اقباؔل کے شاہین ابھی زندہ ہیں
چارناکامیوں کے بعد پانچویں مرتبہ سول سروس میں کامیابی حوصلہ افزا
محی الدین
ممبئی کی جھونپڑی میں رہنے والے محمد حسین سید کو یوپی ایس سی میں 570 واںرینک
‘‘ناکامی اور مایوسی کے وقت اقبال کے فلسفہء خودی نے حوصلہ بخشا’’
محمد حسین سید سے ہفت روزہ دعوت کی خصوصی بات چیت
وطن عزیز بھارت میں پچھلے دنوں یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی) کے امتحانات کے نتائج کا اعلان ہوا۔ سول سروسز امتحان میں 32 مسلم امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔ ان میں ممبئی کی واڑی بندر اسٹریٹ کے رہنے والے محمد حسین سید نے 570واں رینک حاصل کیا۔ یہ واقعی قابل تعریف بات ہے کہ انہوں نے غربت اور نامساعد حالات کے باوجود کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔ حسین سید اپنی فمیلی کے ساتھ ممبئی کے واڑی بندر علاقے میں نہایت ہی چھوٹے سے مکان جسے جھگی جھونپڑی بھی کہا جاسکتا ہے، رہائش پذیر ہیں۔ کسمپرسی کے عالم میں قریبی اسڑیٹ لائٹ کی روشنی میں تعلیم حاصل کرنے والا یہ نوجوان ملک کا مستقبل بننے جا رہا ہے۔ علاقے میں ان کے بینرس اور ہورڈنگز بھی آویزاں ہیں تاکہ مقامی نوجوانوں کو اس کی کامیابی سے حوصلہ مل سکے۔ محمد حسین سید کی کامیابی، غربت، تنگ دستی اور جدوجہد کے راستے سے ہوکر گزرتی ہے۔ واڑی بندر کی جھونپڑپٹی کی چھوٹے سے گھر میں محمد حسین سید کا پورا خاندان رہتا ہے۔ یہ علاقہ جرائم کے لیے بھی بدنام ہے۔
حسین سید کی جدوجہد اور کامیابی کی داستان جاننے کے لیے ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے ممبئی میں ان سے ملاقات کی۔
اس وقت ان کے گھر پر مبارکباد دینے اور نیک خواہشات کا اظہار کرنے والوں کا تانتا لگا ہوا تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ منظر دیکھ کر آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟ تو حسین نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’ ایسی عزت افزائی اور حوصلہ افزائی کا تھوڑا سا حصہ بھی اگر مجھے تیاری کے وقت میسر آجاتا تو میرے کچھ سال بچ جاتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کرنے والے طلبا کو تیاری کے دوران حوصلہ افزائی کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب طالبِ علم مختلف مراحل سے گزرنا ہے اور کامیابی اور ناکامی کے خوف کے درمیان شش و پنج کا شکار رہتا ہے۔ اگر میری اس وقت حوصلہ افزائی کی جاتی تو شاید میں پہلے ہی سول سروس کا امتحان کریک کرلیا ہوتا۔‘‘
پھر جب ان سے اس بابت دریافت کیا گیا کہ آپ کو بھی سول سروس امتحان کی تیاری کے وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا؟ ایسے وقت میں آپ کی مشکلات کس نے حل کیں اور آپ کی حوصلہ افزائی کس نے کی؟ تو جواب میں حسین نے کہا کہ علامہ اقبال کے اشعار اور ان کے فلسفے نے میری حوصلہ افزائی کی۔ علامہ اقبال کے فلسفہ خودی نے مجھے بہت حوصلہ بخشا۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدا میں ایک قسم کا خوف دل پر طاری تھا کہ اتنے بڑے امتحان کو کس طرح دے پاؤں گا۔ ایک اونچی منزل تک پہنچنا تھا اور اس کی سیڑھیاں مجھے دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ امتحان کے وقت جب مجھے ناکامی کا خوف ستانے لگتا تو میں اپنے گھر کے قریب آکر بیٹھ جاتا اور اپنے اطراف و اکناف کا جائزہ لیتا کہ میں کہاں رہتا ہوں اور میری حقیقت کیا ہے؟ ان چیزوں کے بارے میں سوچ کر مجھے مزید موٹیویشن ملتا۔ اس دوران اقبال کے فلسفہ خودی نے مجھے بہت متاثر کیا۔ بلکہ یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ میرے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے میں اقبال کے فلسفہ خودی نے اہم رول ادا کیا ہے‘‘ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ آپ کے نزدیک خودی کیا ہے تو حسین کے چہرے پر سنجیدہ تاثرات لیے ہوئے کہا ’’اقبال کا فلسفہ خودی غرور و تکبر نہیں بلکہ جرأت مندی، غیرت مندی، خودداری، اپنی ذات و صفات کا ادراک رکھتے ہوئے، اپنی انا کو شکست و ریخت سے محفوظ رکھنا اور اپنی دنیا اپنے زور بازو سے حاصل کرنے کا نام ہے‘‘
بتادیں کہ حسین کی تعلیم ابتدا سے لے کر اعلی درجوں تک انگریزی زبان میں ہی ہوئی ہے اس کے باوجود ان کا علامہ اقباؔل اور ان کے فلسفوں سے اس قدر متاثر ہونا اچنبھے والی بات ہے لہذا جب اس بابت پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’سول سروس امتحان کی تیاری کے دوران ہمارے کئی دوست و احباب اور سینئرس کا تعلق جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ سے تھا۔ ان میں سے کچھ لوگوں کا اردو اختیاری مضمون بھی تھا۔ انہی لوگوں سے علیک سلیک کے دوران اقباؔل متعارف ہوئے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسٹڈیز کے دوران مجھے اقباؔل اور ان کے فلسفے کو جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ اس دوران میں نے اردو اور فارسی بھی تھوڑی بہت سیکھی تاکہ اقباؔل کو سمجھ سکوں۔ مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کے دوران میں جب بھی مایوسی یا حوصلہ شکنی کا شکار ہوتا تو اقباؔل کا یہ شعر مجھ میں ایک نئی روح پھونک دیتا۔
مرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر!
جب ان کی تعلیمی مراحل کے متعلق استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان کی تعلیم انگریزی میڈیم سے ہوئی ہے۔ اول تا پنجم تک انہوں نے کھوجہ شیعہ اثنا عشری اسکول میں پڑھائی کی۔ ہائی اسکول کے لیے سینٹ جوزف ہائی اسکول ڈونگری کا رخ کیا، جہاں سے 2012 میں دسویں جماعت کا امتحان 61 فیصد نمبرات سے پاس کیا۔ بعد ازاں 2014 میں انجمن اسلام الاّنا جونیئر کالج سے بارہویں کامرس کا امتحان 72 فیصد نمبرات اور ایلفیسٹن کالج سے 2017 میں بی کام کا امتحان 86 فیصد نمبرات سے کامیاب کیا۔ سول سروس امتحان میں شرکت کا خیال کس طرح آیا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں بتایا کہ ان کے والد کا سرکاری دفاتر میں آنا جانا ہے۔ سرکاری کاغذات کے متعلق وہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ میرا ان کے ساتھ سرکاری دفاتر میں جانا ہوتا تھا۔ تبھی اعلیٰ سرکاری افسران کو دیکھ کر میرے دل میں بھی اس خواہش نے گھر کرنا شروع کر دیا تھا کہ میں بھی سرکاری افسر بنوں اور لوگوں کی مدد کروں۔ یو پی ایس سی امتحان کے تعلق سے حسین نے بتایا کہ شروع شروع میں اس تعلق سے معلومات بہت کم تھی۔ آہستہ آہستہ اپنے طور پر معلومات حاصل کی اور پونا کی یونیک اکیڈمی میں داخلہ لیا۔ آٹھ ماہ کی مسلسل محنت کے نتیجے میں 2018 میں پریلیم کا امتحان پہلی ہی کوشش میں کامیاب کیا۔ لیکن بدقسمتی سے مینس میں ناکامی ہاتھ آئی۔ 2018 میں جامعہ ریسیڈینشیل کوچنگ اکیڈمی (جامعہ ملیہ اسلامیہ، دلی) کا اسکالرس انٹرنس امتحان کامیاب کیا اور دلی چلا گیا۔ 2019 میں پریلیم امتحان کوالیفائی نہیں کرپایا اور وہاں سے ممبئی آگیا اور حج ہاؤس کوچنگ اینڈگائیڈنس سیل میں اس وقت کے چیف ایگزیکٹو افسر مقصود احمد خان نے مجھے موقع دیا اور میری حوصلہ افزائی کی۔ خوب محنت کی 2018 اور 2019 میں پریلیم امتحان کامیاب کیا لیکن مینس میں پھر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ چند ناگزیر حالات کی وجہ سے حج ہاوس کوچنگ سے سینئر طلبہ کو نکال دیا گیا۔ اس دوران مجھے بھی حج ہاوس سے ہٹنا پڑا۔ یہ وقت میرے لیے بڑا چیلنجنگ تھا۔ اسی دوران جعفر سلیمان ہاسٹل میں سول سروس اسٹڈی کے لیے ایک سنٹر کا قیام عمل میں آیا۔ اس کوچنگ سنٹر میں طلبہ کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ میں نے اپنی اسٹڈیز کو بھی جاری رکھا اور چار مرتبہ ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد پانچویں کوشش میں مینس اور انٹرویو میں کامیابی حاصل کی اور آل انڈیا لیول پر 570 واں رینک حاصل کیا۔
حسین سید کی جہدوجہد کی داستان سننے کے بعد ایک نہایت اہم سوال ان سے پوچھا گیا جو اکثر مسلم طبقے میں زیر بحث ہوتا ہے کہ کیا سول سروس امتحان میں مسلمانوں کو کسی بھی قسم کے تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
حسین نے بڑے پرسکون انداز میں بتایا کہ ’’سول سروس وہ امتحان ہے جہاں کسی بھی طالبِ علم کو کسی قسم کے تعصب کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، یہ امتحان خالص میرٹ کا امتحان ہے۔ آپ میں صلاحیت ہے، ذہانت ہے اور محنت کرنے کا جذبہ ہے تو آپ اس امتحان میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ مرکزی حکومت نے اس امتحان کے متعلق ایک بنچ مارک سیٹ کر رکھا ہے جو طالب علم اس بینچ مارک کو پالے گا کامیاب ہو جائے گا۔ امتحان اور انٹرویو لینے والے ماہرین کو آخری تک یہ تک پتہ نہیں ہوتا ہے کہ آپ کا نام کیا ہے آپ کا تعلق کس مذہب اور کس علاقے سے ہے‘‘
پھر پوچھا گیا کہ جب یہ امتحان اتنا صاف و شفاف ہے تو اس میں مسلم طلبہ بڑی تعداد میں شریک کیوں نہیں ہوتے اور مسلم طلبہ کی کامیابی کا فیصد ہر سال اتنا قلیل کیوں ہوتا ہے؟ حسین نے کہا کہ ’’پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ اس امتحان میں کسی بھی قسم کا تعصب نہیں ہے۔ دوسری بات سول سروس میں مسلم طلبہ کی کامیابی کا فیصد قلیل ہونے کی ایک مخصوص وجہ نہیں ہوسکتی بلکہ کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کتنے مسلم بچے سول سروس کے امتحان میں شریک ہوتے ہیں اور کتنے فیصد پریلیم امتحان پاس کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس امتحان میں ہماری کمیونٹی کا انرولمنٹ بہت کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں گریجویٹ بچوں کی تعداد دوسری کمیونٹیوں کے مقابلے بہت کم ہے۔ ہماری کمیونٹی میں بنیادی اور پرائمری تعلیم کا مسئلہ اہم ہے۔ آپ سچر کمیٹی کی رپورٹ اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ دوسری کمیونٹیوں کے مقابلے ہمارے یہاں تعلیم کے حصول کا گراف سب سے نیچے ہے۔ ہمیں ہر طرح سے آگے بڑھنے اور تعلیم کے متعلق بیداری پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔‘‘ آخری سوال ان سے یہ پوچھا گیا کہ ’’آپ سول سروس امتحان کے خواہشمند طلبہ و طالبات کو کیا مشورہ دینا چاہیں گے؟ اس کے جواب میں حسین سید نے کہا کہ ’’طلبہ میں یکسوئی بہت ضروری ہے۔ یہ امتحان یقیناً صبر آزما اور محنت طلب ہے۔ طلبہ کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے اور مثبت ارادے سے ہمیشہ آگے بڑھنا چاہیے۔ صحیح اسٹڈی مٹیریل اور صحیح رہنمائی کامیابی میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ کئی مسلم اداروں نے مقابلہ جاتی امتحان کے مراکز قائم کر رکھے ہیں انہیں ذہین، محنتی اوردلچسپی رکھنے والے طلبہ و طالبات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان مراکز سے بھی رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے اور استفادہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ آخر میں اتنا ضرور کہوں گا کہ سول سروس میں کامیابی کا انحصار آپ کی ذاتی محنت پر منحصر ہے۔ آپ کی ذاتی محنت ہی آپ کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتی ہے‘‘
محمد حسین سید کے اس خصوصی انٹرویو سے جو پیغام سامنے آتا ہے وہ جگر مراد آبادی کے الفاظ میں یہی ہے کہ
جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں
وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں
اور ایک سب سے اہم بات جو اس انٹرویو کا پیغام بھی ہے وہ یہ کہ اس اعلی سطحی امتحان میں عصبیت و تعصب کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور مسلمانوں کی کمی کا سبب خود مسلم طلباء کا ان امتحانوں میں کم اندراج ہے اور کم اندراج کا ایک سبب ان کا گریجویشن تک بھی نہ پہنچ پانا ہے لہٰذا امت کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اپنے اطراف و اکناف کے بچوں کا بھی جائزہ لیں اور کسی مسئلے کی وجہ سے وہ بچے اسکول نہیں جا پا رہے ہوں تو ان کے مسائل حل کرتے ہوئے ان بچوں کو تعلیم سے جوڑ ا جائے۔ معلوم نہیں کہ آپ کے توسط سے کونسا بچہ کب محمد حسین سید بن جائے۔
***
’’سول سروس وہ امتحان ہے جہاں کسی بھی طالبِ علم کو کسی قسم کے تعصب کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، یہ امتحان خالص میرٹ کا امتحان ہے۔ آپ میں صلاحیت ہے، ذہانت ہے اور محنت کرنے کا جذبہ ہے تو آپ اس امتحان میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ مرکزی حکومت نے اس امتحان کے متعلق ایک بنچ مارک سیٹ کر رکھا ہے جو طالب علم اس بینچ مارک کو پالے گا کامیاب ہو جائے گا۔ امتحان اور انٹرویو لینے والے ماہرین کو آخری تک یہ پتہ نہیں ہوتا ہے کہ آپ کا نام کیا ہے آپ کا تعلق کس مذہب اور کس علاقے سے ہے‘‘
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 جون تا 17 جون 2023