انٹرنیٹ کی دنیا میں ایک نیا انقلاب ۔چیٹ جی پی ٹی

انسانی تخیل و ذہانت، مصنوعی ذہانت سے کئی گنا زیادہ افضل

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

نیا سرچ انجن کیا گوگل سرچ کا متبادل ہوسکتا ہے؟۔
دنیا میں اس وقت یہ بحث چل پڑی ہے کہ انسانی عقل عظیم ہے یا مصنوعی ذہانت؟ اکثر کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت انسانی دماغ سے کئی گنا زیاده طاقتور اور فعال ہوتی ہے۔ مصنوعی ذہانت سے جو بھی کام ہوتا ہے وہ بہت ترتیب کے ساتھ، درست پیمانے پر اور بروقت ہوتا ہے، اس کے برعکس انسانی دماغ بے ترتیب، ناقص اور وقت کا پابند نہیں ہوتا۔ اسی لیے دور جدید میں انسانی صلاحیتوں کے استعمال سے زیادہ مصنوعی ذہانت والے آلات کا استعمال ہونے لگا ہے، جیسے ڈرائیور کے بغیر گاڑیوں کا چلنا، الیکسا جو آپ کے سوالات کا جواب دیتی ہے، یہ اور اسی طرح کے بہت سے آلات ہیں جو مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر بنائے گئے ہیں۔ اس ٹکنالوجی نے انسانی دماغ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مصنوعی دماغ عام انسانی دماغ سے کئی گنا زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے، لیکن اس میں اور انسانی ذہانت ایک فرق یہ ہے کہ انسانی دماغ زندگی میں بہت سے تجربات کرتا ہے اور وہ ان تجربات کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے، جو برجستہ بھی ہوتے ہیں۔ وہیں مصنوعی ذہانت کے پاس اس کے اپنے کوئی تجربات نہیں ہوتے۔ دوسری طرف انسانی دماغ میں جذبات و احساسات بھی پائے جاتے ہیں جو مصنوعی ذہانت میں نہیں ہوتے تو ایسی صورت حال میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مصنوعی ذہانت، انسانی ذہانت کا بدل ہوسکتی ہے؟
مصنوعی ذہانت والی ٹکنالوجی میں ایک اور حیرت انگیز کارنامہ انجام پایا ہے۔ اس زمرے میں چیٹ جی پی ٹی (جنریٹو پری ٹرینڈ ٹرانسفارمر) نومبر 2022 میں اوپن اے آئی کی طرف سے سافٹ ویئر کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک چیٹ بوٹ ہے۔ یہ اوپن اے آئی کے جی پی ٹی-3 کے خاندان کا حصہ ہے اور یہ لینگویج ماڈلز کے اوپر بنایا گیا ہے۔ ٹکنالوجی کی دنیا میں یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس اوپن اے آئی کے بعد گوگل سرچ انجن اور دیگر سرچ انجنوں کے وجود کو ہی خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ اگر ہمیں کسی بھی قسم کی معلومات درکار ہوتی ہیں تو ہم میں سے اکثر گوگل سرچ انجن کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ گوگل سرچ انجن ہم کو ہر قسم کی معلومات فراہم کرتا ہے۔ انٹرنیٹ صارفین کی چوراسی فیصد تعداد گوگل سرچ انجن کی مدد لیتی ہے، لیکن یہ نیا چیٹ جی پی ٹی اس قدر ترقی یافتہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی چیز کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کو نہ صرف معلومات فراہم کرے گا بلکہ آپ کو اس کی ساری تاریخ بھی بتا دے گا، یعنی وہ آپ کے دل ودماغ کو اطمینان دلانے والی ساری معلومات فراہم کردے گا، مثال کے طور پر اگر آپ کسی موضوع پر کچھ لکھنا چاہیں تو آپ صرف اس چیٹ جی پی ٹی پلٹ فارم پر اس کا موضوع لکھ دیں اور اس کو کہیں کہ مجھے اس سے متعلق مضمون درکار ہے تو وہ آن واحد میں آپ کے سامنے متعلقہ موضوع پر مضمون پیش کردے گا۔ اسی طرح اگر کام سے چھٹی لینی ہو تو چھٹی کی درخواست بھی خود ہی آپ کو لکھ کر دے گا۔ موضوع کس موقع کے لیے ہے وہ لکھ دیجیے آپ کے سامنے وہ تحریر لکھی لکھائی آجائے گی۔ واقعی اس ویب سائٹ نے انٹرنیٹ کی دنیا میں ایک نیا انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اسی طرح اگر کسی طالب علم کو کسی خاص موضوع، جیسے ماحولیاتی آلودگی پر ایک تحریر لکھنی ہو تو اس چیٹ جی پی ٹی پر جا کر اسے بس "ماحولیاتی آلودگی” لکھنا ہوگا اور بس تھوڑی دیر میں اس سے متعلق مضمون آپ کو تیار ملے گا۔
اس چیٹ جی پی ٹی میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ کسی بھی موضوع کو کسی بھی حالت کے لیے تحریر کر دے گا، جیسے اگر آپ کو اپنے کسی دوست یا عزیز کو اپنے کسی رشتے دار کی موت یا غم پر خط لکھنا ہو تو وہ اسی مناسبت سے خط تحریر کردے گا، اگر خوشی کا خط تحریر کرنا ہو وہ بھی کردے گا۔
چیٹ جی پی ٹی کی پس پردہ مائکروسافٹ نے مالی طور پر بھرپور مدد کی ہے۔ آج ہر طرف یہ بحث ہو رہی ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کیا گوگل سرچ انجن کا متبادل ہوسکتا ہے، اور کیا مصنوعی ذہانت سے مربوط ٹکنالوجی اور آلات، انسانی ذہانت کا متبادل ہوسکتے ہیں؟ کیوں کہ اس قسم کی ٹکنالوجی انسانی دماغ سے کئی گنا زیادہ فعال و تیز رفتار ہے، جب کہ انسانی کاموں میں کہیں نہ کہیں خامی ضرور ہوتی ہے، لیکن جو کام مصنوعی ذہانت سے بنے ہوئے آلات سرانجام دیتےہیں اس میں غلطیوں کا صدور نہیں کے برابر ہوتا ہے۔ ٹکنالوجی کی فعالیت کا عالم یہ ہے کہ آپ ان مصنوعی ذہانت سے مربوط آلات کو حکم دیں کہ وہ آپ کے لیے ایک ویڈیو بنا کر دے جس میں دو افراد چمن میں بیٹھ کر گانا گا رہے ہوں تو وہ آپ کو ویڈیو بنا کر دیں گے، یا یہ کہیں کہ وہ آپ کے لیے ایک ایسی تصویر بنائیں جو سب سے منفرد ہو جیسے ہمالیہ کی چوٹی پر گلاب کے پھول کھلے ہوں تو وہ بھی بناکر دیں گے۔ یہ سارے ویڈیوز اور تصاویر خیالی ہوں گی لیکن دیکھنے میں بالکل اصلی اور حقیقی نظر آئیں گی، یہی کام اگر کوئی انسان کرے گا تو وہ حقیقی یا اصلی نظر نہیں آئے گا۔ اسی قسم کے ایپس استعمال کرکے آج دنیا میں جعلی و نقلی ویڈیوز اور تصاویر بنائی جا رہی ہیں۔ سیاسی حریف ایک دوسرے کے خلاف ویڈیوز بنا رہے ہیں۔
یعنی ایک فن کار ایک مصور جو اپنے تخیل کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے چند تصاویر یا ویڈیوز بناتا ہے وہی کام آج مصنوعی ذہانت سے مربوط ٹکنالوجی کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس طرح کے کام بھی مصنوعی ذہن کر رہا ہو تو پھر انسانی دماغ اس کی صلاحیتوں کیا ہوگا؟
میری نظر میں مصنوعی ذہانت انسانی دماغ اور اس کی صلاحیتوں کا متبادل کبھی نہیں ہوسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی دماغ مسلسل سوچتا رہتا ہے، وہ تجربات سے سیکھتا ہے، اس کے اندر جذبات واحساسات ہوتے ہیں، وہیں اس کے برعکس مصنوعی ذہانت کے پاس راست تجربات حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اس کے اپنے جذبات واحساسات نہیں ہوتے، ایک موضوع پر اگر کئی افراد مختلف موقعوں پر مضمون لکھنے کے لیے کہیں تو وہ سب کو ایک ہی مضمون لکھ کر دے گا، جب کہ ایک موضوع پر مختلف افراد کے مختلف خیالات ہوں گے، یہ فرق ہے ان دونوں میں۔ اسی لیے مصنوعی ذہانت کبھی بھی انسانی دماغ کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ یہاں ایک بات کہنی ضروری ہے وہ یہ کہ کم درجہ کی ذہانت والے کام کو مصنوعی ذہانت سے مربوط ٹکنالوجی لمحوں میں زیر کردے گی، کم درجے کی ذہانت والے کام کا اور مصنوعی ذہانت کا کوئی تقابل ہی نہیں ہے۔ اس صورت حال میں انسانوں کے لیے ایک ہی راستہ باقی بچتا ہے اور ہے کہ وہ اپنی ذہانت کو اور تیز کریں اس کو بڑھائیں۔
حال ہی میں بنگلورو میں منعقدہ ایک اجلاس میں شریک مائکروسافٹ کے سی سی او ستیا نادیلا نے ایک حیرت انگیز بات کہی۔ انہوں نے اپنے اور چیٹ جی پی ٹی کے درمیاں ہونے والے مکالمے کی تفصیلات بتائیں جس میں انہوں نے چیٹ جی پی ٹی سے کہا تھا کہ وہ جنوبی ہند کے مشہور ومقبول عام ناشتوں کی فہرست فراہم کرے۔ جواب میں چیٹ جی پی ٹی نے انہیں جنوبی ہند کے مختلف مشہور ناشتے اور ان کی ساری تفصیلات، جیسے وہ کہاں زیادہ مقبول ہیں اور کس چیز سے بنتے ہیں وغیرہ ان ساری تفصیلات فراہم کردیں، جن میں مشہور اڈلی، وڑا اور ڈوسا وغیرہ تھے۔ لیکن اس کے ساتھ چیٹ جی پی ٹی نے حیدرآباد کی مشہور ڈش بریانی کو بھی ناشتے کی فہرست میں شامل کر دیا۔ بریانی کو ناشتوں میں شامل کرنے پر ستیا نادیلا کو بڑی حیرت ہوئی کیوں وہ خود حیدرآبادی ہیں وہ جانتے ہیں کہ بریانی کو ناشتہ میں نہیں کھایا جاتا، انہوں نے چیٹ جی پی ٹی سے اعتراض کیا اور کہا کہ بریانی ناشتہ نہیں ہے، اس کو ناشتے میں شامل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسانی ذہانت کی توہین کر رہا ہے، اس اعتراض پر چیٹ جی پی ٹی نے ان سے معافی مانگ لی اور اپنی غلطی کی تصحیح کی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشین کو کسی چیز کا تجربہ نہیں ہوتا اسے بریانی کے ذائقہ معلوم نہیں تھا اس نے کبھی بریانی نہیں کھائی کیوں کہ وہ مشین ہے۔ چیٹ جی پی ٹی نے کسی دوسرے کے تجربے کی بنیاد پر بریانی کو ناشتہ میں شامل کیا اگر اسے خود تجربہ ہوتا تو درست معلومات دیتی۔ اس کے برخلاف انسان اشیاء کے بارے میں اپنا ذاتی تجربہ رکھتا ہے۔ اسے کسی اور کے تجربے کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اسی لیے انسانی تجربات مصنوعی ذہانت سے مربوط ٹکنالوجی کے تجربات سے کہیں زیادہ افضل ہیں۔
انسانی تخلیق و تخیل مصنوعی ذہانت سے کئیگنا زیادہ افضل ہے۔ انسانوں کے تیار کردہ آلات اس کے ماتحت ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جیسے جیسے مصنوعی ذہانت ترقی کرتی جارہی ہے ویسے ویسے روزمرہ کے کاموں کے لیے اب انسانوں کی ضرورت پہلے جیسی باقی نہیں رہی۔ مثال کے طور پہلے اخبار چھپنے سے پہلے تصحیح کار کا کام ہوتا تھا لیکن آج یہ کام کمپیوٹر کر رہا ہے۔ اگرچہ سارے کام مشینوں کے ذریعے ہی ہو رہے ہیں اور روزمرہ کے کاموں میں مشینوں کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے لیکن انسانی دماغ، اس کی ذہنی صلاحیتیں اور اس کے جذبات و احساسات مصنوعی ذہانت سے کہیں زیادہ افضل ہیں۔
***

 

***

 ٹکنالوجی کی دنیا میں یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس اوپن اے آئی کے بعد گوگل سرچ انجن اور دیگر سرچ انجنوں کے وجود کو ہی خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ اگر ہمیں کسی بھی قسم کی معلومات درکار ہوتی ہیں تو ہم میں سے اکثر گوگل سرچ انجن کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ گوگل سرچ انجن ہم کو ہر قسم کی معلومات فراہم کرتا ہے۔ انٹرنیٹ صارفین کی چوراسی فیصد تعداد گوگل سرچ انجن کی مدد لیتی ہے، لیکن یہ نیا چیٹ جی پی ٹی اس قدر ترقی یافتہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی چیز کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کو نہ صرف معلومات فراہم کرے گا بلکہ آپ کو اس کی ساری تاریخ بھی بتا دے گا، یعنی وہ آپ کے دل ودماغ کو اطمینان دلانے والی ساری معلومات فراہم کردے گا، مثال کے طور پر اگر آپ کسی موضوع پر کچھ لکھنا چاہیں تو آپ صرف اس چیٹ جی پی ٹی پلٹ فارم پر اس کا موضوع لکھ دیں اور اس کو کہیں کہ مجھے اس سے متعلق مضمون درکار ہے تو وہ آن واحد میں آپ کے سامنے متعلقہ موضوع پر مضمون پیش کردے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 جنوری تا 28 جنوری 2023