انتخابی شفافیت پر سوالات:کیا بھارتی جمہوریت روبہ زوال ہے؟

فارم 17C کا اجرا کیوں روکا گیا؟ عوامی اعتماد کا امتحان

0

نوراللہ جاوید، کولکاتا

دہلی میں ووٹوں کی منتقلی، بنگال میں جعلی شناختیں؟۔اشوک لواسا کا استعفیٰ: تقرری کا طریقہ یا دباؤ کی سیاست؟
سنجے کمار کی گواہی: کمیشن کی جانبداری اب ڈھکی چھپی نہیں۔راہل گاندھی کے سنگین الزامات پر الیکشن کمیشن کی پراسرار خاموشی !
انتخابات کسی بھی جمہوری معاشرے کا بنیادی ستون ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے شہری نہ صرف اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں بلکہ قوم کے مستقبل کی تشکیل میں فعال کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ انتخابات میں شرکت کا مطلب عوامی نمائندوں سے سوال کرنا، انہیں جواب دہ بنانا اور جمہوری عمل کو مستحکم کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوتا ہے۔
تاہم انتخابی عمل اس وقت تک معتبر نہیں کہلایا جا سکتا جب تک اس میں شفافیت، کھلے پن، انصاف پسندی، یکساں مواقع اور عوامی اعتماد شامل نہ ہو۔ بلاشبہ بھارتی جمہوریت گزشتہ آٹھ دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ رواں دواں ہے۔ اس عرصے میں انتخابی نظام میں بڑی حد تک شفافیت، غیر جانب داری، اور الیکشن کمیشن کی خود مختاری ایک روشن پہلو رہی ہے۔
دو دہائیوں قبل اگر کوئی سیاسی جماعت شکست کے بعد انتخابی نظام پر سوال اٹھاتی (جیسا کہ ماضی میں ممتا بنرجی نے کیا) تو اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا تھا۔ اس وقت الیکشن کمیشن کی مضبوط ساکھ اور مؤثر کردار کے باعث ایسے اعتراضات مسترد کر دیے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ حکم راں جماعت بھی کمیشن کے اختیارات سے خائف رہتی تھی۔
لیکن آج صورتِ حال بدل چکی ہے۔ ملک کی ایک بڑی آبادی انتخابی عمل پر شک و شبہ کی نگاہ ڈال رہی ہے۔ الیکشن کمشنر اب ایک خود مختار آئینی ادارے کے سربراہ کی بجائے ایک سرکاری اہلکار کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔ انتخابی فیصلے، خاص طور پر اہم معاملات میں الیکشن کمیشن اور حکم راں جماعت بی جے پی کے درمیان ہم آہنگی کا تاثر دیتے ہیں۔
ای وی ایم مشین پر سوالات تو خود بی جے پی نے بھی ماضی میں اٹھائے ہیں۔ سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی ان کے سب سے بڑے ناقدین میں سے تھے۔ جب کانگریس اقتدار میں تھی وہ ای وی ایم کا دفاع کرتی رہی مگر اب وہی کانگریس اس پر سوالات اٹھا رہی ہے۔ مگر معاملہ اب صرف ای وی ایم تک محدود نہیں رہا—ووٹر لسٹ میں گڑبڑ، ووٹ ٹرن آؤٹ میں مبینہ دھاندلی اور کمیشن کی خود مختاری پر بھی سوالات کھڑے ہو چکے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن ان سوالات کا اطمینان بخش جواب دینے کے بجائے سیاسی بیان بازی کا سہارا لے رہا ہے۔ حال ہی میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے انتخابی فراڈ سے متعلق جو سوالات اٹھائے ہیں انہیں تحریری شکل دے کر ملک کے بڑے اخبارات میں شائع کیا۔ ان مضامین میں انہوں نے الیکشن کمیشن کے کردار پر براہِ راست تنقید کی جس کی تائید ملک کی کئی دیگر سیاسی جماعتیں بھی کرتی نظر آ رہی ہیں۔
اگر دنیا بھر کے کامیاب اور ناکام جمہوری ممالک کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کامیابی کا انحصار انتخابی شفافیت، منصفانہ عمل اور عوامی اعتماد پر رہا ہے۔ جہاں بھی انتخابی عمل میں دھاندلی یا فریب کیا گیا وہاں جمہوریت زوال کا شکار ہوئی۔ اسی پیمانے پر دیکھا جائے تو بھارتی جمہوریت ایک خطرناک موڑ پر کھڑی ہے۔
راہل گاندھی نے جو سوالات اٹھائے ہیں وہ نئے نہیں ہیں۔ وہ ان نکات کو کئی مہینوں سے دہرا رہے ہیں۔ البتہ اس بار انہوں نے انہیں تحریری صورت دے کر صرف الیکشن کمیشن یا حکم راں جماعت کو ہی بے نقاب کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ سول سوسائٹی، عوام اور جمہوری اداروں کو بھی جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے—کہ وہ اٹھیں، سوچیں اور جمہوریت کی بقا کے لیے میدان میں آئیں۔
بی جے پی کا ردِ عمل تو ایک فطری سیاسی جواب تھا لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے جو ردِ عمل اور جوابی بیانات سامنے آئے ہیں وہ نہایت تشویش ناک ہیں۔ یہ بیانات کمیشن کے غیر جمہوری طرزِ عمل، غیر سنجیدگی اور حکم راں جماعت سے قربت کی عکاسی کرتے ہیں۔
انتخابی معتبریت پر سوال: جمہوریت کا نازک موڑ
انتخابی معتبریت کا سوال نہایت حساس اور اہم ہے۔ ہر اسٹیک ہولڈر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے وقار کو مجروح ہونے سے بچائے۔ اسی لیے محض شک و شبہ کی بنیاد پر انتخابی اداروں اور پورے عمل کو مشکوک قرار دینا درست نہیں ہے۔ تاہم، صرف دعوؤں کی بنیاد پر کوئی بھی انتخاب شفاف اور غیر جانب دار تسلیم نہیں کیا جا سکتا—اسے حقیقتاً ایسا نظر بھی آنا چاہیے۔ الیکشن کمیشن کو شفافیت اور غیر جانب داری کی ہر کسوٹی پر پورا اترنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا ہوگا۔
لوک سبھا انتخابات کے دوران ووٹنگ کے ٹرن آؤٹ پر سوالات اٹھے تھے مگر الیکشن کمیشن تسلی بخش جواب دینے سے قاصر رہا۔ ہریانہ اسمبلی انتخابات میں بھی اسی طرح کی بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔ مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے نتائج تو اس قدر غیر متوقع تھے کہ خود حکم راں جماعت بھی حیران رہ گئی۔ چنانچہ مہاراشٹر کے انتخابات آغاز ہی سے شک و شبہات کی زد میں ہیں۔
راہل گاندھی نے اس بار خاص طور پر مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کی مبینہ دھاندلی کو موضوع بنایا ہے۔ انہوں نے صرف دعوے نہیں کیے بلکہ ٹھوس شواہد بھی پیش کیے۔ وہ محض ایک رکن پارلیمنٹ نہیں ہیں بلکہ اپوزیشن لیڈر بھی ہیں جو کہ ایک آئینی و باوقار منصب ہے۔ ان کے اعتراضات کو غیر سنجیدگی سے لینا جمہوری اداروں کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
افسوس کہ راہل گاندھی کے مضمون کے جواب میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جو ردعمل سامنے آیا وہ نہایت غیر سنجیدہ اور قابلِ افسوس تھا جس سے یہ تاثر ملا کہ کمیشن کسی کے اعتراضات کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
شکوک کی بنیادیں: شفافیت پر سائے
الیکشن کمیشن کی ساکھ پر سوال اٹھنے کی واحد وجہ کمشنروں کی نا اہلی یا آئینی ذمہ داریوں سے پہلو تہی نہیں ہے بلکہ حکومت کا رویہ بھی اس میں شامل ہے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمشنروں کی تقرری کو شفاف بنانے کے لیے جو رہنما خطوط جاری کیے تھے—جس میں وزیر اعظم، اپوزیشن لیڈر اور چیف جسٹس کو شامل کیا گیا—انہیں نظر انداز کرتے ہوئے مودی حکومت نے چیف جسٹس کی جگہ وزیر داخلہ کو شامل کر کے اصلاحات کے عمل کو دھکا پہنچایا ہے۔
یہ سوال بھی فطری ہے کہ آخر حکومت کو چیف جسٹس کی موجودگی سے کیا اندیشہ تھا؟ چونکہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے ذریعہ ہوتی ہے اس لیے اپوزیشن لیڈر کی موجودگی محض علامتی بن کر رہ گئی ہے۔ نتیجتاً آج الیکشن کمیشن ایک امپائر سے زیادہ کسی ایک فریق کا کھلاڑی محسوس ہوتا ہے۔
’’صنعتی دھاندلی‘‘: راہل گاندھی کے الزامات
راہل گاندھی نے اپنے مضمون میں اعتراف کیا ہے کہ ماضی میں بھی چھوٹے پیمانے پر دھاندلی ہوتی رہی ہے لیکن مہاراشٹر میں ہونے والی بے ضابطگیاں ’’صنعتی پیمانے کی دھاندلی‘‘ تھیں—یعنی ایک منظم، منصوبہ بند اور ممکنہ طور پر حکومت و کمیشن کی ملی بھگت کا نتیجہ۔
مضمون میں بتایا گیا ہے کہ ووٹر لسٹ میں جعلی اندراجات، بوگس ووٹنگ اور ووٹ ٹرن آؤٹ میں چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ مثال کے طور پر جون 2024 میں عام انتخابات اور نومبر 2024 میں اسمبلی انتخابات کے درمیانی صرف پانچ مہینوں میں ووٹر لسٹ میں 40 لاکھ نئے ووٹروں کا اضافہ ہوا جبکہ پچھلے پورے پانچ سالوں میں یہ اضافہ صرف 32 لاکھ تھا۔ یہ اضافہ صرف 12,000 پولنگ بوتھوں پر ہوا اور یہی وہ بوتھ تھے جہاں لوک سبھا میں بی جے پی کو شکست ہوئی تھی لیکن اسمبلی الیکشن میں اسی پارٹی کو زبردست کامیابی ملی۔
دلیلیں یا بہانے؟
الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ دلیل دی گئی کہ یہ اضافہ نوجوان ووٹروں کی شمولیت کے باعث ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ نوجوان صرف انہی مخصوص بوتھوں پر کیوں شامل ہوئے؟ 88,000 دیگر بوتھوں پر ایسا اضافہ کیوں نہیں ہوا؟
کمیشن یہ بھی کہتا ہے کہ ووٹر لسٹ کی نظرِ ثانی کے عمل میں ہر جماعت کو اعتراض کا حق دیا گیا تھا۔ لیکن اگر واقعی ایسا ہے تو کیا کمیشن نے خود ان اندراجات کا تنقیدی جائزہ لیا؟ کیا کمیشن کے پاس یہ وضاحت موجود ہے کہ وہ 4.8 ملین نئے ووٹرز کون ہیں اور 8 لاکھ حذف شدہ ووٹرز کا تعلق کن طبقات سے تھا؟
تشویش ناک امر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی ڈیٹا پالیسی میں ترامیم کر کے معلومات کو چھپانے کے اقدامات کر رہا ہے۔ نئی ووٹر لسٹ تو اپ لوڈ کی گئی مگر پرانی کو حذف کر دیا گیا جس سے موازنہ ممکن نہیں رہا۔
نتائج سے پہلے بڑھتا ہوا ٹرن آؤٹ؟
مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں شام 5 بجے تک ووٹ ٹرن آؤٹ 58 فیصد بتایا گیا جو اگلے دن اچانک 66 فیصد ہو گیا۔ یہ 8 فیصد کا "راتوں رات” اضافہ انہی 12,000 بوتھوں پر ہوا جہاں بی جے پی کو شکست ہوئی تھی۔ لوک سبھا انتخابات میں بھی ایسے شکوک ظاہر کیے گئے کہ کچھ بوتھوں پر ڈالے گئے ووٹ رجسٹرڈ ووٹروں سے زیادہ تھے۔
کمیشن فارم 17C (ہر بوتھ پر پڑے ووٹوں کی تفصیل) عام کرنے سے گریزاں ہے، حالانکہ کئی پارٹیاں اور سول سوسائٹی گروپس مسلسل اس کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
عدم شفافیت کے اثرات: دہلی اور بنگال کی مثالیں
دہلی میں عام آدمی پارٹی نے شکست کے بعد پتہ چلایا کہ رجسٹریشن فارم 7 کے ذریعے ووٹر لسٹ میں کیے گئے رد و بدل نے بی جے پی کو تقریباً 3 فیصد اضافی ووٹ دلوائے—جبکہ ان کی جیت کا فرق محض 1.99 فیصد تھا۔
مغربی بنگال میں جہاں اگلے سال انتخابات ہونے والے ہیں، ترنمول کانگریس نے الزام لگایا ہے کہ دیگر ریاستوں سے لائے گئے افراد کو ووٹر لسٹ میں شامل کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ایک ہی نمبر سے کئی ووٹر آئی ڈی کارڈز جاری کیے جانے کے ثبوت بھی پیش کیے گئے۔
تقرری کا عمل اور اشوک لواسا کی مثال
راہل گاندھی نے انتخابی کمشنروں کی تقرری کے طریقہ کار کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اشوک لواسا، جو اگلے چیف الیکشن کمشنر بننے والے تھے، انہوں نے مودی اور شاہ کے خلاف ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر اختلاف کیا تھا، جس کے بعد وہ استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئے۔
ماہرین کی آراء اور میڈیا کا کردار
پروفیسر سنجے کمار (سنٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز) نے راہل گاندھی کے نکات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ووٹروں کی تعداد میں اچانک اضافہ شکوک پیدا کرتا ہے اور کمیشن اس کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ان کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں الیکشن کمیشن کا رویہ حکم راں جماعت کے حق میں واضح طور پر جانب دار رہا ہے۔
روزنامہ انڈین ایکسپریس نے ایک طرف راہل گاندھی کے مضمون کو شائع کیا تو دوسری طرف کئی ایسے مضامین بھی چھاپے جن میں بی جے پی اور کمیشن کا دفاع کیا گیا۔ یہ رجحان بھارتی میڈیا کے اس رجحان کی عکاسی کرتا ہے جہاں حکومت کے دباؤ میں "غیر جانب دارانہ صحافت” ایک دعویٰ بن کر رہ گئی ہے۔
اصل سوالات: مسلم ووٹرز اور جمہوریت کا مستقبل
راہل گاندھی کے مضمون میں بعض اہم سوالات نظر انداز ہو گئے—خاص طور پر اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے ووٹروں کے ناموں کو بڑی تعداد میں فہرست سے نکالنے کا معاملہ اور مسلم علاقوں میں ووٹنگ کے دن رکاوٹیں پیدا کیے جانے کے واقعات۔ افسوس کہ مسلمانوں میں ووٹر لسٹ کی اہمیت کا شعور ابھی تک عام نہیں ہو سکا جب کہ جمہوریت کے زوال کے اثرات سب سے زیادہ اقلیتوں اور کم زور طبقات کو ہی بھگتنے پڑتے ہیں۔
جمہوری عمل کی حفاظت صرف سیاسی جماعتوں کی نہیں بلکہ ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ شفاف انتخابات، خود مختار ادارے اور آزاد رائے دہی، ہر جمہوریت کی بنیاد ہیں۔ ہم سب کو یہ طے کرنا ہے کہ کیا ہم ایک باشعور، با اختیار اور انصاف پسند جمہوری نظام چاہتے ہیں یا پھر خاموش تماشائی بن کر اس کے زوال کو دیکھتے رہیں گے۔

 

***

 راہُل گاندھی کے مضمون میں اٹھائے گئے سوالات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ انتخابی نظام کی شفافیت اور الیکشن کمیشن کی ساکھ سے متعلق سنجیدہ نوعیت کے خدشات کو اجاگر کرتے ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس مضمون میں کئی اہم پہلو تشنہ ہیں، خصوصاً وہ پہلو جو ملک کی اقلیتوں، بالخصوص مسلم ووٹروں کے ساتھ روا رکھے جانے والے منظم امتیاز سے متعلق ہیں۔گزشتہ کئی انتخابات میں واضح شواہد کے باوجود یہ مسئلہ مرکزی قومی مباحثے سے مسلسل غائب رہا ہے کہ کس طرح ایک منظم حکمتِ عملی کے تحت مسلم اکثریتی علاقوں میں ووٹر لسٹ سے نام خارج کیے جاتے ہیں، اور بعض سیاسی جماعتوں کے کارکنان و مقامی پولیس اہلکار انتخابی دن مسلمانوں کو ووٹ ڈالنے سے روکنے یا خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سب جمہوری نظام کے ان بنیادی اصولوں کے سراسر منافی ہے جن میں ہر شہری کو آزادانہ اور مساوی حق رائے دہی کی ضمانت دی گئی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جون تا 05 جولائی 2025