مسعود ابدالی
6 ارب ڈالر کے عوض قیدیوں کا تبادلہ۔ رہائی پانے والوں میں چار ایرانی بینکار شامل
قیدیوں کے تبادلے اور منجمد رقم کی ایران منتقلی پر امریکی اعتراض کا خاتمہ ایران امریکہ تعلقات میں نئی پیشرفت کی نشاندہی کررہے ہیں،
ایسا محسوس ہورہا ہے کہ تعلقات کی بحالی کے لئے دونوں فریق محتاط لیکن پرعزم ہیں۔
مئی میں امریکہ اور ایران کے مابین قیدیوں کے تبادلے سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کی جو کونپلِ امید پھوٹی تھی وہ اب سراٹھاتی نظر آرہی ہے۔ امریکی و ایرانی حکام پرامید ہیں کہ قیدیوں کا ایک اور تبادلہ بہت جلد ہونے کو ہے۔ تین ماہ پہلے عُمانی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے تحت پانچ سال سے سوئیڈن میں نظر بند سینئر ایرانی سفارتکار جناب اسد اسدی کو رہا کیا گیا، جناب اسدی کو دہشت گردوں کی سرپرستی و سہولت کاری کے الزام میں 20 سال کی سزا ہوئی تھی۔ اسدی صاحب کے تہران پہنچتے ہی جاسوسی کےالزام میں گرفتار بیلجئیم کے شہری Olivier Vandecasteele کو تہران جیل سے رہا کرکے عُمانی حکام کے حوالے کردیاگیا۔
واشنگٹن کے صحافتی و سفارتی حلقوں نے اس تبادلے کو ایران امریکہ تعلقات میں بہتری کی طرف ایک قدم اور اعتماد سازی کی ایک کوشش قراردیا تھا، گویا تہران اور واشنگٹن نے بات چیت کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ایک دوسرے کی جانب خیر سگالی کا مظاہرہ شروع کردیا ہے۔
قیدیوں کے نئے متوقع تبادلے کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ پانچ ایرانی نژاد امریکیوں کو جو جاسوسی کے الزام میں قید با مشقت بھگت رہے ہیں، باذداشتگاہِ (جیل) اویّن سے نکال کر آرام دہ گھروں میں نظر بند کردیا گیا ہے۔ جن افراد کو گھر منتقل کیا گیا ہے، ان میں اپریل 2018 سے گرفتار 58 سالہ عمادشرقی ، اکتوبر 2015 سے زیرحراست 51 سالہ سیامک نمازی اور 67 سالہ مراد تہباز شامل ہیں، جناب تہباز امریکہ کے ساتھ برطانوی شہریت بھی رکھتے ہیں جنھیں جنوری 2018 میں گرفتار کیا گیا۔ منتقل کئے جانیوالے چوتھے شخص کی شناخت جاری نہیں کی گئی جبکہ پانچویں قیدی کو کچھ عرصہ پہلے جیل سے گھر بھیجا گیا، ان کے نام اور تفصیلات سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا۔ خیال ہے کہ ان پانچوں افراد کو امریکہ منتقلی کے لئے جلد ہی عُمان بھیج دیا جائےگا۔
اس کے عوض امریکہ میں نظر بند چند ایرانی قیدی رہا ہوجائیں گے۔ رہا کئے جانیوالے ایرانیوں کی حتمی تعداد نہیں بتائی گئی لیکن خیال ہے ان میں وہ چار ایرانی بینکار شامل ہیں جنھوں نے مبینہ طور پر امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وینئزویلا سے رقومات ایران منتقل کی تھیں۔
اسی کے ساتھ امریکہ، جنونی کوریا سے چھ ارب ڈالر ایران منتقلی پر اعتراض واپس لے لے گا۔ اس تنازعے پر چند سطور سے قارئین کو معاملہ سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
ایران نے 2007 میں اپنی توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے جوہری وسائل استعمال کرنے کا اعلان کیا۔ امریکہ، اسرائیل اور ان کے خلیجی اتحادیوں کا خیال تھا کہ ایران توانائی کی آڑ میں جوہری ہتھیار بنا رہا ہے۔ 2010میں ایران پر سخت تجارتی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ سخت پابندیو ں سے پریشان ہوکر ایران نے مذاکرات شروع کئے اور برسوں کے جاں گسل مول تول کے بعد پابندیاں ہٹانے کے عوض ایران یورینیم کی افزودگی ختم کرکے اپنے جوہری پروگرام کو لپیٹنے پر رضامند ہوگیا اور 16 جنوری 2016 سے معاہدے پر عمل درآمد کے ساتھ ایران پر سے پابندیاں ہٹالی گئیں۔ یہ معاہد برنامہ جامع اقدامِ مشترک Joint Comprehensive Plan of Actionیا JCPOA (فارسی مخفف برجام) کہلاتا ہے۔ سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے علاوہ جرمنی بھی برجام کے فریق ہیں چانچہ اسے5+1معاہدہ بھی کہا جاتاہے۔ بعد میں ضامن کی حیثیت سے یورپی یونین نے بھی اس پر دستخط کئے ۔
برجام کے بعد امریکہ کے اتحادیوں نے ایران سے تیل خریدنا شروع کیا اور ایران نےجنوبی کورہا کو خام تیل فروخت کیا۔ اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے صدر ٹرمپ نے 8 مئی 2018کو برجام سے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کرلی اور ایران پر وہی پابندیاں دوبارہ عائد کردی گئیں جو Roll-back معاہدے سے پہلے اس پر لگائی گئی تھیں۔
پابندیوں کی بناپر رقومات کی ایرانی بینکوں کو منتقلی غیر قانونی قرارپائی۔ اس وقت جنوبی کوریا کو فروخت کئے جانیوالے تیل کے 6 سے 7 ارب ڈالر اداکرنے تھے۔ جنوبی کوریا کی وزارت خزانہ نے وہ رقم ترسیل کے لئے بینک کے حوالے کردی جو گزشتہ 5 سال سے منجمد ہے۔
قیدیوں کی رہائی کے لئے جو معاہدہ طئے پایا اس میں ایران کی منجمد رقم کی تہران ترسیل بھی شامل ہے۔ طئے شدہ بندوبست کے تحت یہ رقم پہلے جنوبی کوریا کے سکے وان (WON)سے یورو میں تبدیل ہوگی جس کے بعد اسے قطر میں کھولے جانیوالے ایرانی بینک اکاونٹ منتقل کردیا جائیگا۔ ایرانیوں کے لئے اس رقم کا استعمال انسانی ضروریات یعنی دوا، غذا اور سویلین ترقیاتی پروکرا م تک محدود ہوگا اور اسے عسکری مقاصد کے لئے استعما ل نہیں کیا جاسکے گا۔
امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلینکن نے روایتی تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے خلاف تمام پابندیوں کا نفاذ جاری رہے گا۔ خطے اور اس سے باہر ایران کی تخریبی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جائے گی۔ دھمکی کا تڑکہ لگانے کے بعد انھوں نے تبادلہ معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے زیر حراست شہریوں کے ڈراؤنے خواب کے خاتمے کا آغاز ہے تاہم اُنہیں گھر لانے کے لیے ابھی بہت کام باقی ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے ایران مشن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ تیسرے فریق کی ثالثی میں ہونے والے انسانی تعاون کے معاہدے کے تحت ایران پانچ امریکی قیدیوں کو معاف کرکے رہا کرنے پر رضامند ہوگیا ہے اور ان قیدیوں کی جیل سے باہر منتقلی اس سلسلے کا ابتدائی قدم ہے۔
قیدیوں کے تبادلے اور منجمد رقم کی ایران منتقلی پر امریکی اعتراض کا خاتمہ ایران امریکہ تعلقات میں نئی پیشرفت کی نشاندہی کررہے ہیں، ایسا محسوس ہورہا ہے کہ تعلقات کی بحالی کے لئے دونوں فریق محتاط لیکن پرعزم ہیں۔ یہ خبر بھی گشت کررہی ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان برجام کی بحالی کیلئے ہونے والی بات چیت فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے بلکہ کہا جارہا ہے کہ عبوری معاہدے کے متن پر بھی اتفاق ہوچکا ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ برجام معاہدے کی تجدید کے لئے ایران نے جوہری ہتھیاروں کے درجے کے یورینیم افزودگی کو سست کر دیا ہے جس کے نتیجے میں 60 فیصد افزودہ یورینیم کے ذخیرے میں کمی آرہی ہے۔ برجام معاہدے کے تحت ایران کو 661 پونڈ یورینئیم رکھنے کی اجازت دی گئی تھی اور اسوقت یورینئیم کے ذخیرے کا حجم 251 پونڈ لیکن اسکی افزودگی کا معیار 60 فیصد ہے۔ ماہرین کے خٰیال میں پرامن سویلین استعمال کیلئے 60 فٰیصد سے زیادہ افزودگی کی ضرورت نہیں۔ افزودگی کم کرنے کی خبر سے بھی اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ ایران اور امریکہ تجدیدِ برجام کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
جوہری تنازعے کے پرامن حل کی ہر خبر پر اسرائیل کا ردعمل حد درجہ شدید ہوتا ہے اور حسب توقع قیدی تبادلے کے حالیہ معاہدے پر وزیراعظم بن یامین نیتھن یاہو المعروف بی بی سخت مشتعل ہیں۔ انکے دفتر سے جاری ہونیوالے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کا واحد طریقہ ان کے جوہری ڈھانچے کا خاتمہ ہے۔ حالیہ معاہدے میں اس جانب کوئی نشاندہی نہیں کی گئی اور دوسری طرف بھاری رقم ایران کے حوالے کی جارہی ہے جو عملاً تہران نواز دہشت گردؤں کے ہاتھ لگے گی۔
صدر بائیڈن کے ریپبلکن مخالفین بھی جنوبی کوریا میں منجمد رقم کی ایران کو فراہمی پر خوش نہیں۔ اور چاہتے ہیں کہ رقم کی منتقلی کو 60 فیصد سے زیادہ یورینیم افزودہ نہ کرنے، عالمی جوہری معائنہ کاروں سے تعاون، اپنے زیراثر دہشت گرد گروہوں کو عراق اور شام میں امریکیوں پر حملے سے باز رکھنے، روس کو ڈرون فراہم کرنے سے گریز اور ایران میں قید تین مزید امریکی ایرانیوں کو رہا کرنے سے مشروط کیا جائے۔
اسرائیلی پرعزم ہیں کہ انھوں نے صدر ٹرمپ پر دباو ڈال کر امریکہ کو برجام سے نکالا تھا اوراب وہ کسی صورت واشنگٹن کو اس معاہدے میں دوبارہ داخل نہیں ہونے دینگے۔ جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے ایک نشست میں عرض کیا تھاکہ واشنگٹن اور تہران کے درمیان معاہدے پر اصولی مفاہمت کے آثار نمایاں تو ہیں لیکن اب جبکہ 2024 کی انتخابی مہم شروع ہوچکی ہے ، اس نازک مرحلے پر اسرائیل کو ناراض کرکے صدر بائیڈن اپنی سیاسی عاقبت خراب نہیں کریں گے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
***
قیدیوں کی رہائی کے لئے جو معاہدہ طئے پایا اس میں ایران کی منجمد رقم کی تہران ترسیل بھی شامل ہے۔ طئے شدہ بندوبست کے تحت یہ رقم پہلے جنوبی کوریا کے سکے وان (WON)سے یورو میں تبدیل ہوگی جسکے بعد اسے قطر میں کھولے جانیوالے ایرانی بینک اکاونٹ منتقل کردیا جائیگا۔ ایرانیوں کے لئے اس رقم کا استعمال انسانی ضروریات یعنی دوا، غذا اور سویلین ترقیاتی پروکرا م تک محدود ہوگا اور اسے عسکری مقاصد کے لئے استعما ل نہیں کیا جاسکے گا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اگست تا 26 اگست 2023