ایران پر اسرائیل کا حملہ۔نقصانات کے بارے میں متضاد خبریں
اسرائیلی کاروائی کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے، رہبرِ معظم، ایران کا حکم
مسعود ابدالی
غزہ کا آخری اسپتال بھی منہدم۔ ایک سال کے دوران 17ہزار سے زیادہ بچے شہادت سے سرفراز
اپنے پیاروں کی واپسی کیلئے ہمیں تکلیف دہ شرائط ماننی ہونگی، اسرائیلی وزیردفاع
کئی ہفتوں کی دھمکیوں کے بعد 26 اکتوبر کو صبح سویرے اسرائیل نے ایران پر فضائی حملہ کر دیا۔ یہ دراصل اس ماہ کی پہلی تاریخ کو اسرائیل پر ایران کے میزائیل، راکٹ اور ڈرون حملے کے جواب میں تھا۔ایرانی کارروائی پر مشتعل ہوکر وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا تھاکہ ایران نے حملہ کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے اور اس کی اس کو بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد اور فوجی ذرائع تاثر دے رہے تھے کہ ایران کی تیل و گیس تنصیبات اور جوہری اثاثوں کے ساتھ ایرانی سپریمو علی خامنہ ای سمیت اعلیٰ ترین ایرانی قیادت کو ہدف بنایا جائے گا۔
ایران پر حملے سے پہلے پیش بندی کے طور پر امریکہ نے جدید ترین فضائی دفاعی نظام Terminal High Altitude Area Defense یا THAAD اسرائیل میں نصب کردیا تھا۔ عجلت میں بھیجے جانے والے ٹھاڈ نظام کے ساتھ اسے چلانے کے لیے سو امریکی فوجی بھی اسرائیل بھیجے گئے کہ تربیت کا وقت نہیں۔
حملے سے دو دن پہلے اسرائیلی وزیر دفاع یوف گیلینٹ، بئیر شیبہ (Beersheba) میں ہتزرم Hatzerim اڈے پر پہنچے۔صحرائے نقب (Negev Desert) میں واقع اس فضائی اڈے پر خصوصی مہمات کے لیے ہوا بازوں کو اسٹریٹیجک تربیت دی جاتی ہے۔ وہاں فضائیہ کے سربراہ تومر بار کے ہمراہ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا ‘اسرائیل پر ایرانی حملہ جارحانہ لیکن احمقانہ اور غلط تھا۔ اس کے برعکس ہمارا حملہ مہلک، درست اور حیران کن ہوگا۔ ایرانی یہ جان بھی نہیں سکیں گے کہ کیا ہوا یا یہ سب کچھ کیسے ہوگیا؟ وہ صرف نتائج دیکھیں گے۔ ایران کے خلاف کارروائی کے بعد دنیا کو اندازہ ہوگا کہ ہم نے اس کے لیے کیسی تربیت اور تیاری کی تھی۔
ہفتہ 26 اکتوبر کو ایرانی وقت کے مطابق صبح ڈھائی بجے F-151 Ra’am اور F161 Sufa طیاروں کی ٹکریوں نے تہران، خوزستان اور ایلام صوبوں کے مخلتف مقامات پر راڈار اور دوسرے فضائی دفاعی نظام کو جدید ترین سپر سونک میزائیلوں سے نشانہ بنایا۔ تہران میں موجود AFP کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ ایرانی اس حملے کے لیے تیار تھے اس لیے زمین پر بم دھماکے سے پہلے آسمان حملہ آور میزائیلوں اور ان کا شکار کرنے والے مزاحمتی گولوں یا Interceptor کی روشنی سے منور تھا۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد آسمان صاف ہوگیا جس کے تھوڑی دیر بعد F-35 بمبار نمودار ہوئے اور انہوں نے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ اس دوران تہران کے امام خمینی اور مہرآباد ایرپورٹ سے پروازوں کا سلسلہ جاری رہا۔
حملہ ہوتے ہی اسرائیل سمیت دنیا بھر کے ابلاغ عامہ پر خبر آنا شروع ہوگئی لیکن ایران اور اسرائیل دونوں جانب حکومتی سطح پر مکمل خاموشی تھی۔اسی دوران امریکی ٹیلی ویژن NBC نے بتایا کہ نام افشا نہ کرنے کی شرط پر ایک اعلیٰ سطحی اسرائیلی اہلکار نے ایران پر حملے کی تصدیق کی ہے اور یہ بھی کہ اسرائیل کا ایران کے جوہری اثاثوں اور تیل وگیس کی تنصیبات پر حملے کا ارادہ نہیں ہے۔
ایرانی وقت کے مطابق صبح ساڑھے چھ بجے کارروائی کی تکمیل پر اسرائیلی فوج کے ترجمان بریگیڈیر جنرل ڈینیل ہگاری نے ایک بصری پیغام میں کہا کہ ایرانی حکومت اور خطے میں اس کے آلہ کار سات اکتوبر سے اسرائیل پر مسلسل حملے کر رہے ہیں جن میں ایرانی سرزمین سے براہ راست حملے بھی شامل ہیں۔کئی ماہ سے جاری مسلسل حملوں کے جواب میں ایرانی فوجی اہداف پر "نپے تلے حملے” کیے گئے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ روسی ساختہ S-300 فضائی دفاعی نظام، میزائیل، راکٹ اور ڈرون کارخانوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔ ترجمان کے مطابق ‘آپریشن ایامِ توبہ’ (Days of Repentance) کے دوران بمباروں، لڑاکا طیاروں، ایندھن فراہم کرنے والے جہازوں اور جاسوس طیاروں نے اسرائیل سے 1600 کلومیٹر دور ایک انتہائی دشوار اور پیچیدہ کاروائی میں حصہ لیا۔ترجمان کا کہنا تھا کہ تمام اسرائیلی طیارے بخیریت اپنے ٹھکانوں پر واپس پہنچ گئے ہیں۔ جب ان سے دشمن کے نقصان کا پوچھا گیا تو سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے جنرل ہگاری نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ ہمارا آپریشن مکمل ہوچکا اور توقع ہے کہ ایران جوابی کارروائی کے نام پر معاملے کو طول دینے سے باز رہے گا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ یہودی عقیدے کے مطابق یہ ‘اعتراف و توبہ’ اور ‘تلاوتِ توریت’ کے ایام ہیں، جس کی مناسبت سے اسے آپریش توبہ کا نام دیا گیا۔
جس وقت جنرل ہگاری تل ابیب میں صحافیوں سے باتیں کر رہے تھے تقریباً عین اسی وقت تہران میں سرکاری ترجمان محترمہ فاطمہ مہاجرانی نے غیر ملکی صحافیوں کو بتایا کہ ‘ایرانی فضائیہ کے دفاعی نظام نے ’کشور ایران‘ کا کامیابی سے دفاع کیا۔ تہران، خوزستان اور ایلام صوبوں پر سو اسرائیلی طیاروں کا حملہ ناکام بنا دیا گیا۔ بہت معمولی سا نقصان ہوا۔ تمام ریفائنریاں اور اہم اثاثے بالکل محفوظ ہیں۔ فضائی اور بحری ٹریفک معمول کے مطابق ہے۔ اسلامک ریپبلک جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے’۔
تھوڑی دیر بعد ایرانی جنرل اسٹاف (GHQ) نے اپنے ایک بیان میں تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ پر حملوں کے لیے اسرائیل نے عراق میں امریکہ کے زیر کنٹرول فضائی حدود کا استعمال کیا۔ اعلامیے میں بتایا گیاکہ حملے کے دوران اسرائیلی طیارے ایرانی سرحد سے سو کلومیٹر دور رہے اور دشمن کے طیاروں کو ملک کی فضائی حدود میں نہیں داخل ہونے دیا گیا۔عراقی حددود میں پرواز کرتے ہوئے جنگی طیاروں نے میزائل داغے۔ ہمارے چوکس دفاعی نظام نے حملہ آور میزائیلوں کا بر وقت سراغ لگا کر زیادہ تر کو فضا ہی میں غیر موثر کر دیا۔ جنرل استاف نے نقصانات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ایلام، خوزستان اور دارالحکومت تہران کے قریب راڈار یونٹوں کو "معمولی اور غیر موثر” نقصان پہنچا ہے۔ زیادہ تر یونٹوں کی مرمت کردی گئی ہے اور کچھ پر مرمتی کام جاری ہے۔ ترجمان نے حملوں میں چار ایرانی سپاہیوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی ہے۔ حوالہ: IRNA
اسرائیل کی جانب سے کارروائی کی خبر آتے ہی امریکی سیکیورٹی کونسل کے ترجمان شان سیورٹ Sean Savett نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایران کے خلاف اسرائیلی کارروائی ‘اپنے دفاع کی مشق اور یکم اکتوبر کو اسرائیل کے خلاف ایران کے بیلسٹک میزائل حملے کا جواب ہے’۔ سیکیورٹی کونسل کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کے حق دفاع کی حمایت کرتاہے۔ انہوں نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ اسرائیل نے اپنی کارروائی عسکری اہداف تک محدود رکھی اور اس سے شہریوں کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ امریکی صدر نے تاثر دیا کہ گویا ان کے اصرار بلکہ دباو نے اسرائیل کو جوہری اثاثوں اور تیل و گیس کی تنصیبات پر حملے سے باز رکھا۔ لیکن اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر (PMO) نے یہ کہہ کر شیخی کے غبارے میں سوئی چبھودی کہ ‘اسرائیل نے وقت سے پہلے اہداف کا انتخاب اپنے قومی مفادات کے مطابق کیا نہ کہ امریکی ہدایات پر’
اسرائیل نے اس حملے میں ایران کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں کوئی دعویٰ نہیں کیا۔اس حوالے سے ایران کا موقف ہم اوپر پیش کرچکے ہیں۔ غیر سرکاری سطح پر اسرائیلی فوجی ذرائع ان حملوں میں میزائیل بنانے کے کارخانوں اور میزائیل شکن نظام کو تباہ کردینے کا دعوی کر رہے ہیں۔ اسرائیلی ٹیلی ویژن Kan Public Broadcasting کے مطابق سیارچوں (Satellite) سے حاصل ہونے والی تصاویر سے دفاعی نظام کی مکمل بربادی ظاہر ہو رہی ہے اور تصاویر کا تجزیہ کرنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی تعمیرِ نو میں خاصا وقت لگے گا۔ کین براڈکاسٹنگ کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ایرانی جوہری اثاثوں سے تو براہ راست کوئی چھیڑ خانی نہیں کی لیکن تہران سے تیس کلومیٹر جنوب مشرق میں پارچین کے خفیہ اڈے کو نشانہ بنایا جو ایک عرصے تک جوہری تحقیقی مرکز تھا اب یہاں شاہد ڈرون اور راکٹ بنائے جاتے ہیں۔اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ دفاعی نظام کے تباہ ہوجانے سے ایران کے لیے اپنی تیل تنصیبات اور جوہری اثاثوں کی حفاظت ناممکن حد تک مشکل ہوگئی ہے۔اسرائیل کے اس دعوے کی کسی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی لیکن ایرانی بظاہر پریشان نظر نہیں آرہے اور تہران میں موجود غیر ملکی صحافیوں نے کسی بڑی آتشزدگی کی کوئی اطلاع نہیں دی۔اگر اسرائیلی حملے میں ڈرون ساز فیکٹری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے تو یہ روس کے لیے بھی تشویشناک خبر ہے کہ یوکرین کے خلاف ایرانی ساختہ شاہد ڈرون سب سے موثر ہتھیار ہے۔ دوسرے دن ایرانی سپریمو علی خامنہ ای نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیل نے ایران کے عزم کو سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ انہوں نے ایرانی حکومت سے کہا کہ نقصانات کا تجزیہ کرتے ہوئے نہ کسی پہلو کو نظر انداز کیا جائے اور نہ ہی مبالغہ آرائی کی جانی چاہیے۔
رہبر معظم کے حکم پر ایرانی حکام نے نقصانات کا حقیقت پسندانہ جائزہ شروع کر دیا ہے۔ تادم تحریر تحقیقات جاری ہیں لہٰذا تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے یہ کہنا مشکل ہے کہ حملے کے نتیجے میں ایران کے دفاعی نظام اور میزائیل سازی کی صلاحیت کو کتنا نقصان پہنچا ہے لیکن اسرائیلی سیاست داں اس حملے کو وقت و وسائل کا زیاں اور بے مقصد مشق قرار دے رہے ہیں۔ قائد حزب اختلاف یار لیپڈ نے سوال اٹھایا کہ جب جوہری اثاثہ جات اور تیل و گیس کی تنصیبات کو ہاتھ بھی نہیں لگانا تھا تو سینکڑوں تجربہ کار ہوا بازوں کو 1600 کلومیٹر دور بھیج کر خطرے میں ڈالنے اور کروڑوں کا ایندھن پھونکنےکی ضرورت کیا تھی؟ بائیں بازو اتحاد کے قائد میجر جنرل یار گولان نے اپنے طنزیہ بیان میں کہا کہ ‘اگر ایران کے ساتھ ‘بدلہ’ مکمل ہو چکا ہے تو حکومت کو اس ذمہ داری کی طرف توجہ دینی چاہیے جس سے بی بی مسلسل پہلو تہی کر رہے ہیں، یعنی غزہ میں یرغمالیوں کا معاہدہ’
اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ امن معاہدے اور قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر قاہرہ میں گفتگو کا ایک دور مکمل کرنے کے بعد موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنی 27 اکتوبر سے قطر میں ہیں۔ مصری خفیہ ذرائع نے موساد کو مطلع کر دیا ہے کہ یحییٰ سنوار کے قتل کے باوجود مزاحمت کار قیدیوں کی رہائی کے لیے غزہ سے اسرائیلی فوج کی مکمل واپسی پر اصرار کر رہے ہیں۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق ڈیوڈ برنی نے اپنے مصری ہم منصب کے ذریعے مزاحمت کار قائدین کو پیغام بھجوایا کہ اگر وہ ہتھیار ڈال کر قیدی رہا کر دیں تو انہیں بحفاظت غزہ سے نکلنے دیا جائے گا۔ پیغام ملتے ہی جواب آیا کہ ‘ہم اپنے وطن میں ہیں، جانا تو قبضہ گردوں کو ہے۔ دن و ہفتہ، ماہ وسال نہیں، ہمیں لڑتے سات دہائیاں گزر چکی ہیں اور ہر آنے والا دن ہمارے عزم کو مزید مستحکم کر رہا ہے۔ فیصلہ قابضین کو کرنا ہے کہ وہ کب تک ہماری مزاحمت سہہ سکیں گے؟’ دوسری جانب اسرائیلی وزیر دفاع گیلنٹ نے حقیقت پسندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فوجی قوت مسئلے کا حل نہیں، صرف طاقت سے تمام اہداف حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ قیدیوں کی رہائی ہماری اخلاقی و قومی ذمہ داری ہے اور اپنے پیاروں کی واپسی کے لیے ہمیں تکلیف دہ شرائط ماننی ہوں گی۔
حوالہ: فرانس 24 ٹیلی ویژن
گفتگو کا اختتام اس اطلاع پرکہ غزہ میں طبی سہولتوں کا آخری مرکز، کمال عدوان ہسپتال بھی تباہ کردیاگیا ہے۔ ہسپتال منہدم کرنے سے پہلے ڈاکٹروں اور طبی عملے کو گرفتار کرنے کے لیے آنے والے اسرائیلی دستے نے ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسام ابو صفیہ کے 8 سالہ بچے ابراہیم کو گولی مار دی۔ لیکن ‘بکمال مہربانی’ ڈاکٹر صاحب کی مشکیں کسنے سے پہلے انہیں اپنے لخت جگر کا جنازہ پڑھانے کی مہلت دے دی گئی۔ غزہ میں ایک سال کے دوران 17029 نونہال قتل کیے گئے، ان میں سے 171 بچوں کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی اپنی ماؤں کے پیٹوں میں ہی مار دیا گیا۔ قتل ہونے والے سات سو سے زیادہ بچوں نے اپنی پہلی سالگرہ بھی نہیں دیکھی۔ چنگیز اور ہلاکو جیسے وحشی بھی خونریزی کے دوران مریضوں، شفا خانوں اور بیمارستانوں کی حفاظت کرتے تھے لیکن غزہ میں انسان، انسانیت اور اخلاقیات سب کا جنازہ نکال دیا گیا۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 نومبر تا 9 نومبر 2024