!ایران پر عرب ممالک کے موقف میں تبدیلی

قیامِ امنِ عالم کے لیے امریکہ کا اسرائیلی اثر سے باہر نکلنا ضروری

اسد مرزا
سینئر سیاسی تجزیہ نگار

’’جیسے جیسے اسرائیل اور ایران کے درمیان براہ راست تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہے، کئی خلیجی ممالک ایران کی تیل تنصیبات پر ممکنہ اسرائیلی حملوں کو روکنے کے لیے سرگرم نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کو ایران پر کسی بھی حملے کے لیے اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔‘‘
اس ماہ یعنی ۷ اکتوبر کو فلسطین-اسرائیل جنگ کا ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ اس دوران زیادہ تر مغربی ممالک اسرائیل کو فلسطین پر حملے بند کرنے کے لیے صرف مشورہ دیتے رہے، حالانکہ وہ خفیہ طور پر اسرائیل کی ہتھیاروں و گولہ بارود کے علاوہ مالی مدد بھی کر رہے ہیں۔ دوسری جانب اس لڑائی میں ایران کی کسی بھی طرح کی شمولیت نے عرب ملکوں کو تشویش میں ڈال دیا ہے۔ ان میں سے بعض نے اس تنازعہ کو حل کرنے کے لیے دو ریاستی فارمولے کی وکالت کی ہے، لیکن موجودہ تنازعہ کو روکنے کے لیے سیاسی مفادات نے انہیں ایران کے ساتھ زیادہ روادارانہ رویہ اپنانے پر مجبور کر دیا ہے جو کبھی دفاعی اور نظریاتی دونوں لحاظ سے ان کا مخالف سمجھا جاتا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی معیشت کو سنگین منفی نتائج سے روکنے کے لیے دشمنی میں اضافے کو روکنے کی کوششیں بہت ضروری ہیں۔ ایران کہہ رہا ہے کہ اسرائیل، ایران میں تیل یا جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا سکتا ہے، وہ تہران پر براہ راست حملہ کر سکتا ہے یا آبنائے ہرمز کو بند کر سکتا ہے جو دنیا کی سب سے اہم تیل کی حمل و نقل آبی گزر گاہ ہے، عالمی تیل کا پانچواں حصہ آبنائے ہرمز سے گزرتا ہے۔ اس طرح تیل کی قیمتیں عالمی سطح پر مزید اضافہ ہونے کے امکانات بھی بڑھ رہے تھے۔
موجودہ حالات میں سب سے ضروری سوال یہ ہے کہ کیا عرب ریاستیں ایران کے براہ راست جنگ میں شامل ہونے کی صورت میں اس کی حمایت کریں گی؟ اب تک ایران نے خطے میں حماس اور حزب اللہ جیسے گروپوں یا غیر ریاستی عناصر کے ذریعے کام کیا ہے۔ لیکن ایران کے براہ راست ملوث ہونے کی صورت میں مستقبل کا اتحاد، مذہبی نظریات اور مختلف عرب ریاستوں کے جغرافیائی محل وقوع کی بنیاد پر بھی منحصر رہے گا۔ زیادہ امکانات یہ ہیں کہ اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے تو سعودی عرب، اردن اور متحدہ عرب امارات جیسے عرب ممالک اپنے علاقائی مفادات کے خلاف کسی بھی قیمت پر ایران کی حمایت نہیں کریں گے۔
اس کے ساتھ ہی روایتی مذہبی نظریاتی اختلافات اور متضاد عزائم کی بنیاد پر زیادہ تر عرب حکومتیں ایران کو ایک مخالف کے طور پر دیکھتی ہیں۔ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے سعودی عرب نے ایران کے مقابلے میں امریکہ کے ساتھ بہت قریبی تعلقات استوار کیے ہیں، جبکہ ریاض اور تہران نے حال ہی میں تعلقات کو بہتر کرنے کا مرحلہ وار کام شروع کیا ہے۔
10 مارچ 2023 کو ایران اور سعودی عرب کے نمائندے، جو بیجنگ میں پانچ دنوں تک خفیہ طور پر ملاقات کرتے رہے تھے، دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے چین کے زیر اہتمام ایک معاہدے کا اعلان کیا ہے۔
ریاض نے سات سال قبل تہران سے باضابطہ تعلقات منقطع کر لیے تھے۔ تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے دونوں ممالک کی کوششیں دنیا کے علم میں تھیں۔ اس کے ساتھ ہی عراق اور عمان نے ایرانی اور سعودی حکام کے درمیان مذاکرات کے پچھلے دور کی میزبانی بھی کی تھی، لیکن معاہدے کو حتمی بنانے میں چین کا کردار غیر متوقع رہا۔ تینوں ممالک کی طرف سے جاری ہونے والا مشترکہ سہ فریقی بیان ایک جغرافیائی سیاسی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں چین کو ایک ایسے خطے میں بڑا کردار ادا کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جہاں امریکہ طویل عرصے سے غالب رہا ہے اور یہ بھی ایک اہم تبدیلی ہے۔
ریاض اور تہران کے مسابقتی علاقائی ایجنڈوں نے یمن اور سیریا میں تباہ کن جنگیں شروع کر دی ہیں اور لبنان اور عراق میں عدم استحکام کو ہوا دی ہے۔ کئی خلیجی عرب ممالک طویل عرصے سے ایران نواز گروپوں کی طرف سے براہ راست دھمکیوں اور حملوں کے ساتھ ساتھ اختلافی تحریکوں کی ایرانی حمایت سے فکر مند ہیں۔ تہران سعودی عرب پر کردستان، بلوچستان اور دیگر شورش زدہ صوبوں میں مخالف ایرانی میڈیا کے ساتھ نسلی مخالف گروہوں کی پشت پناہی کا الزام لگاتا رہا ہے۔
یہاں جو چیز ان عرب ملکوں کو ایران کے تئیں اپنا رویہ بدلنے کی ترغیب دے سکتی ہے وہ رائے عامہ ہے جو زیادہ تر عرب ریاستوں میں فلسطینی کاز سے ہمدردی رکھتی ہے۔ اگر عرب ریاستیں فلسطینیوں کے خلاف اس جنگ میں واضح طور پر اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں تو اس سے عوام کی نظروں میں ان کے رہنماؤں کی قانونی حیثیت کم ہو سکتی ہے، حالانکہ زیادہ تر عرب حکم رانوں کو اس رائے عامہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر ممالک جمہوری نہیں بلکہ بادشاہی نظام کے تحت آتے ہیں جہاں عوام کی رائے کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔
دوسرے، ایک وسیع جنگ کی صورت میں جس میں ایران براہ راست ملوث ہو، اسرائیل کی حمایت کرنے والی حکومتوں کو جارح کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ امریکہ نے ایران کے پڑوسیوں کے سلامتی کے مفادات کی حمایت کی ہے لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتا رہے گا۔
اس کے ساتھ ہی ان ممالک کی ایران سے جغرافیائی قربت بھی ایک اہم وجہ ہے۔زیادہ تر عرب ممالک نہیں چاہیں گے کہ کوئی قریبی پڑوسی خطے میں جارحانہ رویہ اختیار کرے یا اس کی بالا دستی وہاں قائم ہو جائے۔ ساتھ ہی ایک بڑی علاقائی جنگ ان ممالک کے لیے معاشی طور پر ایک بوجھ ثابت ہوسکتی ہے۔
مکمل طور پر ایران کا ساتھ نہ دینے سے کچھ عرب ممالک ابھی تک اسرائیل اور مغرب کی نظروں میں دوسروں سے بہتر کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں اور انہیں مغرب کی حمایت بھی جاری ہے۔ اسی طرح ان میں سے بعض نے اسرائیل کا مکمل ساتھ نہ دے کر ایران کی طرف سے مصیبت کو دعوت نہیں دی ہے۔ بحران میں گِھرے ہوئے خطے میں اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے اس طرح کا انداز سفارتی اور ڈپلومیٹک ہے۔ تاہم، مشرق وسطیٰ میں بڑھتا ہوا یہ تنازعہ خطے کو ایران اور امریکہ کے درمیان براہ راست تصادم کی راہ پر لا سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں تحمل امریکی اسٹریٹجک مفادات کے مطابق ہوگا جبکہ اسرائیل نواز لابی کا زور واشنگٹن کی فیصلہ سازی کو کمزور کرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
حال ہی میں جس طرح امریکی افواج کو اسرائیل بھیجا گیا ہے، جدید ترین گولہ بارود جیسے ٹرمینل ہائی ایلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس سسٹم (THAAD) وہ ایران کو اپنی جارحانہ صلاحیتوں کو مضبوط بنا کر اپنی ڈیٹرنس کو مضبوط کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس کے وجود کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ اپنے جوہری اصول کو تبدیل کر سکتا ہے یعنی دنیا کو ایک جوہری جنگ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایران کی سیکورٹی پالیسی میں اپنے اور دیگر عرب ممالک کے مشترکہ مفادات کے ساتھ خطے میں غیر ریاستی عناصر کے ساتھ قریبی روابط کو فروغ دینا شامل رہا ہے۔ 2003 میں ایران نے امریکہ سے یہاں تک کہا تھا کہ اگر وہ حماس سے علیحدگی اختیار کرلے اور حزب اللہ پر دباؤ ڈالے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر کام کرنے کے لیے تیار ہو جائے تو امریکہ کو اس پر سے عائد معاشی پابندیوں کو ہٹانا ہوگا لیکن امریکہ نے تہران کے مطالبات پر کبھی بھی توجہ نہیں دی۔
ایران کے اعلیٰ فوجی کمانڈروں اور حماس کی قیادت کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں نے ایران کو مزید برہم کر دیا ہے۔ اسرائیل کے یہ یکطرفہ اقدامات ایران کو اپنے اسٹریٹجک نظریے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ایران اپنے دفاعی انداز میں تبدیلی کرتا ہے تو یہ دونوں فریقوں کے درمیان حالیہ میل جول کے باوجود سعودی عرب کے لیے تشویش کا باعث بن سکتا ہے۔
مزید یہ کہ فلسطینی کاز کو مشرق وسطیٰ کے ممالک کے قومی اور تزویراتی مفادات سے الگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان موثر تعاون اس سے زیادہ ضروری کبھی نہیں تھا اور یہ وقت کی ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے، اس مرتبہ اس سمت میں کچھ نمایاں تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب امریکہ خود کو اسرائیل نواز لابی کے اثر و رسوخ سے نکالے اور عالمی امن کے تحفظ اور انسانی حقوق کے دفاع کے لیے خود کو وقف کر دے۔ یہ نہ صرف صحیح کام ہوگا بلکہ یہ اس کی ذمہ داری بھی ہے جسے امریکہ کو ادا کرنا ہوگا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 نومبر تا 9 نومبر 2024