ایران-اسرائیل جنگ کے پس منظرمیں امت کے مستقبل کی تصویر

ذمہ داریاں نبھائے بغیر امت کے حالات بدلنے والے نہیں

0

ابوفہد ندوی، نئی دہلی

انسانی منصوبے چاہے کچھ ہوں، کائنات کا نظام الٰہی تدبیر ہی سے چلتا ہے
غزہ کے مقابلے میں ایران کی بہت زیادہ فکر نہیں ہونی چاہیے، خاص طور پر اس لیے بھی کہ ایران تو اپنی بقا کا سامان کر ہی لے گا جیسا کہ وہ ایک زمانے سے کرتا آیا ہے، اسرائیل و امریکہ کی دھمکیوں کے باوجود، اپنے خلاف اقتصادی پابندیوں کے باوجود اور حالیہ دنوں میں امریکہ و اسرائیل کی طرف سے اس کے نیوکلیر پلانٹس اور ایئرپورٹس پر شدید نوعیت کے حملوں کے باوجود بھی۔
ایران میں جو سب سے اچھی چیز مجھے نظر آتی ہے وہ ایرانی قوم کا اپنے لیڈروں کے تئیں اظہار یکجہتی ہے۔ اور کیوں نہ ہو جب ایرانی قیادت حوصلے کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ قیادت جب بزدل ہو جاتی ہے تبھی ایسا ہوتا ہے کہ عوام کا اعتماد قیادت پر سے اٹھ جاتا ہے اور قیادت کے خلاف بغاوتیں ہونے لگتی ہے۔ اگر قیادت اپنا حق ادا کرتی رہے تو قوم ہر حال میں قیادت کے ساتھ کھڑی رہ سکتی ہے، جیسا کہ ہم ایران میں دیکھ رہے ہیں۔
مسئلہ تو ہم سب کے لیے فی الواقع غزہ ہی ہونا چاہیے۔ غزہ کو صفحۂ ہستی سے مٹایا جا رہا ہے۔ اسرائیل کے قیام کے وقت مسلمانوں کے ساتھ جتنا بڑا دھوکہ کیا گیا تھا موجودہ وقت میں اس سے بھی زیادہ بڑا دھوکہ کیا جا رہا ہے۔ اگر اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی ہو بھی جائے تب بھی غزہ کے لوگوں کو مکمل آزادی اور مکمل راحت ملنے والی نہیں ہے۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور ان کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے اس کی ہر سطح کی کوششوں اور ان کے لیے کہیں تک بھی جانے کی اس کی قوت ارادی کو دیکھ کر یہی خیال پختہ ہوتا ہے۔
امریکہ و اسرائیل یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمان ممالک جنگ نہیں چاہتے یہاں تک کہ ایران بھی نہیں، مسلم ممالک فلسطین کے لیے کھڑے بے شک ہو سکتے ہیں مگر صرف ٹیبل کے ارد گرد، میدان میں اتر کر فلسطین کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ ایران نے اسرائیل کے خلاف بارہ دن کی جو جنگ لڑی ہے یہ دراصل جوابی جنگ تھی نہ کہ اقدامی؟ اسرائیل ایرانی مفادات کو مستقل نقصان پہنچا رہا تھا، اس نے ایران کے بڑے بڑے لیڈروں کو ٹارگیٹ کِلنگ میں ٹھکانے لگا دیا حتیٰ کہ حماس کے لیڈر اسماعیل ہانیہ کو تو ایران میں گھس کر شہید کیا۔ پھر اسی طرح یہ فلسطینیوں کے تحفظ کے لیے لڑی گئی جنگ بھی نہیں تھی۔ یہ جنگ پوری طرح ایران کے اپنے وجود کے تحفظ اور اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کی جنگ تھی۔ تاہم اس جنگ کے مثبت نتائج امت کے حق میں ضرور مفید نکلیں گے اور اس کا اثر پورے خطے پر پڑے گا۔
اس کے بر خلاف اسرائیل نے پورے خطے میں جہاں بھی جنگ لڑی ہے وہ اقدامی جنگ لڑی ہے، حالانکہ وہ اسے جوابی جنگ کہتا رہا ہے اور اس سے اس کا مقصد عالمی عدالت اور دنیا کے سامنے اپنے حق میں جنگ کی ناگزیریت کو جواز فراہم کرنا ہے۔ اسرائیل نے خطے میں چھوٹی بڑی بیشتر لڑائیاں خود کے حقِ دفاع کے بیانیے کے تحت لڑی ہیں، امریکہ نے بھی جب بھی اسے ویٹو پاور کے ذریعہ یا بھاری اسلحے کے ذریعہ طاقت دی ہے، ہمیشہ اسی بیانیے کے تحت دی ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، حالانکہ اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم پر پہلے دن سے قائم ہے اور خطے کی زمین چاروں طرف سے ہڑپتا جا رہا ہے۔
یہ عجیب طرفہ تماشا ہے کہ دادا گیری بھی ہمیشہ اسرائیل کی طرف سے ہی کی جاتی رہی ہے اور "تحفظ کا حق” بھی اسی کو حاصل ہے۔ یہ اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کی بڑی عجیب منطق ہے۔ اور یہ اس لیے ہے کہ انہیں اخلاق، اصول اور منطق وغیرہ سے کچھ مطلب نہیں، انہیں تو ہر حال میں اپنے عزائم کی تکمیل کرنی ہے، چاہے وہ چالبازیوں اور جعل سازیوں کے ذیعے پورے ہوں یا پھر دھونس و دھاندلی اور دادا گیری و غنڈہ گردی کے ذریعے سے۔ یہ ٹیبل پر بھی بیٹھتے ہیں تو جنگی داؤ پیچ والی ذہنیت ہی لے کر بیٹھتے ہیں، جبکہ ان کی زبان و قلم پر امن، تعلیم، ترقی اور مساوات کے سادہ اور واضح بول، کھرا بیانیہ اور پر جوش نعرے ہوتے ہیں۔ قرآن نے ایسی قوموں کی نفسیات وافتاد بیان کی ہیں: وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ‎﴿البقرة: ١١﴾‏ یعنی فساد پھیلاتے اور قتل وغارت گری کرتے ہیں اور اپنے تئیں دعوی کرتے ہیں کہ وہ یہ سب ‘اصلاح’ کی خاطر اور خیر خواہی کے جذبے سے کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ دن رات ایٹمی قوت بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں تو یہ بھی "امن” ہی خاطر ہے اور کسی اور ملک کو ایٹمی طاقت بننے سے بزور قوت روک رہے ہیں تو یہ بھی اس لیے ہے کہ وہ "امن” کی فاختائیں اڑانا چاہتے ہیں۔
خطے میں اسرائیل کی داداگیری کی کئی وجوہات ہیں، ایک طرف تو اسرائیل کو امریکہ و یورپ کی بھرپور حمایت حاصل ہے، دوسرے اسے اپنے ہمسایہ مسلم ممالک کے خلاف عسکری برتری بھی حاصل ہے، تیسرے مسلم ممالک کی آپسی رنجشوں اور نا اتفاقیوں کا بھی اسے پورا فائدہ ملتا ہے، چوتھے بیشتر پڑوسی مسلم ممالک میں ”سیاسی بساط کے مہرے” بھی آسانی سے دستیاب ہو جاتے ہیں اور امریکہ و اسرائیل ان کی مدد سے کسی بھی ملک کا جب چاہتے ہیں تختہ پلٹ دیتے ہیں۔ اور پانچوی بڑی بات یہ ہے کہ وہ کسی بھی طرح کے اصول اور پاسداری کو نہیں مانتے، جب چاہتے ہیں معاہدے توڑ دیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں اپنے حلیفوں کو دھوکہ دے دیتے ہیں۔ ناجائز اور غیر منصفانہ طریقے سے ویٹو پاور کا استعمال کرتے ہیں اور جب چاہتے ہیں بغیر کسی پختہ ثبوت کے کسی بھی ملک پر ناٹو افواج لے کر چڑھ دوڑتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے عراق اور افغانستان کے خلاف کیا۔
یہ سب چیزیں مل کر اسرائیل کو خطے کا داروغہ بناتی ہیں اور وہ جدھر چاہتا ہے دندناتا پھرتا ہے۔ اگرچہ ایران-اسرائیل کی حالیہ جنگ میں اسرائیل کی دادا گیری کے پتلے میں ایران نے بُھس بھر دیا ہے اور خطے میں کچھ بھی کر لینے اور کر گزرنے کی نیت، ذہنیت اور صلاحیت کو دنداں شکن جواب دیا ہے لیکن وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائے گا یا اپنے توسیع پسندانہ عزائم سے پھر جائے گا، ایسی قیاس آرائی محض قیاس آرائی ہی ہوگی۔
ایران و اسرائیل کے مابین حالیہ جنگ کے جو نتائج سامنے آئے ہیں یا مستقبل قریب مین آئیں گے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سنی مسلمان ایران کی طرف سے امریکہ و اسرائیل کے خلاف بار بار کی دھمکیوں کو اور "مرگ بر امریکہ” جیسے نعروں اور سلوگنز کو محض گیدڑ بھپکی تصور کرتے تھے، ایران کے خلاف ان کا بیانیہ یہ تھا کہ صہیونیت و رافضیت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور ان کے درمیان معاندانہ طور پر جو کچھ بھی زبانی جمع خرچ سننے میں آتا ہے، بطور خاص ایران کی طرف سے جو بڑ بولا پن سامنے آتا ہے وہ محض ‘ نورا کشتی’ کے داؤ پیچ کی طرح ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مگر اس جنگ نے ایسے تمام اندیشے دور کر دیے ہیں اور بہت سوں کی زباں بند کر دی ہے تاہم، جنگ کا ڈرامائی اختتام اپنے پیچھے بعد از خرابی بسیار بھی ایسے بہت سے اندیشوں اور سوالات کو سلگتا ہوا چھوڑ گیا ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے جنگ کا ہونا سمجھ میں آتا ہے کیونکہ اسرائیل کی طرف سے کھلی جارحیت سب کے سامنے ہے مگر جنگ کا اچانک ڈرامائی انداز میں ختم ہو جانا نہ صرف عجیب ہے بلکہ عجیب تر بھی ہے۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جو خود جنگی فریق ہے وہی خود فریق ثالث بھی ہے۔ ایسا کہاں ہوتا ہے کہ لڑنے والا خود ہی ثالثی کے فرائض بھی انجام دینے لگے؟ مگر اس جنگ میں ایسا ہوا ہے۔
اس جنگ میں یہ عجیب بات دیکھنے میں آئی ہے کہ دونوں فریق اپنی اپنی فتح کا جشن منارہے ہیں۔ نتن یاہو نے بھی فتح کا اعلان کیا ہے۔ حالانکہ حالات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ایران کے خلاف اسرائیل کو فاتح ماننے کی کوئی تُک نہیں بنتی، بطور خاص اس وقت جبکہ جنگ بندی کی پیش کش پہلے اسی کی طرف سے کی گئی تھی، جبکہ ایران کو فتح کا اعلان کرنے کا کسی نہ کسی درجے میں حق پہنچتا ہے۔ ایران نے اپنے اہداف کو بڑی حد تک حاصل کر لیا ہے اور داخلی و بیرونی دونوں محاذوں پر اسرائیل کو گہری چوٹ پہنچائی ہے، ملک میں موساد کے نیٹ ورک کو بھی تقریبا ختم کر دیا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ نا جائز ریاست کے ناقابل تسخیر ہونے کے زعم کے غبارے کی ہوا نکال دی ہے۔
مسلم دنیا یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ اسرائیل کے خلاف کسی بھی قسم کی سفارتی کاوشیں کچھ کام نہیں آئیں گی، نہ مسلم ممالک کے اپنے پلیٹ فارموں سے کی گئی کاوشیں کچھ کام آئیں گی اور نہ ہی اقوام متحدہ اور امریکہ و یورپ کے پلیٹ فارموں سے کی جانے والے کاوشیں کچھ کام آسکتی ہیں، کیونکہ یہاں کہیں بھی مسلم ممالک کی سنی نہیں جاتی اور یورپ و امریکہ اور دیگر معاون ممالک سب کے سب در پردہ اسرائیل کی غیر مشروط حمایت میں رہتے ہیں اور اس کے توسیع پسندانہ عزائم کو بھی کھلے طور پر سپورٹ کرتے ہیں۔ ابھی جنگ کے اختتام کے بعد یورپ کے ایک ملک بلجیم سے یہ خبرآئی کہ مشرق وسطیٰ میں اگر کسی کو جوہری ہتھیار رکھنے کا حق حاصل ہے تو وہ صرف ناجائز ریاست اسرائیل کو ہی حاصل ہے، باقی کسی کو نہیں، نہ ایران کو اور نہ ہی سعودی عرب وعراق غیرہ میں سے کسی مسلم ملک کو۔ مسلم دنیا کے خلاف ایسی شدید نوعیت کی دھونس دھاندلی اور کھلی جارحیت کے ہوتے ہوئے ان لوگوں سے کسی بھی طرح کے عدل وانصاف اور انسانیت کی امید رکھنا ایسے ہی ہے جیسے گدھا یہ امید پالے رکھے کہ ایک دن اس کے بھی سینگ نکل آئیں گے۔
رواں صدی کے آغاز میں مغربی ممالک نے مسلم دنیا کے خلاف ‘ٹیررزم’ کا مقدمہ بڑی چالاکی، جعل سازی، باہمی اتحاد اور ہنر مندی کے ساتھ لڑا، اس مقدمے میں ساری مسلم دنیا بہت کمزور ثابت ہوئی، یہاں تک کہ ٹیررزم کے بیانیے کو کاؤنٹر بھی نہیں کرسکی۔ اسی مقدمے اور بیانیے کو بنیاد بنا کر بعض مسلم ممالک کے خلاف ناٹو کے ذریعہ متحدہ عسکری یلغار تک کی گئی اور حد تو یہ ہے کہ کئی دہائیوں کے بعد آج بھی مسلم دنیا کے خلاف یہی بیانیہ کارگر اور کامیاب ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ مسلمان اگر اپنا دفاع بھی کریں تو وہ ٹیررزم کا مقدمہ بنا دیا جاتا ہے مگر اس کے برعکس جب مسلمان ممالک پر یلغار کی جاتی ہے تو وہ امن وشانتی کا مقدمہ بنتا ہے اور ٹیررزم کی خلاف لڑائی کا۔ چنانچہ اس وقت بھی فلسطین کے مزاحم گروپس اور ایران کی کارروائیوں کو ٹیررزم بتایا جا رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جاپان کے دو شہروں پر ایٹمی حملوں اور ایران کے جوہری ٹھکانوں پر بی-2 بمبار تیاروں کے ذریعے حملے کو یہ کہہ کر جائز ٹھیرایا کہ جاپان کے دو شہروں پر حملوں نے 1974 میں دوسری جنگ عظیم کو روکا تھا اور اس وقت ایران پر امریکی حملے نے اسرائیل-ایران جنگ کو روکنے میں مدد دی ہے۔
مسلم دنیا کو یہ بھی بے جا طور پر امید ہے کہ روس اور چین جیسے طاقتور ممالک اس کے پشت پناہ بن سکتے ہیں جیسا کہ اقوام متحدہ میں اور بعض چھوٹے درجے کے مسائل میں یہ ممالک بعض مسلم ممالک کی مدد کرتے بھی ہیں، تاہم ایسا نہیں ہے کہ کسی عالمی جنگ کی صورت میں یہ ممالک مسلمانوں کی طرف سے کھڑے ہو جائیں گے۔ ان کے اپنے مفادات ہیں اور مشرق وسطیٰ کے ذخائر پر بری نظر بھلے ہی انہیں واضح تائید و حمایت کے لیے مجبور کر دے مگر فی الواقع مسلم دنیا اپنے محاذ پر تنہا کھڑی ہے، کل بھی کھڑی تھی اور آج بھی اسی طرح تنہا کھڑی ہے، بلکہ اس سے بھی آگے کی تکلیف دہ صورت حال یہ ہے کہ مسلم دنیا عالمی استعمار کے مقابل محاذ پر بذات خود بھی باہمی انتشار کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس لیے عالمی استعمار کی عسکری و سفارتی یلغار اور باہمی خانہ جنگی کے مسائل سے تقریبا ہر مسلم ملک کو اپنے ہی دم خم پر اور اپنی ہی سفارتی کاوشوں اور اپنی ہی عسکری قوتوں کے ذریعہ نپٹنا ہے۔ نہ مسلم دنیا کا کوئی ملک کسی کے ساتھ کھڑا ہوگا اور نہ ہی عالمی استعمار کے مہرے باز ممالک سے کوئی مدد کے لیے آئے گا۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے مشرقِ وسطیٰ کو پوری طرح اپنے آہنی شکنجے میں جکڑ رکھا ہے، اس علاقے میں امریکہ کی برّی، بحری اور فضائی تینوں افواج موجود ہیں۔ فوجی اڈوں اور فوجیوں کی موجودگی کے علاوہ بحیرہ احمر، خلیجِ عمان اور بحیرہ روم میں امریکی بحریہ موجود ہے۔ اور یہ صرف جنگی مقاصد کے لیے ہی موجود نہیں ہیں بلکہ یہ مشرق وسطیٰ کے پل پل بدلتے حالات کی خبر رکھتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں بیسیوں مقامات پر چالیس ہزار سے زائد امریکی فوجی موجود ہیں۔ اور ان میں وقت اور حالات کے اعتبار سے اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ قطر میں ابھی حال ہی میں امریکی فوج کی موجودگی میں مزید دس سال کی توسیع کی گئی ہے۔ قطر کے علاوہ بحرین، کویت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، سیریا، اردن، مصر، قبرص اور عراق میں بھی امریکی فوجی موجود ہیں۔
اب صورت حال یوں ہے کہ ایک طرف مسلم دنیا ہے اور دوسری طرف مغربی دنیا یا عالمی استعمار، مسلم دنیا کا ہر ملک اپنے محاذ پر اپنی تمام تر بے سرو سامانی اور بے چارگی کے ساتھ تنہا اور اکیلا کھڑا ہے جبکہ مغربی دنیا جدید ترین ٹیکنالوجی، عسکری قوت اور ایٹمی طاقت کے ساتھ باہم دگر کاندھے سے کاندھا ملائے ہوئے محاذ آرائی کر رہی ہے۔ گویا ” بُنْيَانٌ مَّرْصُوصٌ” کی جواصطلاح قرآن نے اہل ایمان کے لیے وضع کی تھی، آج کی مغربی دنیا اس کی عملی مثال بن کر کھڑی ہے۔ اور اہل ایمان اس کے بر عکس منتشر، ایک دوسرے سے الگ تھلگ اور تنہا پڑے ہیں۔ اور نہ صرف جنگ کے معاملے میں تنہا ہیں بلکہ اقتصاد، سماج اور اعتقادات کے معاملے میں بھی ایک دوسرے سے کھنچے کھنچے اور ایک دوسرے کے خلاف اکڑ کر رہتے ہیں۔
مسلم دنیا کی سیاسی ومذہبی قیادت شاید یہ سمجھے بیٹھی ہے کہ وہ آج کی دنیا میں عسکری اور ایٹمی قوت کے بغیر بھی اپنی بقا کا سامان کرے گی، بلکہ وہ محض اخلاقی بنیادوں پر ہی مغربی دنیا کو جیت بھی لے گی، جیسا کہ ماضی میں ہوا تھا اور منگول جیسی خونخوار اور بے رحم قوم کے دل و دماغ کو ایمانی و اخلاقی قوت سے جیت لیا گیا تھا۔ یوں تو اللہ اگر چاہے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر آج کی جو مادی دنیا ہے اور خاص طور پر جن افراد کے ہاتھوں میں ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں کی باگ ڈور ہے وہ کسی طرح کی اخلاقی و روحانی قوت سے متاثر نہیں ہوتے، وہ صرف طاقت کے سامنے جھکتے ہیں۔ بعض احباب نے جاپان اور دیگر ملکوں کی مثال دی، جن کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں، پھر بھی ایک مضبوط معیشت ہیں اور طاقتور ہیں، انہوں نے یہ خیال نہیں کیا کہ گزشتہ تین چار صدیوں سے جس طرح یوروپی اور امریکی طاقتیں مسلم دنیا کے ساتھ برسر پیکار ہیں، جاپان اور دیگر ممالک کے ساتھ اس طرح برسر پیکار نہیں ہیں۔ انہیں استعماری قوتوں کی طرف سے فوجی وعسکری اور اقتصادی یلغار اور اقدامی حملوں کا سامنا نہیں ہے۔
مسلمانوں میں جو افراد اور طبقات یہ سمجھتے ہیں کہ وہ موجودہ مغربی مادی دنیا کو محض روحانی و اخلاقی قوت سے جیت لیں گے یعنی ایمان ویقین کی قوت سے اور اللہ نے اپنے کلام؛ قرآن میں اور اسلامی نظام و اسلامی اخوت ومساوات میں جو کشش رکھی ہے، اس فطری کشش سے، تو ایسے تمام طباقات اور افراد کو رسول اللہ ﷺ کا اسوہ سامنے رکھنا چاہیے، انہیں اتنا تو معلوم ہی ہونا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ کی جد وجہد چہار گانہ جد وجہد تھی، جو ایمان ویقین، حسنِ عبادت، حسنِ تدبیر اور مقابلہ آرائی کے وقت اقدامی اور دفاعی قوتوں کی استعداد اور تیاریوں پر مبنی تھی۔
تاہم حالات تو بدلتے رہتے ہیں اس لیے موجودہ حالات بھی تبدیل ہوں گے، آج نہیں تو کل ہوں گے، اس صدی میں نہیں تو اگلی صدی میں ہوں گے، مگر ہوں گے ضرور۔ جب فرعون اور نمرود نہیں رہے، قیصر وکسری خاک میں مل گئے، رومن و پرشین ایمپائر پر زوال آگیا، جب عثمانی سلطنت پارہ پارہ ہوگئی، جب انگلستان اور نو آبادیات کا خاتمہ ہوگیا اور جب سوویت یونین بکھر گیا تو آج کے سوپر پاور بھی آنے والے وقت میں نہیں رہیں گے اور تبدیلی آکر رہے گی، مگر یہ تبدیلی بہت سارے انسانوں کی قیمتی جانوں اور مال اسباب کی بے پناہ بربادی کی قیمت پر آئے گی۔ اور وہ جو اقبال نے کہا ہے:
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیے اس کو خون عرب سے
حالات کی یہ تبدیلی مسلمانوں کی بیش بہا شہادتوں کی قیمت پر آئے گی۔ تاہم اس تبدیلی میں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی کہ مسلمان دنیا میں مزید مضبوط اور مستحکم ہو کر ابھریں گے، کیونکہ مسلمانوں کی طرف سے کسی بھی سطح کی ایسی کوششیں نہیں ہو رہی ہیں جن کی بنیاد پر یہ قیاس لگایا جا سکے کہ موجودہ دنیا میں مسلمان بھی کبھی سوپر پاور بن سکیں گے۔ مگر وہ جو قرآن نے کہا ہے: "وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ” (سورۃ یٰسین: 38) یہ کائنات انسانوں کے بنائے ہوئے نظام کے تحت نہیں چل رہی ہے بلکہ اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے تحت چل رہی ہے اور اللہ نے اپنی قدرت و ارادے کو قرآن میں تاکید کے ساتھ بار بار بیان کیا ہے، کبھی”فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ” (سورۃ البروج: 16) کہا تو کبھی "إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ” (سورۃ البقرہ: 20) تو کبھی "فَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ” (سورۃ غافر: 68) اور کبھی فرمایا: "وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ”(سورۃ آل عمران: 54) یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کفار نے حضرت عیسیٰؑ کے خلاف سازش کی، لیکن اللہ نے ان کی سازش کو ناکام بنایا اور اپنی حکمت وتدبیر سے عیسیٰؑ کو بچا لیا۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ انسان کی کوئی تدبیر اللہ کی تدبیر کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ کائنات کا نظام اسی الہی تدبیر کے تحت چلتا ہے، جو ہر انسانی منصوبے سے برتر ہے۔ اسی سے ملتی جلتی دوسری آیت میں محض صیغوں کی تبدیلی کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے لیے بھی فرمایا: وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ”(سورۃ الانفال: 30) یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب مکہ کے کفار نے نبی کریم ﷺ کے خلاف سازش کی، لیکن اللہ نے اپنی تدبیر سے نبی ﷺ کو محفوظ رکھا اور ان کی ہجرت کو کامیاب بنایا۔ یہ آیت کائنات کے نظام کے تناظر میں بھی اہم ہے، کیونکہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ اللہ کی تدبیر ہر انسانی منصوبے کو ناکام بنا سکتی ہے۔ حالات تو بے شک بدلیں گے مگر ان حالات کو بدلنے مسلمانوں کو اپنے حصے کی ذمہ داریاں بھی تو پوری کرنی ہوں گی۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 جولائی تا 12 جولائی 2025