ایران، فرانس اور برطانیہ کے انتخابات

انتہاپسند، قدامت پسند اور اصلاح پسند و معتدل کا شور

مسعود ابدالی

فرانس کے نتائج سے یہودی طبقے میں مایوسی
رشی سوناک کا برطانوی پارلیمنٹ کو ایک سال قبل تحلیل کرنے کا فیصلہ غلط ثابت ہوا۔ اسرائیل نواز پالیسی میں تبدیلی کا امکان نہیں
گزشتہ ہفتے انتخابی سیاست ابلاغ عامہ پر چھائی رہی۔ اٹھائیس جون کو ایران میں نئے صدر کا انتخاب فیصلہ کن ثانت نہ ہوسکا چنانچہ 5 جولائی کو پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار براہ راست صف آرا ہوئے۔ فرانس میں 30 جون کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات بھی نتیجہ خیز نہ ریے اور 7 جولائی کو دوسرے مرحلے یا Run-off کا میدان سجا۔ برطانیہ میں 4 جولائی کو 650 رکنی برطانوی دارالعوام کے لیے ووٹ ڈالے گئے۔ اسی دوران امریکہ میں صدارتی مباحثے کے دوران صدر بائیڈن کی مایوس کن کارکردگی نے امریکی صدر کے سیاسی مستقبل کے بارے میں سوالیہ نشان لگا دیے۔ آج کی نشست میں ہم ایران، فرانس اور برطانیہ کے انتخابات کا مختصر جائزہ پیش کریں گے۔ امریکہ کے بارے میں گفتگو انشاءاللہ اگلی نشست میں ہوگی۔
ایران
ایران میں صدارتی انتخابات اگلے برس ہونے تھے لیکن 19 مئی کو صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں المناک وفات کی وجہ سے انتخاب ایک برس پہلے منعقد ہوا۔ ان انتخابات کی روداد ہم گزشتہ نشست میں عرض کرچکے ہیں۔ نتائج کے مطابق ڈاکٹر مسعود پزشکیان 44.36 فیصد ووٹ لے کر پہلے نمبر پر آئے اور 40.35 فیصد رائے دہندگان نے سعید جلیلی کے حق میں رائے دی۔ باقر قالیباف 14.41 فیصد ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے جبکہ مصطفےٰ پورمحمدی کے حاصل کردہ ووٹ ایک فیصد سے کم تھے۔ چونکہ کوئی بھی امیدوار 50 فیصد ووٹ لے کر مطلوب نشان تک نہ پہنچ سکا اس لیے پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے مسعود پزشکیان اور سعید جلیلی کے درمیان 5 جولائی کو براہ راست مقابلہ ہوا جس میں ڈاکٹر پزشکیان 53.67 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے۔
مغربی میڈیا ڈاکٹر مسعود کو اصلاح پسند قرار دے رہا ہے، شاید اس لیے کہ ڈاکٹر صاحب جبہ و دستار زیب تن نہیں کرتے لیکن آذربائیجان سے تعلق رکھنے والے کرد نسل کے 69 سالہ نو منتخب صدر، جراحِ قلب (Heart Surgeon) کے ساتھ قرآن کے استاد ہیں اور انہیں نہج البلاغۃ کا بڑا حصہ زبانی یاد ہے۔ ڈاکٹر صاحب فوج میں بھی طبی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ اپنا مطب چلانے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر مسعود، دانش گاہ علومِ پزشکی (University of Medical Science) تبریز میں پروفیسر بھی ہیں۔ منتخب ہونے کے بعد قوم سے خطاب میں ڈاکٹر مسعود نے کہا کہ ساری دنیا کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ سب ایرانی اس ملک کے شہری ہیں۔ ملک کی ترقی اور خوشی و خوشحالی کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہے۔
فرانس
فرانس میں ہونے والے انتخابات بھی قبل از وقت تھے کہ یہاں قومی اسمبلی کی پانچ سالہ مدت 2027 میں پوری ہونی تھی لیکن 9 جون کو یورپی پارلیمان کے انتخابات میں فرانس کے لیے مختص نشستوں پر قدامت پسند نیشنل ریلی (NR) کے ہاتھوں اپنی جماعت کی بدترین شکست پر صدر میکراں نے یہ کہہ کر قومی اسمبلی توڑ دی کہ رائے عامہ کے بدلتے رجحان کے تناظر میں استحقاقِ نمائندگی یعنی مینڈیٹ کی تجدید ضروری ہے۔
اتوار 30 جون کو 577 رکنی قومی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالے گئے تھے۔ فرانسیسی انتخابی ضابطے کے تحت کامیابی کے لیے ڈالے جانے والے کل ووٹوں کے پچاس فیصد اور رجسٹرڈ ووٹوں کے 25 فیصد سے زیادہ لینا ضروری ہے۔ اگر کوئی بھی امیدوار اس نشان تک نہ پہنچ سکے تو پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والوں کے ساتھ رجسٹرڈ ووٹوں کا ساڑھے بارہ فیصد سے زیادہ ووٹ لینے والے امیدواروں کے درمیان run off مقابلہ ہوتا ہے۔ ان انتخابات میں چار بڑے اتحادوں
• صدر میکران کی نشاۃ ثانیہ (Renaissance) پارٹی، تحریک جمہوریت، ہورائزن پارٹی، ریڈیکل پارٹی اور یونین ڈیموکریٹس پر مشتمل شہری اتحاد (Ensemble)یا ENA
• بائیں بازو کا نیشنل پاپولر اتحاد (NPF)
• میری لاپن کا قوم پرست نیشنل ریلی اتحاد (RN/UXD) اور
• قدامت پسند ریپبلکن اتحاد (LR) نے حصہ لیا۔
پہلے مرحلے میں ووٹ ڈالنے کاتناسب 66.71 رہا جو 1997 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ نتائج کے مطابق ایمیگریشن مخالف قوم پرستوں نے 33.1 فیصد، بائیں بازو کے اتحاد نے 28.14 فیصد، صدر میکران کے ENA نے 21.27 فیصد اور ریپبلکن نے 10.22 فیصد ووٹ لیے۔
پہلے مرحلے میں صرف 76 نشستوں کے نتائج فیصلہ کن رہے جن میں سے 38 پر قوم پرست RN/UXD ارکان منتخب ہوئے اور 32 نشستیں بائیں بازو کے NPF نے جیت لیں۔ دو نشستیں صدر میکران کے ENA نے جیتیں، ایک نشست ریپبلکن کے ہاتھ لگی اور دو پر دائیں بازو کے آزاد امیدوار منتخب ہوگئے۔ پہلے مراحل کے نتائج صدر میکراں کے لیے مایوس کن ریے کہ ان کا اتحاد تیسرے نمبر پر آگیا۔ گزشتہ انتخابات میں ان کے اتحادیوں نے 249 نشستیں جیت کر سادہ اکثریت حاصل کرلی تھی۔ایک ہفتے بعد 7 جولائی کو 501 نشستوں کے لیے دوسرے مرحلے کی پولنگ ہوئی۔
تیس جون کو انتہا پسندوں کی کامیابی سے جہاں غیر ملکی تارکین وطن میں شدید خوف و ہراس پھیلا وہیں روشن خیال اور ترقی پسندوں کے ساتھ ماحول دوست گرین اتحاد بھی قدامت پسندوں سے سخت خوفزدہ تھا، چنانچہ ملک بھر کی مزدور یونینوں، خواتین کی انجمنوں، اساتذہ اور بائیں بازو سے وابستہ عناصر نے زبردست تحریک چلائی اور 7 جولائی کو جب ووٹنگ ختم ہونے کے بعد نتائج آنے کا سلسلہ شروع ہوا تو ایسا لگا کہ گویا بائیں بازو اور گرین اتحاد نے قدمت پسندوں کا راستہ روک دیا ہے۔
انتخابی مراکز پر ووٹ ڈال کر نکلنے والوں کے جائزے یعنی Exit Poll کے مطابق:
بائیں بازو کے NPF اور گرین اتحاد کو 177-192
صدر میکران کے ENA اتحاد کو 152-158
اوردائیں بازو کے قدامت و انتہاپسند اتحاد RN/UCD اتحاد کو 138-145نشستیں ملنے کی توقع ہے۔
فرانس میں حکومت سازی کے لیے کم از کم 289 نشستوں کی ضرورت ہے اور نتائج کے مطابق تمام جماعتیں اور اتحاد واضح اکثریت کے نشان سے کافی پیچھے ہیں۔ صدر میکراں اور NPF اتحاد، انتہا پسند میری لاپن سے شرکتِ اقتدار کو تیار نہیں یعنی ENA اورNPF کے لیے مل کر حکومت بنانے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس صورت میں وزارت عظمیٰ NPF کو ملنے کا امکان ہے۔ آج انتخابات کے ابتدائی نتائج سامنے آتے ہی وزیر اعظم جبریل اتال Gabriel Attal نے استعفیٰ دے کر NPF کے لیے راستہ خالی کر دیا۔
آنے والے دنوں میں فرانس کے صدر اور وزیر اعظم کا سیاسی قبلہ مختلف سمت میں ہوگا اور اگر مفاہمت و رواداری کا راستہ اختیار نہ کیا جا سکا تو دو ملاوں کے بیچ میں مرغی حرام بھی ہوسکتی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال 1997 میں پیش آئی تھی جب ایوان صدارت میں قدامت پسند جیک شیراک رونق افروز تھے تو ایوان وزیر اعظم سوشلٹ وزیر اعظم Lionel Jospin کے ہاتھ میں تھا۔
انتخابی نتائج کو فرانس کا یہودی طبقہ مایوس کن قرار دے رہا ہے۔ پیرس کے ربائیِ اعظم موسیٰ صباغ Moshe Sebbag کا خیال ہے کہ انتخابات میں یہود دشمن (Anti-sematic) سوشلسٹ عناصر کی کامیابی کے بعد فرانس میں یہودیوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ ایک بیان میں ربائی صاحب نے کہا کہ ’میں نوجوان فرانسیسی یہودیوں سے کہتا ہوں کہ وہ فوری طور پر اسرائیل یا کسی محفوط ملک چلے جائیں۔ یہاں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ بڑی عمر کے یہودیوں کے لیے تو یہاں رہنا ٹھیک ہے لیکن ہماری نئی نسل کے لیے فرانس مناسب مقام نہیں۔ (حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل)
برطانیہ
یہاں گزشتہ انتخابات دسمبر 2019 میں منعقد ہوئے تھے اور نیا انتخاب اس سال دسمبر میں ہونا تھا لیکن نسل پرست ایمگریشن پالیسی، مہنگائی اور پارٹی کی اندرونی رسہ کشی کی بناپر حکم راں قدامت پسند جماعت المعروف ٹوری پارٹی خاصی غیر مقبول تھی۔ وزیر اعظم رشی سوناک کو خوف تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کی مقبولیت مزید کم ہوگی لہٰذا انہوں نے جماعت کے دوسرے رہنماوں کی مخالفت کو نظر انداز کر کے پارلیمنٹ تحلیل کر دی۔ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی رائے عامہ کے جو جائزے شائع ہوئے وہ ٹوری کے لیے انتہائی مایوس کن تھے اور 4 جولائی کے نتائج نے ان جائزوں کو درست ثابت کر دیا۔
ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے پر حزب اختلاف کی لیبر پارٹی نے دارالعوام کی 650 میں سے 411 نشستیں جیت کر بہت ہی واضح اکثریت حاصل کرلی جو 2005 کے بعد اس جماعت کی پہلی اور پارلیمانی حجم کے اعتبار سے 1997کے بعد سب سے بڑی کامیابی ہے۔ جب ٹونی بلئیر کی قیادت میں لیبر پارٹی نے 418 نشستیں جیتی تھیں۔ حکم راں قدامت پسند ٹوری پارٹی نے 121 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، پانچ سال پہلے ٹوری کا پارلیمانی حجم 365 تھا۔ ان انتخابات میں لبرل ڈیموکریٹس کی کارکردگی مثالی رہی اور ان کے 72 امیدوار کامیاب ہوئے، 2019 میں لبرل کو صرف 11 نشستیں ملی تھیں۔ بھر پور کامیابی کے باوجود لیبر پارٹی کو اس کے مضبوط حلقوں میں فلسطین کے حامی پانچ آزاد امیدواروں نے شکست دے دی جن میں سب سے اہم فلسطینیوں کے پرجوش حامی جیرمی کوربن (Jeremy Corbin) کی فتح ہے۔ چار سال پہلے اسرائیل پر تنقید کے “جرم” میں Antisemitism کا الزام لگا کر انہیں لیبر پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ جناب کوربن نے لندن کے مضافاتی حلقے Islington North سے لیبر پارٹی کے امیدوار کو شکست دے کر دارالعوام کی نشست آزاد حیثیت سے جیت لی۔ تاہم اہل غزہ کے پرجوش وکیل جارج گیلووے (George Galloway) مانچسٹر میں Rochdale کی نشست پر لیبر پارٹی سے شکست کھا گئے۔ اسی حلقے سے انہوں نے فروری کے ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔
بھاری اکثریت سے کامیابی ہونے برطانوی وزیر اعظم کئیر اسٹارمر کی پالیسیوں کے بارے میں فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ ابھی ان کی حکومت تشکیل کے مرحلے میں ہے لیکن انہوں نے اقتدار سبنھالتے ہی ٹوری پارٹی کی جانب سے غیر ملکی تارکین وطن کو افریقی ملک روانڈا بھجنے کا منصوبہ ترک کر دیا ہے۔ سابق حکومت نے تارکین وطن کے لیے روانڈا میں بیگار کیمپ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ چھ جولائی کو اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوتے نئے وزیر اعظم نے یہ منصوبہ کچرے کی ٹوکری کی نذر کرنے کا اعلان کیا۔ غزہ اور فلسطین کے حوالے سے نئی حکومت پر عوامی دباو تو رہے گا لیکن یورپ اور امریکہ کی طرح برطانیہ پر اسرائیل نواز عناصر کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ اس باب میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں۔ برطانیہ کی نئی خاتون اول 50 سالہ وکٹوریہ کے والد برنارڈ الیگزینڈڑ ایک راسخ العقیدہ یہودی ہیں جن کی دعوت پر وکٹوریہ کی کیتھولک والدہ نے یہودی مذہب اختیار کرلیا۔
اس ضمن میں برطانیہ کے نئے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی (David Lammy) نے غزہ میں پائیدار امن کے لیے بھرپور کوشش کا اعلان کیا ہے۔ گیانا سے ہجرت کر کے آنے والے ماں باپ کے گھر میں جنم لینے والے ڈیوڈ نے وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد کہا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی ان کی اولین ترجیح ہے۔
[email protected]

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جولائی تا 20 جولائی 2024