتے ہیں کہ عدل ہی وہ میزان (criterion) ہے جس پر خدا کی جانب سے انسانوں کی جانچ ہوگی لہذا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدل قائم کرے۔ درحقیقت ظلم زوال کا پیش خیمہ ہے۔
یوں ابن خلدون نے حقائق کو اکٹھا کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انھیں تحلیل و تجزیہ کے مختلف مرحلوں سے گزارا؛ قوموں کے کردار پر تہذیبی، سماجی اور جغرافیائی عوامل کے اثرات پر تحقیق کی۔ موجود تاریخی حقائق کی اینٹوں کو تدبر و تفکر کی آگ میں تپا کر ابن خلدون نے اپنے مقدمے کا جو قلعہ تعمیر کیا ہے، پوری دنیا اس کی عظمت کی قائل ہے۔ مشہور مورخ آرنلڈ ٹائن بی نے اس معاملہ میں ابن خلدون کو ارسطو و افلاطون کا ہم پلہ قرار دیا ہے۔ انھیں فلسفۂ تاریخ اور عمرانیات کابانی بھی کہا گیاہے۔
کیا ہم میں کوئی ابن خلدون پیدا ہوسکتا ہے؟ شاید ہاں، کہ اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے…یا شاید نہیں، کہ یہ دنیا دارالاسباب ہے اور دور حاضر کا ایک بڑا فتنہ ارتکاز کا فقدان ہے۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ دنیا میں فکر و تحقیق سے منسلک افراد کی خاطرخواہ تعداد موجود ہے،لیکن یہ حقائق بھی چشم کشا ہیں کہ لڑکپن اور جوانی کے مراحل سے گزرتے کروڑہا انسان اسمارٹ فون ہاتھ میں تھامے، نگاہیں اسکرین پر گڑائے، اور ہاتھوں سے ریلز اسکرول کرتے ہوئے جس راستے پر بڑھے چلے جارہے ہیں اس کی مختلف منازل کو ماہرین نفسیات نے الجھن، بے سکونی، اضطراب، بے خوابی، ڈپریشن، اورattention deficit hyperactivity disorder (ADHD) وغیرہ سے تعبیر کیا ہے۔ اس کے چند مظاہر میں مطالعہ کرنے یا لیکچر سننے جیسے سنجیدہ کاموں کے دوران بھی بہت آسانی سے دھیان بھٹک جانا، غفلت (inattentiveness)کا شکارہوجانا، باوجود خواہش کے کاموں کو وقت پر انجام نہ دے پانا، سکون و اطمینان سے کسی ایک کام پر فوکس کرکے منصوبہ بند طریقے سے اسے مکمل نہ کرپانا، مضطرب(hyperactive) رہنا، ادھر ادھر جھانکنابالخصوص ہر وقت موبائل میں دیکھنا، کسی بات پر توجہ مرکوز نہ کرپانا، ہر وقت ذہن کا تھکا ہوا اور منتشر رہنا، راتوں کو نیند نہ آنا، اور انجام پر غور و فکر کے بغیر بے دھڑک(impulsive) فیصلے لینا وغیرہ شامل ہیں۔
اسمارٹ فون تو آپ کے ہاتھوں میں بھی ہے، اس کے فائدوں سے انکار نہیں، بس دھیان رہے کہ کہیں آپ بیوقوف نہ بن جائیں!

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 اکتوبر تا 14 اکتوبر 2023