ایران کا جوابی حملہ، اسرائیل کی عسکری قوت اور دفاعی حکمتِ عملی دباؤ میں

غزہ میں کیے گئے مظالم، خطے میں بدامنی کا اصل محرک

0

پروفیسر ایاز احمد اصلاحی، لکھنؤ

ضمیر ایمان اور غیرت دونوں سے خالی ہو تو عین ممکن ہے کہ کعبہ کے نام نہاد پاسبان کفر کے رکھوالے بن جائیں۔ انسانیت کی ادنی ترین سطح سے بھی نیچے گر کر وہ اپنے زخم خوردہ و مظلوم فلسطینی بھائی بہنوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے غاصب و ظالم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونا پسند کریں۔ اس کے بر عکس، اگر یہ انسانی ضمیر زندہ ہو تو یہ بھی اس دنیا میں عین ممکن ہے کہ جو صاحب ایمان بھی نہیں ہوں ان کا انسانی ضمیر اور ان کی انسانی غیرت انہیں انسانیت کا رکھوالا بنا دے اور وہ اپنے ضمیر کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے فلسطین کے مظلوم و مجروح مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہوں اور انسانیت کے مجرم اسرائیل سے اس کے انسانی جرائم کی وجہ سے برسوں کے تعلقات ختم کرنا پسند کریں۔
لیکن ان دو الگ الگ قسم کے افراد اور حکام کے رویے پر مثالوں کے ذریعہ کسی اور وقت تفصیل سے بات ہوسکتی ہے۔ فی الحال ساری گفتگو اس پہلو پر مرکوز رکھنا بہتر ہے کہ کس طرح جون 12؍ 2025 کو ایران پر اسرائیل کے اچانک ہوائی حملوں نے خود اسرائیل کے لیے موت کا کنواں کھودنے کا کام کیا ہے اور غزہ میں اس نے انسانیت کے خلاف جن عظیم جرائم کا ارتکاب کیا ہے وہ خود مہیب سایہ بن کر اس کا تعاقب کرنے لگے ہیں۔
اسرائیل پر غزہ کا سایہ
جون 14 کو ایران سے داغی گئی بیلسٹک میزائلوں کا دوسرا قافلہ بھی اسرائیل میں بسلامت اتر گیا اور دیکھتے دیکھتے تل ابیب کے بعد اسرائیل کے ایک دوسرے شہر کا نقشہ غزہ کے تباہ حال بستیوں کے مماثل بن گیا۔ اس سے دو دن قبل ان میزائلوں نے تل ابیب کا نقشہ بگاڑا تھا اور اس بار اسرائیل کا شہر حیفا اور اس کی بندرگاہ کی صورت کافی حد تک بگاڑ دی گئی ہے۔ یہ وہی حیفا بندرگاہ ہے جہاں مودی وِچاروں سے حوصلہ پاکر اڈانی نے بھی اپنا چار بلین ڈالر سے زائد مالیت کا ایک کارگو کارنر کھول رکھا تھا جو اب نذر آتش ہوچکا ہے۔ اسرائیل یا مقبوضہ فلسطین میں تین بڑے شہر ہیں، تل ابیب، حیفا اور یروشلم اور دیکھتے دیکھتے ان تینوں شہروں میں تقریباً آٹھ بڑی رکاوٹوں کو پار کرتے ہوئے خطرناک ایرانی میزائلوں نے اپنی زد میں لے لیا اور ان شہروں میں جو تباہی مچی ہے اسرائیل کو دور دور تک اس کا اندازہ نہیں تھا۔ ایران کے سپریم قائد و امام آیت اللہ علی خامنہ ای نے اس بار ایران کا موقف یہ کہہ کر دنیا پر واضح کردیا تھا کہ "یہ جنگ صہیونی ٹولے نے چھیڑی ہے اور اس بار اسے "مارو اور بھاگو” کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ صہیونی رجم اس وقت اپنے جرائم کی سزا چکھے بغیر نہیں رہ سکے گی اور ایرانی قوم کو اس کی بھی ضمانت دی جاتی ہے کہ اس بار ہمارا جواب ادھورا ہرگز نہیں ہوگا”۔ یقیناً ایران نے اس بار اپنے اس لہجے کو عملی جامہ پہنا دیا۔اس کا یقین اسرائیل کے فوجی سربراہوں کے ساتھ اسرائیل کے سامنے بھیگی بلی بنے کچھ حکم رانوں کو بھی ہونے لگا ہے اور ان میں سے بعض نے ایرانی میزائلوں کی طاقت دیکھ کر اس بار ایران کے حوالے سے اپنا لہجہ بدلا ہے تو بعض نے اپنے فضائی حدود کو قابو میں رکھنے کا اعلان کردیا ہے۔ دوسری طرف نیتن یاہو کے بھی حواس گم ہیں جو اس دوران امریکہ سے بار بار ایران کے خلاف مدد کی بھیک مانگ چکا ہے۔ اس نے 15 جون کو ایرانی حملے سے تباہ ہوئی عمارتوں کو دیکھنے کے دوران میڈیا سے بھلے دکھاوے کے لیے یہ کہہ دیا کہ "ایران کے پاس اگر ایسے بیس ہزار سوپرسونک میزائل ہوں تب بھی دنیا کا کوئی بھی ملک اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ نہیں بن سکتا”۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل دونوں ملکوں کے فوجی سربراہوں نے نیتن یاہو پر یہ واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل صرف اپنے دم پر ایران سے کبھی مورچہ نہیں لے سکتا اور نہ ہی کسی سطح پر ایران کو جھکنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔
بہر حال ہم نے یہ دیکھا کہ اس بار محض تین دنوں کے اندر ایران نے اسرائیل کو دفاعی پوزیشن میں ڈال دیا ہے۔ جو اسرائیلی اسٹرکچر ایران کی بیلسٹک اور سوپرسونک میزائلوں کا نشانہ بنے ہیں۔ ان رہائشی عمارتوں کے علاوہ فوجی مراکز، بندرگاہ اور ایرپورٹ شامل ہیں۔اس کے علاوہ دو درجن سے زائد غاصبوں اور غیر قانونی آبادکاروں کے ہلاک ہونے اور سو سے زائد کے زخمی ہونے کی خبر خود اسرائیل سے آئی ہے۔
اسرائیل خود اپنی بنائی کھائی میں
ایران کی طاقتور میزائلوں کا نشانہ بنی عمارتوں، اور اسرائیل کی بعض فوجی تنصیبات کا منظر غزہ کی تباہ حال آبادی سے اتنا ملتا جلتا ہے کہ یہ فرق کرنا مشکل ہے کہ یہ غزہ ہے یا غزہ کا مجرم اور فلسطین کا غاصب اسرائیل۔ صاف ظاہر ہے کہ اسرائیل کو انسانیت کے خلاف اپنے گھناؤنے جرائم کی سزا ملنی شروع ہوگئی ہے۔ حالات کل کیا کروٹ لیتے ہیں پتہ نہیں، آگے یہ جنگ کیا رخ اختیار کر سکتی ہے اس کا جواب دینا بھی ابھی مشکل ہے۔ لیکن ایک بات جو یقین سے کہی جاسکتی ہے وہ یہ کہ یہ غیر قانونی اسرائیلی ریاست امریکہ و برطانیہ کی مدد سے فلسطین پر اپنے قبضے کی تاریخ 14 مئی 1948 سے لے کر اس وقت تک پہلی بار اس ہول ناک انجام کو پہنچی ہے جہاں اس کا پورا وجود لرزتا نظر آ رہا ہے، اس کے در و دیوار سے خوف کی علامتیں واضح طور سے محسوس کی جا سکتی ہیں۔ اس کے نوجوان جو کل تک پاپ کارن کھاتے ہوئے اپنے ٹی وی اسکرین پر غزہ کی تباہی کے مناظر دیکھ کر قہقہے لگاتے نظر آرہے تھے اور جو ان دنوں غرب اردن کے فلسطینی باشندوں پر شکاری کتوں کی طرح حملہ کرتے پھر رہے تھے آج سائرن کی آواز پر خوف زدہ ہوکر بلیوں کی طرح ادھر ادھر بھاگتے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ صہیونی یہودی جو نیتن یاہو اور گریٹر اسرائیل کے حق میں تل ابیب کی خوبصورت سڑکوں پر نعرے لگاتے اور اسرائیلی سیکیورٹی کی چھتر چھایا میں مجبور فلسطینیوں کو ڈراتے دھمکاتے نظر آتے تھے اچانک منظر سے غائب ہوگئے ہیں اور بنکروں میں دبک گئے ہیں۔ وہ عورتیں جو کل حیفا کی سڑکوں پر غزہ کے مجروح، محصور اور بھوکے انسانوں سے بے نیاز ہوکر اپنے نام نہاد آئرن ڈوم پر تکیہ کیے ہنستی مسکراتی شاپنگ مالوں میں گھوم پھر رہی تھیں اب گزشتہ تین دنوں میں ایرانی میزائل کے دھماکوں کے ساتھ ویڈیوز میں ان کی چیخیں بھی صاف سنی جاسکتی ہیں، وہ اسرائیلی بچے جو اب تک غزہ کے بچوں کی بھکمری اور اسرائیلی بمباریوں سے انہیں لگے زخموں سے بے خبر اپنی صہیونی جنت میں پوری بے فکری سے اچھلتے کودتے ملتے تھے وہ اچانک ایرانی میزائلوں سے بچنے کے لیے اپنی ماؤں کے ساتھ بنکروں کی طرف دوڑ لگاتے نظر آرہے ہیں۔ انہیں کیا خبر کہ یہ بنکر بھی فلسطینی نوجوانوں اور فلسطینی بچوں کی لاشوں پر تعمیر ہوئے ہیں اور ان کی دیواروں پر بھی پہنچنے والے خدائی مار کا سیلاب خطرے کا سرخ نشان پار کرنے ہی والا ہے۔
دوسری طرف اسرائیل نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ اس کے ناقابل شکست ہونے کا بھرم اب کبھی نہیں ٹوٹے گا اور نہ ہی اس کے آس پاس کوئی مسلم ملک اس کے لیے چیلنج بن سکے گا۔ لیکن اس کا بھرم ایران تو ایران خود حماس جیسی ایک غیر ریاستی، غیر فضائی اور غیر میزائلی چھوٹی سی جماعت نے بھی پوری طرح توڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ بھرم اب اس حد تک ٹوٹ گیا ہے کہ نام نہاد اسرائیل کا نام نہاد وزیر اعظم جو کل تک اپنی مکروہ ترین آوازوں کے ساتھ اہل فلسطین اور ان کے حامیوں پر بھونکتا پھرتا تھا ایران کی صرف چند بیلسٹک میزائلوں کی دہشت نے اسے روپوش ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ بے شک اسرائیل نے ہزاروں نہتے فلسطینی باشندوں کی جانیں لی ہیں، تاہم یہ بات پوری دنیا جانتی ہے کہ اس نے فلسطین سے ایران تک صرف معصوموں کو مارا ہے یا چوروں کی طرح بزدلانہ انداز سے آزادی فلسطین کے بہادر مجاہدین اور ایرانی جرنیلوں کو نشانہ بنایا ہے۔ جب کہ غزہ اب بھی زندہ ہے اور ایران پوری جواں مردی سے اس سے اکیلا لڑ رہا ہے۔ اب اسرائیلی عوام کی باری ہے جنہوں نے اپنے انتہا پسند اور اسلام سے نفرت کرنے والے مکار صہیونیوں کو اپنا رہنما بنا رکھا ہے اور جو خلیجی جنگ سے لے کر اب تک مشرق وسطی کو جہنم بنانے کے اصل ذمہ دار ہیں۔ اب انہیں وہ کچھ بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے جو ہمیشہ ظلم و ستم کرنے والوں کے سامنے آتا ہے اور جسے انہوں نے صرف غزہ کے نہتے فلسطینیوں کی قسمت سمجھ رکھا تھا۔ اب وہ دیکھیں کہ یروشلم کو اپنی راجدھانی بنانے اور اپنی سرحدوں کو نیل سے فرات تک پھیلانے کا خواب دیکھنے والا اسرائیل کس طرح محض تین دنوں میں گھٹنوں پر آگیا ہے اور ایران سے بچنے کے لیے امریکہ کی طرف دیکھ رہا ہے۔
اسرائیل کو پہلی بار اس کے جرائم کے مطابق سزا
تو کیا اسرائیل کو انسانیت کے خلاف اپنے گھناؤنے جرائم کی سزا ملنی شروع ہوگئی ہے؟ حالات تو کچھ ایسے ہی بتا رہے ہیں۔ مشرق وسطی میں آج بدلتے حالات دیکھ کر مجھے اپنا ہی ایک قول یاد آ رہا ہے جو 2014 سے میں مستقل دہراتا آرہا ہوں کہ اسرائیل وہ غاصب اور غیر قانونی ریاست ہے جس کے انسانیت ناشناس حکم راں اس کی موت کا خود ہی سامان کر رہے ہیں۔ صحیح کہا گیا ہے کہ گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔
اسرائیل انسانیت کے خلاف اپنے عظیم جرائم کی وجہ سے اس سے بھی زیادہ بد ترین سزا کا مستحق ہے۔ اس کے ساتھ جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے اس پر اس وقت صرف ہم جیسے دنیا بھر کے انسانیت نواز اور انصاف کے طرف دار اور اہل غزہ ہی خوش و مطمئن نہیں ہیں بلکہ پوری دنیا کی مختلف قوموں کا سوشل میڈیا دیکھ لیجیے ان کے بیشتر نوجوان اسرائیل کے اس حشر پر کچھ اس طرح شاداں و فرحاں ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے انہیں اس دن کا بڑی مدت سے اور بڑی بے چینی سے انتظار تھا جب اس مجرم کو پہلی بار اس کے عظیم جرائم کے مطابق سزا ملی ہے ۔
ایران کی خوش بختی
اس دہشت گرد اور قاتل ریاست کے ساتھ ایسا ہونا ہی تھا اور ہونا بھی چاہیے۔ امریکہ کا سہارا پاکر اور امریکہ کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں میں سے ایک، ریپبلیکن پارٹی کے توسط سے خود امریکہ کو یرغمال بنا کر وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہوگیا تھا کہ عظیم تر اسرائیل کی منزل بہت قریب ہے، بس دبئی جاکر وہاں سے اپنے عرب ایجنٹوں کے دوش بدوش برج خلیفہ سے اس کا اعلان باقی ہے۔ اس طرح اس کی دہشت گردیوں کا گندا سایہ فلسطین سے شام تک اور لبنان سےایران تک پھیلتا جارہا تھا اور وہ اب بھی اپنی دہشت گردانہ و مجرمانہ حرکتوں سے باز آنے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔ ان حالات میں اس بات کا تقاضا تھا کہ کوئی جری و باہمت ملک بڑھ کر اس پر روک لگائے، اسے اس کی اوقات یاد دلائے۔ اللہ تعالی نے بین الاقوامی سرحدوں کو چھوتی اور بے لگام ہوتی اسرائیلی دہشت گردی کے اس سائے کو اسرائیل کے موت کے سائے میں بدلنے کے لیے ایران کا انتخاب کیا۔یہ ایران اور اس کی قیادت کی خوش بختی ہے، یہ اس کے لیے بہت بڑی سعادت ہے کہ القدس اور اس کے باشندوں کی حفاظت کے لیے اللہ تعالی نے یہ عظیم کام اسے سونپا اور پوری دنیا جانتی ہے کہ اس کشمکش اور ایران کے خلاف بڑھتی اسرائیلی جارحیت کی اصل وجہ تحریک آزادی فلسطین ہے جس کی حمایت کی راہ میں ایران نے کبھی کسی سیاسی و سفارتی مصلحت کو قبول نہیں کیا اور نہ ہی کسی شیعہ سنی تفریق کو آڑے آنے دیا۔
ایران۔اسرائیل کشمکش یا فلسطینی مزاحمت کا تسلسل
بعض کم فہم اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں اور عام لوگوں کو بھی اس غلط فہمی میں رکھنا چاہتے ہیں کہ یہ جنگ ایران و اسرائیل کی جنگ ہے اور اس خطے کے دیگر مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا مسلک اور مسلک پرست ذہنیت انہیں یہ بھی سمجھائے ہوئے ہے کہ ایران جیسے بھی تباہ ہو یہ مسلم دنیا اور عیش پرست ریالی دنیا کے لیے اچھا ہی ہے۔ لیکن میں ان کی اس ذہنیت اور اس کے مایوس کن نتائج کو جو انہیں اسلام دشمن قوتوں کا بھی حامی بنائے دے رہی ہے،صرف ایک مسلکی شدت پسندی کی شکل میں ہی نہیں دیکھتا بلکہ اسے باطل نوازی کی ایک غلیظ صورت بھی تصور کرتا ہوں۔ جس کے اصل نتائج سے وہ اب بھی بے خبر ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایران یہ بھاری قیمت صرف امریکہ دشمنی کی وجہ سے نہیں بلکہ دو بڑی وجوہات سے ادا کر رہا ہے۔ ایک وجہ تو بالکل واضح ہے اور وہ ہے ایران کی طرف سے اسرائیل کے ظالمانہ قبضے کے سائے میں رہنے والے مظلوم فلسطینیوں کی شدید حمایت اور اسرائیل کے خلاف ان کی جدوجہد کی ہر سطح پر کھل کر مدد کرنے کا طویل سلسلہ۔ دوسری وجہ ہے ایران کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت جسے اسرائیل اس وقت اپنے ناجائز وجود اور اس کے مستقبل کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور اس خطرہ سے وہ ایران کے ممکنہ نیوکلیائی بم کا ہوّا کھڑا کرکے آسانی سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن وہ بد قسمتی سے اپنے ہی جال میں پھنستا جارہا ہے۔
القدس کی بازیابی میں مجاہدین فلسطین کا ساتھ دینے کی یہ حکمت عملی ایران نے انقلاب ایران کے بعد سے ہی اختیار کر رکھی ہے جو ہنوز جاری ہے۔ بقول حماس ایران پر حالیہ اسرائیلی حملے دراصل فلسطین کی غیر مشروط اور غیر محدود حمایت کی ہی قیمت ہے جو ایران پوری پا مردی سے ادا کر رہا ہے۔ اسرائیل کے ہاتھوں ایران کے عظیم فوجی سربراہوں اور سائنس دانوں کی ہلاکت بھی فلسطینی کاز کی اس کی اسی حمایت کا نتیجہ ہے۔لیکن آفریں ہے ایرانی قیادت کو جو سخت ترین حالات میں بھی فلسطین و اہل فلسطین کی حمایت سے کبھی پیچھے نہیں ہٹی اور نہ ہی اس نے وقت کی بڑی اور جابر و ظالم قوتوں سے کبھی کوئی ایسا سمجھوتہ کیا جو آزادی فلسطین اور اہل فلسطین کے مفادات کے خلاف ہو۔
ایمان و اسلحہ- دونوں سے مسلح
اسرائیلی جارحیت کا ایران کی طرف سے منہ توڑ جواب اس بات کا بھی اعلان ہے کہ ایران جیسا ملک ہی عالم اسلام کو اسرائیل سے نجات دلا سکتا ہے، ایسا ملک جو بیک وقت ایمان اور ہتھیار دونوں طاقتوں سے مسلح ہو، جو کسی بھی پہلو سے وقت کی مغرور و خود سر قوتوں کا غلام بننے کے لیے تیار نہ ہو اور جو اپنی حفاظت کے لیے خود مسلم دشمن ممالک کا محتاج نہ ہو۔ ایسے ہی لوگ ایسی شیطانی ریاستوں کو سرنگوں کر سکتے ہیں۔ بزدل فرعون نے کسی موسیٰ کے خوف سے پوری قوم بنی اسرائیل کو مٹانا چاہا تو اللہ نے خود اسے ہی نیل میں غرق کرکے مٹا دیا۔ آج اسی راستے پر چلتے ہوئے فلسطین پر قابض اسرائیل کسی یاسین، کسی اسمٰعیل ہنیہ اور کسی یحيىٰ سنوار کے خوف سے پوری قوم فلسطین اور مظلوم فلسطینیوں کو ختم کرکے ان کی لاش پر عظیم تر اسرائیل بنانا چاہتا ہے اور اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ ہر ظالم کا انجام یکساں ہوتا ہے۔ جس طرح بنی اسرائیل کو مٹانے کا منصوبہ بنانے والا فرعون خود مٹ گیا، اسی طرح بنی اسمٰعیل کی اولاد کو فلسطین سے مٹانے کا خواب دیکھنے والا اسرائیل بھی ایک دن خود نابود ہوجائے گا اور اہل فلسطین اسی طرح باقی رہیں گے۔
بے شک اسرائیل کے مکرو فریب کی دنیا بہت وسیع اور تہ دار ہے۔ وہ اپنی فطرت میں بسے خبث کی وجہ سے اپنی حفاظت کے نام پر جرم اور دہشت گردی کا بڑے سے بڑا شیطانی ریکارڈ بھی توڑ سکتا ہے۔ لیکن جیسا کہ توقع تھی، فرعون کی طرح یہ بزدل ظالم بھی اپنے مظالم کی وجہ سے اپنا وجود خود اپنے ہاتھوں خطرے میں ڈال چکا ہے اور آہستہ آہستہ اپنی تباہی کے دریائے نیل کی طرف خود ہی بڑھ رہا ہے۔ اسرائیل پر ایران کے دوسرے میزائل حملوں کے بعد بگڑتے حالات دیکھ کر وہاں کے شہریوں کو بھی اس خطرے کا اندازہ ہونے لگا ہے۔چنانچہ ایک سن رسیدہ اسرائیلی عورت نے اس افراتفری کے ماحول میں ایک بین الاقوامی نیوز رپورٹر کے سامنے اس بات کا اعتراف کچھ ان الفاظ میں کیا ہے: "اسرائیل میں حالات اتنے تشویش ناک ہیں کہ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اب یہاں کیا ہوگا، کچھ نہیں معلوم اگلے دن کیا ہو، بلکہ اگلے سیکنڈ کیا ہوگا”. اسرائیل کا وزیر اعظم جو ایرانیوں کو مزید تباہی سے بچنے کے لیے اپنی موجودہ ایرانی قیادت سے نجات حاصل کرنے کا مشورہ دے رہا تھا اس سے متعلق اس وقت تک کی خبر یہ ہے کہ اس کا اپنا مخصوص جہاز کسی اسرائیلی ایر پورٹ کی بجائے قبرص کا مہمان بنا ہوا ہے اور وہ خود یا تو کسی بنکر میں روپوش ہے یا پھر یونان یا قبرص میں چھپا بیٹھا ہے۔ اس طرح سارے آثار یہی کہہ رہے ہیں کہ یہ صہیونی ریاست جلد بہت جلد اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے۔ حیفا اور تل ابیب پر برسنے والے ایرانی میزائلوں نے اسرائیل کی فوجی طاقت کا فریب ہی نہیں اس کے وجود کی ان کم زور بنیادوں کو بھی آشکار کر دیا ہے۔ کاش دنیا ان مثالوں سے سبق لے اور اس موقع کو کسی بھی حال میں ضائع نہ ہونے دے۔
(مضمون نگار کی ذاتی رائے سے ادارہ دعوت کا متفق ہونا ضروری نہیں)

 

***

 جدید اسلحوں کا مقصد صرف جنگ جیتنا نہیں بلکہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا اور حریفوں پر دھاک بٹھانا بھی ہے۔ شمالی کوریا کے کِم خاندان نے بین البراعظمی میزائلوں اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے ذریعے بین الاقوامی سیاست میں ایک اہم مقام حاصل کر لیا ہے۔ چین نے بھی اسٹیلتھ فائٹر طیارے اور جدید بحری جہاز اپنے بیڑے میں اسی مقصد کے تحت شامل کیے ہیں تاکہ اپنی عسکری طاقت اور تکنیکی صلاحیتوں سے دنیا کو متاثر کیا جا سکے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 جون تا 28 جون 2025